جیکب آباد کا تھیلیسمیا سینٹر

تھیلیسمیا کے مریض بچوں اور ان کے والدین نے جیکب آباد کے سینٹر کی بحالی کے لیے احتجاج کیا

tauceeph@gmail.com

WASHINGTON:
جیکب آباد دنیا بھر میں اپنے گرم موسم کی بنا پر شہرت رکھتا ہے۔ یہاں گرمیوں میں پارہ 52 سینٹی گریڈ کو عبور کر جاتا ہے۔ جیکب آباد سندھ اور بلوچستان کے سنگم پر قائم ہے۔ اس کا قدیم نام کانجھر یا خان گڑھ تھا۔

انگریز جنرل جان جیکب کا نام سندھ اور بلوچستان میں انگریز راج قائم کرنے کے حوالہ سے تاریخ کی کتابوں میں درج ہے۔ جنرل جیکب کی حکمت عملی کی بنا پر سندھ میں انگریز حکومت مضبوط ہوئی اور بلوچستان کے سردار انگریزوں کی عملدرآمدی کو قبول کرنے پر تیار ہوئے۔ اس خطہ کی تاریخ بڑی قدیم ہے۔ ایران اور افغانستان سے آنے والے حملہ آور بلوچستان کی سرزمین کو عبور کرتے اور جیکب آباد کے راستہ سندھ میں داخل ہو جاتے۔

جدید تاریخ کے مطابق جنرل جیکب نے 1847 میں اس علاقہ پر قبضہ کیا اور پھر کانجھر کا نام جنرل جیکب کے نام پر رکھا گیا۔ جنرل جیکب نے اس شہر کو جدید خطوط پر استوار کیا۔ جنرل جیکب کا 1858 میں انتقال ہوا۔ اس کی قبر شہر میں ہی بنائی گئی اور وکٹوریا ٹاور تعمیر ہوا۔

وقت گزرنے کے ساتھ جنرل جیکب کی قبر منت مانگنے والوں کے لیے اہمیت اختیار کرگئی اور کچھ لوگ اس قبر پر منت مانگنے لگے۔ قیام پاکستان سے پہلے جیکب آباد سیاسی سرگرمیوں کا مرکز رہا۔

اس شہر میں بڑے بلوچ سرداروں کے گھر آج بھی قائم ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے کانگریس خاصی مقبول سمجھی جاتی تھی۔ جیکب آباد ہمیشہ ترقی پسند قوتوں کا مرکز رہا۔ قیام پاکستان سے پہلے جیکب آباد میں مسلمانوں کے علاوہ ہندوؤں کی بڑی تعداد بھی آباد تھی۔ جیکب آباد فرقہ وارانہ یکجہتی کے حوالہ سے معروف تھا۔ ہندوستان کے بٹوارے کے بعد جب پاکستان وجود میں آیا تو جیکب آباد سے ہندوؤں نے ہجرت نہیں کی تھی۔ 70 کی دہائی کے بعد حالات سے مجبور ہو کر ہندوؤں کے کئی خاندان اپنا آبائی وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔

قیام پاکستان کے بعد جیکب آباد کی ترقی کا نیا دور شروع ہوا۔ 2017 میں ہونے والی مردم شماری کے نتائج کے مطابق جیکب آباد کی کل آبادی 741910 ہے۔ ان میں مردوں کی تعداد 382272 ہے۔ جیکب آباد کا بیشتر حصہ دیہی علاقہ پر مشتمل ہے۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق جیکب آباد میں شہری آبادی کا تناسب 17 فیصد ہے۔ جیکب آباد میں قبائلی کلچر کے اثرات اب بھی پائے جاتے ہیں اور تعلیم عام ہونے اور روزگار کی بہتر سہولتوں کی بنا پر متوسط طبقہ کا سائز بڑھا ہے۔

جیکب آباد پانچ تعلقوں پر مشتمل ہے جن میں گڑھی خیرو، جیکب آباد، تھل، کندھ کوٹ اور کشمور شامل ہیں۔ جیکب آباد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ علاقہ روایتی طور پر پانی کی کمی کا شکار رہا مگر جدید نہری نظام کے تعمیر ہونے کے بعد زراعت اہم شعبہ بن گئی۔

زراعت کے علاوہ غلہ بانی اور جانوروں کے فارمز بھی جیکب آباد میں روزگار کا بڑا ذریعہ ہیں۔ جیکب آباد اور اطراف کے علاقوں میں روزگار کی سہولتوں کی کمی کی بنا پر تعلیم یافتہ نوجوان کراچی کے علاوہ خلیجی ممالک سعودی عرب، یورپ اور امریکا کے شہروں میں ہجرت کر رہے ہیں۔ سندھ کے دیگر شہروں کی طرح جیکب آباد میں بھی معمولی ترقی ہوئی۔


جیکب آباد میں اسکول اور کالج قائم ہوئے۔ خواتین میں تعلیم کے رجحان کو تقویت دینے کے لیے اسکولوں اور کالجوں کا قیام عمل میں آیا۔ اس وقت جیکب آباد میں سینٹ جان اسکول، جیکب پبلک اسکول اور وکٹر پبلک ہائی اسکول وغیرہ نجی شعبہ میں طلبہ کو تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں۔ حکومت نے کئی اسکول قائم کیے تھے۔ اب حکومت سندھ کی کوششوں سے آئی بی اے کمیونٹی کالج کا قیام عمل میں آیا۔ مہران یونیورسٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کا ایک کیمپس جیکب آباد میں قائم ہوا۔ جیکب آباد سندھ اور بلوچستان کی سرحد پر واقع ہے۔

