تھر میں مزید 3 بچے اور خاتون جاں بحق گندم کی تقسیم پر عوام کو تحفظات
درجنوں بیماربچوں کومختلف اسپتالوں میں لایاگیا، متعدد کی حالت نازک ہے،2بچیوں کوتشویشناک حالت میں حیدرآباد منتقل کیاگیا
صحرائے تھرمیں قحط کی صورتحال اور اس کے نتیجے میں مختلف امراض میں مبتلا مزیدایک خاتون اور 3بچے زندگی کی بازی ہارگئے۔
درجنوں بیمار بچے اسپتالوں میں پہنچ گئے جبکہ ایکسپریس نیوزکی نشاندہی کے بعدمٹھی شہر میں بھی تھرپارکرانتظامیہ نے گندم کی تقسیم کا عمل شروع کر دیالیکن یہ کام کسی سرکاری افسر سے کرائے جانے کے بجائے مقامی بااثر افراد کے سپرد کیے جانے کے باعث مقامی افراد نے گندم کی جانبدارانہ تقسیم کا الزام لگایاہے۔تفصیلات کے مطابق تھرپارکرمیں قحط سالی کی وجہ سے بیماریوں میں مبتلا ہوکرتحصیل ڈیپلوکے گائوں میرعلی نواز تالپور میں4ماہ کا نیمراج اور4دن کی بچی پاروتی کولہی، جبکہ سول اسپتال میں ڈیڑھ ماہ کابچہ منگل بھیل دم توڑ گئے،سول اسپتال مٹھی سے حالت تشویشناک ہونے پر5ماہ کی کلثوم اور2ماہ کی فرزانہ کوسول اسپتال حیدرآبادمنتقل کردیا گیا۔سول اسپتال مٹھی میں مریضوں کوادویہ فراہم کی گئیں لیکن دیہی علاقوں کے بنیادی صحت مراکزمیں اب تک ادویہ بھی نہیں پہنچائی گئیں۔دوسری طرف سول اسپتال حیدرآباد میں بھی تھر کے قحط سے متاثرہ6بچے زیرعلاج ہیں۔
ادھرحکومت سندھ کی جانب سے دی جانے والی گندم کی تقسیم کاعمل انتہائی سست رہا اور یہ امداد بھی مٹھی اور دیگر شہروں علاقوں تک ہی فراہم کی گئی،دور دیہی علاقے اس سرکاری عنایت سے محروم ہیں۔اسلام کوٹ اور چھاچھرو کے متاثرین نے تو گندم نہ ملنے اورگندم کی من پسندافراد کو تقسیم کے خلاف اپنے اپنے شہروں کے پریس کلب پر مظاہرے بھی کیے اورالزام لگایا کہ دیہات میں بااثر افراد اور پیپلزپارٹی کے کارکنان کو گندم دی جارہی ہے جبکہ غریب عوام کو مسلسل نذر انداز کیا جا رہا ہے، سندھ حکومت نے ہر خاندان کو ایک بوری گندم دینے کا کہا گیا تھا لیکن تقسیم کرنے والے افراداس میں سے رشوت کے طور پر 25 فیصد گندم خود بھی رکھ رہے ہیں۔دوسری طرف تھرپارکرانتظامیہ نے ایکسپریس کی بارہانشاندہی کے بعد مٹھی شہر میں بھی گندم کی تقسیم کا عمل شروع کردیا،گندم کی تقسیم کے لیے مٹھی کے محلہ آچار خان میں سینٹر قائم کیا گیا اور وہاں کے مکینوں میں فی خاندان کے حساب سے50کلو گندم کی فراہمی کاعمل شروع کر دیالیکن حیرت انگیز طور پر گندم کی تقسیم کا کام کسی سرکاری افسر کے حوالے کرنے کے بجائے بااثر مقامی شخصیت کے حوالے کیا گیاہے،اس سینٹر سے340خاندانوں کو 50کلو فی کس گندم فراہم کی گئی۔
علاوہ ازیں حکومت خیبرپختونخوا، پنجاب اور این ڈی ایم اے کی جانب سے بھی بھاری مقدار میں امدادی سامان تھرپارکر پہنچ چکاہے جبکہ مختلف فلاحی تنظیموں کی جانب سے بھی امدادی سرگرمیاں جاری ہیں لیکن سندھ حکومت کی عدم دلچسپی اور مقامی انتظامیہ کی جانب سے امداد کی تقسیم کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی نہ بنائے جانے کے باعث امدادکامتاثرین تک پہنچنا''جوئے شیرلانے'' کے مترادف ہوگیاہے جبکہ مختلف سیاسی و فلاحی تنظمیوں کی امدادی سرگرمیاں بھی مٹھی، ڈیپلو ، ننگرپارکر، چھاچھرو، اسلام کوٹ کے شہری علاقوں تک ہی محدود ہیں، دیہی علاقے خوراک اورطبی امدادسے اب تک محروم ہیں،جس کے باعث دیہی علاقوں میں صورتحال انتہائی خراب ہوتی جارہی ہے اور سیکڑوں بچے روزانہ مختلف امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں، متاثرہ دیہات میں اب تک طبی ٹیمیں بھی روانہ نہیں کی گئی ہیں۔دریں اثناء پاک فوج کی جانب سے متاثرین تھر کو ایک دن کا راشن عطیہ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ سعودی عرب کی جانب سے متاثرین کے لیے روانہ کی گئی 23 ٹن خوراک متاثرہ علاقوں میں پہنچ گئی ہے۔
