طالبان کا مثالی حکمران دوسرا حصہ


[email protected]

RAWALPINDI: محترم بھائیو!

متحد ہو جائیں، ایک ہو جائیں، جابروں کو نہ چھوڑیں، ظلم کی اجازت نہ دیں، امن خراب کرنے والوں کو اجازت نہ دیں، علماء اور عوام حق رکھتے ہیں کہ حاکموں کو نصیحت کریں اور اشتباہات کی طرف انھیں متوجہ کریں ان کے ساتھ ملاقات کریں اور مجلس میں انھیں یاددہانی کرائیں مگر یہ نصیحت نہیں کہ عام میڈیا میں حاکموں کی کمزوری کو بیان کیا جائے، اس کام سے حکومت اور ملت کے درمیان فاصلے پیدا ہوتے ہیں، جس طرح علماء حق رکھتے ہیں کہ حاکموں کو نصیحت کریں اسی طرح مسولین مکلف ہیں کہ ایک دوسرے کو نصیحت کریں، لازم ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف تخریب نہ کریں اس لیے کہ اختلاف کے نتیجے میں امارت ختم ہو جائے گی دشمن میدان میں شکست کھانے کے بعد سازشوں اور خفیہ پلان کے راستے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

آج افغانستان اپنے مستقل اور خود مختار رائے پر کھڑا ہے اور یہ اس کا مسلم حق ہے۔ ایک مملکت اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک اسے استقلال حاصل نہ ہو، الحمد للہ ہم ایک مستقل ملک ہیں۔ لوگ ہم سے فرمائشیں نہ کریں، ہمارا اپنا نظام ہے اور اپنے فیصلے کرتے ہیں۔ ہمارا ایک اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندگی کا تعلق ہے۔ دوسروں کی ایسی باتیں نہیں مان سکتے جس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو جائیں۔

تاجروں سے کہتے ہیں کہ آئیں وہ کسی قسم کا خوف نہ رکھیں،آئیں اور صنعتیں بنائیں سرمایہ کاری کریں۔ اس لیے کے بیرونی امداد ہمیں نہیں اٹھا سکتی بلکہ اور بھی محتاج بناتی ہے اور استقلال سے ہمیں محروم کرتی ہے۔

اسلام سلامتی کا دین ہے۔ ہم سلامتی اور امن چاہتے ہیں۔ کسی کے لیے بھی برا ارادہ نہیں رکھتے۔

پڑوسی ممالک ہم سے کسی قسم کے خطرے کا احساس نہ کریں۔ میں نے ثواب کی نیت سے اس اجتماع میں شرکت کی۔ اگر یہ اجتماع بدخشان یا نورستان میں ہوتا تب بھی اس میں شرکت کرتا۔ ہم حاکم نہیں ہیں، ہم خادم ہیں۔ اس لیے کہ حکم اللہ تعالیٰ کر چکا ہے اور قرآن و شریعت نے ہمیں سب احکام بیان کیے ہیں۔

ہم صرف اسی شریعت کے خادم ہیں۔ ہم ایسی ملت ہیں کہ شہادت ہمارا ارمان ہے۔ امریکیوں نے تو یہاں بموں کی ماں استعمال کی ہے اگر ایٹم بم بھی استعمال کریں تب بھی ہم اللہ کے راستے سے نہیں ہٹتے اور ان کی کفری فرمائشیں نہیں مان سکتے۔ "میں نے ایک مولوی صاحب کو حکم دیا کابل(کسی مسولیت) سے جاؤ۔ انھوں نے عذر کیا کہ گھر میں کچھ مسائل ہیں اور وہ مسائل ذکر کیے۔

تو میں نے کہا کہ مولانا آپ سے ہی اس مسئلہ کا جواب چاہتا ہوں کہ کیا یہ شرعی عذر ہے؟ تو مولوی صاحب کچھ دیر خاموش رہے اور پھر جواب دیا کہ یہ شرعی عذر نہیں۔ تو میں نے کہا کہ جاؤ۔ چناچہ وہ صبح چلے گئے۔ ہم اپنے جنگی مخالفین سے بھی انتقام نہیں لے رہے گو کہ انھوں نے ہمیں مارا ہے اور ہمارا حق بھی ہے انتقام لینا ہے، اس کے باوجود دوسرے مسلمان یا ملت کے کسی فرد پر ظلم کا ارادہ رکھیں، ایسا ممکن نہیں۔ ہمارے پڑوسی کسی قسم کا احساس نہ کریں کہ ہم ان کے ساتھ برا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہم نہ کسی دوسرے کے ارادہ پر کام کرتے ہیں نہ کسی دوسرے کی کمانڈ میں کام کرتے ہیں۔

ہم اپنے ارادے پہ مستقل ہیں۔ ہمارے ساتھ کوئی بات کرے تو پر اعتمادی کے ساتھ کریں۔ ایسا نہیں کہ ہم آج ایک بات کریں اور پھر دوسری۔ ہم مستقل ہیں اللہ پاک ہمیں مستقل رکھیں۔ ہم آزاد ہیں اللہ پاک ہمیں آزاد رکھیں۔ میں یہ درخواست کرتا ہوں کہ تفرقے کی باتوں کو چھوڑ دیں۔ ایک جزوی بات لے کر نعرے لگاتے ہیں اور ادھر ادھر پھراتے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھیں افہام و تفہیم سے کام لیں۔ ہم سرے سے حاکم ہی نہیں ہم خادم ہیں۔ حکم اللہ پاک نے کیا ہے ہماری شریعت کتاب اللہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حنفی فقہ ہے۔

