میں مطمئن ہوں مگر کیوں

تھر کہاں ہے؟ اس کا رقبہ کتنا ہے اور اس کے حوالے سے آبادی کا تناسب کیا۔ یہ چند سوالات ہیں جن کے جواب ہم جانتے ہی نہیں


Nusrat Javeed March 11, 2014
[email protected]

بالآخر اس ملک کا شہری ہوتے ہوئے میں خود کو مطمئن محسوس پانا شروع ہو گیا ہوں۔ ایک بات البتہ مجھے اب تک سمجھ نہیں آ رہی کہ میں اپنے اطمینان کا باعث پاکستان کے ہمہ وقت مستعد اور بہت ہی آزاد میڈیا کو ٹھہراؤں یا اپنے منتخب رہنماؤں کو جو میڈیا میں اُجاگر کیے مسائل کے تدارک کے لیے فوراََ حرکت میں آ جاتے ہیں۔ تھر کے ریگستان میں سو سے زیادہ بچوں کی اموات کی خبر ملے تو فوراََ اپنے ذاتی اور سرکاری طیارے لے کر وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ خوراک کے گوداموں کو گندم کی بوریوں سے بھر دیتے ہیں۔ تھر کے اسپتالوں میں جا کر ڈاکٹروں اور نرسوں کو ہر طرح کے تعاون کا یقین دلاتے ہیں اور پھر اربوں کروڑوں کی امدادی رقوم کا اعلان فرما کر کراچی اور اسلام آباد لوٹ آتے ہیں۔

دہشت گردی اس ملک کا کئی برسوں سے مسئلہ نمبر ون ٹھہرائی جاتی رہی ہے۔ ستمبر 2013سے پہلے مگر اس کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ بالآخر اس مہینے میں ایک کل جماعتی کانفرنس ہوئی۔ اس کے اختتام پر دائیں اور بائیں، مذہبی یا صرف سیاسی ہر نوعیت کے رہنماؤں نے مل کر طالبان کو اپنا Stakeholder قرار دیا اور حکومت کو ان سے گفت و شنید کے ذریعے ملک میں امن کی بحالی کا مشورہ دیا۔ اسی مشورے کی روشنی میں ہمارے بڑے ہی محنتی وزیر داخلہ نے چند پارسا صحافیوں کی معاونت سے جید علماء کے ایک گروہ سے روابط استوار کیے۔ قوم کے درد میں مبتلا اِن علماء نے انتہائی خاموشی سے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے حکیم اللہ محسود کو بات چیت پر آمادہ کرلیا۔ ظالم امریکیوں کو مگر یہ بات پسند نہ آئی۔ انھوں نے ڈرون کے ذریعے میزائل گرا کر امن کے لیے ہماری اُمیدیں خاک میں ملا دیں۔ وزیر اعظم پھر بھی حوصلہ نہ ہارے۔ قومی اسمبلی میں بذاتِ خود تشریف لا کر طالبان سے مذاکرات کے لیے ایک کمیٹی کا اعلان کر دیا۔ جواباََ دوسرے فریق نے بھی اپنے نمایندگان نامزد کر دیے۔

ہمیں کوئی خاص خبر نہیں کہ دونوں اطراف سے نامزد کمیٹیوں میں سے حکومت کی نمایندگی کرنے والے اس دوران کیا کرتے رہے۔ مگر وہ حضرات جو دوسری طرف سے نامزد ہوئے تھے انھوں نے ہمارےTalk Shows میں بار ہا تشریف لا کر قوم کو یہ بات پوری طرح سمجھا دی کہ پاکستان کے قیام کا اصل مقصد اس ملک میں حقیقی اسلام کا نفاذ تھا۔ اسے نافذ کر دیا جائے اور ہم پرائی جنگ سے باہر نکل آئیں تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ بالآخر ہماری حکومت کو بھی یہ بات سمجھ آ گئی ہے۔ اب اس کی جانب سے ایک اور کمیٹی شمالی وزیرستان جا کر انتہائی رازداری سے دوسرے فریق سے یہ جاننے کی کوشش کرے گی کہ حقیقی اسلام کیسے نافذ ہو اور پرائی جنگ سے باہر کیسے نکلا جائے۔ جب تک حکومت ان دو اہداف تک پہنچنے کے راستے پوری طرح جان نہیں لیتی ہمارے شہروں میں کبھی کبھار ایسے ناخوش گوار واقعات ہوتے رہیں گے جو مثال کے طور پر اسلام آباد کچہری پر حملے کی صورت نظر آئے۔ ایسے حملے مگر اب میڈیا کے طفیل ہمارے عوام پوری طرح سمجھ چکے ہیں کوئی ''تیسری قوت'' ہی کرواتی ہے۔ یہ کون بلا ہے؟ اس سوال کا جواب پانے کے لیے NACTA کی تشکیل نو ہو جانے دیں۔ ہماری 26 سے زیادہ ایجنسیاں جو کچھ ڈھونڈتی ہیں وہاں کے Joint Intelligence Directorate میں یک جا ہو جائے گا۔ ایک جگہ اکٹھا ہوئے اس مواد کا تجزیہ ہمیں ''تیسری قوت'' کی نشان دہی کی طرف لے جائے گا۔

