اسپیکر کے عہدے کی عزت و وقار
اسپیکر کے عہدے کی عزت و وقار ہی منتخب اسمبلیوں کو تحفظ دے سکتا ہے۔ دوسرا کوئی راستہ نہیں
بہت دنوں بعد ایک بار پھر خود کو یاد دلا کر پریشان ہوئے چلا جا رہا ہوں کہ بحیثیت قوم ہم کافی منافق ہو چکے ہیں۔ خاص طور پر ہم میں سے وہ لوگ جو پڑھے لکھے کہلاتے ہیں اور کسی نہ کسی صورت ایسی جگہوں پر جا بیٹھے ہیں جہاں لوگوں کی نظر جاتی ہے۔
بدھ کی صبح قومی اسمبلی کا اجلاس بغیر کوئی ہنگامہ خیز مناظر برپا کئے، جمائیاں دلاتا ہوا جاری تھا کہ اچانک ڈاکٹر فہمیدہ مرزا پردے کے پیچھے سے نمودار ہو کر اسپیکر کی کرسی کی طرف روانہ ہوئیں۔ انھیں ہال میں موجود اراکین نے زور زور سے ڈیسک بجا کر خوش آمدید کہا۔ وہ کرسی صدارت پر ایوان کی کارروائی چلانے کے لیے بیٹھیں تو ہال میں موجود تقریباََ تمام لوگوں نے ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر اور اپنے ڈیسک پر لگے بٹن دبا دبا کر پوائنٹس آف آرڈر کے ذریعے بات کرنے کی اجازت مانگنا شروع کر دی۔ ڈاکٹر صاحبہ جان گئیں کہ وہ سب کیا کہنا چاہ رہے تھے۔ یہ جانتے ہوئے ہی انھوں نے فیصلہ کیا کہ مردوں سے پہلے خواتین اراکینِ اسمبلی کو بولنے کا موقعہ فراہم کیا جائے۔
مائیک ملتے ہی ہمارے عزت مآب نمائندگان بڑے خلوص سے سپیکر صاحبہ کو یہ بتانے کی کوشش کرتے رہے کہ وہ ان کی عدم موجودگی کو بڑی شدت سے Miss کر رہے تھے۔ چار سے زیادہ برسوں میں قومی اسمبلی کی کارروائی چلاتے ہوئے ان کا رویہ ہمیشہ منصفانہ، مساویانہ اور مشفقانہ رہا ہے۔ وہ پاکستان کا مان ہیں۔ دُنیا بھر کے لوگوں کیلیے اس بات کی علامت کہ ہماری خواتین اہم ترین ریاستی اور سرکاری مناصب سنبھال کر اپنی ذمے داریوں کو مردوں سے بہتر انداز میں ادا کر سکتی ہیں۔ مسلم لیگ نون کی عشرت اشرف صاحبہ تو فرطِ جذبات میں اس خواہش کا اظہار بھی کر بیٹھیں کہ آیندہ انتخابات کے بعد بننے والی قومی اسمبلی میں خواہ کسی جماعت کی بھی اکثریت کیوں نہ آئے، اس ادارے کی سربراہ تو ڈاکٹر مرزا کو ہی رہنا چاہیے۔
مجھے ڈاکٹر مرزا کی تعریفیں سن کر غصہ اس لیے نہیں آیا کہ میں خدانخواستہ ان سے کسی وجہ سے بیررکھتا ہوں۔ معاملہ تو اس کے بالکل برعکس ہے۔ 1997ء کے انتخابات کے دوران ان کے شوہر ڈاکٹر ذوالفقار مرزا احتساب والوں کے خوف سے روپوش تھے۔ انھیں یقین تھا کہ انھیں گرفتار کرنے کے بعد ان میں سے آصف علی زرداری کے خلاف ایک ''مسعود محمود'' نکالنے کی کوشش کی جائے گی۔ ان کی عدم موجودگی میں ڈاکٹر صاحبہ نے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور بھاری اکثریت کے ساتھ اپنے مخالف کو شکست دی۔ اپنے حلف اُٹھانے کے دن سے پریس گیلری میں بیٹھے لوگوں کو یہ دھان پان سی خاتون بہت متوجہ رکھتی رہی۔
وہ بڑے انہماک سے قومی اسمبلی کے سامنے آئے سوالات اور موضوعات پر ہونے والی بحثوں کا جائزہ لے کر مسلسل نوٹس لیتی رہتیں۔ آہستہ آہستہ انھوں نے خود بھی بولنا شروع کر دیا اور اپنی تیاری، محنت اور سنجیدگی کی بدولت خبروں میں نمایاں طورپر نظر آتی رہیں۔
نواز شریف کے ''احتساب الرحمن'' جب ذوالفقار مرزا کو گرفتار کرنے میں قطعی ناکام ہو گئے تو محض پاکستان ٹیلی وژن کے خبر ناموں میں ''کڑے احتساب'' کی داستانیں سنانے کیلیے ان کے گھر پر ایجنسیوں اور کیمرے والے رپورٹروں کے غول کے ہمراہ چھاپے مارے گئے۔ میں نے سیف الرحمٰن کی دہشت پیدا کرنے والی ان جنونی کارروائیوں کے بارے میں تفصیل سے لکھا۔ سیف الرحمٰن بڑے چراغ پا ہوئے۔
مجھے سبق وغیرہ سکھانے کی دھمکیاں بھی دیتے رہے۔ خدا بھلا کرے چوہدری شجاعت حسین کا، وہ ان دنوں وزیر داخلہ ہوا کرتے تھے۔ انھوں نے نواز شریف صاحب کو بتایا کہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کے والد قاضی عبدالمجید عابد تھے۔ وہ سندھ کے ایک مشہور صحافی بھی تھے اور چوہدری شجاعت نے محمد خان جونیجو کی وزارتِ عظمیٰ کے زمانے میں ان کے ساتھ کام کیا تھا۔ سیاست میں اونچ نیچ چلتی رہتی ہے۔
