امریکی صدرکا دَورئہ سعودی عرب نتائج کیا نکلے
کراچی:
امریکی صدر ، جو بائیڈن، مشرقِ وسطیٰ کا چار روزہ دَورہ مکمل کرکے 17جولائی2022 کی سہ پہر واپس واشنگٹن چلے گئے۔ اُن کا پہلا اسٹاپ اسرائیل تھا اور آخری سعودی عرب۔اِسی پہلے اور آخری اسٹاپ ہی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکا کسے اولین ترجیح دیتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہرامریکی صدر صہیونی ریاست، اسرائیل، کو اولین حیثیت دینے پر ''مجبور'' ہے ۔
ورنہ طاقتور اور دولت مند امریکی یہودی اُس کا جینا حرام کر دیتے ہیں۔ جو بائیڈن نے کوئی پچاس برس قبل اُس وقت مشرقِ وسطیٰ کا پہلا تفصیلی دَورہ کیا تھا جب وہ پہلی بار امریکی سینیٹ کے رکن منتخب ہُوئے تھے۔ نائب امریکی صدر کی حیثیت میں بھی وہ سعودی عرب کادَورہ کر چکے ہیں۔ اب مگر طاقتور امریکی صدرکی حیثیت میں جو بائیڈن کا یہ پہلادَورئہ شرقِ اوسط تھا۔ جو بائیڈن پہلے دو دن اسرائیلی دارالحکومت، تل ابیب، میں رہے۔
اِس دوران انھوں نے یروشلم کا دَورہ بھی کیا جسے اسرائیل مظلوم و کمزور فلسطینیوں کی خواہشوں کے برعکس اپنا مستقل دارالحکومت بنانا چاہتا ہے۔ اِس صہیونی خواہش میں امریکی اشیرواد بھی حاصل ہے۔ مذکورہ دو دنوں کے دوران امریکی صدر مقبوضہ فلسطین میں فلسطینی صدر، جناب محمود عباس، سے بھی ملے۔
اس ملاقات کا مگر فلسطینیوں کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچا کہ جوبائیڈن تو سارا وقت اسرائیلی حکمرانوں اور طاقتور یہودی مذہبی رہنماؤں کی خوشنودی حاصل کرنے میں مصروف رہے ۔ ایسے میں انھیں مجبور، مقہور، مظلوم اور نحیف فلسطینیوں کے مفادات کیسے یاد رہ سکتے تھے؟
جب سے جو بائیڈن صدرِ امریکا منتخب ہُوئے ہیں،اِس دوران انھوں نے دانستہ سعودی عرب اور سعودی فرمانروا سے فاصلہ رکھا۔اِس تغافل کی حقیقت اور اصلیت سے سعودی عرب کے بادشاہ سلامت، سعودی ولی عہد اور سعودی وزارتِ خارجہ بھی بخوبی آگاہ تھی ۔ امریکی صدر، جو بائیڈن، خاص طور پر طاقتور سعودی ولی عہد، جناب محمد بن سلمان، کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
اِس کا اندازہ ہم ایک مثال سے لگا سکتے ہیں کہ سعودی عرب دَورے سے چند دن قبل جو بائیڈن نے ممتاز امریکی اخبار (واشنگٹن پوسٹ) میں اپنے مشرقِ وسطیٰ کے دَورے بارے جو تفصیلی آرٹیکل لکھا، اس میں شاہِ سعودی عرب (جناب شاہ سلمان) کا ذکر تو کیا لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کا اشارتاًٍ ذکر بھی نہ کیا۔اس بات کو خاص طور پر نوٹ کیا گیا۔
اِس نظر اندازی کے باوصف سعودی عرب نے امریکی صدر کو خوش آمدید کہنے کے لیے بھرپور تیاریاں کررکھی تھیں۔ ولی عہد ، شہزادہ محمد بن سلمان، نے کئی علاقائی رکاوٹیں دُور کرنے کے لیے خاص طور پر مصر، اُردن اور ترکی کا دَورہ کیا۔ مقصد یہ تھا کہ جو بائیڈن جب سعودی عرب میں قدم رکھیں تو اِن ممالک کی طرف سے کوئی ناخوشگوار بات سامنے نہ آ جائے شہزادہ صاحب اس کوشش میں خاطر خواہ کامیاب بھی رہے ۔
ایسے ماحول میں امریکی صدر، جو بائیڈن، سعودی عرب پہنچے۔وہ پہلے امریکی صدر ہیں جو اسرائیل سے براہِ راست سعودی عرب اُترے ہیں ۔ اِس عمل کا فوری نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سعودی عرب نے اعلان کر دیا ہے کہ غیر جنگی اسرائیلی طیارے سعودی عرب کی فضاؤں کا استعمال کر سکتے ہیں ۔
یہ وہ رعائت ہے جو ڈونلڈ ٹرمپ بھی سعودی عرب سے حاصل نہیں کر پائے تھے ۔ جو بائیڈن جدہ کے ''السلام محل'' پہنچے تو سعودی ولی عہد، جناب محمد بن سلمان، نے بڑھ کر اُن کا استقبال کیا۔ اِس سے پہلے امریکی اور مغربی میڈیا میں یہ بے پر کی اُڑائی جا رہی تھی کہ جو بائیڈن سعودی عرب میں لینڈ کریں گے تو شاید شہزادہ محمد بن سلمان سے مصافحہ بھی نہیں کریں گے کہ اُن کی ناراضی کے کئی قصے سنے جا رہے تھے ۔
لیکن ہم نے یہ وڈیو منظر دیکھا ہے کہ جب امریکی صدر سعودی فرمانروا، جناب شاہ سلمان بن عبد العزیز ، سے ملنے اُن کے محل میں گئے تو ملاقات میں شہزادہ محمد بن سلمان صاحب بھی بنفسِ نفیس وہیں مسکراتے ہُوئے موجود تھے۔بعد ازاں انھوں نے جدہ میں عرب سربراہ کانفرنس کا انعقاد کیا تو اس کی صدارت شہزادہ محمد بن سلمان ہی کررہے تھے ، جب کہ جو بائیڈن اُن کے بالمقابل فروکش تھے ۔
سعودی عرب نے امریکی صدر کی تشریف آوری کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا۔ اس کا اندازہ ہم اُس مفصل بیان سے بھی لگا سکتے ہیں جو امریکا میں متعین پہلی سعودی خاتون سفیر، محترمہ شہزادی ریما بنت بندر، نے دیا ۔ شہزادی ریما نے کہا: '' گزشتہ 80برسوں سے سعودی عرب اور امریکا کے درمیان نہائت مضبوط اور معتبر ترین سفارتی ، معاشی اور دفاعی تعلقات مسلسل چلے آ رہے ہیں۔
ہم دونوں ممالک نے مل کر رُوسی کمیونزم کو شکست دی،گلوبل انرجی سیکیورٹی کے ضامن بنے رہے،ایرانی انقلاب کے راستے مسدود ومحدود کیے، کویت سے صدام حسین کو مار باہر نکالا اور حالیہ ایام میں داعش اور القاعدہ کو تباہ کر دیا۔'' یہ دعوے اتنے بے بنیاد بھی نہیں ہیں۔
سعودی عرب میں امریکی صدر کی موجودگی اور اُن کی صدارت میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت،بحرین، مصر،قطر، اُردن اور اومان کی جو سربراہی کانفرنس کا انعقاد ہُوا ہے، اِس کے نتائج اور اثرات بعد میں ظہور پذیر ہوں گے۔ فی الحال امریکی صدر کے دَورے کی سب سے بڑی کامیابی یہ کہی جا رہی ہے کہ سعودی عرب تیل کی پیداوار مقدور بھر بڑھانے پر رضامند ہو گیا ہے ۔
