میکالے کے منٹس…خلاصہ
مضمون کا آغاز ان کے ان پڑھ ہندوستان کے لوگوں کو غیر ملکی میڈیم یعنی انگریزی میں تعلیم دینے کے خیال سے ہوتا ہے
LONDON:
2 فروری 1835 کو برطانوی مورخ اور سیاستدان تھامس بینگٹن میکالے نے اپنا ''منٹ آن انڈین ایجوکیشن '' پیش کیا اور اس مقالے (Minutes) کی سفارشات لارڈ بینٹک کے 1835کے انگلش ایجوکیشن ایکٹ میں شامل کی گئی تھیں'یہ مقالہ(منٹس) میکالے کی اس تجویز کے بارے میں ہے 'کہ ہندوستانی مقامی زبانوں جیسے کہ سنسکرت'یا فارسی تعلیم پر انگریزوں کے محدود وسائل کو ضایع کرنے کے بجائے' یہاں کے مقامی لوگوں کو انگریزی زبان میں تعلیم دی جائے اور اس کے لیے فنڈ مہیا کیا جائے۔
مضمون کا آغاز ان کے ان پڑھ ہندوستان کے لوگوں کو غیر ملکی میڈیم یعنی انگریزی میں تعلیم دینے کے خیال سے ہوتا ہے۔اسے انگریزی زبان پر فخر ہے ' وہ انگریزی زبان میں تاریخ 'سیاست 'فقہ(قانون)'مابعد طبیعات 'نظم و نسق'کے شعبوں میں دستیاب ' بھرپور مواد کی وضاحت کرتا ہے۔اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ یونانی انگریزی سے کوئی برتر زبان نہیں ہے'لیکن اس زبان سے بھی انگریزی نے بہت سی چیزیں اخذ کی ہیں'وہ یہ بتاکر خواہش مند سیکھنے والوں کا اعتماد پیدا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔کہ کس طرح تمام شاندار فکری مواد بشول جدیدسائنس جو ہماری زندگی کو آسان 'صحت مند اور آرام دہ بناتا ہے 'جو دنیا بھر میں مختلف انسانی نسلوں کے ذریعے تخلیق کیا گیا ہے'انگریزی زبان میں دستیاب ہے 'وہ انگریزی زبان میں دستیاب مواد کی صداقت کی ضمانت بھی دیتا ہے۔یہ منٹس یا مقالہ بہت طویل ہیں اس لیے اس کا خلاصہ پیش ہے۔
نوآبادیاتی ہندوستان میں برطانوی تعلیمی پالیسی شروع میں نہ ہونے کے برابر تھی کیونکہ ان کا واحد مقصد تجارت اور دیگر ذرائع سے صرف مال کمانا تھا ۔آہستہ آہستہ تعلیم کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا اور کمپنی نے اعلی تعلیم کے چندادارے بنانا شروع کیے 'ان تعلیمی مراکز میں ہندوستانی مضامین سنسکرت'عربی اور فارسی زبانوں میں پڑھائے جاتے تھے 'اس وقت درباری (سرکاری) زبان بھی فارسی تھی ۔1813کا چارٹر ایکٹ ملک میں جدید تعلیم کی طرف پہلا ٹھوس قدم تھا 'اس کے ذریعے' تعلیم کے لیے ایک لاکھ روپے کی سالانہ رقم مختص کی گئی۔ یاد رہے کہ ملک میں مشنری ادارے پہلے سے موجود تھے اور وہ بھی تعلیم کے میدان میں شامل تھے تاہم انھوں نے بنیادی طور پر اپنی توجہ مذہبی تعلیم کی طرف کی تھی اور ان کا بنیادی مقصد مقامی لوگوں کو عیسائی بنانا تھا ۔
چارٹر ایکٹ کے بعد 'ہندوستانیوں کو دی جانیوالی تعلیم کے طریقہ کار کے حوالے سے انگریزوں میں رائے تقسیم ہوگئی 'جہاں مستشرقین کا خیال تھا کہ ہندوستانیوں کو ان کی اپنی زبانوں میں تعلیم دی جانی چاہیے ' دوسرے گروہ کی رائے تھی کہ مقامی لوگوں کو انگریزی زبان میں تعلیم دینی ضروری ہے 'اس دوران میکالے جون 1834میں جنرل کمیٹی آف پبلک انسٹرکشن (GCPI) کے صدر کی حیثیت میں ہندوستان پہنچے۔میکالے ایک محب وطن انگریز تھا'جو اپنی قوم کی عظمت اور کامیا بیوں کا قائل تھا 'جس کو وہ سب سے بہتر سمجھتا تھا'چاہے وہ علوم ہو یا فنون 'اس میں کچھ بھی غلط نہیں تھا'لیکن وہ چیزوں کو مختلف نقطہ نظر سے دیکھنے کے لیے شاید بہت متعصب تھا ۔
تعلیم کے بارے میں اپنے منٹس (مقالے) میں انھوں نے انگیزی کو بطور ذریعہ تعلیم استعمال کرنے اور ہندوستانیوںکو مغربی تعلیم دیے جانے کو لازمی قرار دیا' انھوں نے ہندوستانی علم اور زبانوں کو نئے زمانے کے تقاضوں کے لیے بیکار سمجھا'مثال کے طور پر انھوں نے ہندوستانی علوم اور ادب کے بارے میں کہا ''ایک اچھی یورپی لائبریری کا ایک شیلف 'ہندوستان اور عرب کے پورے مقامی ادب سے علمی طور پر زیادہ اچھا ہوتا ہے''۔
ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ ''مغربی سائنس ہندوستانی علم سے بہت بر تر ہے''۔ان کا کہنا تھا کہ ''میرے خیال میں یہ کہنا کوئی مبالغہ آرائی نہیں کہ وہ تمام تاریخی معلومات جو سنسکرت زبان میں لکھی گئی'تمام کتابوں سے اکھٹی کی گئی ہیں 'انگلینڈ کی ابتدائی اسکولوں میں پڑھائی جانیوالی انتہائی معمولی علوم سے کم قیمتی ہیں''۔ یہ خیالات صرف انکے نہیں بلکہ بہت سے لوگ مغرب میں یہ سوچ رکھتے تھے۔میکالے چاہتے تھے کہ حکومت کو پیسہ صرف مغربی تعلیم دینے پر خرچ کرنا چائیے' نہ کہ مشرقی تعلیم پر'انھوں نے ان تمام کالجوں اور اداروں کو بند کرنے کی وکالت کی' جہاں صرف مشرقی فلسفہ اور مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔انھوں نے یہ وکالت بھی کی کہ حکومت صرف چند ہندوستانیوں کو تعلیم دینے کی کو شش کرے 'یہ تعلیم یافتہ لوگ پھر باقی عوام کو سکھائینگے 'اس کو ''Down ward filteration policy" کہتے ہیں 'جس طرح موجودہ دور میں کسی نئے کورس کے لیے ابتداء میں ماسٹر ٹرینر ز کو تربیت دی جاتی ہے'بعد میں ماسٹر ٹرینر آگے مزید افراد کو تعلیم دیتے ہیں۔ وہ ہندوستانیوں کا ایک ایسا طبقہ پیدا کرنا چاہتا تھا جو انگریزی حکومت کے وفادار رہیں اور انکے مفادات کی خدمت کرسکیں' یہ طبقہ رنگ اور خون میں ہندوستانی ہو گا لیکن'ذوق'رائے' اخلاق اور عمل میں انگریزوں جیسا ہوگا''۔
میکالے کی تجاویز کو ولیم بینٹنگ نے فوری طور پر قبول کرلیالیکن اس نے چالاکی سے اس پر عملدرآمد کو اس وقت تک موخر کردیا' جب تک وہ گورنر جنرل کے عہدے سے دستبردار نہ ہوجائے۔شاید وہ کچھ حلقوں کی طرف سے رد عمل سے بچنا چاہتا تھا'اس کے باوجود اس نے'میکالے کی تجویز کے مطابق ' مشرقی تعلیم کو مکمل طور پر بند نہیں کیا۔
میکالے کی تجاویز کو مارچ 1835میں باضابطہ طور پر منظور کیا گیا'1837میں انگریزی کو عدالتی زبان بنا دیا گیا'1844میں اعلی سرکاری عہدے 'تعلیم یافتہ ہندوستانیوں کے لیے کھلے تھے 'بعد میں 1854میں ووڈرڈ سپیج نے ہندوستان میں تعلیم کے لیے برطانوی کوششوں کو باقاعدہ بنایا ۔میکالے نے ظاہر ہے مستشرقین کے خلاف بحث جیت لی 'یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہوگا کہ انھوں نے ہندوستان میں تعلیم کو بہتر کیا ' اپنے منٹس میں اس نے کہا تھا کہ ایک دن ایسا بھی آسکتا ہے کہ جب مقامی زبانیں قدرتی موت مر جائیں گی 'آج وہ غلط ثابت ہو گیا'ان مقامی زبانوں کو استعمال کرنے والوںکی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے 'ان زبانوں کا ادب بھی پھیل رہا ہے اور یہ ارتقاء پذیر بھی ہیں۔
