پانی سے چلنے والی سیاست …

عمران خان کو یہ چال راس نہ آئی۔ ان کے موجودہ واویلے کا مقصد بھی آئین کی بالادستی نہیں

مون سون اس دفعہ پورے جوبن پر ہے اور پانی نے ہرطرف تباہی مچادی ہے۔پنجاب کی صورت حال اس وجہ سے بھی قابل تشویش ہے کہ وہاں بادلوں کی گھن گرج کے ساتھ 17 جولائی کے ضمنی انتخابات کی اہمیت کے پیش نظر سیاسی گھن گرج بھی سنائی دے رہی ہے۔

یہ انتخابات پی ٹی آئی کے لیے بے حد اہم ہیں کیونکہ بیس کی بیس خالی کردہ سیٹیں اسی کی ہیں۔پی ٹی آئی نے یہ سیٹیں کیسے حاصل کی تھیں اور اب وہ انھیں دوبارہ حاصل کرپائے گی یا نہیں؟ اس سوال کے جواب ڈھونڈنے کے لیے پی ٹی آئی کی ماضی میں کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو مستقبل کی پیش گوئی کرنا شاید آسان ہوگا۔ ہر طرف پانی ہی پانی کے اس موسم میںپی ٹی آئی کے ماضی کی طرف جھانکتے ہوئے پانی سے چلنے والی اس گاڑی کا خیال آتا ہے جو میدان میں اتاری گئی تھی تو ملک میں ہر طرف ایک غلغلہ سا مچ گیا تھا۔

پی ٹی آئی ری کنڈیشنڈ ماڈل بھی دس سال قبل کچھ اسی انداز میں میدان میں اتارا گیا تھا۔ فرق یہ تھا کہ پانی سے چلنے والی گاڑی کے پیچھے توپوری قوم ہی چل پڑی تھی جب کہ پی ٹی آئی کے پیچھے نوجوانوں پر مشتمل قوم کا ایک بڑا حصہ دل میں نئے پاکستان کی امنگ لے کر چلا تھا۔ پانی سے چلنے والی گاڑی سے وابستہ توقعات کا یہ عالم تھا کہ پوری قوم خوشی سے دیوانی ہوئی جارہی تھی۔

یوں لگتا تھا گویا ملک کے راتوں رات امیر بننے کا وہ معجزہ بالاخر برپا ہوہی گیا جس کے لیے قوم اس وقت سے منتظر تھی جب اس نے مشرق وسطی میں تیل نکل آنے پر اپنے جیسوں کی قسمتیں بدلتی دیکھی تھیں۔ کار کے موجد آغا باقر کو قومی ہیرو قراردیتے ہوئے ان کی جان کے تحفظ کے لیے خصوصی انتظامات کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔ان حلقوں کا خیال تھا کہ پاکستان کو''آبی ایندھن''کی سپر پاور بن جانے سے روکنے کے لیے کہیں سی آئی اے، را اور موساد، آغا باقر کو قتل نہ کردیں۔

پی ٹی آئی کے حامیوں کی اپنی پارٹی اوراس کے لیڈر سے توقعات اس سے کچھ مختلف نہیں رہیں۔ پانی سے چلنے والی گاڑی کے ڈھول کا پول کھولنے کے ایک دو لوگ ہی ہمت کرکے آگے بڑھے تھے۔ ان میں سے ایک قائد اعظم یونیورسٹی کے پروفیسرہود بھائی تھے جنہوں نے پانی سے چلنے والی گاڑی کا بھید کھولا وہاں وہ عمران خان کے بارے میں بھی خاموش نہیں رہے،وہ انھیں امریکا کے سابق صدر ٹرمپ سے تشبیہ دیتے ہیں جن کے بارے میں بین الاقوامی شہرت کی حامل امریکا کی پرنسٹن یونیوسٹی کے پروفیسر امیریٹس ہیری فرینکفرٹ نے ٹائم میگزین میں اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ٹرمپ کے پاس علم اور خاص ذہانت دونوں کی کمی ہے جس کے سبب وہ جھوٹ کو پورے یقین سے سچ سمجھ کر بولتے ہیں۔


عمران خان کی شخصیت کو ملک پر مسلط کرنے کی کوششوں کا آغاز بھی 2012 میں انھی دنوں میں ہوا تھا جب قوم پانی سے چلنے والی کارکے سنہرے خواب میں کھوئی ہوئی تھی۔ اس پر طرہ یہ کہ آغا باقر نے تو صرف گاڑی بنائی تھی جب کہ اس سیاسی گاڑی کی تیاری کے ساتھ ساتھ اس کے لیے سڑک بچھانے کا انتظام بھی کیا گیا تھا جو سیدھی وزیر اعظم ہائوس تک جاتی تھی۔ پانی سے چلنے والی سیاسی گاڑی کے کل پرزے فٹ کرنے میں سیاسی انجینئرنگ کے ماہرین نے حصہ لیا تھا،ان کا ذکر زبان زد عام ہے۔