ساری مغربی دُنیا میں بالعموم کہا جارہا تھا کہ جو بائیڈن جب سعودی عرب کے دَورے سے واپس ہوں گے تو تیل کے حوالے سے سعودی حکومت تمام امریکی مطالبات من و عن تسلیم کر لے گی۔ سعودی فرمانروا اور سعودی ولی عہد نے مبینہ طور پر اس مطالبے کے جواب میں کہا ہے کہ ہم تیل کی پیداوار میں اضافہ تو ضرور کریں گے لیکن اُتنا ہی جتنا اضافہ کرنا ہماری گنجائش میں ہے۔ گویا یہ جواب امریکی مطالبے کے سامنے کامل طور پر سرنگوں ہونے سے انکار ہے۔
سعودی ولی عہد جناب محمد بن سلمان نے امریکی صدر کے سامنے یہ بات بھی غیر مبہم طور پر کہی کہ '' ہم سے بھی غلطیاں ہُوئی ہیں ، جس طرح امریکا سے غلطیاں ہُوئی ہیں ۔مثال کے طور پر امریکا نے ابو غریب ( مقبوضہ عراق کی جیل) میں مجبور انسانوں پر جو مظالم ڈھا کر انسانی حقوق کی پامالی کی اور جس طرح امریکا نے افغانستان کے ایک معصوم خاندان پر ڈرون حملہ کرکے سارے افراد کو قتل کر ڈالا''۔ سعودی ولی عہد نے یہ بھی کہا کہ ہماری بھی اپنی اقدار اور روایات ہیں ، ہم پر غیروں کی اقدار اور روایات مسلط نہیں کی جا سکتیں۔
سعودی ولی عہد کی یہ باتیں ہی اکلوتی سُپرپاور کے طاقتور صدر کو آئینہ دکھانے کے لیے کافی تھیں۔ اٹھارہ جولائی کو ''سی این این'' نے بھی کہا کہ امریکی صدر سعودی عرب کے دَورے سے تقریباً خالی ہاتھ ہی لَوٹے ہیں ۔
امریکی صدر ، جو بائیڈن، مشرقِ وسطیٰ کا چار روزہ دَورہ مکمل کرکے 17جولائی2022 کی سہ پہر واپس واشنگٹن چلے گئے۔ اُن کا پہلا اسٹاپ اسرائیل تھا اور آخری سعودی عرب۔اِسی پہلے اور آخری اسٹاپ ہی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکا کسے اولین ترجیح دیتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہرامریکی صدر صہیونی ریاست، اسرائیل، کو اولین حیثیت دینے پر ''مجبور'' ہے ۔
ورنہ طاقتور اور دولت مند امریکی یہودی اُس کا جینا حرام کر دیتے ہیں۔ جو بائیڈن نے کوئی پچاس برس قبل اُس وقت مشرقِ وسطیٰ کا پہلا تفصیلی دَورہ کیا تھا جب وہ پہلی بار امریکی سینیٹ کے رکن منتخب ہُوئے تھے۔ نائب امریکی صدر کی حیثیت میں بھی وہ سعودی عرب کادَورہ کر چکے ہیں۔ اب مگر طاقتور امریکی صدرکی حیثیت میں جو بائیڈن کا یہ پہلادَورئہ شرقِ اوسط تھا۔ جو بائیڈن پہلے دو دن اسرائیلی دارالحکومت، تل ابیب، میں رہے۔
اِس دوران انھوں نے یروشلم کا دَورہ بھی کیا جسے اسرائیل مظلوم و کمزور فلسطینیوں کی خواہشوں کے برعکس اپنا مستقل دارالحکومت بنانا چاہتا ہے۔ اِس صہیونی خواہش میں امریکی اشیرواد بھی حاصل ہے۔ مذکورہ دو دنوں کے دوران امریکی صدر مقبوضہ فلسطین میں فلسطینی صدر، جناب محمود عباس، سے بھی ملے۔
اس ملاقات کا مگر فلسطینیوں کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچا کہ جوبائیڈن تو سارا وقت اسرائیلی حکمرانوں اور طاقتور یہودی مذہبی رہنماؤں کی خوشنودی حاصل کرنے میں مصروف رہے ۔ ایسے میں انھیں مجبور، مقہور، مظلوم اور نحیف فلسطینیوں کے مفادات کیسے یاد رہ سکتے تھے؟
جب سے جو بائیڈن صدرِ امریکا منتخب ہُوئے ہیں،اِس دوران انھوں نے دانستہ سعودی عرب اور سعودی فرمانروا سے فاصلہ رکھا۔اِس تغافل کی حقیقت اور اصلیت سے سعودی عرب کے بادشاہ سلامت، سعودی ولی عہد اور سعودی وزارتِ خارجہ بھی بخوبی آگاہ تھی ۔ امریکی صدر، جو بائیڈن، خاص طور پر طاقتور سعودی ولی عہد، جناب محمد بن سلمان، کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
اِس کا اندازہ ہم ایک مثال سے لگا سکتے ہیں کہ سعودی عرب دَورے سے چند دن قبل جو بائیڈن نے ممتاز امریکی اخبار (واشنگٹن پوسٹ) میں اپنے مشرقِ وسطیٰ کے دَورے بارے جو تفصیلی آرٹیکل لکھا، اس میں شاہِ سعودی عرب (جناب شاہ سلمان) کا ذکر تو کیا لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کا اشارتاًٍ ذکر بھی نہ کیا۔اس بات کو خاص طور پر نوٹ کیا گیا۔
اِس نظر اندازی کے باوصف سعودی عرب نے امریکی صدر کو خوش آمدید کہنے کے لیے بھرپور تیاریاں کررکھی تھیں۔ ولی عہد ، شہزادہ محمد بن سلمان، نے کئی علاقائی رکاوٹیں دُور کرنے کے لیے خاص طور پر مصر، اُردن اور ترکی کا دَورہ کیا۔ مقصد یہ تھا کہ جو بائیڈن جب سعودی عرب میں قدم رکھیں تو اِن ممالک کی طرف سے کوئی ناخوشگوار بات سامنے نہ آ جائے شہزادہ صاحب اس کوشش میں خاطر خواہ کامیاب بھی رہے ۔
ایسے ماحول میں امریکی صدر، جو بائیڈن، سعودی عرب پہنچے۔وہ پہلے امریکی صدر ہیں جو اسرائیل سے براہِ راست سعودی عرب اُترے ہیں ۔ اِس عمل کا فوری نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سعودی عرب نے اعلان کر دیا ہے کہ غیر جنگی اسرائیلی طیارے سعودی عرب کی فضاؤں کا استعمال کر سکتے ہیں ۔
یہ وہ رعائت ہے جو ڈونلڈ ٹرمپ بھی سعودی عرب سے حاصل نہیں کر پائے تھے ۔ جو بائیڈن جدہ کے ''السلام محل'' پہنچے تو سعودی ولی عہد، جناب محمد بن سلمان، نے بڑھ کر اُن کا استقبال کیا۔ اِس سے پہلے امریکی اور مغربی میڈیا میں یہ بے پر کی اُڑائی جا رہی تھی کہ جو بائیڈن سعودی عرب میں لینڈ کریں گے تو شاید شہزادہ محمد بن سلمان سے مصافحہ بھی نہیں کریں گے کہ اُن کی ناراضی کے کئی قصے سنے جا رہے تھے ۔
لیکن ہم نے یہ وڈیو منظر دیکھا ہے کہ جب امریکی صدر سعودی فرمانروا، جناب شاہ سلمان بن عبد العزیز ، سے ملنے اُن کے محل میں گئے تو ملاقات میں شہزادہ محمد بن سلمان صاحب بھی بنفسِ نفیس وہیں مسکراتے ہُوئے موجود تھے۔بعد ازاں انھوں نے جدہ میں عرب سربراہ کانفرنس کا انعقاد کیا تو اس کی صدارت شہزادہ محمد بن سلمان ہی کررہے تھے ، جب کہ جو بائیڈن اُن کے بالمقابل فروکش تھے ۔