وہ یقینا ہندوستانیوں کا ایک طبقہ تیار کرنے میں کامیاب رہے ہیں 'جنھوں نے انگریزی زبان کو جوش و خروش سے اپنایا ہے 'یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ ''انگریزی بمقابلہ مقامی'' بحث میں اخلاقی جیت اس کی ہوئی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انگریزی بولنے والے بھی ہندوستانی رہے 'وہ مکمل انگریز نہ بنے 'جیسا کہ میکالے کا ارادہ تھا'یہ طبقہ انگریزی علوم حاصل کرنے کے بعد جمہوریت اور آزادی کا مفہوم سمجھنے لگا۔انھوں نے ملک میں سیاسی پارٹیاں مثلاً کانگریس اور مسلم لیگ بنائیں۔ ملک میں جمہوریت کا مطالبہ کیا ۔غرض ماڈرن تعلیم یافتہ طبقہ کنویں کی مینڈک کے بجائے وسیع النظر ہوگیا 'انھوں نے آزادی کا مطالبہ کیا 'اس کے لیے تحریکیں چلائیں اور ستم ظریفی یہ ہوئی کہ میکالے جس طبقے کو انگریزی پڑھاکر حکومت کا وفادار بنانا چاہتا تھا 'وہ طبقہ انگریزی حکومت کا وفادار بننے کے بجائے 'انگریز مخالف آزادی کی جنگ کے صف اول میں شامل تھا۔
اوپر دیے گئے حقائق کی روشنی میں ضرورت اس امر کی ہے کہ لارڈمیکالے کا دوبارہ جائزہ لیا جائے ،آج بھی ہمارے بعض دانشور اور مذہبی علماء جب بھی تعلیمی یا معاشی نظام کے زوال کے بارے میں بات آتی ہے تو لارڈ میکالے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں'وہ اپنی تمام نا اہلیوں،کم فہمیوں اور فکری مغالطوں کا ملبہ میکالے کے سر پر ڈالنے کی کو شش کرتے ہیں' ورنہ انگریز کو گئے 75 سال ہوگئے ہیں' ہم نے نیا نظام تعلیم کیا بنانا تھا، پرانے نظام کا بھی حلیہ بگاڑ دیا ۔سرکاری اسکولوںکا حال تو نہ پوچھئے، سلیبس کا پتہ نہ انتظامی اور تعلیمی استعداد ، یہ جو درجنوں قسم کا تعلیمی نظام یہاں رائج ہے' فرقہ وارانہ اور تجارتی بنیادوں پر قائم مدرسوں نے اتحاد امت کو پارہ پارہ کردیا ہے ۔کیا یہ تباہی اور بربادی میکالے نے ہمارے اوپر مسلط کی ہے یا یہ ہماری اپنی کوتائیوں اورخود غرضیوں کا نتیجہ ہے۔
بعض دانشوروں کی یہ رائے اہمیت رکھتی ہے کہ ہر بچے کو ایف اے' ایف ایس سی تک یکساں تعلیم حاصل کرنے کے بعد میڈیکل 'انجینئرنگ' دینی تعلیم'کمپیوٹر یا کسی اور خصوصی شعبے میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کی آزادی ہونی چائیے 'ایف ایس سی یا ایف اے کرنے کے بعد کم از کم اس کا شعور تو کچھ پختہ ہوچکا ہوگا۔ خیبر پختونخوا کیMMA حکومت کا پروگرام تھا 'کہ انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے' ان حالات میں میرا سوال یہ ہے کہ میکالے نے کیا غلط کیا تھا؟ انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے کی تجویز انھوں نے 1835میں دی تھی اور وہی بات آج ہم بھی کر رہے ہیں'ان کی دور اندیشی کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔
2 فروری 1835 کو برطانوی مورخ اور سیاستدان تھامس بینگٹن میکالے نے اپنا ''منٹ آن انڈین ایجوکیشن '' پیش کیا اور اس مقالے (Minutes) کی سفارشات لارڈ بینٹک کے 1835کے انگلش ایجوکیشن ایکٹ میں شامل کی گئی تھیں'یہ مقالہ(منٹس) میکالے کی اس تجویز کے بارے میں ہے 'کہ ہندوستانی مقامی زبانوں جیسے کہ سنسکرت'یا فارسی تعلیم پر انگریزوں کے محدود وسائل کو ضایع کرنے کے بجائے' یہاں کے مقامی لوگوں کو انگریزی زبان میں تعلیم دی جائے اور اس کے لیے فنڈ مہیا کیا جائے۔
مضمون کا آغاز ان کے ان پڑھ ہندوستان کے لوگوں کو غیر ملکی میڈیم یعنی انگریزی میں تعلیم دینے کے خیال سے ہوتا ہے۔اسے انگریزی زبان پر فخر ہے ' وہ انگریزی زبان میں تاریخ 'سیاست 'فقہ(قانون)'مابعد طبیعات 'نظم و نسق'کے شعبوں میں دستیاب ' بھرپور مواد کی وضاحت کرتا ہے۔اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ یونانی انگریزی سے کوئی برتر زبان نہیں ہے'لیکن اس زبان سے بھی انگریزی نے بہت سی چیزیں اخذ کی ہیں'وہ یہ بتاکر خواہش مند سیکھنے والوں کا اعتماد پیدا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔کہ کس طرح تمام شاندار فکری مواد بشول جدیدسائنس جو ہماری زندگی کو آسان 'صحت مند اور آرام دہ بناتا ہے 'جو دنیا بھر میں مختلف انسانی نسلوں کے ذریعے تخلیق کیا گیا ہے'انگریزی زبان میں دستیاب ہے 'وہ انگریزی زبان میں دستیاب مواد کی صداقت کی ضمانت بھی دیتا ہے۔یہ منٹس یا مقالہ بہت طویل ہیں اس لیے اس کا خلاصہ پیش ہے۔
نوآبادیاتی ہندوستان میں برطانوی تعلیمی پالیسی شروع میں نہ ہونے کے برابر تھی کیونکہ ان کا واحد مقصد تجارت اور دیگر ذرائع سے صرف مال کمانا تھا ۔آہستہ آہستہ تعلیم کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا اور کمپنی نے اعلی تعلیم کے چندادارے بنانا شروع کیے 'ان تعلیمی مراکز میں ہندوستانی مضامین سنسکرت'عربی اور فارسی زبانوں میں پڑھائے جاتے تھے 'اس وقت درباری (سرکاری) زبان بھی فارسی تھی ۔1813کا چارٹر ایکٹ ملک میں جدید تعلیم کی طرف پہلا ٹھوس قدم تھا 'اس کے ذریعے' تعلیم کے لیے ایک لاکھ روپے کی سالانہ رقم مختص کی گئی۔ یاد رہے کہ ملک میں مشنری ادارے پہلے سے موجود تھے اور وہ بھی تعلیم کے میدان میں شامل تھے تاہم انھوں نے بنیادی طور پر اپنی توجہ مذہبی تعلیم کی طرف کی تھی اور ان کا بنیادی مقصد مقامی لوگوں کو عیسائی بنانا تھا ۔
چارٹر ایکٹ کے بعد 'ہندوستانیوں کو دی جانیوالی تعلیم کے طریقہ کار کے حوالے سے انگریزوں میں رائے تقسیم ہوگئی 'جہاں مستشرقین کا خیال تھا کہ ہندوستانیوں کو ان کی اپنی زبانوں میں تعلیم دی جانی چاہیے ' دوسرے گروہ کی رائے تھی کہ مقامی لوگوں کو انگریزی زبان میں تعلیم دینی ضروری ہے 'اس دوران میکالے جون 1834میں جنرل کمیٹی آف پبلک انسٹرکشن (GCPI) کے صدر کی حیثیت میں ہندوستان پہنچے۔میکالے ایک محب وطن انگریز تھا'جو اپنی قوم کی عظمت اور کامیا بیوں کا قائل تھا 'جس کو وہ سب سے بہتر سمجھتا تھا'چاہے وہ علوم ہو یا فنون 'اس میں کچھ بھی غلط نہیں تھا'لیکن وہ چیزوں کو مختلف نقطہ نظر سے دیکھنے کے لیے شاید بہت متعصب تھا ۔
تعلیم کے بارے میں اپنے منٹس (مقالے) میں انھوں نے انگیزی کو بطور ذریعہ تعلیم استعمال کرنے اور ہندوستانیوںکو مغربی تعلیم دیے جانے کو لازمی قرار دیا' انھوں نے ہندوستانی علم اور زبانوں کو نئے زمانے کے تقاضوں کے لیے بیکار سمجھا'مثال کے طور پر انھوں نے ہندوستانی علوم اور ادب کے بارے میں کہا ''ایک اچھی یورپی لائبریری کا ایک شیلف 'ہندوستان اور عرب کے پورے مقامی ادب سے علمی طور پر زیادہ اچھا ہوتا ہے''۔
ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ ''مغربی سائنس ہندوستانی علم سے بہت بر تر ہے''۔ان کا کہنا تھا کہ ''میرے خیال میں یہ کہنا کوئی مبالغہ آرائی نہیں کہ وہ تمام تاریخی معلومات جو سنسکرت زبان میں لکھی گئی'تمام کتابوں سے اکھٹی کی گئی ہیں 'انگلینڈ کی ابتدائی اسکولوں میں پڑھائی جانیوالی انتہائی معمولی علوم سے کم قیمتی ہیں''۔ یہ خیالات صرف انکے نہیں بلکہ بہت سے لوگ مغرب میں یہ سوچ رکھتے تھے۔میکالے چاہتے تھے کہ حکومت کو پیسہ صرف مغربی تعلیم دینے پر خرچ کرنا چائیے' نہ کہ مشرقی تعلیم پر'انھوں نے ان تمام کالجوں اور اداروں کو بند کرنے کی وکالت کی' جہاں صرف مشرقی فلسفہ اور مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔انھوں نے یہ وکالت بھی کی کہ حکومت صرف چند ہندوستانیوں کو تعلیم دینے کی کو شش کرے 'یہ تعلیم یافتہ لوگ پھر باقی عوام کو سکھائینگے 'اس کو ''Down ward filteration policy" کہتے ہیں 'جس طرح موجودہ دور میں کسی نئے کورس کے لیے ابتداء میں ماسٹر ٹرینر ز کو تربیت دی جاتی ہے'بعد میں ماسٹر ٹرینر آگے مزید افراد کو تعلیم دیتے ہیں۔ وہ ہندوستانیوں کا ایک ایسا طبقہ پیدا کرنا چاہتا تھا جو انگریزی حکومت کے وفادار رہیں اور انکے مفادات کی خدمت کرسکیں' یہ طبقہ رنگ اور خون میں ہندوستانی ہو گا لیکن'ذوق'رائے' اخلاق اور عمل میں انگریزوں جیسا ہوگا''۔
میکالے کی تجاویز کو ولیم بینٹنگ نے فوری طور پر قبول کرلیالیکن اس نے چالاکی سے اس پر عملدرآمد کو اس وقت تک موخر کردیا' جب تک وہ گورنر جنرل کے عہدے سے دستبردار نہ ہوجائے۔شاید وہ کچھ حلقوں کی طرف سے رد عمل سے بچنا چاہتا تھا'اس کے باوجود اس نے'میکالے کی تجویز کے مطابق ' مشرقی تعلیم کو مکمل طور پر بند نہیں کیا۔
میکالے کی تجاویز کو مارچ 1835میں باضابطہ طور پر منظور کیا گیا'1837میں انگریزی کو عدالتی زبان بنا دیا گیا'1844میں اعلی سرکاری عہدے 'تعلیم یافتہ ہندوستانیوں کے لیے کھلے تھے 'بعد میں 1854میں ووڈرڈ سپیج نے ہندوستان میں تعلیم کے لیے برطانوی کوششوں کو باقاعدہ بنایا ۔میکالے نے ظاہر ہے مستشرقین کے خلاف بحث جیت لی 'یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہوگا کہ انھوں نے ہندوستان میں تعلیم کو بہتر کیا ' اپنے منٹس میں اس نے کہا تھا کہ ایک دن ایسا بھی آسکتا ہے کہ جب مقامی زبانیں قدرتی موت مر جائیں گی 'آج وہ غلط ثابت ہو گیا'ان مقامی زبانوں کو استعمال کرنے والوںکی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے 'ان زبانوں کا ادب بھی پھیل رہا ہے اور یہ ارتقاء پذیر بھی ہیں۔
