کیا قیام امن ممکن ہے
جب صورت حال اس نازک مرحلے پر پہنچ جائے تو دشمن عناصر ایسے مواقعوں سے لاپروا نہیں رہتے
پاکستان سیاسی و جغرافیائی اعتبار سے براعظم ایشیا کے اہم مقام پر واقع ہے۔ اس قطعہ ارض میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں کے اثرات پاکستان پر براہ راست نظر آتے ہیں۔ پاکستان اپنی 67 سالہ تاریخ میں کئی نشیب و فراز سے گزرا ہے، لیکن امریکا کے اس خطے میں داخلے کے بعد گزشتہ بارہ سال پاکستان کے لیے نہایت خونیں ثابت ہوئے۔ بم دھماکے، خودکش حملے، فرقہ وارانہ کشیدگی، لسانیت و قومیت کی بنیاد پر جھگڑے، علیحدگی کی تحریکیں، امریکی ڈرون کی تباہ کاریاں، بھارت کی طرف سے ایل او سی پر کشیدگی اور پاکستان پر حملے کی دھمکیاں... الغرض ہر طرف اور ہر طریقے سے پاکستان پر وار کیے گئے، لیکن مقام حیرت ہے کہ پاکستان کا وجود امن و امان کے ساتھ نہ سہی جغرافیائی سلامتی کے ساتھ اب بھی قائم ہے۔
جب افغانستان پر امریکی افواج نے گولہ باری کی اور کشت و خون کا بازار گرم کیا، تو ایک طرف افغانوں نے اس جارحیت کے خلاف مزاحمت کی اور دوسری طرف پاکستان کے قبائلی علاقوں سے کلمہ طیبہ کی بنیاد پر غیور قبائلی، افغانوں کی مدد کے لیے امریکا کے خلاف صف آرا ہوئے۔ جب افغانستان میں امریکی افواج کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، تو امریکا نے پاکستان پر دباؤ ڈالا کہ اپنے قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کیے جائیں، یہاں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں جو پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں سب جانتے ہیں کہ امریکا کے اس خطے میں قدم رکھنے سے پہلے یہاں خودکش بمباروں کا وجود تھا اور نہ ہی اس قدر بڑے پیمانے پر بم دھماکوں کی گونج۔ پاکستان کے سابق صدر و آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف امریکا کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے پاکستان کے لیے ایک نئی مشکل پیدا کرنے کا سبب بنے۔2004 میں وزیرستان میں فوجی آپریشن کا آغاز ہوا۔ اس کے دو سال بعد ہی 2006 میں باجوڑ ایجنسی کے ایک دینی مدرسے پر امریکا نے بمباری کی، جس کے نتیجے میں چھوٹے بچوں سمیت بڑی تعداد میں قبائلی شہید ہوئے۔ اس وحشیانہ حملے پر امریکا سے باز پرس کے بجائے پاکستان نے اس حملے کو خود سے منسوب کیا۔ اس کے اگلے ہی سال اسلام آباد میں لال مسجد آپریشن ہوا۔ پے در پے ان واقعات کے رونما ہونے سے حکومت اور فوج کے خلاف نفرت کی فضا بننے لگی۔ جس کے نتیجے میں سوات سمیت فاٹا کے تقریباََ تمام ایجنسیوں میں طالبان حکومتی اقدامات کے خلاف ایک قوت کے طور پر ابھرنے لگے۔
گویا کہ تحریک طالبان پاکستان کے قیام کی راہ حکومت نے خود اپنی عاقبت نااندیشی سے ہموار کی۔ جب صورت حال اس نازک مرحلے پر پہنچ جائے تو دشمن عناصر ایسے مواقعوں سے لاپروا نہیں رہتے۔ جنگوں کا یہ اصول معروف ہے کہ ''دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے'' لہٰذا اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ اس خونریزی کو ہوا دینے میں دشمن ممالک نے خوب کردار ادا کیا۔ پاکستان میں صورت حال کچھ یوں تھی کہ ایک طرف حکومت طاقت کے بل بوتے پر ریاست کی رٹ قائم کرنے پر مصر رہی، تو دوسری طرف ٹی ٹی پی قیادت افغان جہاد سے صرف نظر کر کے پاکستان میں ایک نئے محاذ جنگ پر اپنی قوت صرف کرنے لگی۔صورت حال کی نزاکت کو پرکھتے ہوئے ہر ذی شعور برابر یہ مطالبہ کرتا رہا کہ قوت کا استعمال خانہ جنگی کا حل نہیں ہے۔ امن کے منافی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے۔ یہاں جملہ معترضہ کے طور پر عرض کرتا چلوں کہ جب بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کی خواہش ظاہر کی گئی یا اس سلسلے میں عملی پیش رفت کا آغاز ہوا، تو امریکا نے ہمیشہ ایسی کوشش کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔ دراصل امریکا کی خواہش یہی ہے کہ پاک آرمی اور ٹی ٹی پی کے درمیان ہمیشہ چپقلش جاری رہے۔ تا کہ امریکا اپنے خلاف ممکنہ مزاحمت سے بے خوف ہو کر خطے میں اپنے مفادات کے حصول کے لیے کوشاں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب گزشتہ سال کے آخر میں حکومت، طالبان کے مابین مذاکرات کا آغاز ہونے جا رہا تھا تو امریکا نے طالبان سربراہ حکیم اﷲ محسود کو ڈرون کا نشانہ بنا کر مذاکرات کی تمام تر کوششوں پر پانی پھیر دیا۔یہ نواز شریف کی فہم و فراست اور دانش مندی کا نتیجہ ہے کہ وہ معاملے کی نزاکت کو سمجھ چکے ہیں، اسی لیے ملک میں قیام امن کی خاطر طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ مذاکرات کو درست سمت میں آگے بڑھانے کے لیے حکومتی کمیٹی کا قیام مستحسن قدم ہے۔ یہ خوش آیند بات ہے کہ فریقین نے پیدا شدہ تعطل کو ختم کر کے ایک بار پھر مذاکراتی عمل شروع کر دیا ہے۔ مذاکرات کے پہلے مرحلے میں تعطل اسی وجہ سے قائم ہوا تھا کہ ملک میں بعض ناخوشگوار واقعات رونما ہوئے تھے۔ تاہم اب ٹی ٹی پی قیادت نے جنگ بندی کا باضابطہ فیصلہ کر لیا ہے، جسے حکومت کی طرف سے بھی سراہا گیا۔
طالبان سے مذاکرات کے ضمن میں ہمیشہ یہ بحث عروج پر رہتی ہے کہ طالبان موجودہ آئین کو تسلیم ہی نہیں کرتے، ان کا مطالبہ شریعت کا نفاذ ہے۔ اس صورت میں طالبان سے مذاکرات کیسے کیے جا سکتے ہیں؟ اول بات یہ ہے کہ شریعت کے نفاذ کا مطالبہ صرف طالبان کی طرف سے نہیں بلکہ یہ ہر اس شخص کی دلی خواہش ہے جو پاکستان کو اس کے نظریاتی بنیادوں پر کھڑا دیکھنا چاہتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان کا موجودہ آئین بھی عام قوانین پر شرعی قوانین کی برتری تسلیم کرتا ہے۔ دستور کی دفعہ 227 میں کہا گیا ہے کہ موجودہ قوانین کو طے شدہ اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالا جائے گا اور قرآن و سنت سے متصادم کوئی قانون منظور نہیں کیا جائے گا۔ آئین کے تحت اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام بھی اسی لیے عمل میں لایا گیا ہے کہ وہ قرآن و سنت کی روشنی میں مروجہ قوانین پر نظر ثانی کر کے مجلس شوریٰ کو سفارشات پیش کرے، تا کہ عوام اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کر سکے۔ گویا کہ شرعی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ آئین پاکستان کی اصل روح پر عمل پیرا ہونے کی یاد دہانی ہے۔حکومتی کمیٹی نے مذاکرات کے پہلے دور میں طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کو چند نکات پیش کیے تھے، کہ بات چیت کا عمل آئین کے حدود میں رہ کر کیا جائے۔ مذاکرات کا اطلاق شورش زدہ علاقوں پر ہو۔ امن و امان کے منافی تمام سرگرمیوں کا فوری خاتمہ کیا جائے۔