آج حکومت میں بیٹھے کل اپوزیشن میں بھی جا سکتے ہیں۔ بہتر ہے کہ حدیں طے کر لی جائیں۔ ویسے بھی اپنے سیاسی مخالفین کے بیوی اور بچوں کو ذلت اور اذیتوں کا نشانہ بنانا کسی بھی مہذب معاشرے میں گوارا نہیں کیا جاتا۔ خواجہ آصف اور بہت سارے دیگر مسلم لیگیوں نے چوہدری صاحب کی تائید کی اور ڈاکٹر صاحبہ کو کچھ سکون نصیب ہوا۔ F-10 سیکٹر کی ایک گلی میں وہ اپنے اسکول جانے والے بچوں اور بچیوں کے ساتھ بھلے وقتوں کی منتظر رہیں۔
2002ء کے انتخابات میں دوبارہ قومی اسمبلی میں آ کر بھی ان کا انتظار جاری رہا۔ 2008ء کے انتخابات کے بعد جب انھیں سپیکر بنایا گیا تو ان کے لیے اپنے دل میں موجود تمام تر احترام کے باوجود میں نے طے کر لیا کہ وہ کام چلا نہ پائیں گی۔ انھوں نے حیران کن حد تک میرے جیسے لوگوں کو غلط ثابت کر دیا۔
موجودہ دور میں ان پر سب سے کڑا وقت وہ تھا جب ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اپنے سر پر کلام پاک رکھے پریس کانفرنسوں میں اپنی ہی جماعت کے چند رہنمائوں اور ان کے چہیتے اتحادیوں کے لتے لے رہے تھے۔ میرے پاس یہ ٹھوس اطلاع بھی ہے کہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو سب سے زیادہ اشتعال اس سازش کے معلوم ہو جانے پر آیا تھا جس کا واحد مقصد ان کے خاندان اور خاص طور پر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا پر گند اُچھالنا تھا۔ اپنی ذات اور ذہن پر موجود دبائو کو سپیکر صاحبہ نے کبھی اپنے چہرے پر آنے ہی نہ دیا۔ جب بھی نظر آتیں۔ ٹھنڈی ٹھار اور اپنے کام میں مگن نظر آتیں۔
میں اب یہ بات آپ کو بتا سکتا ہوں کہ رمضان المبارک کے ابتدائی دنوں میں مجھے اور اسلام آباد کے ایک اور صحافی کو پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک بڑے رہنما نے بڑی فکر مندی سے بتایا تھا کہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کو ایک بڑے موذی اور ناقابل علاج مرض لاحق ہونے کی تشخیص کی گئی ہے۔ آخری امید ایک بڑا ہی پیچیدہ آپریشن کرنا رہ گیا ہے۔ اس خبر نے میرا دل دہلا کر رکھ دیا تھا اور بدھ کے دن جب وہ اپنی کرسی پر بیٹھی قومی اسمبلی کی کارروائی کو اپنے معمول کے مطابق چلاتی نظر آئیں تو مجھے یہ محسوس ہو رہا تھا جیسے میری آنکھوں کے سامنے کوئی معجزہ برپا ہو رہا ہے۔
ان کی شان میں پڑھے گئے قصیدے مجھے اس لیے بُرے لگے کہ اِن میں سے اکثر یہ اُن لوگوں نے پڑھے تھے جنھوں نے یوسف رضا گیلانی کے خلاف توہین عدالت کا فیصلہ آ جانے کے بعد اسی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کو مسلسل ہنگاموں سے بے بس بنا کر رکھ دیا تھا۔ ''ایک خود مختار قومی اسمبلی کی آن، شان اور مان'' کے گن گانے والے رطب اللسانوں کو یاد ہی نہ رہا تھا کہ ان ہی ڈاکٹر مرزا کی گیلانی کے معاملے پر دی گئی رولنگ حقارت سے ہمیشہ کیلیے ردی کی ٹوکری میں پھینک دی گئی ہے۔ اب پاکستان میں وزیر اعظموں کو قومی اسمبلی کے بجائے عدالتی اداروں کے ذریعے گھر بھیجنے کی روایت ڈال دی گئی ہے۔
فی الوقت اس روایت کے خوفناک مضمرات کے بارے میں کوئی شخص ایک لفظ بھی سننا نہیں چاہتا۔ مگر ایک وقت ضرور آئے گا کہ جب ہمارے عزت مآب نمائندگان بڑے تاسف سے اس بات کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوں گے کہ ان کی اپنی عزت اسی صورت محفوظ ہے کہ جس ادارے میں وہ منتخب ہو کر بیٹھے ہوں اس کے اجتماعی وقار کا تحفظ بھی کیا جائے۔ سپیکر کے عہدے کی عزت و وقار ہی منتخب اسمبلیوں کو تحفظ دے سکتا ہے۔ دوسرا کوئی راستہ نہیں۔