خوان لغیما عرف انکم سپورٹ
سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک طرف تو ایک ایک پیسہ قرض کے لیے غیروں کے پیر پڑا جا رہا ہے، زہریلی شرائط مانی جا رہی ہیں
کراچی:
خبر تو آپ نے سن ہی لی ہوگی کہ حکومت خیبرپختونخواہ، تحریک انصاف اور جناب محمود خان عرف حاتم طائی نے دس لاکھ اور ''منہ''، شاہی دسترخوان یا خوان لغیما پر بٹھا دیے ہیں، ان دس لاکھ خاندانوں کو ماہانہ دو ہزار روپے دیے جائیں گے کہ لو عیش کرو، جیسا جی چاہے اڑاؤ، مال مفت دل بے رحم۔ یہ دس لاکھ خاندان کون ہوںگے؟
یہ تو صاف اور سیدھی سی ہے جس طرح بے نظیرانکم سپورٹ کی ''سیدھی بات'' تھی، ویسے اس کا نام بڑا بہترین تھا ''انکم سپورٹ'' یعنی انکم والوں کو سپورٹ دینا اور اس میں ایسے ایسے ''انکم'' والے گھسائے گئے جو باقاعدہ سرکاری ملازم تھے، تاجر تھے، ٹرانسپورٹر تھے، کچھ بھی سہی، پارٹی سپورٹر تھے اور پارٹی سپورٹر کو سپورٹ کرنا تو ضروری ہوتا ہے کہ کل کو دھرنے اور مارچ بھی کرانا ہوتے ہیں اور ووٹ بھی بٹورنا ہوتے ہیں۔ اب قانونی طور پر انکم والے ہی سپورٹ ہوتے ہیں جن کی سرے سے ''انکم'' ہی نہ ہو تو ان کی کیا سپورٹ کی جائے گی ، اس لیے روتے رہیں، چیختے رہیں، بھونکتے رہیں اور مرتے رہیں،کسی کوکیا؟
تم موج موج مثل ہوا گھومتے رہو
کٹ جائیں میری سوچ کے پر تم کو اس سے کیا
سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک طرف تو ایک ایک پیسہ قرض کے لیے غیروں کے پیر پڑا جا رہا ہے، زہریلی شرائط مانی جا رہی ہیں، ملک اور عوام کا بیڑا غرق کیا جا رہا ہے بلکہ ملک اور عوام کو گروی رکھا جا رہا ہے اور دوسری طرف یہ اللے تللے اور ''خوان لغیما''۔
خوان لغیما کی بھی تھوڑی سی وضاحت ہو جائے، قدیم ایران میں جب امرا کی بڑی بڑی دعوتیں ہوتی تھیں تو پہلے بلائے گئے اور شہرکے معززین دسترخوان پر پل پڑتے تھے، وہ شکم سیر ہو کر اٹھتے تھے تو غریب، بھوکے، بھکاریوں کو اس دسترخوان پر چھوڑ دیا جاتا تھا، اسے ''خوان لغیما'' کہتے ہیں چوں کہ اس وقت زیادہ ترک لوگ ایران میں بدحال ہوتے تھے، اس لیے خوان لغیما کے ساتھ ترکوں کا ذکر بھی فارسی شاعری میں بہت ہوتا رہا ہے مثلاً حافظ شیرازی کہتے ہیں۔
فغاں کس لولیان شوخ وشیرین کار شہر آشوب
خیاں بردند صبر از دل کہ ترکاں خوان لغیمارا
ترجمہ: فریاد ہے کہ شہر آشوب کی یہ شوخ و شیریں کار حسینائیں دل کے صبر و قرارکو یوں لوٹ لیتی ہیں جیسے ''ترک'' خوان لغیما کو لوٹتے ہیں۔