NACTA اور مذاکراتی کمیٹیاں بنوا لینے کے بعد میڈیا کا دھندا ذرا مندا ہوتا نظر آیا۔ خدا بھلا کرے مگر جمشید دستی صاحب کا۔ محلہ محلہ گھوم کر خالی بوتلیں اکٹھا کرنے والے کباڑیوں کی طرح مظفر گڑھ کے یہ شیر خالی بوتلوں سے بھری ایک بوری لے کر ایک ٹی وی چینل سے دوسرے ٹی وی چینل جاتے رہے۔ قوم کے مردہ ہوئے ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے انھوں نے ہمیں پوری طرح سمجھا دیا کہ ہمارے ووٹوں سے منتخب ہوئے افراد اسلام آباد کے پارلیمنٹری لاجز میں کیا گُل کھلاتے ہیں۔ ان کی مجاہدانہ کاوشوں سے بالآخر اسپیکر قومی اسمبلی کو ایک سات رکنی کمیٹی بنانا پڑی۔ بجائے اس کمیٹی کے سامنے اپنے ''ثبوتوں'' سمیت پیش ہوتے رہنے کے دستی صاحب لیکن دو دن کی چٹھی لے کر اپنے علاقے میں واپس چلے گئے۔ پھر قومی اسمبلی کا اجلاس بھی ختم ہو گیا۔ مجھے یقین ہے ان دنوں پارلیمنٹ لاجز کے تقریباََ ہر دوسرے کمرے میں ثواب کمانے کی محافل برپا ہو رہی ہوں گی۔

ملک میں دائمی امن کے قیام اور پارلیمانی لاجز کی صفائی ستھرائی کے بعد ہماری توجہ پھر تھر کی طرف مبذول ہو گئی۔ خشک سالی کے آثار اس وسیع و عریض ریگستان میں اس سال کے آغاز میں ہی کچھ مخصوص دیہاتوں اور تحصیلوں میں بہت نمایاں ہونا شروع ہو گئے تھے۔ سندھ حکومت اس سے مگر بے خبر رہی اور میڈیا بھی۔ قحط سالی کے مسلسل تین مہینوں نے بالآخر بچوں کی ماؤں کے دودھ خشک کر دیے۔ توانائی سے محروم بچے سخت سردی سے جُڑی بیماریوں کا مقابلہ کرنے کی سکت نہ پاتے ہوئے مرنا شروع ہو گئے تو میڈیا کو مرنے والوں کی وہ کثیر تعداد بھی مل گئی جو ''خبر'' بنایا کرتی ہے۔

''خبر'' بنی تو حکومتی حلقوں میں بھی کچھ تھرتھلی مچی۔ اب وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ اور باقی حکام پوری طرح الرٹ ہو گئے ہیں۔ امید ہے قحط سالی کے اثرات کو انسانی کاوشوں اور منصوبہ بندی سے قابو کر لیا جائے گا۔ حکومت کو ''الرٹ'' کرتے ہوئے ہمارے کئی جید صحافی اس سوال کی بابت کافی چراغ پا ہوتے رہے کہ سندھ کے رائے دہندگان، خاص طور پر وہ جو سندھی زبان بولتے ہیں پیپلز پارٹی کے سحر میں اب تک کیوں مبتلا ہیں۔ حالانکہ روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے کی بنیاد پر بنی اس جماعت نے انھیں بنیادی سہولتوں سے بھی محروم کر رکھا ہے۔ ''گڈ گورننس'' اگر اس ملک میں واقعی کہیں نظر آتی ہے تو وہ شہباز شریف صاحب کا صوبہ پنجاب ہے جہاں خوش حالی نے ایسی فارغ البالی فراہم کر دی ہے کہ نوجوان سروں سے اخروٹ توڑتے ہوئے نئے عالمی ریکارڈ بنا رہے ہیں۔ دوسرے نمبر پر عمران خان کا خیبر پختونخوا ہے جہاں ''صحت کا انصاف'' ہوا اور پولیو کی وباء ختم ہونے ہی والی ہے۔ بہرحال سندھ کے ووٹر جانیں اور ان کے منتخب حکمران۔ ہم میڈیا والوں نے اپنا فرض تو نبھا دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ خدانخواستہ اگر اگلے برس بھی تھرپارکر میں مناسب بارشیں نہ ہوئیں تو شاید فروری/مارچ 2015 میں بھی ہم دوبارہ اپنی مستعدی کا مظاہرہ کرتے پائے جائیں۔

تھر کہاں ہے؟ اس کا رقبہ کتنا ہے اور اس کے حوالے سے آبادی کا تناسب کیا۔ یہ چند سوالات ہیں جن کے جواب ہم جانتے ہی نہیں۔ تھر کی پہچان ہمارے لیے تو کوئلے کے ان بے پناہ ذخائر کی وجہ سے ہے جو سنا ہے کہ اس کی دھرتی میں مدفون ہیں۔ ان ذخائر کو دریافت، آپ کو یاد دلاتا چلوں، آج سے کئی برس پہلے جرمن حکومت کے چند درد مند افراد نے کیا تھا۔ آج سے کئی برس پہلے وہ جدید سائنسی آلات کے ذریعے تھر کا فضائی جائزہ لیتے ہوئے وہاں پانی کے امکانات ڈھونڈتے رہے۔ وہ پانی اس لیے ڈھونڈ رہے تھے کہ انھیں خدشہ تھا کہ تھر کی آبادی جس رفتار سے بڑھ رہی ہے ایک دن پانی کی شدید قلت کے باعث مسلسل انسانی المیوں کو جنم دیا کرے گی۔ جرمنوں نے پانی تو ڈھونڈ لیا مگر یہ بھی بتا دیا کہ وہ زیر زمین موجود کوئلے کی تہوں میں ذخیرہ ہوا ہے۔ اس دن کے بعد سے ہم تھر کی زمین سے پانی کے بجائے کوئلے کو نکالنے کے جنون میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ اس دوران قحط سالی کے دور بھی آتے جاتے رہے اور ہم ان کے بارے میں وقتی ہنگاموں کے بعد خاموش ہو گئے۔ اب بھی مجھے اس رویے میں کوئی تبدیلی محسوس ہوتی دور دور تک نظر نہیں آ رہی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں