ہمارے سیاستدان
کراچی:
آج وزیر اعلیٰ پنجاب کی سیٹ کا مقابلہ ہے، ٹاکرا بڑا سخت ہے، ایک دوسرے پر الزامات عائد کیے جارہے ہیں ، جب حالات یہ ہوں تو بتائیے ملک اور صوبہ کیسے چل سکتا ہے؟ ذاتی مفادات کا کھیل جاری ہے لیکن بہرحال کسی نے تو کامیابی حاصل کرنی ہے، اب ضرورت پنجاب کو استحکام کی ہے، بہت ہوگیا، سیاستدانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے۔
بقول شاعر
ہم کسی بھی دور میں ، غرقِ جنوں ایسے نہ تھے
دشمنوں میں جنگ میں بھی بے سکوں ایسے نہ تھے
ہمارے سیاستدانوں کے اندر ''رحم'' نام کی کوئی چیز نہیں ہے، یہ ملک و قوم اور غریب عوام کے نعرے تو ضرور لگاتے ہیں لیکن اُن کے لیے سب سے مقدم اُن کے اپنے اپنے سیاسی و مالی مفادات ہی ہوتے ہیں، اُن کی سیاست کا محور و مقصد صرف اور صرف اقتدار کا حصول اور اپنے اقتدار کو قائم رکھنا ہی ہوتا ہے۔ چاہے نواز ،شہباز، زرداری یا مولانا ہوں ،چاہے وہ عمران خان ہوں۔یہ سب اقتدار کی جنگ میں ایک دوسرے کے ساتھ دوستیاں دشمنیاں کر رہے ہیں۔
ملک کا خیال ہوتا، عوام کا احساس ہوتا تو مل بیٹھ کر موجودہ معاشی بحران کا کوئی حل نکالتے۔ لیکن جتنی باتیں ہو رہی ہیں، جو جو ملاقاتیں اور اپنی اپنی جماعتوں یا اتحادیوں کے درمیان مشاورت ہو رہی ہے اُس سب کا مقصد صرف اور صرف اپنی اپنی سیاست کو بچانا اور اقتدار کو قائم رکھنا یا اُس کا حصول ہے۔حالانکہ پنجاب میں ضمنی الیکشن کے بعد جو سیاسی عدم استحکام پیدا ہواہے ، وہ سب کے لیے پریشان کن ہونا چاہیے۔
گزشتہ تین چار روز میں پاکستان کی معیشت کو جو حال ہوا ہے، روپے کی جو بے قدری ہوئی ہے، وہ سنگدل سے سنگدل پاکستانی کابھی دل نرم کر سکتی ہے۔ لیکن مجال ہے ان سیاستدانوں اور اداروں کے کرتا دھرتاؤں کے کانوں پر جوں تک رینگی ہو۔ 4روز میں ڈالر 20 روپے مزیدمہنگا ہو گیا اور پاکستانی کرنسی کی یہ گراوٹ جاری ہے، اسٹاک ایکسچینج کا برا حال ہے، مگر رولنگ کلاس بدمست ہاتھی کی طرح سب کچھ روندے جا رہی ہے ۔
بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسیاں بھی پاکستان کی معیشت کے بارے میں منفی خبریں سنا رہی ہیں لیکن ایک طرف حکومتی اتحاد کے سربراہان قہقہے لگاتے ہوئے یہ فیصلہ سنا رہے ہیں کہ کچھ بھی ہوجائے وہ اپنی حکومت کی مدت مکمل کریں گے ، جب کہ دوسری طرف تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق کے سربراہان مرنے مارنے پر تلے ہوئے ہیںجب کہ ان کے اس بے رحم کھیل کے نتیجے میںملکی معیشت ڈوب رہی ہے ، عدلیہ سیاسی درخواستوں کی سماعت اور فیصلوں میں الجھی ہوئی ہے جب کہ باقی اے پولیٹیکل ہوکر دور بیٹھ گئے ہیں، ایسے حالات میں ملکی سالمیت کو شدید خطرات کا سامنا ہے۔
آنے والے دن اور مہینے عوام کے لیے مہنگائی کا ایک بڑا طوفان لائیں گے،لہٰذا یہ وقت ہے پاکستان کے بارے میں سوچنے کا!! یہ وقت ہے عوام پر جو ممکنہ مصیبتیں آنے والی ہیں اُن سے بچاو کے لیے سر جوڑ کر ،اپنے اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر ،سوچ بچار کرنے کا۔اگر اس وقت کو آج ہم نے ضایع کردیا تو یقین مانیں بہت پچھتاوا ہوگا اور ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا!
آج وزیر اعلیٰ پنجاب کی سیٹ کا مقابلہ ہے، ٹاکرا بڑا سخت ہے، ایک دوسرے پر الزامات عائد کیے جارہے ہیں ، جب حالات یہ ہوں تو بتائیے ملک اور صوبہ کیسے چل سکتا ہے؟ ذاتی مفادات کا کھیل جاری ہے لیکن بہرحال کسی نے تو کامیابی حاصل کرنی ہے، اب ضرورت پنجاب کو استحکام کی ہے، بہت ہوگیا، سیاستدانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے۔
بقول شاعر
ہم کسی بھی دور میں ، غرقِ جنوں ایسے نہ تھے
دشمنوں میں جنگ میں بھی بے سکوں ایسے نہ تھے
ہمارے سیاستدانوں کے اندر ''رحم'' نام کی کوئی چیز نہیں ہے، یہ ملک و قوم اور غریب عوام کے نعرے تو ضرور لگاتے ہیں لیکن اُن کے لیے سب سے مقدم اُن کے اپنے اپنے سیاسی و مالی مفادات ہی ہوتے ہیں، اُن کی سیاست کا محور و مقصد صرف اور صرف اقتدار کا حصول اور اپنے اقتدار کو قائم رکھنا ہی ہوتا ہے۔ چاہے نواز ،شہباز، زرداری یا مولانا ہوں ،چاہے وہ عمران خان ہوں۔یہ سب اقتدار کی جنگ میں ایک دوسرے کے ساتھ دوستیاں دشمنیاں کر رہے ہیں۔
ملک کا خیال ہوتا، عوام کا احساس ہوتا تو مل بیٹھ کر موجودہ معاشی بحران کا کوئی حل نکالتے۔ لیکن جتنی باتیں ہو رہی ہیں، جو جو ملاقاتیں اور اپنی اپنی جماعتوں یا اتحادیوں کے درمیان مشاورت ہو رہی ہے اُس سب کا مقصد صرف اور صرف اپنی اپنی سیاست کو بچانا اور اقتدار کو قائم رکھنا یا اُس کا حصول ہے۔حالانکہ پنجاب میں ضمنی الیکشن کے بعد جو سیاسی عدم استحکام پیدا ہواہے ، وہ سب کے لیے پریشان کن ہونا چاہیے۔
گزشتہ تین چار روز میں پاکستان کی معیشت کو جو حال ہوا ہے، روپے کی جو بے قدری ہوئی ہے، وہ سنگدل سے سنگدل پاکستانی کابھی دل نرم کر سکتی ہے۔ لیکن مجال ہے ان سیاستدانوں اور اداروں کے کرتا دھرتاؤں کے کانوں پر جوں تک رینگی ہو۔ 4روز میں ڈالر 20 روپے مزیدمہنگا ہو گیا اور پاکستانی کرنسی کی یہ گراوٹ جاری ہے، اسٹاک ایکسچینج کا برا حال ہے، مگر رولنگ کلاس بدمست ہاتھی کی طرح سب کچھ روندے جا رہی ہے ۔
بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسیاں بھی پاکستان کی معیشت کے بارے میں منفی خبریں سنا رہی ہیں لیکن ایک طرف حکومتی اتحاد کے سربراہان قہقہے لگاتے ہوئے یہ فیصلہ سنا رہے ہیں کہ کچھ بھی ہوجائے وہ اپنی حکومت کی مدت مکمل کریں گے ، جب کہ دوسری طرف تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق کے سربراہان مرنے مارنے پر تلے ہوئے ہیںجب کہ ان کے اس بے رحم کھیل کے نتیجے میںملکی معیشت ڈوب رہی ہے ، عدلیہ سیاسی درخواستوں کی سماعت اور فیصلوں میں الجھی ہوئی ہے جب کہ باقی اے پولیٹیکل ہوکر دور بیٹھ گئے ہیں، ایسے حالات میں ملکی سالمیت کو شدید خطرات کا سامنا ہے۔
آنے والے دن اور مہینے عوام کے لیے مہنگائی کا ایک بڑا طوفان لائیں گے،لہٰذا یہ وقت ہے پاکستان کے بارے میں سوچنے کا!! یہ وقت ہے عوام پر جو ممکنہ مصیبتیں آنے والی ہیں اُن سے بچاو کے لیے سر جوڑ کر ،اپنے اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر ،سوچ بچار کرنے کا۔اگر اس وقت کو آج ہم نے ضایع کردیا تو یقین مانیں بہت پچھتاوا ہوگا اور ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا!