ویل ڈن ’’ن لیگ‘‘

حکمران جماعت بالخصوص مریم نواز نے دھاندلی کا شور مچانے کے بجائے نتائج تسلیم کرکے مثالی روایت قائم کی ہے


اداروں، الیکشن کمیشن نے جس شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا اسے آئندہ بھی جاری رہنا چاہیے۔ (فوٹو: فائل)

کل تک ہماری قومی کرکٹ ٹیم کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ''کچھ بھی ہوسکتا ہے''۔ یعنی ہم ساؤتھ افریقہ سے ورلڈ کپ کا اہم ترین میچ بھی جیت سکتے ہیں اور زمبابوے سے ہار بھی سکتے ہیں۔ مگر 17 جولائی 2022 کو ہونے والے ضمنی الیکشن نے یہ ثابت کردیا کہ ہمارے ہاں ہر معاملے میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ حتیٰ کہ ہمارے الیکشن بھی غیر جانبدار، صاف و شفاف، غیر متشدد ہوسکتے ہیں اورالیکشن میں وہ جماعت بھی شکست کھا سکتی ہے جو نہ صرف مرکز میں حکمران ہے بلکہ پنجاب میں بھی اسی کا طوطی بولتا ہے۔ اور ناقدین کے بقول اکثر اداروں کے سربراہ ان کے پرانے وفاداروں میں سے ہیں۔

اس سب کے باوجود مسلم لیگ ن کا ضمنی انتخابات میں شکست کھانا اور نہ صرف شکست کھانا بلکہ فراخدلی سے شکست تسلیم کرنے کو جس قدر سراہا جائے کم ہے۔ حکمران جماعت بالخصوص مریم نواز نے دھاندلی کا شور مچانے کے بجائے ایک ایسی روایت قائم کی ہے جس کی مثال گزشتہ 75 سال میں نہیں ملتی۔ حالانکہ بقول خواجہ سعد رفیق ہم چاہتے تو دھاندلی کا شور مچا سکتے تھے، لیکن ہم شکست تسلیم کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ ماضی قریب میں تحریک انصاف بھی حکمران ہوتے ہوئے کم و بیش 9 ضمنی الیکشن میں شکست کھا چکی ہے، لیکن ان الیکشنز اور موجودہ الیکشن میں فرق یہ ہے کہ ان سے کسی کی حکومت تبدیل ہونے کا خدشہ نہیں تھا۔

بہرحال اب اس سلسلے کو ختم ہونا چاہیے۔ ہارنے والے کو دھاندلی، دھاندلی کا راگ الاپنے، سڑکیں بلاک کرکے لوگوں کی زندگی اجیرن کرنے کے بجائے اعلیٰ ظرفی، اچھی تربیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فراخدلی سے شکدت تسلیم کرتے ہوئے اپنی اصلاح پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے اور ن لیگ نے اس کی ابتدا کرکے تاریخ میں سنہری حروف میں اپنا نام لکھوا لیا ہے۔ اس سلسلے کو جاری رہنا چاہیے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کے بقول اتوار کی شام تک الیکشن میں کامیاب ہونے والی جماعت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ان الیکشنز پر دھاندلی زدہ ہونے کا الزام لگاچکے ہیں۔ غور طلب امر یہ ہے کہ کیا جیت کے بعد بھی وہ اپنے اس الزام پر قائم ہیں؟

بہرحال ضمنی الیکشن سے تمام جماعتوں کو سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ کی شکست اس بات کی عکاسی ہے کہ عوام میں شعور بیدار ہوچکا ہے۔ عوام کی آنکھیں کھل چکی ہیں۔ لوگوں کے نزدیک بہترین اور محبوب وہی ہے جو خدمت کرے، جو مہنگائی کم کرے، جو 100 روپے بڑھا کر 20 روپے کم کرنے کی خوشخبری نہ سنائے، جو نوکریاں مہیا کرے، جو ان سے پورے ہاتھ سے مصافحہ کرے، جو حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں ہر حال میں ان کے ساتھ ہو۔

لوگوں نے مہنگائی، بھوک، افلاس، غربت، بیروزگاری کا بدلہ اب بیلٹ کے ذریعے لینا شروع کردیا ہے۔ اب حکومت بنانے والی جماعت کو عوام کی خدمت کرنا ہوگی۔ سہاروں پر حکومت کرنے کا دور ختم ہوچکا ہے۔ حکمران اگر عوام کی خدمت نہیں کریں گے تو وہ اقتدار کے مزے نہیں لے سکیں گے۔ حکومت بنانے والی جماعت کو 17 جولائی 2022 کو ذہن میں رکھتے ہوئے حقیقی عوامی خدمت کرنا ہوگی۔ غربت، بھوک، افلاس اور مہنگائی کے خاتمے پر توجہ مرکوز کرنا، وزیروں کے دن بدلنے کے بجائے عوام کے دن بدلنے کی مخلصانہ کوشش، آئندہ الیکشن کےلیے کمیشن، کک بیکس کے ذریعے پیسہ جمع کرنے کے بجائے عوام کے ٹھنڈے چولہے پھر سے گرم کرنے کی تدبیر کرنا ہوگی۔ وگرنہ یاد رکھیے بہترین اور منظم قسم کی الیکشن مہم کے باوجود آپ کو بری طرح شکست فاش ہوسکتی ہے۔ اور آخری بات شعور اور بیداری کا یہ سفر جاری رہنا چاہیے۔ بریانی کی پلیٹ پر ووٹ دینے کے بجائے اہل اور قابل افراد کو منتخب کرنے میں ہی ہماری بقا ہے۔

اس الیکشن کے دوران اداروں، الیکشن کمیشن نے جس شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا اسے آئندہ بھی جاری رہنا چاہیے، کیونکہ اسی میں پاکستان کی بقا ہے۔ اور یاد رکھیے پاکستان ہے تو ہم ہیں۔ ہماری عیاشیاں، ہماری خوشیاں، پروٹوکول ہیں۔ وگرنہ خدانخواستہ ہمیں سری لنکا بننے میں دیر نہیں لگے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں