ایک اور سرد جنگ

افغانستان کی جنگ اور عراق سے واپسی جیسے مہنگے سودوں نے امریکی معیشت کو تباہی کے کنارے لاکھڑا کیا ہے

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

اس وقت دو انتہائی اہم اور دوررس مضمرات کی خبریں ہمارے سامنے ہیں۔

ایک خبر کے مطابق چین کے وزیر دفاع لیانگ سری لنکا کے دورے کے بعد بھارت کا چار روزہ دورہ کررہے ہیں۔ یہ آٹھ سال بعد چین کے وزیر دفاع کا بھارت کا پہلا دورہ ہے۔

خبر میں بتایا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں بڑی طاقتوں کے اثر و نفوذ کی جو جدوجہد ہورہی ہے، چین کے وزیر دفاع کا یہ دورہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ چینی وزیر دفاع نے بھارت آنے سے پہلے بنگلہ دیش اور سری لنکا کا دورہ کیا تھا اور بھارت کو اس حوالے سے یہ تشویش لاحق ہے کہ بنگلہ دیش اور سری لنکا اس کے حلقۂ اثر میں شامل ہیں۔

اس پس منظر میں چائنیز وزیر دفاع کا ان دو ملکوں کا دورہ بھارتی حکمرانوں کے لیے باعثِ تشویش ہوسکتا ہے، لیکن ان دو ملکوں کے دورے کے بعد چینی وزیر دفاع کا بھارتی دورہ اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ نوگو ایریاز میں اپنے اثر و رسوخ بڑھانے کے بارے میں ایک دوسرے کے شکوک اور شکایتوں کے ازالے کی کوشش کی جائے گی۔

دوسری انتہائی اہم خبر یہ ہے کہ ہمارے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی اسی ماہ روس کا سرکاری دورہ کرنے والے ہیں۔ یہ دورہ کئی اعتبار سے انتہائی اہم ہے۔ اوّل یہ کہ پاکستان کی تاریخ میں کسی آرمی چیف کا یہ پہلا دورۂ روس ہوگا، پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے اگرچہ کہ 2003 میں روس کا دورہ کیا تھا لیکن موصوف نے یہ دورہ بہ حیثیت صدر مملکت کیا تھا۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ نیٹو کمانڈر جنرل ایلن کا حالیہ دورہ اس عذر کے ساتھ ملتوی کردیا گیا تھا کہ ان کے طیارے میں ''اچانک کوئی ٹیکنیکل خرابی'' پیدا ہوگئی تھی اور اس طیارے سے سفر کرنا ممکن نہ تھا۔

اس حوالے سے یہ خبر بھی اپنے اندر گہرے مضمرات رکھتی ہے کہ روس کے صدر پیوٹن اکتوبر میں پاکستان کا سرکاری دورہ کرنے والے ہیں اور اس دورے کی تیاری کے سلسلے میں روس کا 30 ارکان پر مشتمل وزارتی ڈیلی گیشن پاکستان کا دورہ کررہا ہے۔ ادھر امریکی وزیر خارجہ کا ارشاد ہے کہ امریکا حقانی نیٹ ورک کو دہشت گرد ڈیکلیئر کررہا ہے، جس کے بعد پیدا ہونے والے حالات کا اندازہ اس لیے مشکل نہیں کہ پاکستانی حکومت پر حقانی نیٹ ورک کی سرپرستی کا تسلسل سے الزام لگایا جارہا ہے۔

افغانستان کی جنگ اور عراق سے واپسی جیسے مہنگے سودوں نے امریکی معیشت کو تباہی کے کنارے لاکھڑا کیا ہے۔ وہ اب زیادہ دیر یہ مہنگی جنگ شاید جاری نہیں رکھ سکتا۔ اوباما نے اس تناظر میں 2014 تک افغانستان سے انخلاء کا اعلان تو کیا ہے لیکن اطلاعات کے مطابق امریکا کی سیاسی اور فوجی قیادت میں اس بے نتیجہ انخلاء پر اختلاف ہے۔


غالباً اسی وجہ سے امریکی ترجمانوں کی طرف سے یہ اعلانات آتے رہے ہیں کہ امریکا 2014 کے بعد بھی افغانستان میں اپنی کچھ باقیات باقی رکھنا چاہتا ہے۔ افغانستان میں پچھلے دنوں ایک خطرناک صورتِ حال یہ پیدا ہوئی ہے کہ امریکا کی تشکیل کردہ اور تربیت یافتہ افغان نیشنل آرمی کے مجاہدین نے نیٹو کی فوج پر حملے کرکے انھیں جانی نقصان پہنچایا ہے۔

اس نئے رجحان نے امریکی حکمرانی کی سٹی گم کردی ہے اور انھوں نے ان 27 ہزار افغان فوجیوں کی تربیت کا کام روک دیا ہے جو افغانستان کی نیشنل آرمی کا حصّہ بننے والے تھے۔ معلوم ہوا اب ان کی مکمل چھان بین کے بعد ان کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا۔

پاکستانی حکمرانوں کو یہ شکایت ہے کہ امریکا نے ان کی سعادت مندانہ خدمات کا وہ معاوضہ نہیں دیا، جس کے وہ حق دار تھے، پھر بالائے ستم یہ کہ ڈرون حملوں کے ذریعے وہ ایک طرف ہماری خودمختاری اور آزادی کو تہس نہس کررہا ہے۔ دوسرے افغانستان کے مستقبل کو بھارت کے ہاتھوں میں سونپنے کی تیاری کررہا ہے۔ یہ وہ پس منظر ہے جس نے ہماری سیاسی اور فوجی قیادت کو روس سے اسٹرٹیجک رشتے استوار کرنے پر مجبور کردیا ہے۔

زوجی مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں یہ 90 ڈگری کی تبدیلی افغانستان ہی کو نہیں بلکہ اس حوالے سے خطے کو ایک نئے میدان جنگ میں بدل دے گی اور یہ خطہ ایک بار اس خصوصیت کے ساتھ سیاسی اور فوجی محاذ آرائی کا مرکز بن جائے گا، جس میں امریکا کا 65 سالہ سیاسی تابعدار پاکستان شاید روس کے ساتھ کھڑا نظر آئے۔ اس منظرنامے میں بھارت اور چین کہاں کھڑے ملیں گے، یہی فیصلہ کن عنصر ہوگا۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا جن دو بلاکوں میں تقسیم ہو کر ایک طویل سرد جنگ کے اندھیروں میں غرق ہوگئی تھی۔ یہ اپنی اصل میں دو نظریوں کی جنگ تھی چونکہ سوشلسٹ بلاک اس جنگ میں سرمایہ داری کے حریف کے طور پر شریک تھا۔

جس کی وجہ سے دنیا کے بھوکے ننگے اربوں انسانوں کی ہمدردیاں سوشلسٹ بلاک کے ساتھ تھیں لیکن بیسویں صدی کی آخری دہائی میں جب سوشلسٹ بلاک تحلیل ہوگیا اور سوشلسٹ ملکوں نے سرمایہ دارانہ نظام کا چولا اوڑھ لیا تو اب یہ ممکنہ سردِ جنگ نظریاتی نہیں بلکہ دو سرمایہ دار طاقتوں کے درمیان علاقوں کو ہتھیانے کی جنگ ہوگی، جس میں دنیا کا حکمران طبقہ تو کسی بڑی طاقت کا دم چھلا بن سکتا ہے لیکن سیکڑوں برسوں سے زندگی کے عذابوں میں گرفتار سات ارب انسانوں کو اس ممکنہ نئی سرد یا گرم جنگ سے کیا فائدہ حاصل ہوسکتا ہے؟

سرمایہ دارانہ نظام نے جس قوم پرستی اور قومی مفادات کے کلچر کو مستحکم کیا ہے۔ یہ پرفریب کلچر اصل میں بالادست طبقات کے مفادات کا کلچر ہے لیکن انتہائی عیارانہ پروپیگنڈے کے ذریعے اس طبقاتی مفادات کے کلچر کو عوام کے دین و ایمان اور حب الوطنی کا کلچر بنا کر اس کی حفاظت کی ذمے داری ان ہی غریب انسانوں کے کندھوں پر ڈال دی گئی، جن کے کندھے غربت، بے کاری، بھوک، بیماری کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے جھک گئے ہیں۔

آنے والے دنوں میں اس خطے کے عوام کہاں کھڑے ہوں گے، حکمران طبقات کہاں کھڑے ہوں گے۔ یہ منظرنامہ زیادہ دور نہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ممکنہ سردِ جنگ کو روکنے کے لیے جو ماضی کی سرد جنگ سے یکسر مختلف ہوگی، دنیا بھر کے اہل دانش، سول سوسائٹیاں، ترقی پسند طاقتیں اپنے لیے کسی مثبت کردار کا تعین کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں؟ کیا مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کو ختم کرنے پر متفق دنیا اس نئے منظرنامے میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے متحدہ جدوجہد کرے گی یا ایک بار پھر سیاسی، اقتصادی اور قومی مفادات کے گرداب میں پھنس کر دنیا کو جہنم کے دروازے پر پہنچادے گی؟
Load Next Story