معاشی آزادی مگر کیسے… آخری حصہ
امریکامعاشی غلام ملکوں کوایسےذلت آمیز طریقے سےاستعمال کر رہا ہےکہ معاشی غلام ملکوں کےحکمران جودرحقیقت امریکی دلال ہیں
کتاب Pakistan Economic Survey 2012-13 کے صفحے 103 پر مالی سال 1970-71 سے مالی سال 2011-12 تک Long Term قرضوں کی تفصیل کے مطابق اور مالی سال 1959-60 تک غیر ملکی ڈالر قرضوں کی تفصیلات ہر سال کی شایع کردہ کتابوں ''پاکستان اکنامک سروے'' سے لی گئی ہیں۔ ان کتابوں کو ہر سال Economic Adviser's, Finance Division. Government of Pakistan Islamabad شایع کرتا ہے۔ ان کے مطابق 1951-52 سے 1959-60تک حکمرانوں نے 84 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کا قرض Disbursement حاصل کیا۔ اس میں سے 3 کروڑ 30 لاکھ ڈالر سود و اصل زر کی مد میں بروقت کٹوا کر باقی 80 کروڑ 90 لاکھ ڈالر نقد وصول کیے تھے۔ اور 82 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کا قرضہ پاکستان کے ذمے رہا تھا۔ یاد رہے اس کے بعد 1960-61 سے 2011-12 تک ہر سال پاکستان میں بننے والی ہر حکومت نے اپنے اپنے دور میں غیر ملکی قرضہ وصول کیا ہے اور سب سے اہم نقطہ توجہ طلب ہے کہ ہر آنے والے سال کے بعد سود و اصل زر کی ادائیگی بڑھتی گئی۔ مالی سال 2011-12 کو پاکستان نے مجموعی قرضہ 86 ارب 7 کروڑ 50 لاکھ ڈالر حاصل کیا تھا۔ اس میں سود و اصل زر کی مد میں 57 ارب 60 کروڑ 10 لاکھ ڈالر بروقت سامراجی مالیاتی اداروں نے کاٹ لیے۔ پاکستان نے کل مجموعی 28 ارب 47 کروڑ 40 لاکھ ڈالر وصول کیے اور پاکستان کے ذمے قرض ادائیگی کا بوجھ 48 ارب 53 کروڑ 90 لاکھ موجود رہا ،کل قرض میں سے صرف 33 فیصد وصول کیا گیا۔ 67 فیصد سود و اصل زر کی مد میں بروقت کٹوا دیا گیا اور پھر بھی عوام پر قرض ادائیگی کا بوجھ 48 ارب 53 کروڑ 90 لاکھ ڈالر موجود رہا۔ اتنا مہنگا قرض کیوں لیا گیا؟ یاد رہے کہ ان قرضوں کی تفصیل اوپر دی گئی کتاب میں موجود ہے اور یہ Long Term قرضے ہیں۔ مزید CDMED کے کارنامے دیکھیے۔ 27 فروری 2014عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت میں اضافہ ہوا اور پاکستان میں 1970 میں 4.762 روپے کا ایک ڈالر تھا۔ پٹرولیم کی قیمت 6.19 روپے فی بیرل تھی۔ 27 فروری 2014کو پاکستانی روپے کے حساب سے 186834 فیصد اضافہ ہو چکا تھا۔
امریکا معاشی غلام ملکوں کو ایسے ذلت آمیز طریقے سے استعمال کر رہا ہے کہ معاشی غلام ملکوں کے حکمران جو درحقیقت امریکی دلال ہیں اپنے اپنے ملکوں کے عوام کو دھوکہ در دھوکہ دے رہے ہیں۔ ذوالفقارعلی بھٹو کے دور میں ڈالر ٹیکس 132 فیصد لگا کر ملکی معیشت کو پیچھے دھکیل دیا گیا۔ بھٹو کا نعرہ روٹی کپڑا اور مکان تھا۔ CDMED لگنے کے بعد عوام سے زندہ رہنے کا حق چھین لیا گیا۔ مہنگائی کے سمندر میں عوام کو ڈبو دیا گیا۔ نواز شریف کے موجودہ دور میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سامنے ہے۔ 