وہ یقینا ہندوستانیوں کا ایک طبقہ تیار کرنے میں کامیاب رہے ہیں 'جنھوں نے انگریزی زبان کو جوش و خروش سے اپنایا ہے 'یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ ''انگریزی بمقابلہ مقامی'' بحث میں اخلاقی جیت اس کی ہوئی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انگریزی بولنے والے بھی ہندوستانی رہے 'وہ مکمل انگریز نہ بنے 'جیسا کہ میکالے کا ارادہ تھا'یہ طبقہ انگریزی علوم حاصل کرنے کے بعد جمہوریت اور آزادی کا مفہوم سمجھنے لگا۔انھوں نے ملک میں سیاسی پارٹیاں مثلاً کانگریس اور مسلم لیگ بنائیں۔ ملک میں جمہوریت کا مطالبہ کیا ۔غرض ماڈرن تعلیم یافتہ طبقہ کنویں کی مینڈک کے بجائے وسیع النظر ہوگیا 'انھوں نے آزادی کا مطالبہ کیا 'اس کے لیے تحریکیں چلائیں اور ستم ظریفی یہ ہوئی کہ میکالے جس طبقے کو انگریزی پڑھاکر حکومت کا وفادار بنانا چاہتا تھا 'وہ طبقہ انگریزی حکومت کا وفادار بننے کے بجائے 'انگریز مخالف آزادی کی جنگ کے صف اول میں شامل تھا۔
اوپر دیے گئے حقائق کی روشنی میں ضرورت اس امر کی ہے کہ لارڈمیکالے کا دوبارہ جائزہ لیا جائے ،آج بھی ہمارے بعض دانشور اور مذہبی علماء جب بھی تعلیمی یا معاشی نظام کے زوال کے بارے میں بات آتی ہے تو لارڈ میکالے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں'وہ اپنی تمام نا اہلیوں،کم فہمیوں اور فکری مغالطوں کا ملبہ میکالے کے سر پر ڈالنے کی کو شش کرتے ہیں' ورنہ انگریز کو گئے 75 سال ہوگئے ہیں' ہم نے نیا نظام تعلیم کیا بنانا تھا، پرانے نظام کا بھی حلیہ بگاڑ دیا ۔سرکاری اسکولوںکا حال تو نہ پوچھئے، سلیبس کا پتہ نہ انتظامی اور تعلیمی استعداد ، یہ جو درجنوں قسم کا تعلیمی نظام یہاں رائج ہے' فرقہ وارانہ اور تجارتی بنیادوں پر قائم مدرسوں نے اتحاد امت کو پارہ پارہ کردیا ہے ۔کیا یہ تباہی اور بربادی میکالے نے ہمارے اوپر مسلط کی ہے یا یہ ہماری اپنی کوتائیوں اورخود غرضیوں کا نتیجہ ہے۔
بعض دانشوروں کی یہ رائے اہمیت رکھتی ہے کہ ہر بچے کو ایف اے' ایف ایس سی تک یکساں تعلیم حاصل کرنے کے بعد میڈیکل 'انجینئرنگ' دینی تعلیم'کمپیوٹر یا کسی اور خصوصی شعبے میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کی آزادی ہونی چائیے 'ایف ایس سی یا ایف اے کرنے کے بعد کم از کم اس کا شعور تو کچھ پختہ ہوچکا ہوگا۔ خیبر پختونخوا کیMMA حکومت کا پروگرام تھا 'کہ انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے' ان حالات میں میرا سوال یہ ہے کہ میکالے نے کیا غلط کیا تھا؟ انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے کی تجویز انھوں نے 1835میں دی تھی اور وہی بات آج ہم بھی کر رہے ہیں'ان کی دور اندیشی کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