مسلم لیگ ن کی شکست کی وجوہات

مسلم لیگ ن کے مشکل معاشی فیصلوں نے پارٹی کے گڑھ پنجاب میں اسے عبرتناک شکست سے دوچار کیا


ن لیگ کی شکست کی بنیادی وجہ مہنگائی، بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ (فوٹو: فائل)

PESHAWAR: لاہور کے فیلڈ جرنلسٹ پریس کلب کے علاوہ اکثر گڑھی شاہو کے ٹی اسٹال پر محفل جماتے ہیں۔ یہ بھی ایک معمول کی شب تھی، عید کے بعد آبائی علاقوں سے واپسی کے بعد صحافی احباب گڑھی شاہو میں چائے کی محفل جمائے بیٹھے تھے۔ تذکرہ لاہور اور پنجاب کی سیاست کا ہوا۔ ایک نوجوان صحافی نے دعویٰ کیا کہ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ کو عبرتناک شکست ہوگی۔ تمام سینئر صحافیوں نے نوجوان صحافی کی کلاس لینا شروع کی۔ اگلے روز پروگرام کی ریکارڈنگ کےلیے لاہور کے حلقوں کا دورہ کیا، جہاں عوام سے ملاقات ہوئی۔ اسی ملاقات اور عوامی سروے کے بعد نوجوان صحافی کے دعوے میں صداقت نظر آنے لگی۔

سوال یہ ہے کہ سینئر صحافیوں کے تجزیے غلط کیوں ہوئے؟ مسلم لیگ ن جو جیت کےلیے پراعتماد تھی اس نے فوری نتائج تسلیم کیوں کیے؟ مسلم لیگ ن کی شکست کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟ کیا عمران خان دوبارہ سے عوام میں مقبولیت حاصل کررہے ہیں؟ ان سوالات کا جواب اپریل سے جولائی تک ملکی سیاسی اور معاشی صورتحال میں ہے۔ ملک کے بیشتر صحافی اور تجزیہ نگار محض سیاست دانوں کے دعوؤں اور ماضی کی روایات پر انحصار کرتے رہے، انہوں نے فیلڈ میں جاکر عام آدمی کی نبض کا جائزہ نہیں لیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے تجزیے غلط ثابت ہوئے۔ کیونکہ میدان میں سب کچھ بدل چکا تھا۔ چیئرمین تحریک انصاف نے اقتدار سے علیحدگی کے فوری بعد عوام سے رجوع کیا۔ عوام کو یہ باور کرایا کہ انہیں سازش کے تحت نکالا گیا۔ انہوں نے الیکٹیبلز کے خلاف مہم چلائی۔ اپنے معاشی فیصلوں اور غلطیوں کا سارا ملبہ مخلوط حکومت پر ڈالنے کی کوشش کی اور وہ اس میں کامیاب ہوگئے۔

لاہور اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کی ناکامی کی چھ وجوہات ہیں۔ پہلی اور سب سے بنیادی وجہ اپریل سے جولائی تک ملک میں بڑھنے والی مہنگائی، بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ تھی۔ اتحادی حکومت عوام کو اس مہنگائی کی وجہ بتانے میں ناکامی رہی جبکہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے عوام کو اپنے بیانیے کے ذریعے یقین دلایا کہ مہنگائی کی وجہ مخلوط حکومت ہے اور ان کے دور حکومت میں تو سب بہترین چل رہا تھا۔ یعنی مسلم لیگ ن کے مشکل معاشی فیصلوں نے پارٹی کے گڑھ پنجاب میں اسے عبرتناک شکست سے دوچار کیا۔

مسلم لیگ ن کی شکست کی دوسری بڑی وجہ الیکٹیبلز یا پاکستان تحریک انصاف کے منحرف اراکین کو ٹکٹ دینا تھی۔ مسلم لیگ ن نے عدم اعتماد کے دوران ان منحرف اراکین کے ساتھ ٹکٹ دینے کا وعدہ کیا تھا اور اس وعدے کی تعمیل بھی۔ مگر نچلی سطح پر پارٹی کے نظریاتی ورکرز اور ووٹرز نے ان منحرف اراکین کو قبول نہیں کیا اور ن لیگ کے ووٹرز کی اکثریت گھروں سے ہی نہیں نکلی۔ لاہور کے حلقوں میں ووٹنگ ٹرن آؤٹ اس کی واضح مثال ہے۔

مسلم لیگ ن کی شکست کی تیسری بڑی وجہ ٹکٹ کی غیر منصفانہ تقسیم پر اہم افراد کا پارٹی چھوڑنا بھی ہے۔ مسلم لیگ ن کی شکست کی چوتھی بڑی وجہ اپریل میں عدم اعتماد کی صورت میں کی جانے والی تاریخی غلطی تھی، جس کی وجہ سے عوام کا اعتماد کھوجانے والی تحریک انصاف کو دوبارہ سے سانسیں ملیں۔ چیئرمین تحریک انصاف نے بھرپور انداز میں عوام سے رابطہ کیا۔ وہ نیا بیانیہ دینے میں کامیاب ہوئے۔ یعنی تحریک انصاف کا بیانیہ بھی ن لیگ کی شکست کی بڑی وجہ بنا۔ چھٹی اور ایک اور اہم وجہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اپنے ووٹرز کو نکالنا بھی ہے۔ کل سارا دن مختلف حلقوں میں مسلم لیگی کیمپس کی ویرانی سے ظاہر تھا کہ پنجاب میں ہوائیں بدل چکی ہیں۔

ان انتخابات کے دوران پاکستان تحریک انصاف ن لیگ سے زیادہ سیاسی دکھائی دی، جہاں اس نے ماضی کے بجائے اب کی بار اپنے ورکرز کی اکثریت کو ٹکٹس جاری کیے۔ وہیں انہوں نے الیکشن روایتی انداز کے بجائے سائنسی بنیادوں پر لڑا۔ لمحہ بہ لمحہ اپ ڈیٹس کےلیے خصوصی سیل قائم کیے۔ ورکرز کو پولنگ اسٹیشن تک پہنچانے کےلیے میسیجز اور واٹس ایپ گروپس کے علاوہ پارٹی کارکنان کا سہارا بھی لیا۔ عام کارکنان سے لے کر مرکزی اور صوبائی قیادت پولنگ اسٹینشنز اور حلقوں میں موجود رہی۔ کارکنان سے براہ راست رابطہ کرکے ووٹنگ کےلیے انہیں تیار کیا۔ مسلم لیگ ن کی جانب سے بھی اسی طریقہ کار کو استعمال کرنے کی کوشش کی گئی، وزرا نے استعفے بھی دیے مگر بہت دیگر ہوچکی تھی۔

پنجاب میں اب ایک بار پھر دنگل سجے گا، منڈی لگے گی یا صرف وعدوں سے ہی بیوپار ہوگا؟ بظاہر تو پرویز الہیٰ کے وزیر اعلیٰ بننے میں کوئی رکاوٹ نہیں مگر پنجاب میں شکست کا کلنک مٹانے کےلیے مسلم لیگ ن بھی ایڑی چوٹی کا زور لگائے گی۔ ان انتخابات سے اچھائی کے کئی پہلو بھی نکلے ہیں۔ یہ انتخابات پاکستانی تاریخ کے پہلے الیکشن تھے جنہیں شفاف قرار دیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ تاریخ میں پہلی بار ناکام ہونے والی سیاسی جماعت نے نتائج کو کھلے دل سے تسلیم کیا ہے۔ اسی طرح عوام نے الیکٹیبلز کی اکثریت کو مسترد کرکے مستقبل میں سیاسی جماعتوں کو بلیک میلنگ سے روکنے کا راستہ ہموار کردیا ہے۔ یعنی عوام ہی الیکٹیبلز کا راستہ روک سکتے ہیں۔ اس میں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کا ووٹر یقیناً مبارکباد کا مستحق ہے۔ مسلم لیگ ن نے پارٹی ٹکٹ کے حامل الیکٹیبلز کو ووٹ دینے سے انکار کرکے یقیناً بغاوت کی ابتدا کردی ہے۔ وفاداریاں تبدیل کرنے والے اس بار تو عوام نے مسترد کردیے ہیں مگر کیا مستقبل میں ایسے افراد کا مستقل راستہ روکا جاسکتا ہے؟

ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں عوام کی جانب سے فراہم کردہ بنیاد پر جمہوریت کی ایک مضبوط عمارت کھڑی کریں، سیاسی جماعتوں کو بلیک میل کرنے والے اور اشاروں پر وفاداریاں بدلنے والے سیاستدانوں کا راستہ روکیں۔ تبھی ووٹ کو عزت ملے گی اور تبھی ہی جمہوریت کو استحکام میسر آئے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