پنجاب کے ضمنی الیکشن


سلمان عابد July 22, 2022
[email protected]

ISLAMABAD/LAHORE: پنجاب کے ضمنی انتخابات کے نتائج نے ملک کے سب سے بڑے صوبے کو مزید عدم استحکام سے دوچار کردیا ہے ۔ تین چار ماہ سے پنجاب کا انتظامی ڈھانچہ ڈانوال ڈول ہے ۔ بار بار درخواستیں عدلیہ میں لے جانے کی وجہ سے بھی عدم استحکام میں اضافہ ہوا۔

مرکز میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد سے ہی پنجاب میں بحران در بحران پیدا ہوتا رہے ہے ۔ جس کی وجہ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ وزارت اعلیٰ کے شوقین سیاستدانوں کے درمیان فٹ بال بنا ہوا ہے ،اب جو ضمنی انتخاب ہوئے ہیں،اس کے بعد بھی وہی کھنچاتانی، خرید وفروخت کے الزامات ہیں جب کہ پنجاب تماشا گاہ بنی ہوئی ہے۔

ان ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی نے سب سے زیادہ یعنی پندرہ نشتیں جیتیں ہیں اور وہ پنجاب میں اپنی حکومت بنانے کی کوشش کررہی ہے جب کہ مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعتیں بھی حکومت بنانے کے لیے بھرپور کوشش کررہی ہیں،اب کون کامیاب ہوتا ہے، اس کا بھی جلد پتہ چل جائے گا۔ ویسے اگر مسلم لیگ ن ملک بھر میں فوری انتخاب کا راستہ اختیار کرتی ، عمران خان کو ان کی کارکردگی کی بنیاد پر چیلنج کرتی تو پنجاب اور مرکز میں جیت کر حکومت بنانا آسان ہوسکتا تھا ۔

لیکن مسلم لیگ ن اور اتحادی جماعتوں کی قیادت نے اس آپشن کو اختیار نہیں کیا اور حکومت میں رہنے کا آپشن اختیار کرلیا۔ یوں عمران حکومت کے معاشی مسائل انھیں اٹھانے پڑ گئے جس کے نتیجے میں پٹرول کی قیمت بڑھی اور مہنگائی میں اضافہ ہوگیا۔اس کے بعد عمران خان کا سیاسی مخالفین کے خلاف لنگوٹ کس کر میدان میںآنا اور الزامات کی بھرمار کرنا،اس کی وجہ سے ان کی مقبولیت میں دوبارہ اضافہ ہوا ۔

اتحادی حکومت عمران خان کی انتخابی دھاندلی کے بیانیہ کا بھی شکار ہوئی ۔ عمران خان نے کمال ہوشیاری سے حالیہ ضمنی الیکشن کی مہم کے دوران مرکزی اور صوبائی حکومت، الیکشن کمیشن اور اسٹیبلیشمنٹ پر انتخابی دھاندلی یا دھاندلاکا شور مچاکر پہلے ہی سے یہ بیانیہ بنادیا کہ ان کو دیوار سے لگانے کا فیصلہ کیا جاچکا ہے ۔

عمران خان کی میڈیا ٹیم اور سوشل میڈیا ونگ نے دھاندلی اور سازش کے بیانئے کو بڑی ہوشیاری اور تیزی سے پھیلایا، الیکشن کمیشن پر کھلم کھلا الزامات کی بوچھاڑ کردی گئی جب کہ مسٹر ایکس اور مسٹر وائی کی اصطلاح سامنے لاکر عوام اور میڈیا میں ایسا ماحول بنایا جیسے عمران خان عوام کو سمجھا رہے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہورہاہے ، اس پراپیگنڈے کو ٹی وی اینکرز اور تجزیہ کاروں نے بھی ہاتھوں ہاتھ لیا۔

مسلم لیگ ن نے پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کو ہی پارٹی ٹکٹ دے کر مسلم لیگ ن کے پہلے سے موجود امیدواروں اور ووٹروں کو بددل کردیا ۔ اس لیے شکست میں ایک وجہ یہ بھی بنی کہ مسلم لیگ ن کے ووٹرز نے پارٹی کے اس فیصلہ کو قبول بھی نہیں کیا اوربڑی نیم دلی سے انتخابی مہم میں حصہ لیا ۔

مسلم لیگ ن اس نقطہ کو بھی سمجھنے میں ناکام رہی کہ عمران خان کا بیانیہ ان کے خلاف بڑی تیزی سے گردش کررہا ہے، عمران خان کی لابی پوری قوت سے اس بیانئے کو وائرل کرنے میں مصروف ہے جب کہ اس کے مقابلے میں متبادل بیانیہ اختیار نہیں کیا گیا۔

عمران خان نے اقتدار سے نکلنے سے پہلے ہی نیوٹرل ، بیرونی خط اور سازش کا بیانیہ تیار کرکے اس پر کام شروع کردیا تھا جب کہ مسلم لیگ ن اور اتحادی اس حوالے سے کاونٹر نیریٹیو تیار نہیں کرسکے۔

عمران خان نے اپنے حامیوں کے ذہن میں یہ بات بٹھادی ہے کہ ان کے خلاف عالمی سازش ہوئی اور اس سازش میں پاکستان کی سیاسی او رغیر سیاسی کردار بھی شامل تھے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ عمران خان کی مقبولیت بھی بڑھی اور اتحادی حکومت کو سیاسی پسپائی کی طرف بھی جانا پڑا۔اسی بنیاد پر ہمیں ضمنی انتخابات کے نتائج کو دیکھنا ہوگا۔

عام طور پر ضمنی انتخابات میں ٹرن آوٹ کم ہوتا ہے۔لیکن ان ضمنی انتخابات میں ٹرن آوٹ زیادہ رہا اور زیادہ ووٹروں کا باہر نکلنا بھی تحریک انصاف کی جیت کا سبب بنا۔اسٹیبلیشمنٹ پہلے ہی عمران خان کے بیانیہ اور سخت گیر موقف کی وجہ سے دباو میں رہی۔

اس نے اس سارے عمل میں خود کو دورکھا ، پھرجو مہنگائی میں اضافہ ہوا او رجس انداز سے قیمتوں میں اضافہ ہوا اس پر بھی لوگوں میں یقینی طور پر کافی غصہ تھا۔لوگوں کو لگا کے عمران خان کی حکومت کی تبدیلی کے بعد جو حالات معاشی طور پر سامنے آئے ہیں وہ پہلے سے بھی برے ہیں او راس کی ذمے دار موجودہ حکومت ہے ۔

مریم نواز نے عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی اور فرح گوگی کو بنیاد بنا کر جو انتخابی مہم چلائی گئی، اس کے اثرات کہیں نظر نہیں آئے ۔ مسلم لیگ ن کا حامی دانشور طبقہ بھی مسلم لیگ ن کی قیادت کو یہ بات نہیں سمجھا سکا کہ حالات ان کے لیے سازگار نہیں یا تو وہ خود نہیں سمجھ سکا یا اپنے مفادات کو بنیاد بنا کر انھوں نے مسلم لیگ کی قیادت کو بھی اندھیرے میں رکھا ۔

مسلم لیگ ن جو سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے مقابلے میں کمزور ہے۔ مسلم لیگ ن او ردیگر عمران خان مخالف جماعتیں ابھی تک سوشل میڈیا کی طاقت اور عمران خان کی اس پر سیاسی گرفت کو بھی سمجھ نہیں سکے۔ سوشل میڈیا پر جاری اداروں اور مسلم لیگ ن اور زرداری مخالف مہم نے بھی عوامی سطح پر رائے عامہ کو متاثر کیا ۔پنجاب جسے مسلم لیگ ن کی سیاست کا بڑا اگڑھ سمجھا جاتا ہے، وہاں عمران خان کی پراپگینڈا مہم نے جو جگہ بنائی ہے، مسلم لیگ ن اسے کیسے ہنڈل کرتی ہے، یہ دیکھنے کی چیز ہے۔

انتخابی مہم چلانے کے پرانے طریقے کامیاب نہیں رہے ، حالات اب یہاں ماضی کے جیسے نہیں ہیں۔مسلم لیگ ن نئے حالات سے کیسے نبٹتی ہے یہ خود ایک بڑا چیلنج ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

پاکستان