پھر جنوبی پنجاب کا پسماندہ ضلع ڈیرہ غازی خان بھی جیکب آباد کے قریب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے شہروں سبی، کوئٹہ، جعفر آباد، مچھ، نصیر آباد اور اطراف کے علاقوں سے مریض علاج کے لیے جیکب آباد آتے ہیں۔ اب حکومت سندھ نے جیکب آباد انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس قائم کیا ہے۔ یہاں ایک سول اسپتال بھی قائم ہے مگر طبی سہولتوں کی کمی کی بنا پر صورتحال زیادہ بہتر نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جیکب آباد میں پیدا ہونے والے بچوں کی شرح اموات ایک ہزار میں اکیاسی ہے۔ قبائلی نظام میں آپس میں شادیوں کے نظام کی بنا پر جینیٹکس سے متعلق جو بیماریاں پھیلی ہیں ان میں تھیلیسمیا کا مرض بھی شامل ہے۔

اس مرض میں مبتلا بچوں کا خون تبدیل ہوتا ہے۔ ایک زمانہ میں ایک غیر سرکاری تنظیم نے تھیلیسمیا سینٹر قائم کیا تھا۔ اس سینٹر میں سندھ کے مختلف شہروں کے علاوہ بلوچستان سے بھی بچے اور ان کے والدین آتے تھے اور خون تبدیل کرواتے تھے۔

پھر کئی تنازعات کے باعث یہ تھیلیسمیا سینٹر بند ہوگیا۔ اس مرض میں مبتلا بچوں کی جان خطرہ میں پڑ گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ 8 سال قبل تھیلیسمیا کے 30 سے زائد بچے خون نہ ملنے کی بنا پر جاں بحق ہو گئے تھے۔

تھیلیسمیا کے مریض بچوں اور ان کے والدین نے جیکب آباد کے سینٹر کی بحالی کے لیے احتجاج کیا۔ حکومت نے محکمہ صحت کے مختلف بلڈ ٹرانسفر کے اداروں سے رابطہ کیا۔ کراچی میں محمدی بلڈ بینک برسوں سے تھیلیسمیا کے بچوں کے لیے مفت خدمات انجام دے رہا ہے،یہاں جدید ایئرکنڈیشن عمارت میں موجود مشینوں کے ذریعہ خون کے تجربہ کیے جاتے ہیں۔ حکومت سندھ کے سیکریٹری صحت نے اس بلڈ بینک کے انچارج مہدی رضوی صاحب سے رابطہ کیا۔انھوں نے اس وقت کے سیکریٹری صحت کو بتایا کہ کراچی کے تھیلیسمیا سینٹر میں ایک بچہ کے علاج پر سالانہ 2 لاکھ روپے کے اخراجات آتے ہیں۔

یہ اخراجات عطیات کے ذریعہ پورے کیے جاتے ہیں۔ مہدی نے اس ملاقات میں اس عزم کا اظہار کیا کہ سندھ کے دور دراز علاقہ جیکب آباد میں جدید ترین تھیلیسمیا سینٹر اور بلڈ بینک کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ جیکب آباد کراچی سے خاصا دور ہے۔ مہدی نے جیکب آباد میں ایک جدید تھیلیسمیا سینٹر کے قیام کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ایک جدید بلڈ بینک کا قیام عمل میں آیا۔

تھیلسیمیا سینٹر سول اسپتال میں اور بلڈ بینک بے نظیر بھٹو شہید اسپتال میں قائم کیا گیا۔ یہ بلڈ بینک اسٹیٹ آف آرٹ ٹیکنالوجی کے تحت قائم ہے۔ محمدی بلڈ بینک نے جیکب آباد میں تھیلیسمیا سینٹر اور بلڈ بینک کو چلانے کے لیے جیکب آباد کے مقامی افراد کا انتخاب کیا اور عملہ کو جدید مشینوں کے استعمال کی تربیت دی، یوں یہ سینٹر اب تھیلیسمیا کے مریض بچوں کی زندگیاں بچانے میں انتہائی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ جیکب آباد کے اس سینٹر میں روزانہ چار سو بچوں کا علاج ہوتا ہے۔

حکومت سندھ اس کے آدھے اخراجات برداشت کرتی ہے مگر اس رقم سے اخراجات پورے نہیں ہوتے۔ ملک بھر میں مخیر حضرات کے عطیات سے یہ اخراجات پورے ہوتے ہیں۔ مہدی رضوی سندھ اور بلوچستان کے تمام شہروں میں تھیلیسمیا کے سینٹر قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی گرانٹ اور مخیر حضرات کے تعاون کی ضرورت ہے۔

سندھ کی حکومت تو گرانٹ دے دیتی ہے مگر وفاقی حکومت کا رویہ اس حوالے سیمثبت نہیں ہے۔ سندھ میں سماجی کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اندرون سندھ مخیر حضرات کا ملنا خاصا مشکل ہوتا ہے۔ جیکب آباد جیسے دور دراز علاقہ میں بچوں کی جان بچانے کے لیے جدید سینٹر کا قیام اور اس کی عمدہ کارکردگی سندھ میں محبت، رواداری اور انسان دوستی کی عظیم مثال ہے۔ توقع ہے کہ ایسے سینٹر سندھ اور ملک کے دیگر دور دراز علاقوں میں بھی قائم ہوں گے۔
Load Next Story