سیاسی عدم استحکام کب تک

پونے چار سال چور ڈاکو اور کرپشن کرپشن کا واویلا جاری رہا جس کی وجہ سے ملک میں سیاسی عدم استحکام اب انتہا پرپہنچ چکا ہے

m_saeedarain@hotmail.com

پیپلز پارٹی کے بعد پی ٹی آئی حکومت کے آخری وقت کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ ہم نے خبردار کیا تھا کہ سیاسی عدم استحکام ملکی معیشت کو غیر مستحکم کردے گا۔ انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ملکی معیشت گزشتہ 17 سالوں کے مقابلے میں ترقی کر رہی تھی۔

شوکت ترین بہت جوشیلے وزیر خزانہ اور پاکستان کی تقدیر بدلنا چاہتے تھے جب سال 2021-22 کا آغاز ہوا تھا۔ شوکت ترین کے بقول اگر ہماری حکومت کو ختم نہ کیا جاتا تو ایسی تباہی کبھی نہ ہونی تھی جو موجودہ حکومت کی وجہ سے معیشت کی ہوچکی ہے۔

شوکت ترین پیپلز پارٹی کے دور میں بھی وزیر خزانہ رہے تھے، جس کے بعد 2013 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت آگئی تھی اور نواز شریف کے بعد شاہد خاقان عباسی، وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو لندن لے گئے تھے اور نواز شریف حکومت کے 50 مہینوں تک اسحاق ڈار بااختیار وزیر خزانہ رہے تھے جس کے بعد کچھ عرصہ مفتاح اسماعیل وزیر خزانہ رہے اور پی ٹی آئی کی حکومت میں اسد عمر، حماد اظہر، عبدالحفیظ شیخ کے بعد شوکت ترین کو وزیر خزانہ بنایا گیا تھا۔

اسحاق ڈار کی موجودگی میں مسلم لیگ (ن) نے عالمی بینک سے تعلق رکھنے والے عبدالحفیظ شیخ اور شوکت ترین کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی کبھی مسلم لیگ (ن) نے ضرورت ہی محسوس نہیں کی تھی۔

پی ٹی آئی کی حکومت نے 2021 میں حفیظ شیخ کے بعد شوکت ترین کو وزیر خزانہ بنایا تھا کیونکہ معیشت کے تجربہ کاروں اسد عمر اور حماد اظہر سے عمران خان مایوس ہوگئے تھے اور انھوں نے پیپلز پارٹی کے ادوار کے وزرائے خزانہ شیخ عبدالحفیظ اور ان کے بعد شوکت ترین پر اعتماد کیا تھا۔

عمران خان آئی ایم ایف جانا نہیں چاہتے تھے اور اسد عمر نے تاخیر سے آئی ایم ایف جانے کا فیصلہ کیا تھا جس کا نقصان بھی ہوا تھا اور حفیظ شیخ تک پی ٹی آئی حکومت میں معیشت سنبھل نہیں سکی تھی اور ڈالر مسلسل مہنگا اور روپے کی قدر کم ہوتی رہی تھی۔ عمران خان حکومت میں آئی ایم ایف سے آخری معاہدہ شوکت ترین نے کیا تھا جس کے لیے کہا جاتا ہے کہ اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے مسلسل کنٹرول میں دے دیا گیا تھا اور معاہدہ سخت شرائط پر مشتمل تھا۔


اتحادی حکومت میں مسلم لیگ (ن) کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے سوا تین مہینوں میں ملک میں مہنگائی کا 13 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے جس میں مہنگائی 21 فیصد ہوگئی اور بجلی 52 فیصد مہنگی ہوئی اور پٹرولیم مصنوعات میں ایک ماہ میں ایک سو روپے سے زیادہ اضافہ تین بار بے دردی کے ساتھ عوام دشمنی کے طور پر کیا گیا اور اپنی نااہلی کے بجائے اس کا ذمے دار آئی ایم ایف کی شرائط کو قرار دیا جا رہا ہے۔