میں سمجھتا ہوں کہ مذاکرات کا عمل اگر ان نکات کو سامنے رکھ کر آگے بڑھایا جائے تو امید ہے کہ بہتر نتائج برآمد ہوں گے۔ آئین پاکستان مکمل طور پر اسلامی تعلیمات کے منافی نہیں، اس کے اسلامی دفعات اور نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ اس لیے آئین کی حدود میں رہ کر مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانا کوئی نقصان دہ بات نہیں۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ آئین کے تحت مذاکرات نہیں ہونے چاہئیں وہ جذبات کے بجائے معاملے کی نزاکت پر غور کرتے ہوئے فہم و فراست سے کام لیں۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ مذاکرات کا اطلاق شورش زدہ علاقوں پر ہو۔ اگر اس نکتہ پر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو نفاذ شریعت کے مطالبے کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ 2009 کے سوات معاہدے کی طرح اس کا حشر نہ کیا جائے۔ بس فریقین کی طرف سے تحمل اور حوصلے کی ضرورت ہے۔ شورش زدہ علاقہ یعنی فاٹا کی حدود میں اسلامی قوانین کا نفاذ ہو جائے، تو یقینی امر ہے کہ اس کے ثمرات نظر آئیں گے۔ جس کے بعد ملک کے دیگر حصوں میں بھی اس سنہرے نظام کو اختیار کرنے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں رہے گی۔چونکہ یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ اسے منٹوں میں حل نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس معاملے میں جذبات سے کام لینا چاہیے۔ یہ عمل بتدریج ہی آگے بڑھ سکے گا۔ مذاکرات کے نتیجے میں اگر امن کے منافی سرگرمیوں کا مکمل خاتمہ کیا جائے تو باقی ماندہ معاملات بتدریج حل ہوتے جائیں گے۔ کامیاب مذاکرات ہی امن و سلامتی اور خوشحالی کی ضمانت ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اور طالبان اپنے رویوں سے قوم کو کامیابی کی نوید کب سناتے ہیں۔
جب افغانستان پر امریکی افواج نے گولہ باری کی اور کشت و خون کا بازار گرم کیا، تو ایک طرف افغانوں نے اس جارحیت کے خلاف مزاحمت کی اور دوسری طرف پاکستان کے قبائلی علاقوں سے کلمہ طیبہ کی بنیاد پر غیور قبائلی، افغانوں کی مدد کے لیے امریکا کے خلاف صف آرا ہوئے۔ جب افغانستان میں امریکی افواج کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، تو امریکا نے پاکستان پر دباؤ ڈالا کہ اپنے قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کیے جائیں، یہاں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں جو پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں سب جانتے ہیں کہ امریکا کے اس خطے میں قدم رکھنے سے پہلے یہاں خودکش بمباروں کا وجود تھا اور نہ ہی اس قدر بڑے پیمانے پر بم دھماکوں کی گونج۔ پاکستان کے سابق صدر و آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف امریکا کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے پاکستان کے لیے ایک نئی مشکل پیدا کرنے کا سبب بنے۔2004 میں وزیرستان میں فوجی آپریشن کا آغاز ہوا۔ اس کے دو سال بعد ہی 2006 میں باجوڑ ایجنسی کے ایک دینی مدرسے پر امریکا نے بمباری کی، جس کے نتیجے میں چھوٹے بچوں سمیت بڑی تعداد میں قبائلی شہید ہوئے۔ اس وحشیانہ حملے پر امریکا سے باز پرس کے بجائے پاکستان نے اس حملے کو خود سے منسوب کیا۔ اس کے اگلے ہی سال اسلام آباد میں لال مسجد آپریشن ہوا۔ پے در پے ان واقعات کے رونما ہونے سے حکومت اور فوج کے خلاف نفرت کی فضا بننے لگی۔ جس کے نتیجے میں سوات سمیت فاٹا کے تقریباََ تمام ایجنسیوں میں طالبان حکومتی اقدامات کے خلاف ایک قوت کے طور پر ابھرنے لگے۔
گویا کہ تحریک طالبان پاکستان کے قیام کی راہ حکومت نے خود اپنی عاقبت نااندیشی سے ہموار کی۔ جب صورت حال اس نازک مرحلے پر پہنچ جائے تو دشمن عناصر ایسے مواقعوں سے لاپروا نہیں رہتے۔ جنگوں کا یہ اصول معروف ہے کہ ''دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے'' لہٰذا اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ اس خونریزی کو ہوا دینے میں دشمن ممالک نے خوب کردار ادا کیا۔ پاکستان میں صورت حال کچھ یوں تھی کہ ایک طرف حکومت طاقت کے بل بوتے پر ریاست کی رٹ قائم کرنے پر مصر رہی، تو دوسری طرف ٹی ٹی پی قیادت افغان جہاد سے صرف نظر کر کے پاکستان میں ایک نئے محاذ جنگ پر اپنی قوت صرف کرنے لگی۔صورت حال کی نزاکت کو پرکھتے ہوئے ہر ذی شعور برابر یہ مطالبہ کرتا رہا کہ قوت کا استعمال خانہ جنگی کا حل نہیں ہے۔ امن کے منافی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے۔ یہاں جملہ معترضہ کے طور پر عرض کرتا چلوں کہ جب بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کی خواہش ظاہر کی گئی یا اس سلسلے میں عملی پیش رفت کا آغاز ہوا، تو امریکا نے ہمیشہ ایسی کوشش کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔ دراصل امریکا کی خواہش یہی ہے کہ پاک آرمی اور ٹی ٹی پی کے درمیان ہمیشہ چپقلش جاری رہے۔ تا کہ امریکا اپنے خلاف ممکنہ مزاحمت سے بے خوف ہو کر خطے میں اپنے مفادات کے حصول کے لیے کوشاں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب گزشتہ سال کے آخر میں حکومت، طالبان کے مابین مذاکرات کا آغاز ہونے جا رہا تھا تو امریکا نے طالبان سربراہ حکیم اﷲ محسود کو ڈرون کا نشانہ بنا کر مذاکرات کی تمام تر کوششوں پر پانی پھیر دیا۔یہ نواز شریف کی فہم و فراست اور دانش مندی کا نتیجہ ہے کہ وہ معاملے کی نزاکت کو سمجھ چکے ہیں، اسی لیے ملک میں قیام امن کی خاطر طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ مذاکرات کو درست سمت میں آگے بڑھانے کے لیے حکومتی کمیٹی کا قیام مستحسن قدم ہے۔ یہ خوش آیند بات ہے کہ فریقین نے پیدا شدہ تعطل کو ختم کر کے ایک بار پھر مذاکراتی عمل شروع کر دیا ہے۔ مذاکرات کے پہلے مرحلے میں تعطل اسی وجہ سے قائم ہوا تھا کہ ملک میں بعض ناخوشگوار واقعات رونما ہوئے تھے۔ تاہم اب ٹی ٹی پی قیادت نے جنگ بندی کا باضابطہ فیصلہ کر لیا ہے، جسے حکومت کی طرف سے بھی سراہا گیا۔