سعودی عرب نے امریکی صدر کی تشریف آوری کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا۔ اس کا اندازہ ہم اُس مفصل بیان سے بھی لگا سکتے ہیں جو امریکا میں متعین پہلی سعودی خاتون سفیر، محترمہ شہزادی ریما بنت بندر، نے دیا ۔ شہزادی ریما نے کہا: '' گزشتہ 80برسوں سے سعودی عرب اور امریکا کے درمیان نہائت مضبوط اور معتبر ترین سفارتی ، معاشی اور دفاعی تعلقات مسلسل چلے آ رہے ہیں۔
ہم دونوں ممالک نے مل کر رُوسی کمیونزم کو شکست دی،گلوبل انرجی سیکیورٹی کے ضامن بنے رہے،ایرانی انقلاب کے راستے مسدود ومحدود کیے، کویت سے صدام حسین کو مار باہر نکالا اور حالیہ ایام میں داعش اور القاعدہ کو تباہ کر دیا۔'' یہ دعوے اتنے بے بنیاد بھی نہیں ہیں۔
سعودی عرب میں امریکی صدر کی موجودگی اور اُن کی صدارت میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت،بحرین، مصر،قطر، اُردن اور اومان کی جو سربراہی کانفرنس کا انعقاد ہُوا ہے، اِس کے نتائج اور اثرات بعد میں ظہور پذیر ہوں گے۔ فی الحال امریکی صدر کے دَورے کی سب سے بڑی کامیابی یہ کہی جا رہی ہے کہ سعودی عرب تیل کی پیداوار مقدور بھر بڑھانے پر رضامند ہو گیا ہے ۔
ساری مغربی دُنیا میں بالعموم کہا جارہا تھا کہ جو بائیڈن جب سعودی عرب کے دَورے سے واپس ہوں گے تو تیل کے حوالے سے سعودی حکومت تمام امریکی مطالبات من و عن تسلیم کر لے گی۔ سعودی فرمانروا اور سعودی ولی عہد نے مبینہ طور پر اس مطالبے کے جواب میں کہا ہے کہ ہم تیل کی پیداوار میں اضافہ تو ضرور کریں گے لیکن اُتنا ہی جتنا اضافہ کرنا ہماری گنجائش میں ہے۔ گویا یہ جواب امریکی مطالبے کے سامنے کامل طور پر سرنگوں ہونے سے انکار ہے۔
سعودی ولی عہد جناب محمد بن سلمان نے امریکی صدر کے سامنے یہ بات بھی غیر مبہم طور پر کہی کہ '' ہم سے بھی غلطیاں ہُوئی ہیں ، جس طرح امریکا سے غلطیاں ہُوئی ہیں ۔مثال کے طور پر امریکا نے ابو غریب ( مقبوضہ عراق کی جیل) میں مجبور انسانوں پر جو مظالم ڈھا کر انسانی حقوق کی پامالی کی اور جس طرح امریکا نے افغانستان کے ایک معصوم خاندان پر ڈرون حملہ کرکے سارے افراد کو قتل کر ڈالا''۔ سعودی ولی عہد نے یہ بھی کہا کہ ہماری بھی اپنی اقدار اور روایات ہیں ، ہم پر غیروں کی اقدار اور روایات مسلط نہیں کی جا سکتیں۔
سعودی ولی عہد کی یہ باتیں ہی اکلوتی سُپرپاور کے طاقتور صدر کو آئینہ دکھانے کے لیے کافی تھیں۔ اٹھارہ جولائی کو ''سی این این'' نے بھی کہا کہ امریکی صدر سعودی عرب کے دَورے سے تقریباً خالی ہاتھ ہی لَوٹے ہیں ۔