پشاور ایک بار پھر پھولوں کا شہر بن سکتا ہے
عید پر پشاور میں صفائی کی صورتحال دیکھ کر بے ساختہ دل نے ڈبلیو ایس ایس پی کے حکام اور اہلکاروں کی محنت کو سراہا
MULTAN:
رویت ہلال کمیٹی کے سابق چیئرمین جناب مفتی منیب الرحمن نے ایک بار جب مسجد قاسم علی خان سے عید کا اعلان ہوا جب کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کو پورے ملک میں چاند طلوع ہونے کے شواہد نہیں ملے تھے تو ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ جب چاند چڑھتا ہے تو سب کو دکھائی دیتا ہے۔
اسی طرح جب حکومت یا انتظامیہ کوئی اچھا کام کرتی ہے تو وہ بھی سب کو پتہ چل جاتا ہے، اس کے لیے کسی سیلفی لینے اور ساتھ میں فوٹو گرافر گھمانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آج کل کے حالات میں جب کام کم اور سوشل میڈیا پر تشہیری مہم زیادہ ہوتی ہے، اس دور میں بھی پشاور کے ایک ادارے اور ایک آفیسر نے ذمے داریوں سے بڑھ کر خدمات انجام دی ہیں لیکن ان کی تشہیر اس طرح نہیں ہوئی جس طرح ایک ہوٹل پر انتظامیہ کے چھاپے یا ایک بازار کی خوبصورتی کے چرچے ہوتے رہتے ہیں۔
گزشتہ دنوں عید پر پشاور میں صفائی کی صورتحال دیکھ کر بے ساختہ دل نے ڈبلیو ایس ایس پی کے حکام اور اہلکاروں کی محنت کو سراہا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب سے ڈبلیو ایس ایس پی وجود میں آئی ہے شہر میں صفائی کا نظام بہتر ہو رہا ہے۔ شہریوں کو صفائی، پانی اور نکاسی آب کے مسائل بہتر بنانے کے لیے پرویز خٹک کی حکومت نے ڈبلیو ایس ایس پی کے نام سے ایک کمپنی قائم کی اور ایک اہل انجینئر جہانزیب خان مرحوم کو اس کا انچارج لگایا تو انھوں نے شبانہ روز محنت کرکے میونسپلٹی کے بکھرے ملازمین اور مشینوں کو یکجا کرکے شہر میں آب رسانی اور صفائی کے لیے کچھ نئی ترجیحات بنائیں، پھر ہم نے دیکھا کہ ڈبلیو ایس ایس پی کے اہلکار ایک مخصوص جیکٹ میں نظر آئے۔
وہ صفائی والے اہلکار جو مہینوں مہینوں غائب ہوتے تھے اپنی اپنی کام والی جگہ پر نظر آنا شروع ہو گئے۔ آہستہ آہستہ اس نئے ادارے نے اپنا مکمل کنٹرول حاصل کیا۔ اگرچہ جہانزیب خان اب ہم میں نہیں رہے لیکن ان کے لگائے پودے نے اس سال عیدالاضحی پر اپنی مہارت اور کام سے لگن کی ایک نئی مثال قائم کی۔ ایک ہی دن میں شہر سے تمام تر آلائشیں اٹھائی گئیں۔ بڑی سڑکیں تو عید کے دن بھی چمک رہی تھیں سوائے کچھ مخصوص مقامات پر جہاں ڈبلیو ایس ایس پی آلائشیں جمع کرنے کے بڑے بڑے مراکز قائم کیے تھے۔ سڑکیں تو سڑکیں اس بار گلیوں میں بھی صفائی دیکھنے کو ملی جس کی عام لوگوں نے بھی کافی تعریف کی۔
اب کی بار عوامی تعاون بھی بہترین تھا۔ پچھلے چند سالوں کی محنت رنگ لے آئی اور عوام کے عمومی رویے میں کافی بڑی تبدیلی نظر آئی۔ لوگوں نے قربانی کے بعد اپنی گلیاں، محلے اور سڑکیں صاف کرنے میں انتظامیہ کی بھرپور مدد کی، اگر یہ کہا جائے کہ انتظامیہ اور عوام کے مابین تعاون کا جو رشتہ ہونا چاہیے، وہ پہلی بار نظر آیا لیکن بدقسمتی سے بہتری کے اس عمل پر کسی نے توجہ نہیں دی حالانکہ ڈبلیو ایس ایس پی اور عوام دونوں تعریف کے مستحق تھے۔ اگر کچھ تعریف ہو جاتی تو دوسرے اداروں کو بھی پتہ چل جاتا کہ عوام کو اپنے ساتھ ملا کر کیسے اچھے نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
یہاں پر اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ انجینئر جہانزیب خان کے جانے کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے ڈبلیو ایس ایس پی میں سیاسی مداخلت بھی کی، 2018 کے انتخابات سے قبل پشاور کے شوکت علی کو اس ادارے کے بورڈ آف گورنرز کا چیئرمین بنایا گیا اور انھوں نے کافی بھرتیاں کیں جس کی وجہ سے انھیں عام انتخابات میں بھی فائدہ ہوا۔ ممبر قومی اسمبلی بننے کے بعد بھی شوکت علی کا اثر و رسوخ قائم رہا۔ خود میرے علاقے کے دو لوگوں کو جو شوکت علی کے قریب تھے ڈبلیو ایس ایس پی میں ملازمت ملی۔
بلدیاتی انتخابات میں پشاور شہر کی میئر سیٹ ہارنے کے بعد پی ٹی آئی نے اپنے شکست خوردہ امیدوار کو ڈبلیو ایس ایس پی کا چیئرمین نامزد کیا اور شوکت علی کو تبدیل کر دیا۔ سیاسی مداخلت کے باوجود اس ادارے نے اچھا کام کیا اگر یہ مداخلت بھی ختم ہو جائے اور ادارے کو سیاسی اثر سے آزاد کر دیا جائے تو مزید بہتری بھی آئے گی۔ اب آتے ہیں اس آفیسر کی جانب جس کا ذکر آغاز میں کیا گیا۔ یہ موصوف کوئی اور نہیں بلکہ پشاور شہر کے کمشنر ریاض محسود ہیں۔ میں نے ان کو پہلی بار اس وقت دیکھا جب وہ درہ آدم خیل کے اے پی اے تھے اور جسٹس جاوید نواز گنڈا پور کی عدالت میں پیش ہوئے۔
ریاض محسود اگرچہ پی ٹی آئی کے قریب ہیں لیکن ان کی انتظامی صلاحیتوں سے انکار ممکن نہیں۔ شہر سے غیر قانونی رکشہ لوڈرز کا معاملہ ہو یا شہر کی خوبصورتی، ریاض اس معاملے میں کافی حساس ہیں۔ جب وہ کمشنر بنے تو شہر میں ہر طرف ہیروئن پینے والے سڑکوں پر اپنا نشہ پورا کرتے نظر آتے تھے۔ ریاض نے وزیراعلیٰ محمود خان کو قائل کرکے ان ہیروئنچیوں کے خلاف تاریخ میں پہلی بار ایک منظم مہم کا آغاز کیا۔ انھوں نے پولیس کی مدد سے ہیروئن پینے والوں کی پکڑ دھکڑ شروع کی اور ان کے لیے شہر میں قریباً آٹھ مراکز قائم کرکے انھیں وہاں پر منتقل کر دیا اور ان کا باقاعدہ علاج شروع کر دیا۔
ان مراکز میں ان نشہ کرنے والوں کی باقاعدہ مانیٹرنگ کی جا رہی ہے۔ کمشنر ہفتے میں ایک بار ہر مرکز خود جاتے ہیں ان کی صحت، خوراک اور تفریح کے معاملات سے آگاہی حاصل کرتے ہیں۔ چند دنوں کے اندر شہر سے ہیروئن پینے والوں کی اکثریت غائب ہو گئی ہے۔
اب وہ ان مراکز میں نشے سے چھٹکارہ حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔ ان ہیروئنچیوں کے لیے ٹریننگ کا نظام بھی قائم کیا جا رہا ہے اور آئی ٹی ماہرین کی خدمات بھی حاصل کی جا رہی ہیں۔
اب ان کا منصوبہ ہے کہ بحالی مراکز سے فارغ ہونے کے بعد ان کے لیے نوکری کا بندوبست کیا جا سکے تاکہ یہ مفید شہری بن سکیں۔ ان نشیؤں کی بحالی کا یہ کام بہت پہلے اسی طرح منظم طریقے سے شروع ہونا چاہیے تھا، شاید آپ نے پشاور ہائی کورٹ کے سامنے اور سورے پل کے نیچے ان نشیؤں کے جمگٹھے نہیں دیکھے یا پھر شاید کسی نے یہ منظر نہیں دیکھا ہو گا کہ بوڑھے ماں باپ صبح، دوپہر یا شام کے وقت ان پٹریوں پر اپنے لخت جگروں کو ڈھونڈتے ہیں یا پھر جب ایک ماں اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ اپنے نشئی شوہر کی تلاش کے لیے ان پٹریوں میں اترتی ہو۔
میرا یہ روز کا راستہ ہے اور روز ایسے ہی منظر دکھائی دیتے ہیں۔ ریاض محسود نے ایک اچھے کام کی ابتداء کر دی ہے اب حکومت اور مخیر حضرات کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ ان نشے سے چھٹکارہ پانے والوں کے لیے چھوٹی چھوٹی ملازمتیں ڈھونڈ کر انھیں کام پر لگوا دیں تاکہ وہ پھر نشے کی طرف نہ جا سکیں اور اسی طرح حکومت عوام کو ریاض محسود کی بھکاریوں، غیر قانونی رکشہ لوڈرز اور اڈوں کے خلاف بھی اقدامات پر ان کا ساتھ دینا چاہیے تاکہ یہ شہر خوبصورت بن سکے۔
اب بھی ریاض محسود شہر میں ضلعی انتظامیہ کی مدد سے کیمرے لگانے کا پروگرام تیار کیے ہوئے ہیں کیونکہ سیف سٹی پروجیکٹ پی ٹی آئی کے دونوں اداروں میں بوجوہ شروع نہیں ہو سکا۔ کیمرے لگانے سے شہر کی اور شہریوں کی حفاظت کا کام آسان ہو گا۔ ڈبلیو ایس ایس پی اور ریاض محسود کے اٹھائے گئے اقدامات کو اگر سیاسی مداخلت سے بچایا جائے اور ان دونوں کو حکومتی اور عوامی سرپرستی مل جائے تو پشاور ایک بار پھر پھولوں کا شہر بن سکتا ہے۔