1993جولائی میں نگران وزیر اعظم معین قریشی ملازم ورلڈ بینک کا نام نواز شریف نے تجویز کیا۔ معین قریشی سے رابطہ سرتاج عزیز نے کیا۔ آئی ایس آئی کے ڈی جی جاوید اشرف قاضی نے 16 جولائی 1993کو معین قریشی کی کلیئرنس دی۔ معین قریشی نے 18 جولائی 1993کو نواز شریف کی موجودگی میں غلام اسحق خان اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عبدالوحید کاکڑ سے ملاقات کی اسی روز معین قریشی کو نگران وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ معین قریشی نے 18 جولائی سے 19 اکتوبر 1993تک درآمدی ڈیوٹی 85 فیصد سے 35 فیصد کر دی۔ اس نے روپے کی قیمت میں 17 فیصد کمی کر دی۔ تین ماہ میں مجموعی 67 فیصد ملکی معیشت اور صنعتی کلچر کو پیچھے دھکیل دیا۔ یہ پہلو کتنا افسوسناک ہے کہ بھٹو دور میں 132 فیصد ملکی کرنسی کی قیمت میں کمی کی گئی۔ حکومت کے کسی وزیر اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبر اور کسی (قومی) مرکزی اسمبلی کے ممبر نے اس کی مخالفت نہیں کی تھی؟ پھر ہر حکومت کے دور میں CDMED لگتا رہا۔ نواز شریف 6 نومبر 1990 سے 8 جولائی 1993 کے دور میں CDMED لگا۔ معین قریشی نے مجموعی 67 فیصد صنعتی کلچر پیچھے دھکیل دیا۔ افسوس ہے کوئی بھی نہ بولا؟ پاکستان کی کرنسی روپیہ 3.318 روپے کا ایک ڈالر 1947-48 میں تھا۔ 27 فروری 2014 کو 105.50 روپے کا ایک ڈالر تھا۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں کمی 3080 فیصد کر دی گئی۔ اسی نسبت سے یورپی ملکوں کے مقابلے میں معاشی غلام پاکستان کے عوام کا معیار زندگی پیچھے دھکیل دیا گیا۔
امریکا نے شروع ہی سے ملکی حکمرانوں کو 16 اکتوبر 1951کے بعد سے استعمال کرنا شروع کیا۔ امریکا کی عالمی مالیاتی سازش تھی کہ زیادہ سے زیادہ ملکوں کے وسائل پر تسلط حاصل کرے۔ امریکا نے CDMED کے ہتھکنڈے سے کمزور انتظامی معاشی ملکوں کو استعمال کیا۔ ان ملکوں کی معیشت کو خساروں میں بدلا اور نااہل حکمرانوں کو ڈالر دے کر خرید کر ان کو استعمال کیا اور CDMED سے ملکی ادارے جب خسارے میں چلے گئے تو امریکا نے نجکاری کی راہ پر ان ملکوں کو ڈال دیا۔ اس کے بعد ''جوں جوں CDMED بڑھتا گیا توں توں اداروں میں خسارے بڑھتے گئے۔ ان خساروں سے حکومتی آمدنی (ریونیو) میں کمی ہوتی گئی۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے امریکا نے اداروں کی نجکاری کا حکم دیا۔ ریلوے، پی آئی اے، پی ٹی سی ایل مئی 1972 سے قبل نفع بخش ادارے تھے۔ اس کے بعد جوں جوں CDMED بتدریج لگتا اور بڑھتا گیا توں توں تمام ملکی ادارے خسارے میں جاتے گئے۔ اس کے ساتھ CDMED کے نتیجے میں غیر ملکی مالیاتی مداخلت بڑھتی گئی۔ سامراجی ملکوں کی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے معاشی غلام ملکوں میں صنعتی کلچر کے خاتمے کے ساتھ اس خلا کو پر کرنا شروع کر دیا اور عوامی ضرورت اور وسائل کے مطابق چند لاکھ ڈالر لگا کر مقامی کروڑوں، اربوں کی مالیت کی کرنسی کے اثاثے استعمال کر کے ان ملٹی نیشنل کمپنیوں نے نفع اپنے اپنے ملکوں کو منتقل کرنا شروع کر دیا۔ اور اس کے لیے امریکی بلاک کے ملکوں نے معاشی غلام ملکوں میں اپنے اپنے بینک بھی قائم کر لیے۔ اس طرح CDMED کے نتیجے میں ''معاشی غلام ملکوں کا عوامی سرمایہ سامراجی ملکوں کو تیزی سے منتقل ہو رہا ہے''۔ معاشی غلام ملک کی ٹرائیکا (جاگیردار+سرمایہ کار+اعلیٰ بیوروکریٹ) کے پاس افراط زر بڑھتا گیا اور عوام کے پاس قلت زر بڑھتا گیا اسی طرح عالمی سطح پر سامراجی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پاس (افراط زر) عالمی سرمایہ ایک جگہ اکٹھا ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں معاشی غلام ملکوں میں مہنگائی اور بے روزگاری بڑھتی جا رہی ہے۔ اور نفع بخش اداروں کی ٹوٹ پھوٹ اور خساروں کے نتیجے میں حکومتی آمدنی کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی حکومتی رٹ بھی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ نواز شریف نے تیسری بار حکومت وعدوں اور عوام کو ترقی کے خواب دکھا کر حاصل کر لی ہے۔ اور کئی اداروں کی نجکاری کا پلان بنا لیا گیا ہے اور پی آئی اے کے لیے کرائے کے جہاز حاصل کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
مثال کے طور پر پی آئی اے کے لیے ترکی سے طیارے کرائے پر لیے جاتے ہیں۔ ترکی کی کرنسی ''نیولیرا'' 19 جنوری 2. 1971 لیرا کا ایک ڈالر تھا۔ اور 11 جنوری 2014 کو پٹرولیم عالمی مارکیٹ 106.89 ڈالر فی بیرل تھا۔ ترکی کو یہ پٹرولیم 231.64 لیرا کا پڑ رہا تھا، اس طرح ترکی کو پاکستان کے مقابلے میں کم سرمایہ لگاکر زیادہ نفع حاصل ہو گا۔ 19 جنوری 2014 کو ترکی کی کرنسی لیرا سے پاکستانی کرنسی روپیہ 4765 فیصد ریٹ میں عالمی سطح پر کم تھا۔ چین اگر 35 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرتا ہے تو چین کا Yuan(یوآن) 6.0521 یوآن کا ایک ڈالر ہے اور پاکستانی کرنسی میں 35 ارب ڈالر کو 19 جنوری 2014 کے ریٹ 105.435 روپے ایک ڈالر کے حساب سے 36 کھرب 90 ارب 22 کروڑ50 لاکھ روپے بنتے ہیں اور مالی سال 2011-12 کو پاکستان کی آمدنی ریونیو 25 کھرب 68 ارب 6 کروڑ روپے تھی۔ یہ مالیاتی شکل پاکستان کے ماہرین معیشت اور حکمرانوںکے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ عوام جو غریب ترین شہری ہیں ان تمام حکمرانوں کو ٹھپے پہ ٹھپہ مار کر اقتدار اور اختیارات کا مالک بناکر خود بے اقتدار اور بے اختیار ہو کر ان سے خوشحالی کے طلب گار ہوتے ہیں۔ حکومت 31 اداروں کو نجکاری کرنے کا پروگرام بنا چکی ہے۔ حکومت کے پاس کیا گارنٹی ہے کہ عوام کو سستی اشیا ملیں گی اور کتنے فیصد مہنگائی کا خاتمہ کرے گی، کتنی بیروزگاری ختم ہو گی اور غیر ملکی دہشت گرد مداخلت کا مکمل خاتمہ ہو گا اورجن اداروں کی نجکاری ہوگی ان اداروں میں مزید روزگار کے کتنے ذرایع پیدا ہوں گے۔