ہم اور گیدڑ
میرے عقب سے ایک گیدڑ میرے قریب آیا پھر وہ میرے سامنے آن کھڑا ہوا اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مخاطب ہوا
MILAN:
ہم انسان نہیں بلکہ گیدڑ ہیں اس کا احساس مجھے اچانک اس وقت ہوا جب بدقسمتی سے میں نے کافکا کی لکھی کہانی ''عرب اور گیدڑ'' پڑھی۔ کہانی پڑھنے سے پہلے میں بھی اپنے آپ کو انسان ہی سمجھتا تھا ''عرب اور گیدڑ '' نے میری اس خوش فہمی کے پرخچے اڑا کے رکھ دیے۔
اب تو ایسا لگتا ہے ہم سب بہرو پیے ہیں،اصل میں ہیں تو گیدڑ لیکن انسانوں کا روپ دھارے ہوئے ہیں آ پکو مجھ سے اختلاف کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے لیکن اختلاف کرنے سے پہلے ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ آپ بھی کافکا کی لکھی کہانی ''عرب اور گیدڑ '' پڑھیے، پھر اپنے ماضی پر نظریں دوڑائیے اپنے حال کا پوسٹ مارٹم کیجیے ہم سب کے کرداروں کو بغور پڑھیے ہماری سب کی زندگیوں کا مطالعہ کیجئے ہم سب کے احساسات، جذبات اور عمل کا باریک بینی سے جائزہ لیجیے اس کے بعد آپ کا فیصلہ سرآنکھوں پر ہوگا ۔
آئیے !مل کر '' عرب اور گیدڑ'' کے اہم اقتباسات پڑھتے ہیں ۔'' ہم نے ایک نخلستان میں خیمے لگا رکھے تھے، میرے رفقاگہری نیند میں مدہو ش تھے، میرے قریب سے ایک لمبا تڑنگا سفید چمڑی والا عرب گذرا، وہ اونٹوں کی دیکھ ریکھ کرتا رہا تھا اور اب اپنی خواب گاہ کی طرف لوٹ رہا تھا ۔میں نے خود کو پشت کے بل گھاس پر گرالیا میں نے سونے کی کوشش کی مجھ سے کچھ فاصلے پر ایک گیدڑ چیخا تو میں اٹھ کربیٹھ گیا وہ پلک جھپکنے میں میرے نزدیک آگیا بہت سے گیڈر میرے گرد جمع ہورہے تھے۔
میرے عقب سے ایک گیدڑ میرے قریب آیا پھر وہ میرے سامنے آن کھڑا ہوا اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مخاطب ہوا '' میلوں تک پھیلے اس علاقے کا میں عمر رسیدہ ترین گیدڑ ہوں مجھے خوشی ہے کہ یہاں آخر کار آپ سے ملاقات ہوئی میں تو امید جیسے چھوڑ ہی چکاتھا کیونکہ ہم بے شمار سالوں سے آپ کا انتظارکھینچ رہے تھے، میری ماں کو بھی آ پکا انتظار تھا اور اس کی ماں کو بھی اور ہماری تمام مائوں کو تمام گیدڑوں کی ماں تک یہ حقیقت ہے آپ میرا یقین کیجیے'' ''حیرت انگیز '' تو آپ گیدڑ کیاچاہتے ہیں '' ہم جانتے ہیں '' بوڑھا گیدڑ بولا کہ'' آپ شمالی علاقے سے تشریف لائے ہیںاسی نقطے پر ہماری امیدیں قائم ہیں آپ شمالی علاقے میںرہنے والوں کو ایسی ذہانت ودیعت کی گئی ہے جو عربوں میںعنقا ہیں ذہانت کی ایک چنگاری بھی میںآپ سے عرض کروں ، آپ ان کے یخ تکبر میں سے نہیں نکال پائیں گے یہ اپنی غذا کے لیے جانوروں کو مارتے ہیں اور مردار گوشت سے نفرت کرتے ہیں۔