دیکھئے تو اپنا یہ بدنصیب ملک بھی ایک ''خوان لغیما'' ہی ہے۔ ہر حکومت کے ''معززین'' جب اس پر حملہ آور ہو جاتے ہیں تو ٹھونس ٹھونس کر اپنے شکم گلے گلے تک بھر لیتے ہیں، اسکے بعد ''ترکوں'' کی باری آتی ہے، انکم سپورٹ عشر زکواۃ، یہ کارڈ وہ کارڈ۔ یہ مددوہ مدد۔
ایک اور مثال ذہن میں آتی ہے جس کا تاریخوں میں ذکر نہیں کیا جاتا۔ جب کوئی بادشاہ یا ظل اللہ یا سایہ خدائے ذوالجلال غازی بادشاہ کسی ملک یا شہرکو فتح کر تا تو پہلا دن شاہی لوٹ کا ہوتا تھا جب چنیدہ قسم کا مال غنیمت بادشاہ کے خواص لوٹ لیتے تھے تو دوسرے دن عام لشکریوں کی باری ہوتی، وہ بھی جی بھرکر مال غنیمت لوٹ لیتے تھے، جن میں انسان اور خاص طور پر خواتین بھی شامل ہوتی تھیں، تیسرا دن پنڈاریوں کی لوٹ مار کا ہوتا تھا۔ یہ لوگ ہمیشہ افواج کے پیچھے پیچھے چلتے تھے اور موقع آتے ہی گھروں کے دروازے، کپڑے لتے، برتن پھانڈے اور جانور تک لوٹ لیتے تھے اور بادشاہ غازی، فاتح اعظم، بابراعظم، سکندر اعظم، چنگیزاعظم کی فتح، مکمل ہو جاتی تھی۔
صرف مقامات،کچھ نام کچھ نعرے بدلتے ہیں، فتح اور لوٹ مارکبھی نہیں بدلتی۔
آج کل بھی سامنے دیکھئے کیا ہو رہا ہے، وہی تو ہو رہا ہے جو ہوتا رہتا ہے، اس طرح کے ملکوں میں وہی خوان لغیما یا مفتوح شہر ہے، وہی مال غنیمت ہے، وہی لوٹنے اور لٹنے والے ہیں۔ البتہ ایک فرق ضرور پڑ چکا ہے، اگلے زمانوںمیں کسی ایک ''فاتح'' (ڈاکو) کی فتح کچھ لمبی ہوتی تھی، ایک خاندان کے لٹیرے یکے بعد دیگرے آتے تھے لیکن اب یہ لوٹ مار معیاری ہوتی ہے کیوں کہ بادشاہ نہیں ہوتے، گینگ ہوتے ہیں جن کو بڑی بے شرمی سے پارٹیاں کہا جاتا ہے، اس سے بھی زیادہ جمہوریت کی بات کرتی ہیں اورسب سے زیادہ ڈھٹائی سے بڑھ کر ڈھٹائی کی بات یہ ہے کہ کسی بھی بات پر ذرا بھی شرمندہ نہیں ہوتی ہیں۔
ہم سے اگر کوئی پوچھے تو ہم ایک ہی سانس میں ایسے بیس گھرانے دکھا سکتے ہیں جو بھوکوں مر رہے ہیں لیکن کسی بھی دور میں ان کو جھوٹے منہ بھی سپورٹ نہیں کیا ہے اور دوسری سانس میں ایسے بھی گھرانے دکھا سکتے ہیں جو جائیدادوں، گاڑیوں اور کئی تنخواہوں کے مالک ہیں اور اس کے ساتھ خردبرد کے بھی ماہر ہیں جو ہر دور میں ہر فنڈ پر انکم سپورٹ اور ہر کارڈ کے مستحق بن جاتے ہیں بلکہ بنا دیے جاتے ہیں۔
اور اب تو جناب محمود خان نے انتقام لینے، اسلام آباد کو فتح کرنے اورملک کودوبارہ آزادی دلانے کا بھی اعلان کر دیا ہے تو خوان لغیما کھانا اور بھی ضروری ہو گیا ہے، اس لیے بچھایا جا رہا ہے اور نوالوں کے لیے منہ تلاش کرنے ہیں۔