سود کی لعنت اور اس کا خاتمہ

اسلامی بینکاری کے نظام کا آغاز انھیں کاوشوں کا ثمر ہے جو روز بروز زور پکڑ رہا ہے اور مقبول سے مقبول تر ہو رہا ہے

S_afarooqi@yahoo.com

QUETTA:
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہمارا وطن پاکستان مملکت خداداد ہے اور یہ محض حسن اتفاق نہیں کہ یہ ملک رمضان کے بابرکت مہینہ میں وجود میں آیا اور اس کی بنیاد کلمہ طیبہ ہے۔

اس حساب سے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہاں اسلامی شرعی نظام قائم ہوتا مگر افسوس صد افسوس نہ صرف اب تک ایسا نہیں ہوسکا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم اب تک گردش حالات کی گرفت میں ہیں۔ یہ صورتحال وقت گزرنے کے ساتھ بد سے بدتر ہورہی ہے اور ہم سب حیران و پریشان ہیں کہ ایسا کیوں ہورہا ہے اور ہم سے کہاں خطا اور غلطی سرزد ہوئی ہے۔

قانون کا تقاضہ ہے کہ حاکم وقت کے احکامات کی خلاف ورزی کرنے والے کو سزا دی جائے سو ہمارے ساتھ بھی جو ہو رہا ہے وہ حاکم اعلٰی اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کی سزا ہے۔ سچ پوچھیے تو اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ خصوصی رعایت اور نرمی کا برتاؤ کر رہا ہے ورنہ تو شاید ہمارا وجود ہی کب کا مٹ چکا ہوتا۔

بات سیدھی اور آسان ہے کہ ہمارے وطن عزیز میں اسلام کے نام لیوا تو سبھی ہیں لیکن کتنے لوگ ہیں جو اپنے رب کی صحیح معنوں میں پیروی کررہے ہیں جس میں عوام سے لے کر حکمرانوں تک سب کے سب شامل ہیں۔ کوئی مال و دولت کا پجاری ہے تو کوئی عہدے اور منصب کا طالب ہے تو کسی کو کرسی اقتدار درکار ہے۔ عام آدمی سے لے کر عمال حکومت کی غالب اکثریت خدا پرستی کو چھوڑ کر زر پرستی میں مصروف ہے۔

کون سا ایسا برا کام ہے جو اس اسلامی مملکت میں نہیں ہورہا جس میں بدکاری، زنا، عیاشی، رشوت خوری، شراب نوشی، بدعنوانی، اختیارات کا ناجائز استعمال ، ملکی خزانہ کی لوٹ مار، بے تحاشہ کرپشن ، کم ناپ تول، عہد شکنی، حرام کمائی ، ذخیرہ اندوزی، گراں فروشی، جسم فروشی اور ضمیر فروشی سے لے کر وہ تمام برائیاں شامل ہیں جو دنیا کی غیر اسلامی ریاستوں میں عام ہیں لیکن ہماری زبوں حالی کا بنیادی سبب اور سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ ہمارا معاشی نظام سود کی بنیاد پر قائم ہے جو ہمارا سب سے بڑا جرم ہے۔ اس اعتبار سے ہماری پوری معاشرت حرام کمائی پر منحصر ہے۔

اندرون ملک کاروبار ہو یا بیرونی ممالک کے ساتھ لین دین ہمارے ہر کام میں کسی نہ کسی طرح سود شامل ہے۔ پاکستان میں بھات بھات کے حکمراں آتے رہے اور کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اس جانب توجہ دی جائے البتہ اپنے دل میں خوف خدا رکھنے والے کچھ لوگوں نے یہ کوشش کی ہے کہ مروجہ سودی نظام ختم کرکے کوئی ایسا نظام لایا جائے جو سود کی لعنت اور نحوست سے پاک ہو۔ اسلامی بینکاری کے نظام کا آغاز انھیں کاوشوں کا ثمر ہے جو روز بروز زور پکڑ رہا ہے اور مقبول سے مقبول تر ہو رہا ہے۔

وطن عزیز میں خوف خدا رکھنے والے لوگوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے مگر ان کی آواز ابھی اتنی طاقتور نہیں ہے۔سودی نظام کا نتیجہ یہ ہے کہ آج پوری قوم بھکاری بنی ہوئی ہے اور حکومت کشکول لیے ہوئے عالمی ساہوکاروں کے دروازوں پر دستک دے رہی ہے جو اپنی من مانی شرائط پر قرض دے رہے ہیں جب کہ ہماری حالت یہ ہے کہ پچھلے قرضوں کے اوپر واجب سود کی ادائیگی کے لیے بھی ہمیں قرض مانگنا پڑتا ہے۔ انتہا یہ ہے کہ ہر نوزائیدہ بچہ اپنے سر پر قرض کی گٹھڑی اٹھائے ہوئے پیدا ہوتا ہے۔ پاکستانی قوم کے بچہ بچہ کا بال بال قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ بقول غالب:

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں


رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

سود نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا اور حالت یہ ہے کہ:

نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم

نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے

ہم دھوبی کے کتے ہیں جو گھر کا ہے نہ گھاٹ کا۔ قرآن و سنت نے سود کو سب سے برا عمل قرار دیا ہے۔ یہ شراب نوشی ، زنا اور خنزیر کھانے سے بھی زیادہ بڑا گناہ ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ اللہ تعالیٰ کے خلاف کھلا اعلان جنگ ہے۔

آپ خودی اندازہ کیجیے کہ سودی کاروبار اور لین دین کرنے والوں کا انجام کیا ہونا چاہیے سو جن معاشروں میں سود کی لعنت موجود ہے وہاں تباہی اور بربادی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ سچ پوچھیے تو ہماری زبوں حالی کا سب سے بڑا سبب یہی سودی نظام ہے۔ یہی سارے فساد کی جڑ ہے اور جب تک یہ جڑ اکھاڑی نہ جائے گی اس وقت تک ہماری حالت کے سدھرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

آج ہمارے ملک کی یہ حالت ہے کہ ہماری معیشت دیوالیہ ہونے سے بال بال بچی ہے۔ اس سارے بگاڑ کی بنیادی وجہ سود ہی ہے۔ یقین کیجیے کہ جب تک من حیث القوم ہم سود کی لعنت کے خلاف آواز بلند نہیں کریں گے اور اس کے خلاف عملی قدم نہیں اٹھائیں گے اس وقت تک نہ ہمارے ہاں خیر ہوگی اور نہ برکت۔ صاف بات یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے فرامین اور احکامات کی صریحاً خلاف ورزی کرنے والا کبھی بھی آسودہ حال نہیں ہو سکتا۔

یہ بات اطمینان بخش ہے کہ وفاقی شرعی عدالت نے انتہائی جرات مندی کا ثبوت دیتے ہوئے سود کے خاتمہ کا فیصلہ کیا ہے۔ انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایک لابی ایسی بھی ہے جو اپنے مفادات کی خاطر سودی نظام کے خاتمہ کے خلاف منصوبہ بندی کر رہی ہے اور اس لعنت کے خاتمہ کی راہ میں روڑے اٹکا رہی ہے اور عدالتی سطح پر نئی نئی تاویلیں پیش کر رہی ہے۔ انشاء اللہ وہ دن دور نہیں جب ہمیں سود کی لعنت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھٹکارا حاصل ہوجائے گا اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے خوشحالی آئے گی۔
Load Next Story