''اونچا مت بولو '' میںنے کہا پاس ہی عر ب سورہے ہیں'' آپ واقعی یہاں اجنبی ہیں'' گیدڑ بولا '' ورنہ آپ کو علم ہوتا کہ دنیا کی تاریخ میں کبھی کوئی گیدڑ کسی عرب سے خوف زدہ نہیں ہوا، ہم ان سے کیوں خو ف زدہ ہوں۔ ہمارے لیے کیا اتنی ہی بدقسمتی کافی نہیں ہے کہ ہمیں اس جیسی مخلوق کے درمیان جلا وطن کیاگیا '' ہوسکتا ہے '' میں نے کہا '' ایسے معاملات جن کا مجھ سے دور کا بھی تعلق نہ ہو میںان پر رائے دینے کا استحقاق نہیں رکھتا یہ کوئی دیرینہ تنازعہ ہے۔ میرے خیال میں یہ خون میں شامل ہے اور خون بہنے پر ہی ختم ہوگا'' '' آپ بہت زیرک ہیں '' بوڑھے گیدڑنے مسرت سے کہا ''آپ نے ابھی جو کچھ کہاہے وہ ہماری قدیم روایات کے عین مطابق ہے اسی لیے ہم ان کا خو ن نکالیں گے اور ہمارا جھگڑا ختم ہوجائے گا '' '' اوہ '' میںنے اپنی توقع سے کہیں زیادہ جوش سے کہا۔
''وہ ضرور اپنا دفاع کریں گے وہ اپنی بندوقوں سے آپ کو ڈھیروں کی صورت میں ہلاک کر دیں گے ''
''آپ ہمیں نہیں سمجھے ''
'' ہم انھیں قتل کرنے کی تجویز نہیں دے رہے ''
'' تو آپ کیا کرنا چاہتے ہو '' میں نے بوڑھے گیدڑ سے پوچھا ۔
'' جناب '' اس نے پکار کر کہا اور اس کے ساتھ ہی تمام گیدڑ مشترکہ طورپر چیخے '' جناب ، ہم یہ چاہتے ہیںکہ آپ اس تنازعے کا کوئی حل نکالیں جس نے دنیاکو دو حصو ں میںتقسیم کر رکھاہے ہم عربوں کے مظالم کا مزید شکار نہیں ہونا چاہتے سانس لینے کی جگہ چاہتے ہیں،ایسا افق جو ان کے وجود سے پاک ہو، نہ مزید کسی بھیڑ کے چیخیں سنیں ، جسے عرب چاقو سے ذبح کر تے ہیںجب تک کہ وہ ہماری لا ش کو اندر سے خالی اور اس کی ہڈیاں صاف نہ کرلیں، صفائی اور بس یہ ہی صفائی ، اب و ہ تمام زار و قطار اور سسکاریاں بھررہے تھے'' ۔
'' کیسے آپ اس قسم کی دنیا میں رہنا برداشت کرسکتے ہیںاے نیک دل اور اے نیک سیرت انسان اس لیے آپ اپنے طاقت ور ہاتھوں سے اس قینچی سے ان کے نرخرے کاٹ ڈالیں ''۔ اور گیدڑکے سر کے ایک جھٹکے کے جواب میں ایک گیدڑ لپک کر عام استعمال کی ایک چھوٹی قینچی اٹھا لایا برسوں کی زنگ آلود '' '' اچھا تو قینچی آہی گئی یہ ہی وقت ہے ان کا منہ بند کرنے کا ''ہمارے قافلے کے سردار نے پکارکر کہا۔ تمام گیدڑ تیزی سے بھا گ کھڑے ہوئے لیکن کچھ فاصلے پر ایک مجمع کی صورت میں ٹہر گئے ۔