عمران خان نے سیاست سے تعلق نہ رکھنے والے معیشت کے دو مشہور ماہرین کو وزیر خزانہ بنایا جن میں حفیظ شیخ خاموش ہیں اور شوکت ترین اب مکمل سیاسی بن کر بیان بازی کر رہے ہیں۔ انھیں چاہیے تھا کہ اس وقت وہ سیاست میں بیان بازی کے بجائے حکومت کو مفید معاشی مشورے ہی دے دیتے بلکہ پی ٹی آئی کے رہنما بن کر کہہ رہے ہیں کہ سیاسی عدم استحکام ملکی معیشت کو غیر مستحکم کر دے گا۔

شوکت ترین جانتے ہیں کہ ملک 2014 میں عمران خان کے طویل ترین دھرنے کے بعد سے سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ عمران خان نے 2013 میں اپنی شکست کو تسلیم نہیں کیا تھا اور سابق حکمرانوں کو چور، ڈاکو اور ملکی دولت لوٹنے کے مسلسل الزامات لگانا شروع کیے تھے جو ان کی حکومت میں بھی جاری رہے اور اقتدار سے برطرفی کے بعد وہ انتہا پر پہنچ چکے ہیں اور اب ریاستی اداروں پر بھی الزامات لگا رہے ہیں کہ انھوں نے میری حکومت بچانے میں مدد نہیں کی اور اب دو جولائی کے اسلام آباد جلسے میں اداروں کو پیغام دیا ہے کہ چوروں سے ملک کو بچاؤ کیونکہ طاقت ان کے پاس تھی کیوں اداروں نے چوروں کو ملک پر مسلط ہونے دیا۔ انھوں نے یہ بھی پوچھا کہ کرپشن سے لڑنے کا ٹھیکہ میں نے لے رکھا ہے۔

عمران خان نے کرپشن کے خلاف کامیاب بیانیہ بنایا تھا جس کے بعد سابق حکمرانوں کو پی ٹی آئی والے چور ڈاکو ہی کہتے آ رہے ہیں جب کہ کسی عدالت نے انھیں مجرم قرار دیا ہے اور نہ عمران خان اپنی حکومت میں ان کو سزا دلا سکے وہ صرف اپنے مخالفین پر کیس پہ کیس بناتے رہے مگر ان کے مشیر احتساب شہزاد اکبر کوئی ثبوت پیش نہ کرسکے۔

پونے چار سال چور ڈاکو اور کرپشن کرپشن کا واویلا جاری رہا جس کی وجہ سے ملک میں سیاسی عدم استحکام اب انتہا پر پہنچ چکا ہے جس کی مکمل ذمے داری پی ٹی آئی حکومت اور عمران خان پر عائد ہوتی ہے۔ عمران خان اپنی حکومت میں ایک بار بھی اپنے مخالفین کے ساتھ نہیں بیٹھے۔ انھوں نے کووڈ کے اہم مسئلے، معاشی بدحالی، نیب کے غلط اختیارات، انتخابی اصلاحات اور آئی ایم ایف سے تشویش ناک معاہدے پر بھی اپوزیشن کو اعتماد میں لیا نہ کبھی اے پی سی منعقد کی بلکہ وہ قومی سلامتی کے اجلاس میں بھی اپنے مخالف سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھنا گوارا نہیں کرتے تھے۔

جمہوریت کبھی اپوزیشن کے بغیر چل سکتی ہے نہ مستحکم ہو سکتی ہے۔ عمران خان اپوزیشن کے شور کے خوف سے پارلیمنٹ میں نہیں آتے تھے تو ملک میں سیاسی عدم استحکام کیوں ہوتا کیونکہ عمران خان نے جمہوری وزیر اعظم بننے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ اپنے سیاسی مخالفین کو زیر عتاب رکھا۔اب عمران خان اقتدار میں نہیں تب بھی وہ اپنے مخالفین سے بہت دور ہو چکے ہیں۔

وہ پہلے بھی دور تھے اور انھیں اپنا کیا ہوا بھگتنا پڑ رہا ہے۔ وہ مقدمات میں بھی ملوث کردیے گئے ہیں اور خود قومی اسمبلی چھوڑ چکے ہیں جس سے سیاسی عدم استحکام اب انتہا پر پہنچا دیا گیا ہے اور عمران خان اگر جمہوری رویہ اختیار کرلیں تب ہی ملک سے سیاسی عدم استحکام ختم ہو سکے گا۔
Load Next Story