صدر مملکت کا انداز نظر اور عالمی حقائق
پاکستان سےپولیو کےخاتمے اور معیار تعلیم کو بہتر کر کے ہر شہری تک اس سہولت کو بہم پہنچانے کو میں نے اپنا مشن بنا لیا ہے
پاکستان سے پولیو کے خاتمے اور معیار تعلیم کو بہتر کر کے ہر شہری تک اس سہولت کو بہم پہنچانے کو میں نے اپنا مشن بنا لیا ہے۔ ملک کی 17 جامعات کا میں سربراہ ہوں لہٰذا یہ میری پوری کوشش ہو گی کہ میں اپنے دور صدارت میں اپنے مشن میں کامیابی حاصل کر سکوں۔ ان خیالات کا اظہار صدر مملکت ممنون حسین نے اپنے 4 روز دورہ کراچی کے موقعے پر اخبارات کے مدیران، کالم نویسوں اور اینکر پرسنز سے ملاقات میں کیا جس کا اہتمام برادرم فاروق عادل نے کیا تھا۔ تشویش ناک انداز میں صدر مملکت نے کہا کہ یہ کتنی افسوس ناک بات ہے کہ 21 ویں صدی کی اس دوسری دہائی میں، جب دنیا کے زیادہ تر ممالک سے اس موذی مرض کا مکمل خاتمہ ہو چکا ہے کہ پولیو کا مرض ہمارے ملک میں موجود ہے جس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی اشد ضرورت ہے۔ اسی طرح تعلیم کا فروغ بھی ہماری اولین ترجیح ہونا چاہیے کیونکہ آج کی ترقی یافتہ دنیا میں مہذب اور ترقی یافتہ قوم کے طور پر ہماری شناخت اس ہی وقت ممکن ہے کہ جب جہالت کے عفریت کو شکست دینے میں کامیاب ہو جائیں۔
دوران گفتگو جب یہ سوال اٹھایا گیا کہ وزیر اعظم نواز شریف حکومتی امور میں پنجاب کی لیڈر شپ کو زیادہ اہمیت کیوں دیتے ہیں؟ تو صدر مملکت نے کہا کہ آپ ''بجا'' فرماتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان کے صدر کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو انھوں نے ''مجھ پنجابی'' کو اپنا امیدوار بنا کر پیش کر دیا اور پھر منتخب بھی کروا دیا اس جواب پر زور دار قہقہہ لگا اور معترض کو بہت ہی مہذب جواب بھی مل گیا۔ صدر مملکت نے اپنی گفتگو کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دنوں دورہ چین کے موقعے پر جب میں چین کے شہر شنگھائی گیا تو مجھے بتایا گیا کہ 1984 میں کراچی اور چین کے شہر شنگھائی کو سسٹر سٹیز (Sister Cities) قرار دینے کا اعلان کیا گیا تھا اور اس برس اس اعلان کی 30 ویں سالگرہ منائی جائے گی۔ جس کے لیے میں نے دونوں حکومتوں کو یہ تجویز پیش کی ہے کہ اس سلسلے کی ایک تقریب کراچی میں اور دوسری تقریب شنگھائی میں منعقد کی جائے۔ صدرمملکت ممنون حسین دل گرفتہ انداز میں بولے کہ شنگھائی کی تیز رفتار ترقی دیکھ کر مجھے دلی مسرت ہوئی اور کراچی میں پھیلے ہوئے خوف، دہشت، مایوسی اور بے روزگاری جیسے ہولناک مناظر کے تصور نے مجھے نم ناک کردیا۔ صدر مملکت سے ہونے والی یہ ملاقات خاصی دلچسپ اور بے تکلفانہ رہی۔
ملاقات میں شام سمیت مشرق وسطی کے عمومی حالات پر بھی بات کی گئی۔ وہاں پاکستان سے جدید اسلحہ اور فوجی تربیت فراہم کروائی جائے اور پھر پاکستان سے ہی امریکی اسٹنگر میزائل طرز کے طیارہ شکن میزائل اور اینٹی ٹینک راکٹس بھی ان باغیوں کو فراہم کروائے جائیں تا کہ شام میں موجود بشار الاسد اور ان کی حکومت کے باغیوں کو بھرپور طاقت باہم پہنچائی جا سکے۔ جس کے حتمی نتیجے میں شام میں بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ کر کے اپنی مرضی کی حکومت قائم کی جا سکے۔ عالمی حالات اور پاکستان پر اس کے اثرات پر مشتمل اس طویل تجزیاتی سوال کے جواب میں صدر مملکت نے موجودہ حکومت کی آزاد اور خود مختار خارجہ پالیسی کو سراہتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت اپنے اس عہد کا کئی مرتبہ اعادہ کر چکی ہے کہ آج کا پاکستان دنیا کے تمام ممالک کی آزادی اور خود مختاری کا احترام کرتا ہے۔ ہم دنیا کے کسی ملک میں بیرونی مداخلت کے ذریعے کسی ملک کی حکومت کو گرانے یا اپنی مرضی کی حکومت قائم کرانے کی کسی پالیسی کا حصہ نہیں بنیں گے۔ انھوں نے یاد دلاتے ہوئے کہا کہ سعودی ولی عہد کے دورے کے بارے میں جب اس قسم کی قیاس آرائیاں شروع ہوئیں تو وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ امور اور پاکستان کے دفتر خارجہ نے بہت ہی وضاحت کے ساتھ اس قسم کی قیاس آرائیوں کی سختی سے تردید کر دی تھی۔ اس موقعے پر صدر ممنون حسین نے عالمی حالات اور خطے کی صورت حال پر کیے گئے سوالات کے بہت مفصل اور مدلل جوابات دیے۔
ایک سوال پر کہ کیا پاکستان، سعودی عرب اور ایران کے مابین تناؤ پر مبنی تعلقات میں ایک کھچے ہوئے رسے پر چلتے ہوئے اپنے توازن کو برقرار رکھ سکے گا یا کسی دباؤ میں آ کر جھکاؤ کا شکار ہو جائے گا؟ صدر مملکت نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ہم نے اپنی ماضی کی غلط خارجہ پالیسی کا بہت خمیازہ بھگت لیا ہے۔ لہٰذا اب صرف اپنے قومی مفاد کو پیش نظر رکھ کر ہی تمام پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں۔ اب پاکستان نہ کسی ملک کے دباؤ میں آئے گا اور نہ ہی کسی ملک کو اپنے دباؤ میں لانے کی پالیسی کو اپنائے گا۔ ہم آج کی دنیا میں آزادی اور خود مختاری پر مکمل یقین رکھتے ہوئے آگے بڑھنے کے اصول پر عمل پیرا ہیں۔ موجودہ حکومت کی پالیسی کے تحت اب نہ تو پاکستان اپنی آزادی پر کوئی سمجھوتہ کرے گا اور نہ ہی کسی ملک کی آزادی اور خود مختاری پر حملہ کیا جائے گا۔ انھوں نے واضح کیا کہ اب پاکستان اپنی ریاستی حدود کسی ملک کو مستعار نہیں دے گا۔ آج کی جدید دنیا میں پاکستان اپنی تباہ حال معیشت کی بحالی کے لیے سرگرداں ہے اور معیشت کی بحالی ہی موجودہ حکمرانوں کا سب سے بنیادی ایجنڈا ہے۔ اس ہی مقصد کے حصول کے لیے دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ برابری کی بنیادوں پر بہتر تعلقات قائم رکھنا، دنیا کے تمام ممالک سے تجارتی معاہدے کرنا اور تجارتی حجم میں اضافہ کر کے پاکستان میں غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ کرنا حکومت کی سرفہرست ترجیحات ہیں۔ لہٰذا موجودہ حکومت اپنے ان اہداف کی جانب کٹھن حالات کے باوجود آگے بڑھ رہی ہے۔ ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ حکومت حالات پر قابو پا لے گی۔
دوران گفتگو جب یہ سوال اٹھایا گیا کہ وزیر اعظم نواز شریف حکومتی امور میں پنجاب کی لیڈر شپ کو زیادہ اہمیت کیوں دیتے ہیں؟ تو صدر مملکت نے کہا کہ آپ ''بجا'' فرماتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان کے صدر کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو انھوں نے ''مجھ پنجابی'' کو اپنا امیدوار بنا کر پیش کر دیا اور پھر منتخب بھی کروا دیا اس جواب پر زور دار قہقہہ لگا اور معترض کو بہت ہی مہذب جواب بھی مل گیا۔ صدر مملکت نے اپنی گفتگو کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دنوں دورہ چین کے موقعے پر جب میں چین کے شہر شنگھائی گیا تو مجھے بتایا گیا کہ 1984 میں کراچی اور چین کے شہر شنگھائی کو سسٹر سٹیز (Sister Cities) قرار دینے کا اعلان کیا گیا تھا اور اس برس اس اعلان کی 30 ویں سالگرہ منائی جائے گی۔ جس کے لیے میں نے دونوں حکومتوں کو یہ تجویز پیش کی ہے کہ اس سلسلے کی ایک تقریب کراچی میں اور دوسری تقریب شنگھائی میں منعقد کی جائے۔ صدرمملکت ممنون حسین دل گرفتہ انداز میں بولے کہ شنگھائی کی تیز رفتار ترقی دیکھ کر مجھے دلی مسرت ہوئی اور کراچی میں پھیلے ہوئے خوف، دہشت، مایوسی اور بے روزگاری جیسے ہولناک مناظر کے تصور نے مجھے نم ناک کردیا۔ صدر مملکت سے ہونے والی یہ ملاقات خاصی دلچسپ اور بے تکلفانہ رہی۔
