حکومت مذاکراتی عمل میں تحریک انصاف کو کیوں شامل کرناچاہتی ہے
تحریک انصاف کی صفوں میں یہ بات محسوس کی جا رہی ہے کہ گو کہ جماعت اسلامی کے صرف آٹھ ارکان ہیں تاہم خیبرپختونخوا میں۔۔۔
مرکزی حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا پہلا راؤنڈ ختم ہوگیا ہے، یہی وجہ ہے کہ اب مرکزی حکومت دوسرے راؤنڈ میں براہ راست طالبان کے ساتھ مذاکرا ت کرنے کی خواہاں بھی ہے اور اس حوالے سے کام بھی کیا جا رہا ہے ، حسب توقع فوج نے تو براہ راست مذاکراتی عمل کا حصہ بننے سے انکار کردیا ہے۔
تاہم مرکزی حکومت مذاکرات کے اس دوسرے راؤنڈ میں تحریک انصاف کو اپنے ساتھ شریک رکھنا چاہتی ہے یہی وجہ ہے کہ مرکز کی جانب سے خیبرپختونخوا حکومت کے ساتھ رابطہ کیاگیا جس میں ان سے دو ایسے افراد کے نام مانگے گئے جو اس دوسرے مرحلہ میں مذاکراتی عمل میں شریک رہیں اور صوبائی حکومت نے دو نام دے بھی دیئے جن میں ایک نام تو غالباًرستم شاہ مہمند کا ہی ہے جو پہلے مرحلہ میں حکومت کی جانب سے قائم کی جانے والی کمیٹی کے رکن تھے جبکہ دوسرا نام ایک ایم پی اے کا ہے جس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ان کا تعلق نوشہرہ سے ہے اور ایسا ممکنہ طور پر اس لیے کیا گیا ہو کہ اس طریقہ سے مذکورہ رکن اور صوبائی حکومت مولانا سمیع الحق کے ساتھ بھی رابطہ میں رہے گی ۔ تاہم اب مرکز کی جانب سے خیبرپختونخوا حکومت پر دباؤ ڈالاجا رہا ہے کہ وزیراعلیٰ پرویز خٹک خود اس عمل میں شامل ہوں تاہم قرائن بتا رہے ہیں کہ ایسا شاید ہی ہو اور وزیراعلیٰ پرویز خٹک خود کو براہ راست اس عمل میں شامل ہونے سے اسی طرح دور رکھیں گے جس طرح عمران خان نے خود کو دور رکھا تھا۔
عمران خان نے طالبان کی کمیٹی کا رکن بننے سے اس لیے معذرت کی تھی کہ وہ بین الاقوامی سطح پر خود کو مشکلات میں نہیں پھنسوانا چاہتے تھے اور اب جبکہ مرکز یہ دباؤ ڈال رہا ہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک مرکز کی جانب سے قائم کی جانے والی دوسری کمیٹی کے رکن بنیں تو وہ بھی اس عمل سے اس لیے دور رہیں گے کہ صوبائی حکومت اور تحریک انصاف کے لیے مشکلات اور مسائل کم سے کم بنیں تاہم اس سلسلے میں مرکزی حکومت اپنی پالیسی میں کامیاب ہے کیونکہ مرکزی حکومت تحریک انصاف کو اپنے ساتھ اس سارے عمل میں شریک رکھتے ہوئے آنے والے کل کے لیے اپنی مشکلات میں کمی کر رہی ہے کیونکہ مذاکرات کی جو بساط بچھائی گئی ہے اس میں کامیابی بھی مل سکتی ہے اور ناکامی بھی اور ظاہری بات ہے کہ ناکامی کی صورت میں مرکزی حکومت کی ہدایت پر سکیورٹی فورسز نے کاروائی کرنی ہے جس کی ذمہ داری سب کو اٹھانی ہوگی۔
اگر اس سارے عمل میں مرکزی حکومت تحریک انصاف کو اپنے ساتھ نہ رکھے تو اس صورت میں مرکز کے لیے سب سے زیادہ مشکلات اور کوئی نہیں بلکہ تحریک انصاف ہی پیدا کرے گی تاہم ان کے شریک سفر ہونے سے مرکز کو تحریک انصاف کی سپورٹ حاصل رہے گی اور کل کو اگر عسکریت پسندوں کے خلاف کاروائی کی جاتی ہے تو اس صورت میں مرکزی حکومت اور سکیورٹی فورسز کی پشت پر تحریک انصاف اور خیبرپختونخوا حکومت بھی موجود ہوگی جس میں صرف تحریک انصاف شامل نہیں بلکہ اس کے ساتھ جماعت اسلامی بھی ہے جس کا اس سارے عمل کے حوالے سے بڑا اہم کردار ہے اور تحریک انصاف کو اس سارے عمل میں شامل کرتے ہوئے مرکزی حکومت نے جماعت اسلامی کو بھی اس کشتی میں سوا ر کر لیا ہے جو اگر مرکز کی مخالفت کرے گی تو اسے پہلے اپنی اتحادی جماعت ،تحریک انصاف کی بھی مخالفت کرنی ہوگی جس کا واضح مطلب خیبرپختونخوا میں حکومتی سطح پر نئی مشکلات کو آواز دینا ہوگا جس سے جماعت اسلامی حتی الوسع بچنے کی کوشش کرے گی کیونکہ خیبرپختونخوا میں آٹھ ارکان کے ساتھ تین وزارتیں رکھنے والی جماعت اسلامی نے بہت سے معاملات میں تحریک انصاف کو ہائی جیک کر رکھا ہے اور وہ یہ معاملات اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دے گی ۔
تحریک انصاف کی صفوں میں یہ بات محسوس کی جا رہی ہے کہ گو کہ جماعت اسلامی کے صرف آٹھ ارکان ہیں تاہم خیبرپختونخوا میں وہ تحریک انصاف پر حاوی ہوکر چل رہی ہے جس میں نہ صرف زکوٰۃ کمیٹیوں کی تشکیل کے معاملہ میں اکثر اضلاع میں جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے ارکان کو ضلعی چیئرمین مقر ر کیا گیا ہے بلکہ اب این ایف سی کے لیے بھی خیبرپختونخوا سے جماعت اسلامی کے صوبائی امیر پروفیسر محمد ابراہیم کو ممبر نامزد کر دیا گیا ہے اور یہی صورت حال بلدیات کے محکمہ کے حوالے سے بھی ہے اور جماعت اسلامی ایسا کبھی بھی نہیں چاہے گی کہ جس پوزیشن میں وہ موجودہ حالات میں کھیل رہی ہے وہ اپنی یہ پوزیشن چھوڑ دے اس لیے اگرعمران خان اور تحریک انصاف کو مرکزی حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کے معاملہ پر اعتماد میں لے کر چل رہی ہے تو جماعت اسلامی کی مجبوری ہوگی کہ وہ بھی ان کے ساتھ ہی چلے تاہم اندرونی طور پر جماعت اسلامی اپنے مطلب کی بات ضرور تحریک انصاف سے منوائے گی کیونکہ جماعت اسلامی اس بات کو بخوبی جانتی ہے کہ خیبرپختونخوا میں اقتدار کے لیے درکار اعدادوشمار کے لیے تحریک انصاف ان کی محتاج ہے اور اگر جماعت اسلامی تحریک انصاف کا ساتھ چھوڑ کر جاتی ہے تو تحریک انصاف کے لیے اپنی حکومت برقراررکھنا ناممکن کی حد تک مشکل ہو جائے گا اس لیے جماعت اسلامی اپنی اس فیصلہ کن حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے محکموں کے حوالے سے تمام معاملات اپنے ہاتھوں میں رکھے ہوئے ہے اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے بھی وہ اندرون خانہ تحریک انصاف کو اپنی راہ پر چلانے کے لیے اقدامات کرتی رہے گی، اس حوالے سے یہ بات بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ جماعت اسلامی جس کے مرکزی امیر کے لیے انتخابی عمل جاری ہے اس میں بادی النظر میں کوئی تبدیلی ہوتی نظر نہیں آتی اور اس بات کا حتی الوسع امکان ہے کہ سید منور حسن ہی اگلے چار سال کے لیے ایک مرتبہ پھر امیر منتخب کر لیے جائیں جس کے باعث جماعت اسلامی کی جاری پالیسیاں بھی جوں کی توں جاری رہیں گی ۔
مرکز میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت بننے کے ساتھ ہی ہوہا مچی تھی کہ گورنر خیبرپختونخوا انجنیئر شوکت اللہ کو تبدیل کیا جا رہا ہے جن کا تعلق قبائلی علاقہ جات سے ہے اور ان کی جگہ سردار مہتاب احمد خان کو گورنر تعینات کیا جا رہا ہے پھر اس کے ساتھ اقبال ظفر جھگڑا اور پیر صابر شاہ کے نام اس دوڑ میں شامل ہوئے لیکن اچانک پھر یہ معاملہ ٹھنڈا پڑگیا جس کے حوالے سے کریڈٹ گورنر خیبرپختونخوا کے والد کو دیا گیا کہ وہ قبائلی اراکین پارلیمنٹ کی قیادت کرتے ہوئے وزیراعظم کے ساتھ معاملات درست انداز میں چلارہے ہیں اس لیے ان کے صاحبزادے بطور گورنر خیبرپختونخوا کام جاری رکھیں گے لیکن اب جبکہ مرکزی حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرت کے سلسلے میں پالیسی کو تبدیل کرتے ہوئے خفیہ طریقہ سے معاملات آگے بڑھانے کے لیے کوشاں ہے ایسے موقع پر گورنر خیبرپختونخوا کی تبدیلی کے حوالے سے معاملات ایک مرتبہ پھر گرم ہوگئے ہیں اور اس مرتبہ جو نام سامنے آیا ہے وہ میجر(ر) عامر کا ہے جو آپریشن مڈ نائٹ جیکال کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔
اسی کیس کی وجہ سے فوج کی ملازمت سے الگ ہوئے تاہم اہم معاملات کے حوالے سے ان کی شہرت بدستور موجود ہے یہی وجہ ہے کہ جب 1997 ء میں مسلم لیگ(ن)خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تھی تو اس وقت کے وزیراعلیٰ سردار مہتاب کے ساتھ میجر(ر) عامر کی تقرری بطور مشیر کی گئی تھی اور اب موجودہ حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے میں حکومتی کمیٹی تشکیل دی تو اس میں بھی میجر عامر شامل تھے اور اب ان کا نام گورنر خیبرپختونخوا کے عہدہ کے لیے اس لیے لیا جا رہا ہے کیونکہ اندر کی خبر رکھنے والوں کے بقول مرکز جس طریقہ سے مذاکرات کا خواہاں ہے اس میں میجر(ر) عامر ان کے لیے معاملات آگے بڑھانے میں سود مند رہیں گے تاہم ایسے حالات میں جبکہ قبائلی علاقہ جات اور وہاں کے بسنے والوں کے حوالے سے فیصلے کیے جانے ہیں ، ان حالات میں ایک قبائلی گورنر کی تبدیلی کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔
خیبرپختونخوا میں اپوزیشن جماعتوں نے اپنے دانت دکھانے شروع کردیئے ہیں جس کی وجہ سے حکمران اتحاد ڈپٹی سپیکر کے عہدہ پر تبدیلی سے کترارہا ہے کیونکہ اگر ڈپٹی سپیکر امتیاز شاہد قریشی کو تبدیل کرتے ہوئے تحریک انصاف اپنے کسی دوسرے رکن کو ڈپٹی سپیکر بناتی ہے تو اس صورت میں ایوان میں یہ چناؤ خفیہ رائے شماری کے ذریعے کیاجائے گا اور ایسے حالات میں جبکہ اپوزیشن لیڈر ایک سے زائد مرتبہ حکومت سازی کے لیے درکار اعدادوشمار کے حوالے سے ایوان میں تذکرہ کرتے ہوئے یہ کہہ چکے ہوں کہ ''فرق صرف چند ارکان کا ہی ہے ''، حکومت کے لیے خفیہ رائے شماری کے عمل میں جانا مشکل ہو جاتا ہے اور شاید اسی مسلہ کو مد نظر رکھتے ہوئے وزیراعلیٰ نے عوامی جمہوری اتحاد کے پارلیمانی لیڈر شہرام ترکئی کو سینئر وزیر بنانے اور ان کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے مزید ایک رکن کو وزیر اور ایک کو مشیر بنانے کی منظوری دے دی ہے تاکہ کوئی مشکل پیش نہ آئے ۔
تاہم مرکزی حکومت مذاکرات کے اس دوسرے راؤنڈ میں تحریک انصاف کو اپنے ساتھ شریک رکھنا چاہتی ہے یہی وجہ ہے کہ مرکز کی جانب سے خیبرپختونخوا حکومت کے ساتھ رابطہ کیاگیا جس میں ان سے دو ایسے افراد کے نام مانگے گئے جو اس دوسرے مرحلہ میں مذاکراتی عمل میں شریک رہیں اور صوبائی حکومت نے دو نام دے بھی دیئے جن میں ایک نام تو غالباًرستم شاہ مہمند کا ہی ہے جو پہلے مرحلہ میں حکومت کی جانب سے قائم کی جانے والی کمیٹی کے رکن تھے جبکہ دوسرا نام ایک ایم پی اے کا ہے جس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ان کا تعلق نوشہرہ سے ہے اور ایسا ممکنہ طور پر اس لیے کیا گیا ہو کہ اس طریقہ سے مذکورہ رکن اور صوبائی حکومت مولانا سمیع الحق کے ساتھ بھی رابطہ میں رہے گی ۔ تاہم اب مرکز کی جانب سے خیبرپختونخوا حکومت پر دباؤ ڈالاجا رہا ہے کہ وزیراعلیٰ پرویز خٹک خود اس عمل میں شامل ہوں تاہم قرائن بتا رہے ہیں کہ ایسا شاید ہی ہو اور وزیراعلیٰ پرویز خٹک خود کو براہ راست اس عمل میں شامل ہونے سے اسی طرح دور رکھیں گے جس طرح عمران خان نے خود کو دور رکھا تھا۔
عمران خان نے طالبان کی کمیٹی کا رکن بننے سے اس لیے معذرت کی تھی کہ وہ بین الاقوامی سطح پر خود کو مشکلات میں نہیں پھنسوانا چاہتے تھے اور اب جبکہ مرکز یہ دباؤ ڈال رہا ہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک مرکز کی جانب سے قائم کی جانے والی دوسری کمیٹی کے رکن بنیں تو وہ بھی اس عمل سے اس لیے دور رہیں گے کہ صوبائی حکومت اور تحریک انصاف کے لیے مشکلات اور مسائل کم سے کم بنیں تاہم اس سلسلے میں مرکزی حکومت اپنی پالیسی میں کامیاب ہے کیونکہ مرکزی حکومت تحریک انصاف کو اپنے ساتھ اس سارے عمل میں شریک رکھتے ہوئے آنے والے کل کے لیے اپنی مشکلات میں کمی کر رہی ہے کیونکہ مذاکرات کی جو بساط بچھائی گئی ہے اس میں کامیابی بھی مل سکتی ہے اور ناکامی بھی اور ظاہری بات ہے کہ ناکامی کی صورت میں مرکزی حکومت کی ہدایت پر سکیورٹی فورسز نے کاروائی کرنی ہے جس کی ذمہ داری سب کو اٹھانی ہوگی۔
اگر اس سارے عمل میں مرکزی حکومت تحریک انصاف کو اپنے ساتھ نہ رکھے تو اس صورت میں مرکز کے لیے سب سے زیادہ مشکلات اور کوئی نہیں بلکہ تحریک انصاف ہی پیدا کرے گی تاہم ان کے شریک سفر ہونے سے مرکز کو تحریک انصاف کی سپورٹ حاصل رہے گی اور کل کو اگر عسکریت پسندوں کے خلاف کاروائی کی جاتی ہے تو اس صورت میں مرکزی حکومت اور سکیورٹی فورسز کی پشت پر تحریک انصاف اور خیبرپختونخوا حکومت بھی موجود ہوگی جس میں صرف تحریک انصاف شامل نہیں بلکہ اس کے ساتھ جماعت اسلامی بھی ہے جس کا اس سارے عمل کے حوالے سے بڑا اہم کردار ہے اور تحریک انصاف کو