نقارۂ امن

حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے اراکین اور حکومت نے بھی اعلان جنگ بندی کو سراہتے ہوئے طالبان کو تہنیتی پیغامات بھیجے ہیں۔



اور نقارہ امن بج گیا۔ جاتے ہوئے موسم سرما کی دوسری اور سے آتی ہوئی نرم، گرم سی ہوا نے گنگناتے ہوئے، گیت گاتے ہوئے بتایا کہ طالبان نے ایک ماہ کے لیے جنگ بندی کا اعلان کر دیا ہے۔ غیر مشروط اعلان۔۔۔میں نے بھی سنا۔ پھر بار بار سنا۔ پھر اخبار میں پڑھا۔ پھر خبر کو چوم کر آنکھوں سے لگایا اور بحفاظت ایک طاق میں سنبھال کر رکھ دیا۔ تا کہ بوقت ضرورت یا پریشانی میں اسے پھر سے پڑھ کر خوش ہو لیا جائے۔ کیونکہ یہ خبر صرف خبر نہیں ہے۔ ہمارا مستقبل ہے۔ ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل۔ یہ خبر ہمارے وہ اچھے دن ہیں جو نجانے کہاں کھو گئے تھے۔ کس لڑائی میں۔ معاف کیجیے گا کس کی لڑائی میں ہم سے بچھڑ گئے تھے۔

حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے اراکین اور حکومت نے بھی اعلان جنگ بندی کو سراہتے ہوئے طالبان کو تہنیتی پیغامات بھیجے ہیں۔ ساتھ ہی فائر بندی کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ میں دل کی تمام تر گہرائیوں سے دونوں اطراف کے نمایندگان کو مبارک باد دیتا ہوں۔ اس دعا کے ساتھ کہ اللہ رب العزت جو نہاں اور عیاں کا جاننے والا ہے جو نیتوں کا حال جانتا ہے۔ ہم سب کو نیک ہدایت اور عقل سلیم عطا فرمائے۔ (آمین)

اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس وقفہ امن کو دائمی امن سے تبدیل کر دیا جائے۔ دوران مذاکرات وسیع القلبی کی اہمیت کو محسوس کیا جائے۔ پوری تاریخ انسانی میں اگر جنگ سے مسائل حل ہوئے ہوں تو آپ جنگ لڑیں۔ پہلی جنگ عظیم، دوسری جنگ عظیم،کروڑوں انسان مارے گئے۔ نتیجتاً نقارہ امن بجانا پڑا۔ مذاکرات کرنے پڑے۔ جنگ بندی کے قوانین وضع ہوئے۔ کئی مہم جو ممالک پر فوج نہ بنانے، ہتھیار نہ رکھنے کا قانون بنا دیا گیا یا انھیں پابند کر دیا گیا۔ میں مذکورہ بالا فریقین سے ملتمس ہوں کہ آپ اپنے نقطہ نظر کو بیان کر دینے پر قادر ہیں۔ صرف بیان کی حد تک اسے سنا جا سکتا ہے۔ لیکن آپ اسے منوا بھی لیں گے۔ کس طرح سے ممکن ہے؟ بندوق سے؟ ہتھیار سے، قتل عام سے۔۔۔۔نہ کبھی ممکن ہو سکا ہے نہ ہو گا۔

اے مسلمان بھائیو! آپ کو تو معلوم ہو گا کہ قرآن کریم میں انبیائے کرام کو (جو براہ راست اللہ تعالیٰ کے نمایندگان تھے) بار بار یہ بتایا جاتا رہا کہ تمہارا کام صرف میرا پیغام لوگوں تک پہنچانا ہے۔ انھیں ہدایت دینا تمہاری ذمے داری نہیں ہے، میری ہے۔ لہٰذا حضرت نوحؑ کے بیٹے، حضرت لوطؑ کی زوجہ ہدایت سے محروم رہ گئے۔

خدا ہے کسی ٹوٹے ہوئے دل میں ہو گا
مسجدوں میں اسے ڈھونڈو نہ کلیساؤں میں

ہدایت دینا صرف اس کا کام ہے۔ میں اکابرین طالبان سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ اپنے نقطہ نظر پر اور اسے لوگوں تک پہنچانے کے طریقہ کار پر نظرثانی کیجیے۔ آپ اپنی صفوں میں منظم ہیں۔ تربیت یافتہ ہیں۔ ہتھیار چلانا اور رکھنا جانتے ہیں۔ آپ کی تنظیم، آپ کا جذبہ جہاد اس ملک کے لیے سرمایہ عظیم ثابت ہو سکتا ہے۔ اس قوم کے لیے نعمت غیر مترقبہ ہو سکتا ہے۔ لیکن ملک اور قوم پر گولی و بم برسا کر نہیں۔ جس قوم کو آپ آداب شریعت سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں اسی کے قتل عام سے نہیں۔ بلکہ آپ اپنی تنظیم سے واقعی بتدریج اسلامی نظام نافذ کر سکتے ہیں اگر آپ اپنی منصوبہ بندی میں ہتھیار رکھ دینے کی بنیادی تبدیلی کر لیں تو۔ اگر آپ قوم کو قبل از تبلیغ کافر کے لقب سے نہ پکاریں تو۔ اگر آپ دل چیرنے کے بجائے اسے جیتنے کی کوشش کریں تو آپ کی فتح ممکن ہے اور وہی فتح پختہ ہو گی۔ اسی کے اثرات دور رس ہوں گے۔ ورنہ بھائی اس گوریلا جنگ میں آپ پہاڑی دروں میں پوشیدہ ہو سکتے ہیں لیکن اپنے اہل خانہ کو کہاں لے جائیں گے؟ ظاہر ہے کہ آپ کی تعداد لاکھوں میں ہے تو لاکھوں ہی آپ کے گھر بھی ہوں گے! کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ریاست ان کے محل وقوع سے واقف نہیں ہے۔

ایک اور پہلو سے اپنے موقف پر غور کیجیے گا کہ حق کے لیے جنگ کبھی چھپ کر نہیں لڑی جاتی۔ کیونکہ ''حق'' کائنات کا سچ ہے، فطرت کا جزو حقیقی ہے۔ کیا سورج کبھی چھپ کر طلوع ہوا ہے؟ یا دن کو نکلنے کے لیے کسی عذر کا سامنا کرنا پڑا ہو! یا چاند، ستارے، دریا، سمندر اپنے معاملات میں کسی اجازت نامے کے منتظر ہوں۔ لہٰذا اگر آپ حق پر ہیں تو اسے لے کر نہایت نرمی سے، ادب و اخلاق سے اور پیار سے عوام میں آئیے اور اگر آپ کے مطابق یا آپ کے فرقے کی رو سے وہ گمراہ ہیں تو انھیں راہ راست پر لائیے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کا حسن انتظام اور آپ کی یکجہتی کارگر ثابت ہو گی۔ بلاشبہ آپ کو حق ہے کہ آپ اپنا وزیر اعظم لے کر آئیں اپنا امیر المومنین بنائیں لیکن ڈرے، سہمے اور کچلے ہوئے لوگوں پر نہیں۔ ان لوگوں پر جو دل سے آپ کا انتخاب کریں کیونکہ جبر کی حکومت۔۔۔۔بن تو سکتی ہے، قائم نہیں رہ سکتی۔

میں حکومت وقت سے اور آرمی سے بھی گزارش کرتا ہوں کہ خدارا امریکا سے ہدایات نہ لیجیے گا۔ اپنی Policies بنانے کا وقت آ گیا ہے۔ اپنا بجٹ بنانے کا وقت آ گیا ہے۔ اپنا دفاع، اپنی تعلیم، اپنی صحت، اپنی بجلی، اپنی گیس، اپنے ڈیمز تعمیر کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ کب تک اپنا ملک چلانے کے لیے مشورے کسی اور سے لیتے رہیں گے۔ کب تک باعزت ہونے کے معیار کو امریکا سے تعلقات کی کسوٹی پر پرکھتے رہیں گے۔ آپ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اللہ پاک نے آپ کو ایک بالکل آزاد زمین پر پیدا کیا تھا۔ لیکن بعد میں جب آپ اداروں اور حکومت کی شکل میں اظہارکرتے ہیں تو وہ غلامی کی ایک سراسر صورت ہوتی ہے۔ بخدا میں نے اکثر محفلوں میں کچھ اہل خرد کو یہ کہتے سنا کہ اس سال امریکا ویسا چاہتا تھا سو ویسا ہی ہوا اور اب اس سال تک وہ یہ چاہتا ہے۔ یہی ہو گا۔ نعوذ باللہ یہ کلمات کفر۔ آپ طالبان کے معاملے میں ماضی کی پوری افغان جنگ کا جائزہ لیجیے۔ اس ایک ایک فیصلے پر نظر ڈالیے جو غلط ہوا۔ خواہ اس کا محرک کوئی ادارہ تھا یا حکومت۔ آپ کو ماضی کی ساری سیڑھیاں اترنی ہوں گی۔ آپ کو سوچنا ہو گا کہ ایک شخص جو اکثر اوقات ایک بچہ بھی رہا ہے اپنے جسم سے بم باندھ کر خود کو ہلاکت میں کیوں ڈال دیتا ہے۔ متاع حیات سے کیوں ہاتھ دھو بیٹھتا ہے! یہ نوبت کیوں آ گئی۔ یہ انتہائی فیصلہ تو کوئی آخری انتہا پر جا کر ہی لیتا ہے۔ آپ کو سوچنا ہو گا۔ سبب نہیں اسباب تلاش کرنے ہوں گے۔ اگرچہ سب کچھ اظہر من الشمس ہے۔ آپ جانتے ہیں۔ سب کچھ۔۔۔۔۔جانتے ہیں اور اب تلافی کی ضرورت ہے۔ ان غلطیوں کی اصلاح وقت ہے۔ یاد رکھیے گا اگر تدارک نہیں کیا گیا تو پھر:

''... داستاں بھی نہ ہو گی داستانوں میں''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں