پروین رحمان کا کراچی

اس شہر کو اب سجاگ ہونا پڑے گا، یہ اب لسانیت کی سیاست سے نکل آئے تو بہتر ہے


جاوید قاضی July 17, 2022
[email protected]

اس بار بھی کراچی میں بارشیں آئیں، اپنے تازیانے لیے، جن کے گھروں کے اندر پانی چلا آیا، جو شاہراہیں بہتے دریا نظر آئے، لوگ کرنٹ لگنے کی وجہ سے جان گنوا بیٹھے یا زخمی ہوئے وہ الگ، حالیہ بارشوں کے حوالے سے جو خاص بات نظر آئی خصوصاً سوشل میڈیا میں، وہ یہ ہے کہ ''وڈیروں کی حکومت نے کراچی کو برباد کردیا،گٹر نالے بند اور لوکل حکومت ہے ہی نہیں''۔

دوسری طرف سے سرکار کے جیالے بھی نکل آتے ہیں دفاع کرنے کے لیے کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ اس میڈیا جنگ میں کراچی کی بارش کے پانی میں ڈوبی گلیوں اورسڑکوں کی ویڈیوز کلپ ہوتے ہیں بلکہ ایک منصوبہ بندی سے کسی اور شہر یا ملک میں ہونے والی تباہ کن بارشوں کے ویڈیو کلپ کراچی قرار دے کر وائرل کردی جاتی ہیں۔ سچ اور جھوٹ کا اتنا ملاپ ہوتا ہے کہ لوگوں کو صحیح خبر مل نہیں پاتی۔

مگر اپنے نہ پرائے،کسی نے کوئی کسر نہ چھوڑی کراچی کو اس نہج تک پہچانے میں۔ اس میں بھلا پاکستان پیپلز پارٹی کیوں پیچھے رہ جائے،پھر تو یوں بھی ہوا کے آر ٹی ایس سسٹم کو فیل کرکے جو کراچی کا مینڈیٹ پی ٹی آئی کے حوالے کیا گیا 2020 کی بارشیں ان کی وفاق میں دور حکومت میں آئی تھیں اور اس بار جن حلقوں سے یہ صاحبان جیت کر آئے تھے کیا وہ وہاں گئے تھے ،یہ سب دیکھنے یا متاثرین بارش کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے۔

جس طرح ڈی ایچ اے ڈوبا ایسا تو کراچی کا شاید ہی کوئی علاقہ ڈوبا ہو اور 2020 میں تو اس کے ڈوبنے نے وہ کمال دکھائے کہ لوگوں کے گھروں کے بیسمنٹ میں جو پانی چلا گیا تھا وہ مہینوں تک نہ نکالا جاسکا۔ ہمارے بھائی جبران ناصر نے انتہائی جرات کا اظہار کرتے ہوئے ، متاثرین بارش کے ہمراہ متعلقہ اداروں کے دفاتر کے باہر بھرپور احتجاج بھی ریکارڈ کرایا۔ ہمارے سابق صدر ممنون حسین جب وہ حیات تھے اور ابھی صدر نہیں ہوئے تھے، اپنی ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کی تھی کس طرح ان کا گھر ڈوبا ہوا تھا اور ہفتوں تک ان کی گلی سے پانی کی نکاسی نہ ہو پائی تھی۔

شہر کے قدرتی برساتی نالے اور سیوریج نالے بند کر کے وہاں گھر بن گئے یا تجاری پلازے کھڑے ہو گئے یعنی برساتی نالوں اور سیوریج نالوں کی ضرورت و اہمیت کا کسی کو پتہ ہی نہیں تھا اور نہ ہی انتظامیہ کی پلاننگ کا حصہ تھے۔ یہ نااہلی نہیں ہے بلکہ اسے بھی آگے کی کوئی چیز ہے،ہمارے سول انجینئرز، سٹرکچرل ڈیزائنرز، آرکٹیکٹ ہوں، سب مکھی پر مکھی ماررہے ہیں، خود جو ایف ڈبلیو او نے M-9 بنایا ہے، یا جو سابق میئر کراچی مصطفی کمال کے زمانے میں کلفٹن انڈر پاس بنا تھا ایسا Provision نہیں تھا، مگر جب بھی مون سون آتا ہے تو احتیاطی تدابیر کے حوالے سے جو ان کی صفائی وغیرہ ضروری ہوتی ہے وہ نہیں کرائی اور اب بھی نہیں کرتے۔

اس شہر میں ایک ہوتے تھے اردشیر کاؤس جی جو اس شہری نظام کو سمجھتے تھے اور شہریوں کے دکھ کو سمجھتے تھے، کبھی عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹاتے نظر آتے تو کبھی اپنے ہفتہ وار کالم میں کراچی کا دکھ روتے نظر آتے۔ بلڈنگ اتھارٹی ہو، تجاوزات کرنیوالے ہوں یا بڑی عمارتیں بنانیوالے بلڈر ہوں جو اصل پلان سے تجاوز کرکے بناتے یا میٹر یل دو نمبر استعمال کرتے ہیں، ہماری ہائی کورٹ اردشیر کائوس جی کا بڑا احترام کرتی تھی۔

سمندر کو پیچھے دھکیل جو زمین پیدا کی گئی ،وہاں عمارتیں بنی ہوئی ہیں،جب بارشیں معمول سے زیادہ ہوتی ہیں تو بارش کا پانی سمندر اتنا جلد قبول ہی نہیں کرتا، ادھر بارش کے پانی کے فطری نالوں پر بھی تجاوزات قائم ہیں۔ آج سے پچیس سال پہلے میں اسلام آباد میں دس سال تک رہا، اتنی خطرناک حد تک بارشیں ہوتی تھیں جو کراچی میں کبھی دیکھنے کو نہ ملی مگر ایک دو گھنٹے میں سب کچھ صاف نظر آتا تھا سوائے بارش میں نہائے درختوں کے اس کی وجہ یہ تھی کہ وہاں پلاننگ کرتے وقت اس کے فطری نالوں کو نہ چھیڑا گیا تھا۔

یہ بھی کریڈٹ کورٹ کو دینا چاہیے جس بے رحم انداز میں مگر جو گھر نالوں کے اوپر بنے تھے وہ ختم کرائے اور ان کو متبادل پلاٹ دینے کے احکامات جاری کیے، اس بارش کی وجہ سے وہاں یہ صورتحال اب کے بار نہ بن سکی۔ ابھی تک اس شہر کا کوئی ماسٹر پلان نہیں ہے۔ اتنے بڑے ٹائون پلانر عارف حسن جیسے جو اس شہر کی روح کو بھی سمجھتے ہیں۔ بہت اشد ضرورت آن پڑی ہے ایسے لوگوں سے مشورہ کرنے کی۔ کراچی میں ایک حکومت نہیں ہے۔ یہاں تین چار شہری حکومتیں ہیں، کے ایم سی ہے۔ یہ شہر ایک ہے اور باقی ماندہ سندھ کے تقریبا برابر ہونے کو جارہا ہے، اس شہر کے ڈیموگرافی بھی پورے پاکستان سے مختلف ہے۔ ہر مذاہب سے لے کر ہر زبان بولنے والے اس شہر میں رہتے ہیںاور ماضی میں بہت سے لسانی تنائو بھی رہے اور اب بھی وہی تنائو ہیں اور خود بارش کے نقصان کو سیاسی رنگ دیا جاتا ہے۔ جو حشر کراچی کی میونسپل سروسز کا متحدہ کے زمانے میں ہوا، وہ بھی کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے، اور جو حشر پیپلز پارٹی نے یا خود وفاق نے اس شہر کا کیا ہے وہ بھی آپ کے سامنے ہے۔

لیکن اس شہر کو اب سجاگ ہونا پڑے گا، یہ اب لسانیت کی سیاست سے نکل آئے تو بہتر ہے اور تمام لوگ جو مختلف ثقافتوں، مذاہب اور زبان بولنے والے ہیں مل جل کے لوکل باڈیز الیکشن میں بھرپور حصہ لیں، خود لوکل باڈیز کی طرز حکومت کو زیادہ سے زیادہ پاور دلوانے کے لیے تحریک چلائیں اور آواز اٹھائیں۔ اس شہر کو بلڈر مافیا سے لیکر اور بہت سی مافیائوں سے خطرہ ہے۔

یہ شہر کل تک کتنا شاندار تھا کتنے لوگوں کو اس نے آباد کیا روزگار دیا۔ کراچی اسٹیل مل سے لے کر کراچی ایئرپورٹ، جو دبئی سے پہلے بین الاقوامی گیٹ وے تھا، یہاں سے ٹرانزٹ کرتے تھے مسافر۔ پھر کس طرح اس کو اجاڑ دیا گیا، اسٹیل مل بند ہوگئی، نوری آباد میں جو صنعتوں کا جال بچھ رہا تھا بند ہوا، اب بھی یہ شہر وفاق کو اور باقی ماندہ سندھ کو بہت سی آمدنی ٹیکسز کی مد میں کما کے دیتا ہے، مگر خود کتنا غریب ہے۔ انفرا اسٹرکچر کے حوالے سے، اس کی سب سے بڑی وجہ یہاں اس شہر کی سیاست کے خد و خال ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلی کے اعتبار سے آیندہ دنوں میں بارشیں اور بھی بڑھیں گی۔ سمندر کی سطح بھی بڑھنے کا خطرہ ہے، ہمیں اس کے لیے بہت بڑی تیاری کی ضرورت ہے۔ اس لیے ٹائون پلاننگ کے ماہر آگے آئیں ان کی رائے کو قانونی حیثیت دی جائے۔ ماسٹر پلان بنایا جائے اور اس کو بھی قانونی شکل دی جائے جو بھی اس شہر کے فطری نالے ہیں، ان کو نوٹس میں لائیں اور وہاں سے جو بھی رہائش گاہیں ان کو متبادل دیں۔ اس شہر کو ورٹیکل نہیں ہوریزونٹل بڑھنے دیں ورنہ ٹریفک کا دبائو بڑھے گا ، ماحولیاتی آلودگی بڑھے گی۔

اس شہر کو جدید پبلک ٹرانسپورٹ کی اشد ضرورت ہے، ایک طویل فہرست ہے اس شہر کی بہتری کے لیے، وہ اس دماغ میں اور اس کی سیاست کے لیے ہم سب کو آگے آنا چاہیے۔ یہ کام پروین رحمان نے خوب کیا، وہ دل تھی کراچی کا۔ اس کے کام سے بلڈر مافیا نے خطرہ محسوس کیا، اسے مار دیا گیا، یقینا جو بھی کراچی میں بہتری کی بات کرے گا اس کا بلڈر مافیا، ڈرگ اسمگلر، ہتھیار بیچنے والوں سے ٹکرائو تو ہوگا، اس لیے میں آج کا یہ کالم پروین رحمان کے نام کرتا ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