مچھر پر ایک نئی تحقیق

انیسویں صدی کے مطالعہ سے یہ پتہ چلا کہ کالوں کی نسبت گوروں کو مچھروں نے نہیں بلکہ مچھرنی نے زیادہ ستایا

rvmsyndlcate@gmail.com

ابھی تک صرف ڈاکٹر میدان میں اترے ہوئے تھے اور ڈینگی سے نبرد آزما تھے۔ مگر اب ہمارا ایک محقق میدان میں آیا ہے اور اپنی تحقیق سے اس موذی مچھر کو تہس نہس کرنے پر تلا ہوا ہے۔ یہ ہیں ہمارے نامی گرامی مترجم اور محقق شاہد حمید، اس سے پہلے دو بڑے ناول نگاروں سے عہدہ برآ ہو چکے ہیں۔

ٹالسٹائی اور دوستوفسکی سے۔ شروع ترجمہ سے ہوئے تھے۔ مگر ترجمہ کرتے کرتے انھوں نے دونوں کے بارے میں، خاص طور پر دوستوفسکی کے بارے میں تحقیق بھی کر ڈالی۔

ٹالسٹائی اور دوستوفسکی جیسے جنات پر تحقیق کے بعد انھوں نے مچھر کو اپنی تحقق کا ہدف بنایا ہے۔ یعنی خالی ڈینگی نہیں۔ بلکہ سارے مچھر۔ انھوں نے بتایا ہے کہ دنیا میں ڈھائی ہزار قسموں کے مچھر پائے جاتے ہیں۔ ان ڈھائی ہزار ہی میں ایک ڈینگی بھی ہے۔ مچھر پر تحقیق کا مطلب یہ ہے کہ یہ محقق ڈینگی کی جڑ بنیاد ہی کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ ڈھائی ہزار اقسام کے بیچ ایک ڈینگی بھی ہے چہ پدی چہ پدی کا شوربہ۔ شاہد حمید کی تحقیق کی مار میں یہ ساری ڈھائی ہزار اقسام ہیں۔

ابھی پچھلے کالم میں ہم نے بھی مچھر پر خامہ فرسائی کی تھی۔ مگر ہم کیا ہماری تحقیق کیا۔ بلکہ ہم نے تو سائنٹفک تحقیق سے ہٹ کر قصص و حکایات سے رجوع کیا تھا۔ ہماری مار تو بس اپنی تہذیب کی گود میں پلنے والی قصص و حکایات کی روایت تک ہے۔ چلو قدیم ہندوستان کی کتھا کہانی کو بھی شامل کر لو۔ مگر وہاں تو مچھروں کے مورث اعلیٰ کی اچھی خاصی تعریف ہے کہ وہ ایک بڑا فریضہ ادا کر رہا ہے۔ لو ہمیں اس پر استاد ذوقؔ یاد آ گئے۔ انھوں نے بھی مچھر کو خراج تحسین ہی پیش کیا ہے۔ بھلا کس حوالے سے۔ شعر سن لیجئے؎

پشہ سے سیکھے شیوۂ مردانگی کوئی
جب قصد خوں کو آئے تو پہلے پکار دے

ہاں میرؔ نے مچھر کا ذکر تحقیر سے کیا ہے۔ اپنے گھر کا احوال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں؎

کہیں گھر ہے کسو چھچھوندر کا
شور ہر کونے میں ہے مچھر کا
پھرآگے چل کر گھر میں پلنے والے مچھروں کی صفت بیان کرتے ہیں

ڈانس ایک ایک جیسے مکھی ہے

ڈانس بھی مچھر ہی کا ایک نام ہے۔ یعنی اردو میں اس مخلوق کے لیے تین لفظ ہیں۔ مچھر، پشہ، ڈانس۔

خیر ذکر تو اصل میں شاہد حمید کی تحقیق کا مقصود ہے۔ انھوں نے اپنی تحقیق میں مچھر کے ساتھ کوئی رو رعایت روا نہیں رکھی ہے۔ چھوٹتے ہی فیصلہ سنا دیا ہے کہ ''دنیا کی سب سے ذلیل، رذیل، بلکہ ارذل مخلوق مچھر ہے۔'' لو اس محقق نے تو تحقیق سے پہلے ہی اپنا فیصلہ سنا دیا۔


ارے ابھی تک تو ہم خود نوع انسان کے متعلق بھی یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ یہ نیک کتنا ہے اور بد کتنا ہے۔ آخر کو اہل دانش یہ کہہ کر چپ ہو گئے کہ بندہ بشر ہے۔ بھول چوک سے بنا ہے؎

اچھا بھی آدمی ہی کہاتا ہے اے نظیرؔ
اور سب میں جو برا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

اصل میں شاہد حمید کے پیش نظر ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کا تحقیقی کام ہے۔ یہ ہیں پروفیسر اینڈریو سیپل مین۔ ان کی کتاب کا نام ہے Mosquito۔ اس پر شاہد حمید کو حفیظؔ جالندھری کی ایک کتاب یاد آ گئی۔ چیونٹی نامہ۔ اس کے وزن پر انھوں نے پروفسر اینڈریو کے کام کا نام اردو میں تجویز کیا ہے، 'مچھر نامہ' مگر ایک بات ہم یہاں جتاتے چلیں، حفیظؔ صاحب نے چیونٹی پر تنقید کرتے ہوئے اس کے حق میں بھی بہت کچھ کہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ چیونٹیاں بھی ہمیں پریشان کرتی ہیں۔ لیکن اس بنا پر حفیظ صاحب نے چیونٹی کے خلاف تعصب نہیں برتا ہے بلکہ غیر جانبداری برتتے ہوئے چیونٹی کا سارا احوال لکھا ہے۔