اس سارے عمل میں شامل کرتے ہوئے مرکزی حکومت نے جماعت اسلامی کو بھی اس کشتی میں سوا ر کر لیا ہے جو اگر مرکز کی مخالفت کرے گی تو اسے پہلے اپنی اتحادی جماعت ،تحریک انصاف کی بھی مخالفت کرنی ہوگی جس کا واضح مطلب خیبرپختونخوا میں حکومتی سطح پر نئی مشکلات کو آواز دینا ہوگا جس سے جماعت اسلامی حتی الوسع بچنے کی کوشش کرے گی کیونکہ خیبرپختونخوا میں آٹھ ارکان کے ساتھ تین وزارتیں رکھنے والی جماعت اسلامی نے بہت سے معاملات میں تحریک انصاف کو ہائی جیک کر رکھا ہے اور وہ یہ معاملات اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دے گی ۔
تحریک انصاف کی صفوں میں یہ بات محسوس کی جا رہی ہے کہ گو کہ جماعت اسلامی کے صرف آٹھ ارکان ہیں تاہم خیبرپختونخوا میں وہ تحریک انصاف پر حاوی ہوکر چل رہی ہے جس میں نہ صرف زکوٰۃ کمیٹیوں کی تشکیل کے معاملہ میں اکثر اضلاع میں جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے ارکان کو ضلعی چیئرمین مقر ر کیا گیا ہے بلکہ اب این ایف سی کے لیے بھی خیبرپختونخوا سے جماعت اسلامی کے صوبائی امیر پروفیسر محمد ابراہیم کو ممبر نامزد کر دیا گیا ہے اور یہی صورت حال بلدیات کے محکمہ کے حوالے سے بھی ہے اور جماعت اسلامی ایسا کبھی بھی نہیں چاہے گی کہ جس پوزیشن میں وہ موجودہ حالات میں کھیل رہی ہے وہ اپنی یہ پوزیشن چھوڑ دے اس لیے اگرعمران خان اور تحریک انصاف کو مرکزی حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کے معاملہ پر اعتماد میں لے کر چل رہی ہے تو جماعت اسلامی کی مجبوری ہوگی کہ وہ بھی ان کے ساتھ ہی چلے تاہم اندرونی طور پر جماعت اسلامی اپنے مطلب کی بات ضرور تحریک انصاف سے منوائے گی کیونکہ جماعت اسلامی اس بات کو بخوبی جانتی ہے کہ خیبرپختونخوا میں اقتدار کے لیے درکار اعدادوشمار کے لیے تحریک انصاف ان کی محتاج ہے اور اگر جماعت اسلامی تحریک انصاف کا ساتھ چھوڑ کر جاتی ہے تو تحریک انصاف کے لیے اپنی حکومت برقراررکھنا ناممکن کی حد تک مشکل ہو جائے گا اس لیے جماعت اسلامی اپنی اس فیصلہ کن حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے محکموں کے حوالے سے تمام معاملات اپنے ہاتھوں میں رکھے ہوئے ہے اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے بھی وہ اندرون خانہ تحریک انصاف کو اپنی راہ پر چلانے کے لیے اقدامات کرتی رہے گی، اس حوالے سے یہ بات بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ جماعت اسلامی جس کے مرکزی امیر کے لیے انتخابی عمل جاری ہے اس میں بادی النظر میں کوئی تبدیلی ہوتی نظر نہیں آتی اور اس بات کا حتی الوسع امکان ہے کہ سید منور حسن ہی اگلے چار سال کے لیے ایک مرتبہ پھر امیر منتخب کر لیے جائیں جس کے باعث جماعت اسلامی کی جاری پالیسیاں بھی جوں کی توں جاری رہیں گی ۔