'' سو جناب آپ کو بھی یہ تماشا دکھایاجارہاتھا '' عرب نے کہا۔ '' کیا آپ جانتے ہیں یہ جانور چاہتے کیا ہیں '' میں نے پوچھا۔ ''بے شک '' و ہ بولا۔ '' عام سی بات ہے جب تک عرب دنیا میں موجود ہیں، یہ قینچی بھی صحرا میں گھومتی رہے گی۔ ہر یورپی شخص کو یہ قینچی پیش کی جاتی ہے اس عظیم کام کے لیے، ان کے لیے ہر یورپی ایسا شخص ہے جسے قسمت نے ان کے لیے چنا۔ ان کی نہایت غیر معقول امیدیں ہیں درندے۔ یہ نرے احمق ہیںمکمل احمق ۔ اسی لیے تو یہ ہمیں پسند ہیں، اب ذرا تما شا دیکھئے کل رات ایک اونٹ مر گیا تھا میں اسے اپنے ساتھ اٹھوا لایا ہوں ''چار آدمی اونٹ کی بھاری بھرکم لاش اٹھائے نمودار ہوئے اور اسے ہمارے سامنے ریت پر پٹخ دیا۔ لاش ریت پر گری ہی تھی کہ گیدڑوں کی چیخ و پکار بلند ہوئی ۔ جیسے ڈوریوں سے بندھے زبردستی کھینچے جارہے ہوں ، ان میں سے ہرگیدڑ ہچکچاتے ہوئے آگے بڑھا ، اپنے پیٹ کے بل رینگتا ہوا۔ وہ عربوں کو بھول چکے تھے ، ان سے اپنی نفرت کو بھول چکے تھے۔
متعفن لاش کی حواس پر چھاجانے والی شدید بو کی موجودگی نے انھیں مسحور کر دیا تھا ۔ ان میں سے ایک تو اونٹ کی گردن پر لپک بھی چکا تھا ، اس کی شہ رگ میںاپنے دانت گاڑ ے ہوئے ۔ تیز پچکاری والے چھوٹے پمپ کی طرح جو پر امید عزم کے ساتھ تیز بھڑکتی آگ پر قابو پانے کی کو شش کررہاہو ۔ اس کے جسم کا ہر عضو کھنچ گیا اور اس مقصد کے حصول کے لیے کو شاں تھا ۔تھوڑی ہی دیر میں وہ سبھی لاش پر جھپٹ پڑے ، مل کر محنت کرتے ہوئے ، پہاڑ کی صورت میں ڈھیر بنے، قافلے کاامیر اپنا تیز درہ گھما گھما کر جانوروں کی پشت پر برسانے لگا۔ انھوں نے اپنے سر اٹھائے ، مستی بھر ی کیفیت میں مدہوش اور سامنے کھڑے عرب کی طرف دیکھا۔ اپنی تھوتھنیوں پر درے کی ضرب محسوس کی ، اچھل کر پرے ہٹے اور بھاگ کر کچھ دور چلے گئے ۔ تب تک اونٹ کا خون بہتا ہوا جوہڑ کی صورت میںاکٹھا ہونے لگاتھا، آسمان کی طرف بو کے بھبھکے اچھلتی لاش کئی جگہوں سے کٹ پھٹ چکی تھی ۔ ان سے رہا نہیں گیااور پھر سے وہاں اکٹھے ہوگئے ۔
ایک بار پھر سے امیر نے اپنا درہ ہوا میں لہرایالیکن میں نے اس کا ہاتھ روک لیا۔ '' شاید آپ درست کہتے ہیں '' امیر نے کہا '' ہمیں ان کو ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے ۔یوں بھی کوچ کا وقت ہوچلا لیکن اچھا ہے آپ نے یہ سب تماشا دیکھا ۔ شاندار مخلوق ہیں ،ہیں کہ نہیں ۔ اور کتنی نفرت ہم سے کرتے ہیںیہ''اب آپ بلا خوف و خطر اپنا فیصلہ سنا سکتے ہیں لیکن سنانے سے پہلے ایک بار پھر اپنے کرداروں اور گیدڑوں کے کرداروں پر نظریں دوبارہ ڈال لیجیے گا ۔کیا ہم سب یہ ہی سب کچھ اپنی اپنی زندگیوں میں نہیں کررہے ہیں۔
