معاشی استحکام اور خوشحالی کے دعوے
پاکستان کے ساتھ معاہدے کے نتیجے میں ملک کو فوری ایک ارب 17 کروڑ ڈالر کی رقم مل جائے گی
پاکستان کے مالیاتی بحران کو حل کرنے کے حوالے سے حکومتی عہدیدار پرامید نظر آرہے ہیں، وزیراعظم میاں شہباز شریف اور وزیر خزانہ تواتر سے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان مالیاتی بحران سے نکل آیا ہے اور اب معاشی استحکام کا سفر شروع ہے۔
گزشتہ روز بھی وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے وزارت خزانہ میں وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات مریم اورنگزیب کے ہمراہ معاشی استحکام، عوامی خوشحالی اقتصادی جائزہ کے حوالے سے میڈیا بریفنگ دی ۔وزیرخزانہ کا کہنا ہے کہ اتحادی حکومت نے مشکل فیصلوں کے بعد ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا ہے اور ملک میں معاشی استحکام لانے میں کامیاب ہوئے ہیں اور اب عوامی خوشحالی کے لیے فیصلوں کا آغاز کرنے جا رہے ہیں۔
آیندہ سال گرمیوں میں لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی،زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آجائے گی،مہنگائی بھی موجودہ سطح پر نہیں رہے گی۔ وزیرخزانہ نے بتایا کہ ایک دوست ملک سے ہمیں چار ارب ڈالر کے ڈیپازٹ دوحصوں میں ملیں گے ،دوسرے دوست ملک سے ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی تیل کی سہولت ملے گی۔ ایک دوست ملک اسٹاک ایکسچینج میں ڈیڑھ سے دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔امید ہے کہ رواں سال ساڑھے تین ارب ڈالر ہمیں ایشیائی ترقیاتی بینک سے مل جائیں گے۔
ڈھائی ارب ڈالر ورلڈ بینک سے مل جائیں گے۔ 400 سے 500 ملین ڈالر ایشین انفرااسٹر کچر بینک سے بھی ملیں گے۔اس کے علاوہ اسلامک ڈویلپمنٹ بینک سے بھی شاید تھوڑی سی فنڈنگ بڑھ جائے۔مفتاح اسماعیل نے حکومت کے مشکل فیصلوں کی تائید پراتحادی پارٹیوں کا بھی شکریہ ادا کیا اورکہا ہم نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں عالمی سطح پر کمی کے بعد ایک ایک پائی عوام تک منتقل کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے ہیں اور آیندہ بھی تمام ثمرات عوام تک پہنچائیں گے۔
نان پروٹیکٹڈ توانائی صارفین کے ٹیرف پر نظر ثانی کے لیے نیپرا کو پٹیشن بھجوا دی ہے، حکومت پنجاب کے 100یونٹ بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو مفت بجلی فراہم کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ دیگر صوبے بھی اس کی تقلید کریں گے، پاکستان ریلوے اور پی آئی اے کے کرایوں میں کمی کا اعلان کردیا گیا ہے، اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کمی کے لیے پیر کو پرائس مانیٹرنگ کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔
ہم نے آئی ایم ایف کا پروگرام بحال کرایا،چینی بینکوں سے 2.3 ارب ڈالر کا قرض ری شیڈول کرایا گیا۔ نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی اور ان کی تربیت اور بلاسود قرضوں کی فراہمی کے لیے بھی اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ نوجوانوں کے لیے لیپ ٹاپ اسکیم اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تعلیم وتربیت کے لیے وظائف اور معاونت کے پروگرام رکھے گئے ہیں۔ہمارے اقدامات سے زراعت اور آئی ٹی سیکٹر کو ترقی ملے گی، برآمدات میں اضافہ ہو گا ۔ انشاء اﷲ ہم ٹیکس کلیکشن کے طے کردہ ہدف سے بھی زیادہ ٹیکس جمع کرکے دکھائیں گے۔ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اپنے ایک ٹویٹ میں بھی کہا ہے کہ حکومت '' میرا گھر اسکیم''کو نئی شکل دے رہی ہے جس میںکسی کا کوئی مالی نقصان نہیں ہوگا۔ ہم اگلے ہفتے اس حوالے سے درپیش مسائل حل کر لیں گے۔
پاکستان کا معاشی اور مالیاتی بحران اچانک پیدا نہیں ہوا بلکہ تمام حکومتوں کی ڈنگ ٹپاؤ پالیسی نے ملک میں معاشی استحکام پیدا ہونے ہی نہیں دیا۔سرد جنگ کے دوران اور پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دور میں امریکا،یورپ،امیر عرب ممالک، جاپان وغیرہ سے بھاری امداد، گرانٹس ملتی رہیں، عالمی مالیاتی ادارے بھی ہر حکومت کو مالیاتی پیکیج فراہم کرتے رہے لیکن پاکستان کے پالیسی سازوں نے اس پیسے کو انفرااسٹرکچر کی تعمیر پر خرچ نہیں کیا۔
ایجوکیشن پر خرچ نہیں کیا گیا۔ گورنمنٹ سیکٹر میں انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کالجز اور یونیورسٹیز پر سرمایہ کاری کی گئی نہ ایسے نئے تعلیمی ادارے قائم کیے گئے۔یہی صورتحال میڈیکل کالجز کی ہے، صنعتکاری کے حوالے سے بھی ملک کے زمینی حقائق و جغرافیائی حقائق کو مدنظر رکھ کر پالیسی نہیں بنائی گئی۔جو صنعتیں لگانے کی اجازت دی گئی، انھیں بھی سرکاری خزانے سے سبسڈی دی گئی اور کئی کو اب دی جارہی ہے۔زرعی شعبے پر نظر دوڑائیں تو یہاں بھی ابتری،بدنظمی نظر آتی ہے۔
زرعی زمین کے تحفظ کے لیے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔چھوٹے قطعات اراضی کو مزید چھوٹا ہونے سے بچانے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا، زرعی اراضی کا ایک گزارہ یونٹ بنا کر چھوٹے قطعات کو مزید چھوٹا ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔
اسی طرح سبسڈائز صنعتکاری خزانے پر بوجھ ہے اور اس کا فائدہ صرف اس خاندان کو ہورہا ہے ،جو اس صنعت کا مالک ہے۔زرعی زمین کو ہاوسنگ سیکٹر کی وجہ سے نقصان ہوا جب کہ بعض صنعتوں نے بھی زرعی زمینوں کو خراب کیا، زیر زمین پانی کو زہرآلود کیا۔ بہرحال اب بھی آئی ایم ایف پاکستان کو بیل آوٹ کرنے کے تیار ہوگیا ہے جو اچھی بات ہے ۔
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے واضح کردیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ معاہدے کے نتیجے میں ملک کو فوری ایک ارب 17 کروڑ ڈالر کی رقم مل جائے گی۔آئی ایم ایف کے کمیونیکیشن ڈائریکٹر جیری رائس نے بتایا کہ یہ پروگرام کے ساتویں اور آٹھویں مشترکہ جائزے پر ایک معاہدہ ہے، جس کے نتیجے میں فوری طور پر پاکستان کو ایک ارب 17 کروڑ ڈالر ملیں گے۔
اس پروگرام کے تحت پاکستان کو آئی ایم ایف کی جانب سے ملنے والی مجموعی رقم تقریباً 4 ارب 20 کروڑ ڈالر تک پہنچ جائے گی۔قسط جاری کرنے کے ٹائم فریم کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ایگزیکٹو بورڈ کی میٹنگ اب سے 3 سے 6 ہفتوں کے درمیان ہونے کا امکان ہے۔جسکے بعد رقم دے دی جائے گی۔
