ہم کہیں آگے تک جا سکتے تھے
ویزے کی سہولتوں میں نرمی‘ جو بلاشبہ بہت محدود ہے‘ پھر بھی یہ بہت مثبت پیشرفت ہے
جب پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر تجویز کرتی ہیں کہ وہ کشمیر کو ایک ''دوسرے زاویے'' سے دیکھنے پر آمادہ ہیں تا کہ اس چبھتے ہوئے پیچیدہ مسئلے کا حل نکالا جا سکے اور بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا موضوع تبدیل کر دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام آباد نے اندرونی دبائو پر قابو پا لیا ہے۔
بے شک وزیر خارجہ حنا ربانی کے ریمارک کا بنیادی مطلب اس مسئلے کو دوبارہ زیر بحث لانا ہے جو کافی عرصے سے منجمد ہے تاہم ایک ''دوسرے زاویے'' کی تجویز ایک نئے اعتماد کی نشاندہی بھی کرتی ہے جو آصف علی زرداری کی حکومت نے اختیار کیا ہے۔ لہٰذا ویزے کی سہولتوں میں نرمی' جو بلاشبہ بہت محدود ہے' پھر بھی یہ بہت مثبت پیشرفت ہے۔
''بینظیر بھٹو نے لندن سے پاکستان روانگی سے چند روز قبل مجھ سے کہا تھا کہ ''میں سرحدوں کو کھولنے کا وعدہ کرتی ہوں'' مجھے یقین ہے اگر وہ زندہ رہتیں تو وہ اپنا وعدہ نبھانے کی پوری کوشش کرتیں لیکن بالآخر وہ انٹیلی جنس ایجنسیوں سے مات کھا جاتیں جو اب بھی سب سے زیادہ بااختیار ہیں۔
دونوں جانب کی انٹیلی جنس ایجنسیاں اس بات پر مصر ہیں کہ ویزے کا اجرا اسی پرانے ہتک آمیز انداز سے کیا جائے جس میں پولیس اسٹیشن پر رپورٹ کرنے کا خوفزدہ کرنے والا طریق کار بھی جاری رہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ شکوک و شبہات اور دشمنی کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
میرا خیال ہے کہ 65 سال سے زیادہ عمر کے سینئر سٹیزنز کو جنہیں آمد پر ویزہ دیا جائے گا، انھیں پولیس رپورٹ سے بھی مبرا سمجھا جائے گا اور 12 سال سے کم عمر کے بچوں سے بھی یہی سلوک ہو گا تاہم سب سے اہم نکتہ جو بھارتی وزیر خارجہ اور ان کی ہم منصب نے فراموش کر دیا، وہ یہ تھا کہ دہشتگردی پر کس طرح قابو پایا جائے جو دونوں ملکوں میں عروج پر ہے۔ اس سلسلے میں ایک دوسرے پر الزام تراشی کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ یہ ایک ایسا عفریت ہے جو کسی کے قابو میں نہیں۔
مختلف شعبوں میں تعاون کے لیے قائم کیے گئے مشترکہ کمیشن کو فعال بنانے کے بجائے دونوں ملکوں کو دہشتگردی پر قابو پانے کے طریقوں پر غور کرنا چاہیے تھا۔ یعنی صرف دہشتگردی پر ایک مشترکہ کمیشن کے قیام کی ضرورت ہے جس میں دونوں ملک اپنی انٹیلی جنس کو اکٹھا کر کے ایک دوسرے کی مدد کریں۔ اس سے سازشیں کرنے والوں کو ایک سخت پیغام دیا جا سکتا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ ابھی تک 26/11 کے ممبئی حملوں کے حوالے سے کسی مشترکہ مشینری کے قیام کی تجویز تک سامنے نہیں آئی۔ کرشنا چاہتے تھے کہ اس واقعے کے ذمے داروں کو فی الفور انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے تا کہ مہاراشٹر اور بھارت کے دیگر علاقوں کے عوام کی تسلی ہو سکے۔ حنا کی اپنی مجبوریاں تھیں جنھوں نے صرف یہ کہا ''ہم اختلافات پر کفایت نہیں کریں گے''۔ میرا خیال یہ ہے کہ ذمے داروں کو سخت سزا دی جائے، یہی بھارت کے لیے ''لٹمس ٹیسٹ''ہو گا کہ پاکستان واقعی اس معاملے میں سنجیدہ ہے۔
ایک مرتبہ پاکستان کا عدالتی کمیشن 26/11 کے گواہوں پر جرح کے لیے دوبارہ ممبئی آئے تو اس سے مقدمے کے فیصلے میں تیزی پیدا ہو سکتی ہے۔ اسلام آباد کو چاہیے کہ ذمے داروں کو جلد سزا دی جائے تاکہ بھارتی وزیرا
عظم منموہن سنگھ پاکستان کا دورہ کر سکیں کیونکہ انھوں نے اپنے دورے کو، صحیح یا غلط طور پر، اس بات سے مشروط کر رکھا ہے۔ یہ بات کرشنا ہی نے بتائی جب صدر زرداری نے انھیں پوچھا کہ بھارتی وزیراعظم اپنے آبائی گائوں کے دورے پر کب آئیں گے جو پاکستان میں جہلم کے نزدیک واقع ہے۔
بہرحال اس ملاقات کا مثبت پہلو منفی پہلو کی نسبت زیادہ نمایاں ہے۔ معاملات کہیں زیادہ تیزی سے حل ہو سکتے تھے اگر نئی دہلی نے زیادہ بہتر تیاری کر لی ہوتی۔ میری اطلاع یہ ہے کہ بھارتی دفتر خارجہ کو یہ علم ہی نہیں تھا کہ پاکستان ہمیں کس حد تک رعایتیں دینے پر تیار ہے۔ پاکستان کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے زرداری حکومت کو مکمل اختیار دیدیا تھا کیونکہ کیانی طالبان کے ساتھ یکسوئی سے لڑنا چاہتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ انھوں نے وزیرستان کے محاذ پر فوج تعینات کرنے کے لیے اسے بھارتی سرحد سے واپس بلا لیا ہے۔ بھارت کو اس بات کا احساس ہے کہ جنرل کیانی کا نئی دہلی کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا اعتماد ظاہر ہوتا ہے۔ یہ بہترین موقع تھا جس سے ہمیں بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے تھا تا کہ کم از کم سرکریک پر تو کوئی سمجھوتہ ہو جاتا جس پر اسلام آباد دستخط کرنے پر تیار تھا۔ ایک مسئلہ حل ہونے کے بعد دوسرے مسئلے کے حل کا دروازہ کھل جاتا۔
وزیر خارجہ کرشنا کا خیال ہے کہ بھارت نے خاصی کامیابی حاصل کر لی ہے۔ ''دو سال قبل جب ہم نے مرحلہ وار طریق کار کی تجویز پیش کی تھی تو پاکستان نے اسے مسترد کر دیا تھا۔ اب دونوں ملک اس پر رضا مند ہو گئے ہیں۔'' یہ بات کرشنا نے اپنے ساتھ جانے والے میڈیا کے بہت بڑے دستے کو الگ سے بریفنگ دیتے ہوئے بتائی۔ اور پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے بھی ان کی تردید نہیں کی بلکہ کہا کہ اب دونوں ملک مذاکرات کے ذریعے اتفاق رائے پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ تاریخ کے بکھیڑوں میں نہیں پڑنا چاہتیں کیونکہ وہ پیدا ہی 1971ء کی جنگ کے بعد ہوئی ہیں۔
وہ واقعی تاریخ کے ناروا بوجھ کو اتار پھینکنا چاہتی ہیں جو دونوں ملک گزشتہ چھ دہائیوں سے اٹھائے چلے آ رہے ہیں۔ دونوں وزرائے خارجہ کی ملاقات کی اصل کامیابی بزنس ویزا متعارف کرانا ہے۔ یہ کام بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ اگر کاروباری لوگوں کو پہلے دن سے ہی تجارت کی اجازت دیدی جاتی تو اب تک تعلقات معمول پر آ چکے ہوتے۔
بھارت کی بہت بڑی مارکیٹ اپنی مصنوعات کی فروخت کے لیے گاہکوں کی منتظر ہے جب کہ پاکستان، بھارت کی مارکیٹ تک رسائی کی خاطر ناقابل برداشت ٹیرف کی پابندیاں توڑنا چاہتا ہے۔ ایک اور اچھی پیشرفت دونوں ملکوں کے نوجوان گلوکاروں میں موسیقی کا مقابلہ ہے۔
لیکن بدقسمتی سے شیوسینا اور اس کا شراکت دار راج ٹھاکرے پاکستان مخالفت میں اس حد تک ڈوبے ہوئے ہیں کہ وہ اس مقابلے کو رکوانے کے لیے بھی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ تاہم ممبئی والوں کو یہ طرز عمل اختیار کرنا چاہیے کہ کتے بھونکتے رہتے ہیں مگر قافلے گزرتے رہتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے نوجوان گلوکاروں کے اس طرز عمل سے سیاستدانوں کو سبق سیکھنا چاہیے۔
جس بات کی مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ آخر دونوں وزرائے خارجہ اخبارات کے باہمی تبادلے پر اتفاق کرنے میں کیوں ناکام رہے حتیٰ کہ کتابوں کی ایک دوسرے ملک میں فروخت کا بھی کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ ان چیزوں سے اعتماد کے فقدان کا احساس ہوتا ہے۔ جب تک دونوں ملک شکوک و شبہات کی خلیج کو کم نہیں کرتے ویزوں میں نرمی کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
سب سے پہلے تو دونوں ملکوں کی اپنی نصابی کتابوں سے نفرت اور شکوک و شبہات پیدا کرنے والے مواد کو خارج کرنا چاہیے۔ دونوں وزرائے خارجہ کی ملاقات میں اس حوالے سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ اس کے نتائج کہیں زیادہ بہتر برآمد ہو سکتے تھے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)
بے شک وزیر خارجہ حنا ربانی کے ریمارک کا بنیادی مطلب اس مسئلے کو دوبارہ زیر بحث لانا ہے جو کافی عرصے سے منجمد ہے تاہم ایک ''دوسرے زاویے'' کی تجویز ایک نئے اعتماد کی نشاندہی بھی کرتی ہے جو آصف علی زرداری کی حکومت نے اختیار کیا ہے۔ لہٰذا ویزے کی سہولتوں میں نرمی' جو بلاشبہ بہت محدود ہے' پھر بھی یہ بہت مثبت پیشرفت ہے۔
''بینظیر بھٹو نے لندن سے پاکستان روانگی سے چند روز قبل مجھ سے کہا تھا کہ ''میں سرحدوں کو کھولنے کا وعدہ کرتی ہوں'' مجھے یقین ہے اگر وہ زندہ رہتیں تو وہ اپنا وعدہ نبھانے کی پوری کوشش کرتیں لیکن بالآخر وہ انٹیلی جنس ایجنسیوں سے مات کھا جاتیں جو اب بھی سب سے زیادہ بااختیار ہیں۔
دونوں جانب کی انٹیلی جنس ایجنسیاں اس بات پر مصر ہیں کہ ویزے کا اجرا اسی پرانے ہتک آمیز انداز سے کیا جائے جس میں پولیس اسٹیشن پر رپورٹ کرنے کا خوفزدہ کرنے والا طریق کار بھی جاری رہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ شکوک و شبہات اور دشمنی کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