ہم انسان نہیں بلکہ گیدڑ ہیں اس کا احساس مجھے اچانک اس وقت ہوا جب بدقسمتی سے میں نے کافکا کی لکھی کہانی ''عرب اور گیدڑ'' پڑھی۔ کہانی پڑھنے سے پہلے میں بھی اپنے آپ کو انسان ہی سمجھتا تھا ''عرب اور گیدڑ '' نے میری اس خوش فہمی کے پرخچے اڑا کے رکھ دیے۔
اب تو ایسا لگتا ہے ہم سب بہرو پیے ہیں،اصل میں ہیں تو گیدڑ لیکن انسانوں کا روپ دھارے ہوئے ہیں آ پکو مجھ سے اختلاف کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے لیکن اختلاف کرنے سے پہلے ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ آپ بھی کافکا کی لکھی کہانی ''عرب اور گیدڑ '' پڑھیے، پھر اپنے ماضی پر نظریں دوڑائیے اپنے حال کا پوسٹ مارٹم کیجیے ہم سب کے کرداروں کو بغور پڑھیے ہماری سب کی زندگیوں کا مطالعہ کیجئے ہم سب کے احساسات، جذبات اور عمل کا باریک بینی سے جائزہ لیجیے اس کے بعد آپ کا فیصلہ سرآنکھوں پر ہوگا ۔
آئیے !مل کر '' عرب اور گیدڑ'' کے اہم اقتباسات پڑھتے ہیں ۔'' ہم نے ایک نخلستان میں خیمے لگا رکھے تھے، میرے رفقاگہری نیند میں مدہو ش تھے، میرے قریب سے ایک لمبا تڑنگا سفید چمڑی والا عرب گذرا، وہ اونٹوں کی دیکھ ریکھ کرتا رہا تھا اور اب اپنی خواب گاہ کی طرف لوٹ رہا تھا ۔میں نے خود کو پشت کے بل گھاس پر گرالیا میں نے سونے کی کوشش کی مجھ سے کچھ فاصلے پر ایک گیدڑ چیخا تو میں اٹھ کربیٹھ گیا وہ پلک جھپکنے میں میرے نزدیک آگیا بہت سے گیڈر میرے گرد جمع ہورہے تھے۔
میرے عقب سے ایک گیدڑ میرے قریب آیا پھر وہ میرے سامنے آن کھڑا ہوا اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مخاطب ہوا '' میلوں تک پھیلے اس علاقے کا میں عمر رسیدہ ترین گیدڑ ہوں مجھے خوشی ہے کہ یہاں آخر کار آپ سے ملاقات ہوئی میں تو امید جیسے چھوڑ ہی چکاتھا کیونکہ ہم بے شمار سالوں سے آپ کا انتظارکھینچ رہے تھے، میری ماں کو بھی آ پکا انتظار تھا اور اس کی ماں کو بھی اور ہماری تمام مائوں کو تمام گیدڑوں کی ماں تک یہ حقیقت ہے آپ میرا یقین کیجیے'' ''حیرت انگیز '' تو آپ گیدڑ کیاچاہتے ہیں '' ہم جانتے ہیں '' بوڑھا گیدڑ بولا کہ'' آپ شمالی علاقے سے تشریف لائے ہیںاسی نقطے پر ہماری امیدیں قائم ہیں آپ شمالی علاقے میںرہنے والوں کو ایسی ذہانت ودیعت کی گئی ہے جو عربوں میںعنقا ہیں ذہانت کی ایک چنگاری بھی میںآپ سے عرض کروں ، آپ ان کے یخ تکبر میں سے نہیں نکال پائیں گے یہ اپنی غذا کے لیے جانوروں کو مارتے ہیں اور مردار گوشت سے نفرت کرتے ہیں۔
''اونچا مت بولو '' میںنے کہا پاس ہی عر ب سورہے ہیں'' آپ واقعی یہاں اجنبی ہیں'' گیدڑ بولا '' ورنہ آپ کو علم ہوتا کہ دنیا کی تاریخ میں کبھی کوئی گیدڑ کسی عرب سے خوف زدہ نہیں ہوا، ہم ان سے کیوں خو ف زدہ ہوں۔ ہمارے لیے کیا اتنی ہی بدقسمتی کافی نہیں ہے کہ ہمیں اس جیسی مخلوق کے درمیان جلا وطن کیاگیا '' ہوسکتا ہے '' میں نے کہا '' ایسے معاملات جن کا مجھ سے دور کا بھی تعلق نہ ہو میںان پر رائے دینے کا استحقاق نہیں رکھتا یہ کوئی دیرینہ تنازعہ ہے۔ میرے خیال میں یہ خون میں شامل ہے اور خون بہنے پر ہی ختم ہوگا'' '' آپ بہت زیرک ہیں '' بوڑھے گیدڑنے مسرت سے کہا ''آپ نے ابھی جو کچھ کہاہے وہ ہماری قدیم روایات کے عین مطابق ہے اسی لیے ہم ان کا خو ن نکالیں گے اور ہمارا جھگڑا ختم ہوجائے گا '' '' اوہ '' میںنے اپنی توقع سے کہیں زیادہ جوش سے کہا۔
''وہ ضرور اپنا دفاع کریں گے وہ اپنی بندوقوں سے آپ کو ڈھیروں کی صورت میں ہلاک کر دیں گے ''
''آپ ہمیں نہیں سمجھے ''
'' ہم انھیں قتل کرنے کی تجویز نہیں دے رہے ''
'' تو آپ کیا کرنا چاہتے ہو '' میں نے بوڑھے گیدڑ سے پوچھا ۔
'' جناب '' اس نے پکار کر کہا اور اس کے ساتھ ہی تمام گیدڑ مشترکہ طورپر چیخے '' جناب ، ہم یہ چاہتے ہیںکہ آپ اس تنازعے کا کوئی حل نکالیں جس نے دنیاکو دو حصو ں میںتقسیم کر رکھاہے ہم عربوں کے مظالم کا مزید شکار نہیں ہونا چاہتے سانس لینے کی جگہ چاہتے ہیں،ایسا افق جو ان کے وجود سے پاک ہو، نہ مزید کسی بھیڑ کے چیخیں سنیں ، جسے عرب چاقو سے ذبح کر تے ہیںجب تک کہ وہ ہماری لا ش کو اندر سے خالی اور اس کی ہڈیاں صاف نہ کرلیں، صفائی اور بس یہ ہی صفائی ، اب و ہ تمام زار و قطار اور سسکاریاں بھررہے تھے'' ۔
'' کیسے آپ اس قسم کی دنیا میں رہنا برداشت کرسکتے ہیںاے نیک دل اور اے نیک سیرت انسان اس لیے آپ اپنے طاقت ور ہاتھوں سے اس قینچی سے ان کے نرخرے کاٹ ڈالیں ''۔ اور گیدڑکے سر کے ایک جھٹکے کے جواب میں ایک گیدڑ لپک کر عام استعمال کی ایک چھوٹی قینچی اٹھا لایا برسوں کی زنگ آلود '' '' اچھا تو قینچی آہی گئی یہ ہی وقت ہے ان کا منہ بند کرنے کا ''ہمارے قافلے کے سردار نے پکارکر کہا۔ تمام گیدڑ تیزی سے بھا گ کھڑے ہوئے لیکن کچھ فاصلے پر ایک مجمع کی صورت میں ٹہر گئے ۔