بھائیوں میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں یہ ایک مذاکرہ ہے۔ علماء نے مجھ سے کہا کہ ایک اجتماع بلاتے ہیں امارت کے پیچھے کھڑے ہوتے ہیں۔ آج کل کفار امارت کو تسلیم نہیں کرتے تو ہم آپ کے ساتھ بیعت کرتے ہیں اور نعرہ لگاتے ہیں۔ یہ ان کی محبت ہے۔ امارت کے ساتھ سارے مسلمان کھڑے ہیں۔ یہ اللہ پاک کا فضل ہوا کہ یہ سعادت نصیب ہوئی، اللہ پاک آپ کے بیٹھنے اور علماء کی تقریریں توجہ سے سننے کو قبول فرمائیں۔

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

میں نے جب سے یہ تقریر سنی تو میں خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوگیا اور بحیثیت مسلمان بے حد و بے انتہا مسرور ہوں کہ اس دھرتی پر قال اللہ و قال رسول کے درسگاہوں نے ایسے فر شتہ سیرت انسان پیدا کیے جن کا ہر ہر لفظ دل کے تار چھیڑ رہا ہے۔ میں جب یہ سوچتا ہوں کہ یہ ایک ایسے بندے اور حکمران کی تقریر ہے جس نے یہ اقتدار اپنے زور بازو پر کئی دہائیوں کی جدوجہد اور عملی جہاد میں پوری دْنیا کے جبڑوں سے افعانستان کو چھین کر نکالا اور ان کے ہم وطن میرجعفروں نے 20، 22 سال دشمن کے ساتھ مل کر افعانستان کے مجاہدین پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑ ڈالے، پورے افغانستان میں ملا ہیبت اللہ اخونزادہ سمیت ایسا کوئی فرد نہیں جس کے گھر سے جنازے نہ اٹھے ہوں، جس نے روپوشی کی اذیت نہ گزاری ہو مگر آج ان کے لہجے میں اپنے مخالفین کے لیے کوئی تلخی نہیں، کوئی جبری انتقام نہیں، کابل کے فتح والے دن اور امارت اسلامیہ کے دوبارہ قیام کے ساتھ ہی تمام افعانستان میں بلا تفریق سارے افعان مخالفین کے لیے عام معافی کا اعلان کیا۔

اس وقت شاید لوگوں کا خیال تھا کہ یہ جذباتی ماحول بنانے کی خاطر ایسا کر رہے ہیں مگر کئی مہینوں کی مسلسل بلاشرکت غیرے حکمرانی کے بعد ملا ہیبت اللہ اخونزادہ کے تقریر نے ثابت کر دیا کہ وہ امارت کو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے وضع کردہ اصولوں کے مطابق چلا رہے ہیں۔

اور جب اس کا موازنہ کلمہ طیبہ کے نام پر بنے پاکستان میں 75 سال گزرنے، ووٹ اور بوٹ دونوں ذرایع سے کیے گئے درج حکمرانوں سے کرتا ہوں تو ڈر جاتا ہوں کہ ہمارے تمام سیاسی حکمران جماعتوں اور ڈکٹیٹروں کو حکومت ہمیشہ پلیٹ میں ملی اگر کوئی تکلیف اور اذیت گزری ہوگی تو بیچارے ووٹر اور کارکنوں پر گزری ہوگی، یہ تو دعوے سے کہا جاسکتا ہے حکومت کا تختہ الٹنے میں کھبی کسی تھپڑ رسید کرنے کی نوبت بھی نہیں آئی۔ دو ٹرکوں پر جب 100 افراد گئے تو سب اچھے بچے بن کر عارضی طور پر وزیراعظم ہاؤس سے جیل اور کچھ خوش نصیب اپنے گھر چلے جانے ہیں۔

سیاسی قائدین الیکشن مہم کے دوران کارکنان کے کندھوں اور اقتدار ملنے کے بعد کارکنوں کے سروں پر سوار رہے مگر جب کھڑے ہوتے ہیں تو منہ سے انگارے نکالتے ہوئے اپنے سیاسی مخالفین کو نشان عبرت بنانے کی دھن میں گم ہوجاتے ہیں۔

ووٹرز و سپورٹرز کو اپنے مخالفین کا جینا حرام کرنے، گلیوں میں گھسیٹے، اور جلانے پر آمادہ کرتے ہیں اور اپنی اقتدار کو حاصل کرنے کی اور اپنی اقتدار کو برقرار رکھنے کی خاطر حکومتی اور اپوزیشن دونوں کے لیڈران صبح شام پاکستان کے سری لنکا بننے کی پیشگوئیاں کرتے ہیں۔ ان ناعاقبت اندیشوں کو کون سمجھائے کہ جب نفرت کی آگ بھڑکتی ہے تو پھر ہر طرف لگتی ہے۔

اصولًا تو کلمہ طیبہ کے نام پر بنے پاکستان کے حکمران اور مقتدرہ کو پاکستان میں شریعت مطہرہ کا نظام نافذ کرنا چاہیے مگر اگر ان کی قسمت میں یہ اعزاز فی الحال نہیں تو کم از کم اخلاقیات کا سبق تو ملا ہیبت اللہ اخونزادہ سے ہی پڑھ لیں اور اس ملک سے اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر نفرت اور متشدد رویوں سے اس قوم کو نجات دلائیں۔یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم اپنی کھوئی ہوئی منزل پاسکتے ہیں، اس منزلکا کوئی شارٹ کٹ راستہ نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