قحط سالی کی ذمے دار سندھ حکومت ہے تھر میں آفات سے بچنے کیلیے ڈیولپمنٹ اتھارٹی قائم کی جائے سندھ ایکسپری

مویشیوں کاچارا،متاثرہ لوگوں کیلیے4 ماہ کا مکمل راشن اورروزگار دینے، امداد کی نگرانی کیلیے خصوصی کمیٹی بنانے کے مطالبات


Numainda Express March 12, 2014
حیدرآباد: روزنامہ سندھ ایکسپریس کے تحت منعقدہ فورم میں شرکا اظہار خیال کر رہے ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے اور سندھ کے سماجی رہنماؤں نے تھرکی موجودہ صورتحال کا ذمے دار حکومت سندھ کو قرار دیتے ہوئے تجویز دی ہے کہ آئندہ ایسی صورتحال سے بچنے کیلیے ضلع تھرپارکر میں تھر ڈیولپمنٹ اتھارٹی قائم کی جائے۔

تھر میں بارش کے پانی کے ذخائرجمع کرنے، ایک لاکھ سے زائد خاندانوںکیلیے4 ماہ کا مکمل راشن ،مال مویشی کیلیے چارے اور ویکسی نیشن کے انتظامات کے ساتھ وہاں کے لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں اور اس وقت تھر میں جاری امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کیلیے سول سوسائٹی کے افراد پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے، ان خیالات کا اظہار سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد اور سماجی رہنمائوں ڈاکٹر سونو مل کھنگرانی ، سلیمان ابڑو، عرفانہ ملاح، اسماعیل کنبر، دستگیر بھٹی، ذوالفقار ہالیوپوٹو اور عباس کھوسو نے ایکسپریس میڈیا گروپ کے تحت سندھی زبان میں شائع ہونے والے اخبار سندھ ایکسپریس کی جانب سے ''تھر میں قحط، قدرتی آفت یا مجرمانہ انتظامی غفلت '' کے عنوان سے منعقد فورم میں کیا ۔سماجی رہنما ڈاکٹر سونو مل کنگھرانی نے کہا کہ تھرکی موجودہ صوتحال کے حوالے سے پی ڈی ایم اے نے ماہ نومبر میں حکومت سندھ کو رپورٹ دے دی تھی کہ تھر میں قحط والی صورتحال ہے لیکن اس سے بچنے کیلیے خاطر خواہ انتظامات نہیں کیے گئے۔

انھوں نے کہا کہ حکومت کو تھر میں آئندہ ایسی صورتحال سے بچنے کیلیے نہ صرف مناسب اقدامات کرنے کی ضرورت ہے بلکہ یہاں کے لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع بھی پیدا کیے جائیں تاکہ یہ لوگ بہتر طریقے سے اپنے معاشی معاملات کو پورا کرسکیں جب کہ تھر میں بارش کے پانی کے ذخائر کو جمع کرنے کیلیے بھی مناسب انتظامات کیے جائیں۔ سماجی رہنماسلیمان ابڑو نے کہا کہ پاکستان میں تھر سمیت چولستان اور دیگر علاقوں کیلیے کسی بھی قسم کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی ، وہاں کی مقامی انتظامیہ کی وجہ سے یہ صورتحال پیدا ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ اب بھی کئی متاثرہ علاقوں تک حکومت کی امداد نہیں پہنچ سکی ہے ، حکومت صرف گندم تقسیم کرنے کی باتیں کررہی ہے لیکن اس کی پسائی اور متاثرین کو بچانے کیلیے بھی اقدامات کرنے کے ساتھ علاقے کی ترقی کیلیے کام کیا جائے کیونکہ ماضی کی حکومت میں دیہی علاقوں میں کسی بھی قسم کے ترقیاتی کام نہیں کرائے گئے ۔

انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کی جانب سے دیے گئے ایک ارب کو استعمال کرنے کے لیے منصوبہ بندی کرنے کے ساتھ تھر کے بنیادی مسائل کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر عرفانہ ملاح نے کہا کہ تھر کی موجودہ صورتحال کی وجوہ جاننے اور اس کے حل کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ صورتحال جو بھی ہو لیکن وہاں سیکڑوں معصوم بچوں کی اموات ہوئیں ، بھوک و افلاس نے ڈیرے ڈال دیے اور لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ تھر کیلیے مستقل بنیادوں پر منصوبہ بندی کرنا ہوگی اور حکومت کو آئندہ ایسی صورتحال سے بچنے کے لیے لانگ ٹرم پالیسی مرتب کرناہوگی۔ دستگیر بھٹی نے تھر کی صورتحال کو سب سے پہلے اجاگر کرنے پر ایکسپریس نیوزکو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے ایکسپریس نیوز نے تھر کی خبر نشر کرکے سوئے ہوئے حکمرانوں کی توجہ تھر کی صورتحال کی جانب مبذول کرائی۔ اگر ایکسپریس اس مسئلے کو اجاگر نہیں کرتا تو شاید حکمراں کبھی بھی اتنے سنجیدہ مسئلے پر غور نہیں کرتے۔

سندھ حکومت نے تھر کی صورتحال پر نااہلی کا ثبوت دیا ہے اور صرف تھر کو نہیں پورے سندھ کو بیڈ گورننس کا سامنا ہے ۔ پروفیسر اسماعیل کنبر نے کہا کہ تھر کی صورتحال جو ہے وہ تو ہے لیکن پانی اب سندھ بھر کا مسئلہ بن گیا ہے اور آنے والے چند روز میں پانی کی کمی کے سبب سندھ کے بیراجی علاقوں میں ایسی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت ہمارے پاس خوراک کی کمی ہے، آنے والے وقت کے لیے خوراک کے حوالے سے پالیسی بنانے کی ضرورت ہے ۔ دانشور ذوالفقار ہالیپوٹونے کہا کہ تھر کی موجودہ صورتحال سال2010-11 کے سیلاب کا نتیجہ ہے، تھر میں جو امداد دی جارہی ہے اس کی نگرانی کی ضرورت ہے، ثقافتی میلوں اور اس کی پبلسٹی پر کروڑوں روپے خرچ کرنے والے حکمراں امدادی کاموں میں سستی کا مظاہرہ کررہے ہیں جس کی وجہ سے شرح اموات میں اضافہ ہورہا ہے۔ سماجی رہنما عباس کھوسو نے کہا کہ تھر کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں پر تعینات کیے جانے والے سرکاری افسران اور ملازم دیگر اضلاع آتے ہیں، انھوں نے کہا کہ تھر کے لیے تھر ڈیولپمنٹ اتھارٹی بنائی جائے اور اسے ماڈرن ضلع بنایا جائے۔اس موقع پر سندھ ایکسپریس کے ایڈیٹر فاروق سومرو نے فورم کے شرکا کو خوش آمدیدکہا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