مرکز میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت بننے کے ساتھ ہی ہوہا مچی تھی کہ گورنر خیبرپختونخوا انجنیئر شوکت اللہ کو تبدیل کیا جا رہا ہے جن کا تعلق قبائلی علاقہ جات سے ہے اور ان کی جگہ سردار مہتاب احمد خان کو گورنر تعینات کیا جا رہا ہے پھر اس کے ساتھ اقبال ظفر جھگڑا اور پیر صابر شاہ کے نام اس دوڑ میں شامل ہوئے لیکن اچانک پھر یہ معاملہ ٹھنڈا پڑگیا جس کے حوالے سے کریڈٹ گورنر خیبرپختونخوا کے والد کو دیا گیا کہ وہ قبائلی اراکین پارلیمنٹ کی قیادت کرتے ہوئے وزیراعظم کے ساتھ معاملات درست انداز میں چلارہے ہیں اس لیے ان کے صاحبزادے بطور گورنر خیبرپختونخوا کام جاری رکھیں گے لیکن اب جبکہ مرکزی حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرت کے سلسلے میں پالیسی کو تبدیل کرتے ہوئے خفیہ طریقہ سے معاملات آگے بڑھانے کے لیے کوشاں ہے ایسے موقع پر گورنر خیبرپختونخوا کی تبدیلی کے حوالے سے معاملات ایک مرتبہ پھر گرم ہوگئے ہیں اور اس مرتبہ جو نام سامنے آیا ہے وہ میجر(ر) عامر کا ہے جو آپریشن مڈ نائٹ جیکال کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔
اسی کیس کی وجہ سے فوج کی ملازمت سے الگ ہوئے تاہم اہم معاملات کے حوالے سے ان کی شہرت بدستور موجود ہے یہی وجہ ہے کہ جب 1997 ء میں مسلم لیگ(ن)خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تھی تو اس وقت کے وزیراعلیٰ سردار مہتاب کے ساتھ میجر(ر) عامر کی تقرری بطور مشیر کی گئی تھی اور اب موجودہ حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے میں حکومتی کمیٹی تشکیل دی تو اس میں بھی میجر عامر شامل تھے اور اب ان کا نام گورنر خیبرپختونخوا کے عہدہ کے لیے اس لیے لیا جا رہا ہے کیونکہ اندر کی خبر رکھنے والوں کے بقول مرکز جس طریقہ سے مذاکرات کا خواہاں ہے اس میں میجر(ر) عامر ان کے لیے معاملات آگے بڑھانے میں سود مند رہیں گے تاہم ایسے حالات میں جبکہ قبائلی علاقہ جات اور وہاں کے بسنے والوں کے حوالے سے فیصلے کیے جانے ہیں ، ان حالات میں ایک قبائلی گورنر کی تبدیلی کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔
خیبرپختونخوا میں اپوزیشن جماعتوں نے اپنے دانت دکھانے شروع کردیئے ہیں جس کی وجہ سے حکمران اتحاد ڈپٹی سپیکر کے عہدہ پر تبدیلی سے کترارہا ہے کیونکہ اگر ڈپٹی سپیکر امتیاز شاہد قریشی کو تبدیل کرتے ہوئے تحریک انصاف اپنے کسی دوسرے رکن کو ڈپٹی سپیکر بناتی ہے تو اس صورت میں ایوان میں یہ چناؤ خفیہ رائے شماری کے ذریعے کیاجائے گا اور ایسے حالات میں جبکہ اپوزیشن لیڈر ایک سے زائد مرتبہ حکومت سازی کے لیے درکار اعدادوشمار کے حوالے سے ایوان میں تذکرہ کرتے ہوئے یہ کہہ چکے ہوں کہ ''فرق صرف چند ارکان کا ہی ہے ''، حکومت کے لیے خفیہ رائے شماری کے عمل میں جانا مشکل ہو جاتا ہے اور شاید اسی مسلہ کو مد نظر رکھتے ہوئے وزیراعلیٰ نے عوامی جمہوری اتحاد کے پارلیمانی لیڈر شہرام ترکئی کو سینئر وزیر بنانے اور ان کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے مزید ایک رکن کو وزیر اور ایک کو مشیر بنانے کی منظوری دے دی ہے تاکہ کوئی مشکل پیش نہ آئے ۔