'' سو جناب آپ کو بھی یہ تماشا دکھایاجارہاتھا '' عرب نے کہا۔ '' کیا آپ جانتے ہیں یہ جانور چاہتے کیا ہیں '' میں نے پوچھا۔ ''بے شک '' و ہ بولا۔ '' عام سی بات ہے جب تک عرب دنیا میں موجود ہیں، یہ قینچی بھی صحرا میں گھومتی رہے گی۔ ہر یورپی شخص کو یہ قینچی پیش کی جاتی ہے اس عظیم کام کے لیے، ان کے لیے ہر یورپی ایسا شخص ہے جسے قسمت نے ان کے لیے چنا۔ ان کی نہایت غیر معقول امیدیں ہیں درندے۔ یہ نرے احمق ہیںمکمل احمق ۔ اسی لیے تو یہ ہمیں پسند ہیں، اب ذرا تما شا دیکھئے کل رات ایک اونٹ مر گیا تھا میں اسے اپنے ساتھ اٹھوا لایا ہوں ''چار آدمی اونٹ کی بھاری بھرکم لاش اٹھائے نمودار ہوئے اور اسے ہمارے سامنے ریت پر پٹخ دیا۔ لاش ریت پر گری ہی تھی کہ گیدڑوں کی چیخ و پکار بلند ہوئی ۔ جیسے ڈوریوں سے بندھے زبردستی کھینچے جارہے ہوں ، ان میں سے ہرگیدڑ ہچکچاتے ہوئے آگے بڑھا ، اپنے پیٹ کے بل رینگتا ہوا۔ وہ عربوں کو بھول چکے تھے ، ان سے اپنی نفرت کو بھول چکے تھے۔
متعفن لاش کی حواس پر چھاجانے والی شدید بو کی موجودگی نے انھیں مسحور کر دیا تھا ۔ ان میں سے ایک تو اونٹ کی گردن پر لپک بھی چکا تھا ، اس کی شہ رگ میںاپنے دانت گاڑ ے ہوئے ۔ تیز پچکاری والے چھوٹے پمپ کی طرح جو پر امید عزم کے ساتھ تیز بھڑکتی آگ پر قابو پانے کی کو شش کررہاہو ۔ اس کے جسم کا ہر عضو کھنچ گیا اور اس مقصد کے حصول کے لیے کو شاں تھا ۔تھوڑی ہی دیر میں وہ سبھی لاش پر جھپٹ پڑے ، مل کر محنت کرتے ہوئے ، پہاڑ کی صورت میں ڈھیر بنے، قافلے کاامیر اپنا تیز درہ گھما گھما کر جانوروں کی پشت پر برسانے لگا۔ انھوں نے اپنے سر اٹھائے ، مستی بھر ی کیفیت میں مدہوش اور سامنے کھڑے عرب کی طرف دیکھا۔ اپنی تھوتھنیوں پر درے کی ضرب محسوس کی ، اچھل کر پرے ہٹے اور بھاگ کر کچھ دور چلے گئے ۔ تب تک اونٹ کا خون بہتا ہوا جوہڑ کی صورت میںاکٹھا ہونے لگاتھا، آسمان کی طرف بو کے بھبھکے اچھلتی لاش کئی جگہوں سے کٹ پھٹ چکی تھی ۔ ان سے رہا نہیں گیااور پھر سے وہاں اکٹھے ہوگئے ۔
ایک بار پھر سے امیر نے اپنا درہ ہوا میں لہرایالیکن میں نے اس کا ہاتھ روک لیا۔ '' شاید آپ درست کہتے ہیں '' امیر نے کہا '' ہمیں ان کو ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے ۔یوں بھی کوچ کا وقت ہوچلا لیکن اچھا ہے آپ نے یہ سب تماشا دیکھا ۔ شاندار مخلوق ہیں ،ہیں کہ نہیں ۔ اور کتنی نفرت ہم سے کرتے ہیںیہ''اب آپ بلا خوف و خطر اپنا فیصلہ سنا سکتے ہیں لیکن سنانے سے پہلے ایک بار پھر اپنے کرداروں اور گیدڑوں کے کرداروں پر نظریں دوبارہ ڈال لیجیے گا ۔کیا ہم سب یہ ہی سب کچھ اپنی اپنی زندگیوں میں نہیں کررہے ہیں۔