ادھر سیپل مین نے اپنی تحقیق کا آغاز اس بیان سے کیا ہے کہ مچھر بہت خود غرض مخلوق ہے۔ دوسری مخلوقات کچھ نہ کچھ ایسی کارروائی کرتی ہیں جس سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچتا ہے۔ مگر مچھر کے پیش نظر صرف ایک مقصد ہوتا ہے۔ اپنی نسل کا فروغ۔ اور اس مقام پر آ کر اس محقق نے نر مچھر کو بہت سے الزامات سے بری کر دیا ہے اور ساری برائیاں خرابیاں مادہ مچھر سے منسوب کر دی ہیں۔

ہمیں جو مخلوق ستاتی ہے اور خون پیتی ہے وہ اصل میں مادہ مچھر ہے۔ ویسے موقع ملنے پر نر مچھر کو بھی خون پینے میں کوئی مضائقہ نظر نہیں آتا۔ مگر جس ذوق و شوق سے مچھرنی ہمارا خون پیتی ہے وہ ذوق و شوق نر مچھر کے یہاں نظر نہیں آتا۔

شاہد حمید بتاتے ہیں کہ اس محقق نے مچھروں کے ایک اور شوق کا پتہ چلایا ہے۔ انھیں سفید فام لوگوں کا خون زیادہ لذیز محسوس ہوتا ہے۔ اس لیے وہ سیاہ فاموں کی طرف زیادہ توجہ نہیں کرتے۔ سفید فاموں کو کاٹنے اور ان کا خون چوسنے میں زیادہ سرگرمی دکھاتے ہیں۔ انیسویں صدی کے مطالعہ سے یہ پتہ چلا کہ کالوں کی نسبت گوروں کو مچھروں نے نہیں بلکہ مچھرنی نے زیادہ ستایا۔ سو انھیں کی موتیں زیادہ ہوئیں۔

یہ محقق بتاتا ہے کہ مچھرنی صرف ایک رات کی دلہن ہوتی ہے۔ مگر ایک ہی رات میں وہ نر مچھر کا یہ حال کر دیتی ہے کہ اسے اپنے جنسی اعضا دلہن کے پاس ہی چھوڑ کر بھاگنا پڑتا ہے۔ مگر زندگی نہ مچھر کی زیادہ ہوتی ہے نہ مچھرنی کی۔ مگر اس مختصر زندگی میں ہی بہت سی اولاد پیدا کر ڈالتی ہے اور چونکہ اس نے لوگوں کا ڈٹ کر خون پیا ہوتا ہے اس لیے اولاد کو خوب خون پلاتی ہے۔

یہ اس پروفیسر کی تحقیق کا خلاصہ ہے۔ اس کی تفصیلات بہت ہیں۔ مگر ادھر شہر میں دیکھو کہ کیا گُل کھلا ہے۔ ڈینگی مکائو کی مہم اچھی خاصی کامیابی سے چل رہی تھی کہ بھادوں کی بدلیاں گھر کر آئیں اور ایسی بارش ہوئی کہ جل تھل ہو گئے۔ پانی کی نکاسی یوں تو ویسے ہی ایسے موقعوں پر مشکل سے ہوتی ہے۔ اوپر سے یہ جو نوآمدہ بس کا رستہ بنانے کے لیے شہر میں جابجا کھدائیاں ہو رہی ہیں اس نے اس مسئلہ کو اور گھمبیر بنا دیا۔

مگر ہمت مرداں مدد خدا۔ برسات کے سبز قدم نے اپنا رنگ دکھایا۔ اب دیکھنا چاہیے کہ ڈینگی مکائو کی مہم چلانے والے کس طرح اس مشکل پر قابو پاتے ہیں۔ اور ہاں اس کی وجہ سے اس وقت شہر میں ٹریفک کا نقشہ جس طرح ابتر ہوا ہے وہ اس پر مستزاد ہے۔ غالبؔ نے ایک وقت میں دلی میں آفات کے نزول گنائے تھے، کچھ ایسا ہی نقشہ لاہور کا ہے۔ ایک یلغار ڈینگی کی۔ ایک چڑھائی جاتی برسات کی۔ ایک سیلاب ٹریفک کا۔ سو اب یہ موسم جمیع مشکلات ہے۔

ہاں چلے چلتے ایک بات اور۔ حمید اختر مرحوم کی برسی کے موقع پر رضویہ ٹرسٹ ایک خصوصی اشاعت پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ان کے مداحوں سے اس کی گزارش ہے کہ اس حوالے سے کوئی تحریر کوئی تصویر، کوئی بھی ایسا حوالہ ان کے پاس ہو تو انھیں انھیں روانہ کریں۔

پتہ رضویہ ٹرسٹ، سینٹرل کمرشل مارکیٹ ،ماڈل ٹائون، لاہور۔
Load Next Story