یہ سوچ کرعمران خان کو وزیر اعظم کی کرسی پر بٹھایا گیا تھا کہ عوام ان کی نام نہاد ایمانداری سے متاثر ہوکر ان کے پیچھے چل پڑیں گے اور نواز شریف پر کرپشن کے جو مقدمات قائم کیے گئے ہیں ان کی وجہ سے وہ غیر مقبول ہوجائیں گے۔ اتفاق سے نتائج ان کی سوچ کے برعکس نکلے۔ نواز شریف نے جو اس ملک میں منعقد ہونے والے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات میں بھاری اکثریت سے وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے، اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے خلاف جب صدائے احتجاج بلند کی تو انھیں پنجاب میں زبردست مقبولیت حاصل ہوئی جب کہ عمران خان کی حکومت کا گراف نااہلی کے سبب مسلسل گرتا چلاگیا۔

دیگر قومی اور بین الاقوامی عوامل کے علاوہ یہ صورت حال اس لحاظ سے بھی تشویشناک تھی کہ اگلے انتخابات سر پر آگئے تھے جنھیں نہ تو روکا جاسکتا تھا اور نہ دھاندلی کے ذریعے اس کمی کو پورا کیا جاسکتا تھا جو پی ٹی آئی کی عدم مقبولیت کے سبب پیدا ہوگئی تھی۔اس تناظرمیں پنجاب میں نون لیگ کا بھاری اکثریت سے منتخب ہوکرحکومت میں آجانا یقینی دکھائی دے رہا تھا جب کہ سندھ میں بھی پیپلز پارٹی کی مقبولیت کا معاملہ کچھ مختلف نہ تھا۔ یہ وہ پس منظر تھا جس میں عمران خان کو اتار کر دیگر سیاسی پارٹیوں کے مطالبے کے مطابق آئین کے تحت سیاسی عمل بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

پانی سے چلنے والی سیاسی گاڑی کی کہانی یکایک پلٹ گئی تھی جس کے لیے عمران خان ذہنی طور پر تیارنہیں تھے۔ ایسے عالم میں کسی نے ان کے کان میں ایک ترکیب پھونکی اور انھوں نے اچانک نواز شریف کے ہاتھ سے اینٹی اسٹبلشمنٹ بیانیے کا وہ پتہ اچک لیا جونواز شریف کی مقبولیت کا باعث بنا تھا اور اسے امریکی سازش سے جوڑ کر کھیلنا شروع کردیا۔ایسا کرتے وقت انھوں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ نواز شریف یہ پتہ نہ صرف سوچ سمجھ کر اور بڑی احتیاط سے استعمال کررہے تھے بلکہ اس کے پیچھے آئین کی بالادستی کے لیے ان کی دس سال کی جدوجہد بھی تھی۔

بہرحال عمران خان کو یہ چال راس نہ آئی۔ ان کے موجودہ واویلے کا مقصد بھی آئین کی بالادستی نہیں بلکہ دل میں دبی ہوئی یہ خواہش ہے کہ اسٹبلشمنٹ گھبرا کر دوبارہ ان کے سر پردست شفقت رکھ دے۔ اس سوچ کا نتیجہ یہ ہوا کہ اینٹی اسٹبلشمنٹ کارڈ کے استعمال پران کی حمایت میں اٹھنے والے احتجاج کے بلبلے جھاگ کی طرح بیٹھ گئے اور اس کے ساتھ ہی ان کی حامی ایلیٹ کلاس کی امیدیں بھی دم توڑ گئیں جو ان سے بڑی توقعات وابستہ کیے ہوئے تھی،لیکن بہرحال یہ کھیل ابھی ختم نہیں ہوا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی انجینئرنگ کے ماہرین نے تمام ممکنہ نفسیاتی حربے استعمال کرکے دس سال کی محنت سے پبلک کے ایک قابل ذکر حصے کے ذہنوں کو جس مسرت آفریں فریب میں مبتلا کیے رکھاہے ، اس کے سحر سے نکلنے میں وقت درکار ہو گا۔ کتنا وقت لگے گا،یہ بتانا مشکل ہے۔

یہ بات البتہ وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ عمران خان اگر تاریخ میں اپنا نام سنہری حروف میں لکھوانا چاہیں تو ان کے لیے یہ ایک سنہری موقع ہے جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ ایک زبردست اور آخری یوٹرن لے کراگر چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کردیں تو سیاست میں غیر جمہوری قوتوں کا مداخلت کا دروازہ ہمیشہ کیلئے بند ہوسکتا ہے۔یہ صورت حال ان کے ارد گرد بہت سوں کے لیے بوجوہ قابل قبول نہیں ہوگی جو انھیں یہ کہہ کر روکیں گے کہ جنھیں وہ اب تک چور کہتے آئے ہیں ان سے ہاتھ کیسے ملا سکتے ہیں۔
Load Next Story