طالبان سے مذاکرات کے ضمن میں ہمیشہ یہ بحث عروج پر رہتی ہے کہ طالبان موجودہ آئین کو تسلیم ہی نہیں کرتے، ان کا مطالبہ شریعت کا نفاذ ہے۔ اس صورت میں طالبان سے مذاکرات کیسے کیے جا سکتے ہیں؟ اول بات یہ ہے کہ شریعت کے نفاذ کا مطالبہ صرف طالبان کی طرف سے نہیں بلکہ یہ ہر اس شخص کی دلی خواہش ہے جو پاکستان کو اس کے نظریاتی بنیادوں پر کھڑا دیکھنا چاہتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان کا موجودہ آئین بھی عام قوانین پر شرعی قوانین کی برتری تسلیم کرتا ہے۔ دستور کی دفعہ 227 میں کہا گیا ہے کہ موجودہ قوانین کو طے شدہ اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالا جائے گا اور قرآن و سنت سے متصادم کوئی قانون منظور نہیں کیا جائے گا۔ آئین کے تحت اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام بھی اسی لیے عمل میں لایا گیا ہے کہ وہ قرآن و سنت کی روشنی میں مروجہ قوانین پر نظر ثانی کر کے مجلس شوریٰ کو سفارشات پیش کرے، تا کہ عوام اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کر سکے۔ گویا کہ شرعی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ آئین پاکستان کی اصل روح پر عمل پیرا ہونے کی یاد دہانی ہے۔حکومتی کمیٹی نے مذاکرات کے پہلے دور میں طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کو چند نکات پیش کیے تھے، کہ بات چیت کا عمل آئین کے حدود میں رہ کر کیا جائے۔ مذاکرات کا اطلاق شورش زدہ علاقوں پر ہو۔ امن و امان کے منافی تمام سرگرمیوں کا فوری خاتمہ کیا جائے۔
میں سمجھتا ہوں کہ مذاکرات کا عمل اگر ان نکات کو سامنے رکھ کر آگے بڑھایا جائے تو امید ہے کہ بہتر نتائج برآمد ہوں گے۔ آئین پاکستان مکمل طور پر اسلامی تعلیمات کے منافی نہیں، اس کے اسلامی دفعات اور نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ اس لیے آئین کی حدود میں رہ کر مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانا کوئی نقصان دہ بات نہیں۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ آئین کے تحت مذاکرات نہیں ہونے چاہئیں وہ جذبات کے بجائے معاملے کی نزاکت پر غور کرتے ہوئے فہم و فراست سے کام لیں۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ مذاکرات کا اطلاق شورش زدہ علاقوں پر ہو۔ اگر اس نکتہ پر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو نفاذ شریعت کے مطالبے کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ 2009 کے سوات معاہدے کی طرح اس کا حشر نہ کیا جائے۔ بس فریقین کی طرف سے تحمل اور حوصلے کی ضرورت ہے۔ شورش زدہ علاقہ یعنی فاٹا کی حدود میں اسلامی قوانین کا نفاذ ہو جائے، تو یقینی امر ہے کہ اس کے ثمرات نظر آئیں گے۔ جس کے بعد ملک کے دیگر حصوں میں بھی اس سنہرے نظام کو اختیار کرنے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں رہے گی۔چونکہ یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ اسے منٹوں میں حل نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس معاملے میں جذبات سے کام لینا چاہیے۔ یہ عمل بتدریج ہی آگے بڑھ سکے گا۔ مذاکرات کے نتیجے میں اگر امن کے منافی سرگرمیوں کا مکمل خاتمہ کیا جائے تو باقی ماندہ معاملات بتدریج حل ہوتے جائیں گے۔ کامیاب مذاکرات ہی امن و سلامتی اور خوشحالی کی ضمانت ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اور طالبان اپنے رویوں سے قوم کو کامیابی کی نوید کب سناتے ہیں۔