درجنوں بیمار بچے اسپتالوں میں پہنچ گئے جبکہ ایکسپریس نیوزکی نشاندہی کے بعدمٹھی شہر میں بھی تھرپارکرانتظامیہ نے گندم کی تقسیم کا عمل شروع کر دیالیکن یہ کام کسی سرکاری افسر سے کرائے جانے کے بجائے مقامی بااثر افراد کے سپرد کیے جانے کے باعث مقامی افراد نے گندم کی جانبدارانہ تقسیم کا الزام لگایاہے۔تفصیلات کے مطابق تھرپارکرمیں قحط سالی کی وجہ سے بیماریوں میں مبتلا ہوکرتحصیل ڈیپلوکے گائوں میرعلی نواز تالپور میں4ماہ کا نیمراج اور4دن کی بچی پاروتی کولہی، جبکہ سول اسپتال میں ڈیڑھ ماہ کابچہ منگل بھیل دم توڑ گئے،سول اسپتال مٹھی سے حالت تشویشناک ہونے پر5ماہ کی کلثوم اور2ماہ کی فرزانہ کوسول اسپتال حیدرآبادمنتقل کردیا گیا۔سول اسپتال مٹھی میں مریضوں کوادویہ فراہم کی گئیں لیکن دیہی علاقوں کے بنیادی صحت مراکزمیں اب تک ادویہ بھی نہیں پہنچائی گئیں۔دوسری طرف سول اسپتال حیدرآباد میں بھی تھر کے قحط سے متاثرہ6بچے زیرعلاج ہیں۔
ادھرحکومت سندھ کی جانب سے دی جانے والی گندم کی تقسیم کاعمل انتہائی سست رہا اور یہ امداد بھی مٹھی اور دیگر شہروں علاقوں تک ہی فراہم کی گئی،دور دیہی علاقے اس سرکاری عنایت سے محروم ہیں۔اسلام کوٹ اور چھاچھرو کے متاثرین نے تو گندم نہ ملنے اورگندم کی من پسندافراد کو تقسیم کے خلاف اپنے اپنے شہروں کے پریس کلب پر مظاہرے بھی کیے اورالزام لگایا کہ دیہات میں بااثر افراد اور پیپلزپارٹی کے کارکنان کو گندم دی جارہی ہے جبکہ غریب عوام کو مسلسل نذر انداز کیا جا رہا ہے، سندھ حکومت نے ہر خاندان کو ایک بوری گندم دینے کا کہا گیا تھا لیکن تقسیم کرنے والے افراداس میں سے رشوت کے طور پر 25 فیصد گندم خود بھی رکھ رہے ہیں۔دوسری طرف تھرپارکرانتظامیہ نے ایکسپریس کی بارہانشاندہی کے بعد مٹھی شہر میں بھی گندم کی تقسیم کا عمل شروع کردیا،گندم کی تقسیم کے لیے مٹھی کے محلہ آچار خان میں سینٹر قائم کیا گیا اور وہاں کے مکینوں میں فی خاندان کے حساب سے50کلو گندم کی فراہمی کاعمل شروع کر دیالیکن حیرت انگیز طور پر گندم کی تقسیم کا کام کسی سرکاری افسر کے حوالے کرنے کے بجائے بااثر مقامی شخصیت کے حوالے کیا گیاہے،اس سینٹر سے340خاندانوں کو 50کلو فی کس گندم فراہم کی گئی۔
علاوہ ازیں حکومت خیبرپختونخوا، پنجاب اور این ڈی ایم اے کی جانب سے بھی بھاری مقدار میں امدادی سامان تھرپارکر پہنچ چکاہے جبکہ مختلف فلاحی تنظیموں کی جانب سے بھی امدادی سرگرمیاں جاری ہیں لیکن سندھ حکومت کی عدم دلچسپی اور مقامی انتظامیہ کی جانب سے امداد کی تقسیم کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی نہ بنائے جانے کے باعث امدادکامتاثرین تک پہنچنا''جوئے شیرلانے'' کے مترادف ہوگیاہے جبکہ مختلف سیاسی و فلاحی تنظمیوں کی امدادی سرگرمیاں بھی مٹھی، ڈیپلو ، ننگرپارکر، چھاچھرو، اسلام کوٹ کے شہری علاقوں تک ہی محدود ہیں، دیہی علاقے خوراک اورطبی امدادسے اب تک محروم ہیں،جس کے باعث دیہی علاقوں میں صورتحال انتہائی خراب ہوتی جارہی ہے اور سیکڑوں بچے روزانہ مختلف امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں، متاثرہ دیہات میں اب تک طبی ٹیمیں بھی روانہ نہیں کی گئی ہیں۔دریں اثناء پاک فوج کی جانب سے متاثرین تھر کو ایک دن کا راشن عطیہ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ سعودی عرب کی جانب سے متاثرین کے لیے روانہ کی گئی 23 ٹن خوراک متاثرہ علاقوں میں پہنچ گئی ہے۔