ادھر ورلڈ بینک نے پاکستان کے زرعی شعبے میں کلائیمیٹ اسمارٹ ٹیکنالوجیز کو اپنانے کے لیے 20 کروڑ ڈالر کی فنانسنگ کی منظوری دے دی جس کا مقصد چھوٹے کاشتکاروں کی آمدن میں اضافہ، پانی کے بہتر استعمال، شدید موسم کا مقابلہ کرنے کے قابل بنانا ہے۔
ہفتہ کو جاری بیان کے مطابق ورلڈ بینک کے بورڈ آف ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے 20 کروڑ ڈالر فنانسنگ کی منظوری دی۔ پنجاب کا زرعی شعبہ پاکستانی معیشت کا مرکز ہے اور ٹوٹل پیداوار کا 73 فیصد یہاں سے حاصل ہوتا ہے۔
یہ امداد کمیونٹی اور گھریلو سطح پر کسانوں کو موسمیاتی اسمارٹ فارمنگ کے طریقوں اور ٹیکنالوجی کو اپنانے میں مدد دے گی جو فصلوں کی پیداوار بہتر بنانے اور پانی کے وسائل کو محفوظ رکھنے میں معاون ہو گی۔ پاکستان میں عالمی بینک کی کنٹری ڈائریکٹر ناجے بن حسین نے کہا ہے کہ حالیہ برسوں میں پاکستان کے زرعی شعبے کو پاکستان میں فصلوں کی پیداوار اور لائیو اسٹاک میں ہونے والے نقصانات، آبپاشی کے ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصان اور موسمیاتی تبدیلیوں خاص طور پر صوبہ پنجاب میں شدید خشک سالی کی وجہ سے خوراک کی قلت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
یہ منصوبہ پنجاب زرعی پالیسی 2018سے ہم آہنگ ہے جو پانی کے تحفظ کی کوششوں میں بڑے پیمانے پر توسیع، موسمیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں پائیداری اور اس شعبہ کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے میں مدد کے لیے نجی شعبہ کی شراکت کو فروغ دیتا ہے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ سب سے پہلے زراعت کو بچانے کی کوشش کی جائے،پنجاب کی زراعت پر پورے ملک کا انحصار ہے، اس انحصار کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے اپنے صوبوں میں کسان اور زراعت دوست پالیسیاں بنائیں۔ان صوبوں میں زمین انتہائی زرخیز ہے،کئی علاقے ایسے ہیں جہاں زمین کو ہموار کرکے زراعت کے قابل بنایا جاسکتا ہے۔غلہ بانی کو سائنسی بنیادوں پر استوار کیا جائے تو خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں غربت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔اسی طرح باغبانی پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
کسانوں کو اپنی اجناس فروخت کرنے کے لیے منڈی تک رسائی کا آسان طریقہ بنانے کی ضرورت ہے۔ہر گاؤں میں محکمہ خوراک و زراعت اپنا خریداری مرکزبنائے تاکہ کسان کوآڑھتیوں، مڈل مین اور پولیس اور دیگرسرکاری اہلکاروں کی دست برد سے بچایا جائے۔
خیبر پختونخوا میں پشاور ، صوابی ، چارسدہ ، مردان ، ڈیرہ اسماعیل خان ، بنوں اور کوہاٹ ایسے اضلاع ہیں جہاں کی زمینیں زراعت کے لیے سازگار ہیں جب کہ ہندکو ہزارہ بیلٹ ، چترال ، کوہستان وغیرہ گلہ بانی اور باغبانی کے لیے انتہائی سازگار ہیں۔
اگر وفاقی اور صوبائی حکومت توجہ دے تو خیبر پختونخوا گندم ، چاول ، گنے اور سبزیوں کی پیداوار میں خود کفیل ہوسکتا ہے اور بلوچستان کی ایسی ہی صورتحال ہے ۔اگر یہ دو صوبے زرعی اجناس، سبزیوں، گوشت اور دودھ میں خود کفیل ہوجائیں تو یہاں غربت کا خاتمہ ہوجائے گا اور پنجاب و سندھ پر دباؤ ختم ہوجائے گا بلکہ پاکستان زرعی اجناس ایکسپورٹ کرنے والے بڑے ممالک میں شامل ہوسکتا ہے۔
گزشتہ روز بھی وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے وزارت خزانہ میں وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات مریم اورنگزیب کے ہمراہ معاشی استحکام، عوامی خوشحالی اقتصادی جائزہ کے حوالے سے میڈیا بریفنگ دی ۔وزیرخزانہ کا کہنا ہے کہ اتحادی حکومت نے مشکل فیصلوں کے بعد ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا ہے اور ملک میں معاشی استحکام لانے میں کامیاب ہوئے ہیں اور اب عوامی خوشحالی کے لیے فیصلوں کا آغاز کرنے جا رہے ہیں۔
آیندہ سال گرمیوں میں لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی،زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آجائے گی،مہنگائی بھی موجودہ سطح پر نہیں رہے گی۔ وزیرخزانہ نے بتایا کہ ایک دوست ملک سے ہمیں چار ارب ڈالر کے ڈیپازٹ دوحصوں میں ملیں گے ،دوسرے دوست ملک سے ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی تیل کی سہولت ملے گی۔ ایک دوست ملک اسٹاک ایکسچینج میں ڈیڑھ سے دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔امید ہے کہ رواں سال ساڑھے تین ارب ڈالر ہمیں ایشیائی ترقیاتی بینک سے مل جائیں گے۔
ڈھائی ارب ڈالر ورلڈ بینک سے مل جائیں گے۔ 400 سے 500 ملین ڈالر ایشین انفرااسٹر کچر بینک سے بھی ملیں گے۔اس کے علاوہ اسلامک ڈویلپمنٹ بینک سے بھی شاید تھوڑی سی فنڈنگ بڑھ جائے۔مفتاح اسماعیل نے حکومت کے مشکل فیصلوں کی تائید پراتحادی پارٹیوں کا بھی شکریہ ادا کیا اورکہا ہم نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں عالمی سطح پر کمی کے بعد ایک ایک پائی عوام تک منتقل کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے ہیں اور آیندہ بھی تمام ثمرات عوام تک پہنچائیں گے۔
نان پروٹیکٹڈ توانائی صارفین کے ٹیرف پر نظر ثانی کے لیے نیپرا کو پٹیشن بھجوا دی ہے، حکومت پنجاب کے 100یونٹ بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو مفت بجلی فراہم کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ دیگر صوبے بھی اس کی تقلید کریں گے، پاکستان ریلوے اور پی آئی اے کے کرایوں میں کمی کا اعلان کردیا گیا ہے، اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کمی کے لیے پیر کو پرائس مانیٹرنگ کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔
ہم نے آئی ایم ایف کا پروگرام بحال کرایا،چینی بینکوں سے 2.3 ارب ڈالر کا قرض ری شیڈول کرایا گیا۔ نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی اور ان کی تربیت اور بلاسود قرضوں کی فراہمی کے لیے بھی اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ نوجوانوں کے لیے لیپ ٹاپ اسکیم اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تعلیم وتربیت کے لیے وظائف اور معاونت کے پروگرام رکھے گئے ہیں۔ہمارے اقدامات سے زراعت اور آئی ٹی سیکٹر کو ترقی ملے گی، برآمدات میں اضافہ ہو گا ۔ انشاء اﷲ ہم ٹیکس کلیکشن کے طے کردہ ہدف سے بھی زیادہ ٹیکس جمع کرکے دکھائیں گے۔ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اپنے ایک ٹویٹ میں بھی کہا ہے کہ حکومت '' میرا گھر اسکیم''کو نئی شکل دے رہی ہے جس میںکسی کا کوئی مالی نقصان نہیں ہوگا۔ ہم اگلے ہفتے اس حوالے سے درپیش مسائل حل کر لیں گے۔
پاکستان کا معاشی اور مالیاتی بحران اچانک پیدا نہیں ہوا بلکہ تمام حکومتوں کی ڈنگ ٹپاؤ پالیسی نے ملک میں معاشی استحکام پیدا ہونے ہی نہیں دیا۔سرد جنگ کے دوران اور پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دور میں امریکا،یورپ،امیر عرب ممالک، جاپان وغیرہ سے بھاری امداد، گرانٹس ملتی رہیں، عالمی مالیاتی ادارے بھی ہر حکومت کو مالیاتی پیکیج فراہم کرتے رہے لیکن پاکستان کے پالیسی سازوں نے اس پیسے کو انفرااسٹرکچر کی تعمیر پر خرچ نہیں کیا۔
ایجوکیشن پر خرچ نہیں کیا گیا۔ گورنمنٹ سیکٹر میں انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کالجز اور یونیورسٹیز پر سرمایہ کاری کی گئی نہ ایسے نئے تعلیمی ادارے قائم کیے گئے۔یہی صورتحال میڈیکل کالجز کی ہے، صنعتکاری کے حوالے سے بھی ملک کے زمینی حقائق و جغرافیائی حقائق کو مدنظر رکھ کر پالیسی نہیں بنائی گئی۔جو صنعتیں لگانے کی اجازت دی گئی، انھیں بھی سرکاری خزانے سے سبسڈی دی گئی اور کئی کو اب دی جارہی ہے۔زرعی شعبے پر نظر دوڑائیں تو یہاں بھی ابتری،بدنظمی نظر آتی ہے۔
زرعی زمین کے تحفظ کے لیے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔چھوٹے قطعات اراضی کو مزید چھوٹا ہونے سے بچانے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا، زرعی اراضی کا ایک گزارہ یونٹ بنا کر چھوٹے قطعات کو مزید چھوٹا ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔
اسی طرح سبسڈائز صنعتکاری خزانے پر بوجھ ہے اور اس کا فائدہ صرف اس خاندان کو ہورہا ہے ،جو اس صنعت کا مالک ہے۔زرعی زمین کو ہاوسنگ سیکٹر کی وجہ سے نقصان ہوا جب کہ بعض صنعتوں نے بھی زرعی زمینوں کو خراب کیا، زیر زمین پانی کو زہرآلود کیا۔ بہرحال اب بھی آئی ایم ایف پاکستان کو بیل آوٹ کرنے کے تیار ہوگیا ہے جو اچھی بات ہے ۔
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے واضح کردیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ معاہدے کے نتیجے میں ملک کو فوری ایک ارب 17 کروڑ ڈالر کی رقم مل جائے گی۔آئی ایم ایف کے کمیونیکیشن ڈائریکٹر جیری رائس نے بتایا کہ یہ پروگرام کے ساتویں اور آٹھویں مشترکہ جائزے پر ایک معاہدہ ہے، جس کے نتیجے میں فوری طور پر پاکستان کو ایک ارب 17 کروڑ ڈالر ملیں گے۔
اس پروگرام کے تحت پاکستان کو آئی ایم ایف کی جانب سے ملنے والی مجموعی رقم تقریباً 4 ارب 20 کروڑ ڈالر تک پہنچ جائے گی۔قسط جاری کرنے کے ٹائم فریم کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ایگزیکٹو بورڈ کی میٹنگ اب سے 3 سے 6 ہفتوں کے درمیان ہونے کا امکان ہے۔جسکے بعد رقم دے دی جائے گی۔
ادھر ورلڈ بینک نے پاکستان کے زرعی شعبے میں کلائیمیٹ اسمارٹ ٹیکنالوجیز کو اپنانے کے لیے 20 کروڑ ڈالر کی فنانسنگ کی منظوری دے دی جس کا مقصد چھوٹے کاشتکاروں کی آمدن میں اضافہ، پانی کے بہتر استعمال، شدید موسم کا مقابلہ کرنے کے قابل بنانا ہے۔
ہفتہ کو جاری بیان کے مطابق ورلڈ بینک کے بورڈ آف ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے 20 کروڑ ڈالر فنانسنگ کی منظوری دی۔ پنجاب کا زرعی شعبہ پاکستانی معیشت کا مرکز ہے اور ٹوٹل پیداوار کا 73 فیصد یہاں سے حاصل ہوتا ہے۔
یہ امداد کمیونٹی اور گھریلو سطح پر کسانوں کو موسمیاتی اسمارٹ فارمنگ کے طریقوں اور ٹیکنالوجی کو اپنانے میں مدد دے گی جو فصلوں کی پیداوار بہتر بنانے اور پانی کے وسائل کو محفوظ رکھنے میں معاون ہو گی۔ پاکستان میں عالمی بینک کی کنٹری ڈائریکٹر ناجے بن حسین نے کہا ہے کہ حالیہ برسوں میں پاکستان کے زرعی شعبے کو پاکستان میں فصلوں کی پیداوار اور لائیو اسٹاک میں ہونے والے نقصانات، آبپاشی کے ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصان اور موسمیاتی تبدیلیوں خاص طور پر صوبہ پنجاب میں شدید خشک سالی کی وجہ سے خوراک کی قلت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
یہ منصوبہ پنجاب زرعی پالیسی 2018سے ہم آہنگ ہے جو پانی کے تحفظ کی کوششوں میں بڑے پیمانے پر توسیع، موسمیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں پائیداری اور اس شعبہ کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے میں مدد کے لیے نجی شعبہ کی شراکت کو فروغ دیتا ہے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ سب سے پہلے زراعت کو بچانے کی کوشش کی جائے،پنجاب کی زراعت پر پورے ملک کا انحصار ہے، اس انحصار کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے اپنے صوبوں میں کسان اور زراعت دوست پالیسیاں بنائیں۔ان صوبوں میں زمین انتہائی زرخیز ہے،کئی علاقے ایسے ہیں جہاں زمین کو ہموار کرکے زراعت کے قابل بنایا جاسکتا ہے۔غلہ بانی کو سائنسی بنیادوں پر استوار کیا جائے تو خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں غربت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔اسی طرح باغبانی پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
کسانوں کو اپنی اجناس فروخت کرنے کے لیے منڈی تک رسائی کا آسان طریقہ بنانے کی ضرورت ہے۔ہر گاؤں میں محکمہ خوراک و زراعت اپنا خریداری مرکزبنائے تاکہ کسان کوآڑھتیوں، مڈل مین اور پولیس اور دیگرسرکاری اہلکاروں کی دست برد سے بچایا جائے۔
خیبر پختونخوا میں پشاور ، صوابی ، چارسدہ ، مردان ، ڈیرہ اسماعیل خان ، بنوں اور کوہاٹ ایسے اضلاع ہیں جہاں کی زمینیں زراعت کے لیے سازگار ہیں جب کہ ہندکو ہزارہ بیلٹ ، چترال ، کوہستان وغیرہ گلہ بانی اور باغبانی کے لیے انتہائی سازگار ہیں۔
اگر وفاقی اور صوبائی حکومت توجہ دے تو خیبر پختونخوا گندم ، چاول ، گنے اور سبزیوں کی پیداوار میں خود کفیل ہوسکتا ہے اور بلوچستان کی ایسی ہی صورتحال ہے ۔اگر یہ دو صوبے زرعی اجناس، سبزیوں، گوشت اور دودھ میں خود کفیل ہوجائیں تو یہاں غربت کا خاتمہ ہوجائے گا اور پنجاب و سندھ پر دباؤ ختم ہوجائے گا بلکہ پاکستان زرعی اجناس ایکسپورٹ کرنے والے بڑے ممالک میں شامل ہوسکتا ہے۔