ملاقات میں شام سمیت مشرق وسطی کے عمومی حالات پر بھی بات کی گئی۔ وہاں پاکستان سے جدید اسلحہ اور فوجی تربیت فراہم کروائی جائے اور پھر پاکستان سے ہی امریکی اسٹنگر میزائل طرز کے طیارہ شکن میزائل اور اینٹی ٹینک راکٹس بھی ان باغیوں کو فراہم کروائے جائیں تا کہ شام میں موجود بشار الاسد اور ان کی حکومت کے باغیوں کو بھرپور طاقت باہم پہنچائی جا سکے۔ جس کے حتمی نتیجے میں شام میں بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ کر کے اپنی مرضی کی حکومت قائم کی جا سکے۔ عالمی حالات اور پاکستان پر اس کے اثرات پر مشتمل اس طویل تجزیاتی سوال کے جواب میں صدر مملکت نے موجودہ حکومت کی آزاد اور خود مختار خارجہ پالیسی کو سراہتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت اپنے اس عہد کا کئی مرتبہ اعادہ کر چکی ہے کہ آج کا پاکستان دنیا کے تمام ممالک کی آزادی اور خود مختاری کا احترام کرتا ہے۔ ہم دنیا کے کسی ملک میں بیرونی مداخلت کے ذریعے کسی ملک کی حکومت کو گرانے یا اپنی مرضی کی حکومت قائم کرانے کی کسی پالیسی کا حصہ نہیں بنیں گے۔ انھوں نے یاد دلاتے ہوئے کہا کہ سعودی ولی عہد کے دورے کے بارے میں جب اس قسم کی قیاس آرائیاں شروع ہوئیں تو وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ امور اور پاکستان کے دفتر خارجہ نے بہت ہی وضاحت کے ساتھ اس قسم کی قیاس آرائیوں کی سختی سے تردید کر دی تھی۔ اس موقعے پر صدر ممنون حسین نے عالمی حالات اور خطے کی صورت حال پر کیے گئے سوالات کے بہت مفصل اور مدلل جوابات دیے۔
ایک سوال پر کہ کیا پاکستان، سعودی عرب اور ایران کے مابین تناؤ پر مبنی تعلقات میں ایک کھچے ہوئے رسے پر چلتے ہوئے اپنے توازن کو برقرار رکھ سکے گا یا کسی دباؤ میں آ کر جھکاؤ کا شکار ہو جائے گا؟ صدر مملکت نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ہم نے اپنی ماضی کی غلط خارجہ پالیسی کا بہت خمیازہ بھگت لیا ہے۔ لہٰذا اب صرف اپنے قومی مفاد کو پیش نظر رکھ کر ہی تمام پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں۔ اب پاکستان نہ کسی ملک کے دباؤ میں آئے گا اور نہ ہی کسی ملک کو اپنے دباؤ میں لانے کی پالیسی کو اپنائے گا۔ ہم آج کی دنیا میں آزادی اور خود مختاری پر مکمل یقین رکھتے ہوئے آگے بڑھنے کے اصول پر عمل پیرا ہیں۔ موجودہ حکومت کی پالیسی کے تحت اب نہ تو پاکستان اپنی آزادی پر کوئی سمجھوتہ کرے گا اور نہ ہی کسی ملک کی آزادی اور خود مختاری پر حملہ کیا جائے گا۔ انھوں نے واضح کیا کہ اب پاکستان اپنی ریاستی حدود کسی ملک کو مستعار نہیں دے گا۔ آج کی جدید دنیا میں پاکستان اپنی تباہ حال معیشت کی بحالی کے لیے سرگرداں ہے اور معیشت کی بحالی ہی موجودہ حکمرانوں کا سب سے بنیادی ایجنڈا ہے۔ اس ہی مقصد کے حصول کے لیے دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ برابری کی بنیادوں پر بہتر تعلقات قائم رکھنا، دنیا کے تمام ممالک سے تجارتی معاہدے کرنا اور تجارتی حجم میں اضافہ کر کے پاکستان میں غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ کرنا حکومت کی سرفہرست ترجیحات ہیں۔ لہٰذا موجودہ حکومت اپنے ان اہداف کی جانب کٹھن حالات کے باوجود آگے بڑھ رہی ہے۔ ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ حکومت حالات پر قابو پا لے گی۔