میرا خیال ہے کہ 65 سال سے زیادہ عمر کے سینئر سٹیزنز کو جنہیں آمد پر ویزہ دیا جائے گا، انھیں پولیس رپورٹ سے بھی مبرا سمجھا جائے گا اور 12 سال سے کم عمر کے بچوں سے بھی یہی سلوک ہو گا تاہم سب سے اہم نکتہ جو بھارتی وزیر خارجہ اور ان کی ہم منصب نے فراموش کر دیا، وہ یہ تھا کہ دہشتگردی پر کس طرح قابو پایا جائے جو دونوں ملکوں میں عروج پر ہے۔ اس سلسلے میں ایک دوسرے پر الزام تراشی کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ یہ ایک ایسا عفریت ہے جو کسی کے قابو میں نہیں۔
مختلف شعبوں میں تعاون کے لیے قائم کیے گئے مشترکہ کمیشن کو فعال بنانے کے بجائے دونوں ملکوں کو دہشتگردی پر قابو پانے کے طریقوں پر غور کرنا چاہیے تھا۔ یعنی صرف دہشتگردی پر ایک مشترکہ کمیشن کے قیام کی ضرورت ہے جس میں دونوں ملک اپنی انٹیلی جنس کو اکٹھا کر کے ایک دوسرے کی مدد کریں۔ اس سے سازشیں کرنے والوں کو ایک سخت پیغام دیا جا سکتا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ ابھی تک 26/11 کے ممبئی حملوں کے حوالے سے کسی مشترکہ مشینری کے قیام کی تجویز تک سامنے نہیں آئی۔ کرشنا چاہتے تھے کہ اس واقعے کے ذمے داروں کو فی الفور انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے تا کہ مہاراشٹر اور بھارت کے دیگر علاقوں کے عوام کی تسلی ہو سکے۔ حنا کی اپنی مجبوریاں تھیں جنھوں نے صرف یہ کہا ''ہم اختلافات پر کفایت نہیں کریں گے''۔ میرا خیال یہ ہے کہ ذمے داروں کو سخت سزا دی جائے، یہی بھارت کے لیے ''لٹمس ٹیسٹ''ہو گا کہ پاکستان واقعی اس معاملے میں سنجیدہ ہے۔
ایک مرتبہ پاکستان کا عدالتی کمیشن 26/11 کے گواہوں پر جرح کے لیے دوبارہ ممبئی آئے تو اس سے مقدمے کے فیصلے میں تیزی پیدا ہو سکتی ہے۔ اسلام آباد کو چاہیے کہ ذمے داروں کو جلد سزا دی جائے تاکہ بھارتی وزیرا
عظم منموہن سنگھ پاکستان کا دورہ کر سکیں کیونکہ انھوں نے اپنے دورے کو، صحیح یا غلط طور پر، اس بات سے مشروط کر رکھا ہے۔ یہ بات کرشنا ہی نے بتائی جب صدر زرداری نے انھیں پوچھا کہ بھارتی وزیراعظم اپنے آبائی گائوں کے دورے پر کب آئیں گے جو پاکستان میں جہلم کے نزدیک واقع ہے۔
بہرحال اس ملاقات کا مثبت پہلو منفی پہلو کی نسبت زیادہ نمایاں ہے۔ معاملات کہیں زیادہ تیزی سے حل ہو سکتے تھے اگر نئی دہلی نے زیادہ بہتر تیاری کر لی ہوتی۔ میری اطلاع یہ ہے کہ بھارتی دفتر خارجہ کو یہ علم ہی نہیں تھا کہ پاکستان ہمیں کس حد تک رعایتیں دینے پر تیار ہے۔ پاکستان کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے زرداری حکومت کو مکمل اختیار دیدیا تھا کیونکہ کیانی طالبان کے ساتھ یکسوئی سے لڑنا چاہتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ انھوں نے وزیرستان کے محاذ پر فوج تعینات کرنے کے لیے اسے بھارتی سرحد سے واپس بلا لیا ہے۔ بھارت کو اس بات کا احساس ہے کہ جنرل کیانی کا نئی دہلی کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا اعتماد ظاہر ہوتا ہے۔ یہ بہترین موقع تھا جس سے ہمیں بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے تھا تا کہ کم از کم سرکریک پر تو کوئی سمجھوتہ ہو جاتا جس پر اسلام آباد دستخط کرنے پر تیار تھا۔ ایک مسئلہ حل ہونے کے بعد دوسرے مسئلے کے حل کا دروازہ کھل جاتا۔
وزیر خارجہ کرشنا کا خیال ہے کہ بھارت نے خاصی کامیابی حاصل کر لی ہے۔ ''دو سال قبل جب ہم نے مرحلہ وار طریق کار کی تجویز پیش کی تھی تو پاکستان نے اسے مسترد کر دیا تھا۔ اب دونوں ملک اس پر رضا مند ہو گئے ہیں۔'' یہ بات کرشنا نے اپنے ساتھ جانے والے میڈیا کے بہت بڑے دستے کو الگ سے بریفنگ دیتے ہوئے بتائی۔ اور پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے بھی ان کی تردید نہیں کی بلکہ کہا کہ اب دونوں ملک مذاکرات کے ذریعے اتفاق رائے پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ تاریخ کے بکھیڑوں میں نہیں پڑنا چاہتیں کیونکہ وہ پیدا ہی 1971ء کی جنگ کے بعد ہوئی ہیں۔
وہ واقعی تاریخ کے ناروا بوجھ کو اتار پھینکنا چاہتی ہیں جو دونوں ملک گزشتہ چھ دہائیوں سے اٹھائے چلے آ رہے ہیں۔ دونوں وزرائے خارجہ کی ملاقات کی اصل کامیابی بزنس ویزا متعارف کرانا ہے۔ یہ کام بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ اگر کاروباری لوگوں کو پہلے دن سے ہی تجارت کی اجازت دیدی جاتی تو اب تک تعلقات معمول پر آ چکے ہوتے۔
بھارت کی بہت بڑی مارکیٹ اپنی مصنوعات کی فروخت کے لیے گاہکوں کی منتظر ہے جب کہ پاکستان، بھارت کی مارکیٹ تک رسائی کی خاطر ناقابل برداشت ٹیرف کی پابندیاں توڑنا چاہتا ہے۔ ایک اور اچھی پیشرفت دونوں ملکوں کے نوجوان گلوکاروں میں موسیقی کا مقابلہ ہے۔
لیکن بدقسمتی سے شیوسینا اور اس کا شراکت دار راج ٹھاکرے پاکستان مخالفت میں اس حد تک ڈوبے ہوئے ہیں کہ وہ اس مقابلے کو رکوانے کے لیے بھی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ تاہم ممبئی والوں کو یہ طرز عمل اختیار کرنا چاہیے کہ کتے بھونکتے رہتے ہیں مگر قافلے گزرتے رہتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے نوجوان گلوکاروں کے اس طرز عمل سے سیاستدانوں کو سبق سیکھنا چاہیے۔
جس بات کی مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ آخر دونوں وزرائے خارجہ اخبارات کے باہمی تبادلے پر اتفاق کرنے میں کیوں ناکام رہے حتیٰ کہ کتابوں کی ایک دوسرے ملک میں فروخت کا بھی کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ ان چیزوں سے اعتماد کے فقدان کا احساس ہوتا ہے۔ جب تک دونوں ملک شکوک و شبہات کی خلیج کو کم نہیں کرتے ویزوں میں نرمی کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
سب سے پہلے تو دونوں ملکوں کی اپنی نصابی کتابوں سے نفرت اور شکوک و شبہات پیدا کرنے والے مواد کو خارج کرنا چاہیے۔ دونوں وزرائے خارجہ کی ملاقات میں اس حوالے سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ اس کے نتائج کہیں زیادہ بہتر برآمد ہو سکتے تھے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)