مسئلے کا حل

FAISALABAD:
کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ انسان سوچتا کچھ ہے اور ہو کچھ جاتا ہے۔ حالیہ بارشوں نے کراچی کی صورت حال خاصی ابتر کردی ہے، کروڑوں روپے کا ٹیکس ادا کرنے والے علاقوں میں جا کر دیکھیے، تکلیف ہوتی ہے ایسا کیسے اچھا لگ سکتا ہے کہ ہم اپنا گھر صاف ستھرا رکھیں اور گھر سے باہر کوڑا کچرا بکھرا ہو، لیکن بارشوں نے اب گھر سے باہر پانی کے ساتھ کوڑا کچرا اور گھروں کے اندر بھی پانی پانی کردیا ہے۔

ابھی سوچا جا رہا تھا کہ سڑکوں پر ادھر سے اُدھر بڑے نالے فٹ کیے جائیں اور شہر کو بارش کے پانی سے ڈبونے کے بچاؤ کی تراکیب سوچی جائیں کہ ایک نیا فسانہ کھڑا ہوگیا ابھی اس کے بارے میں سوچا جا رہا تھا کہ۔۔۔!

مسائل سر اٹھائے کھڑے ہیں ان سے کیسے نکلا جائے؟ کیسے نمٹا جائے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ اچانک ایک خبر پر نظر پڑتی ہے اور بہت سے سوالوں کے جواب سلجھتے نظر آتے ہیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے دماغوں کو ٹھنڈا اور دلوں میں وسعت پیدا کی جائے۔

حیدرآباد کے مشہور ماہر نفسیات ڈاکٹر بی وی پٹا بھی رام نے ایک انکشاف کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ انسان (مرد اور عورت) روزانہ کئی مسائل سے دوچار ہوتے ہیں۔

جن کی وجہ سے ان کے ذہنی اور جسمانی اعضا متاثر ہوتے ہیں، مسائل و پریشانی سے دوچار افراد کی اکثریت دماغی بیماریوں کا شکار رہتی ہے۔ ڈاکٹر بی وی پٹا بھی رام نے بتایا کہ مذہب السلام کے ماننے والے مسلمان پانچ وقت کی نماز ادا کرتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ دماغی بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں، انھوں نے بتایا کہ نماز ادا کرنے والوں کی دماغی و جسمانی نشوونما میں اضافہ ہوتا ہے ، روحانی سکون ملتا ہے۔


انھوں نے عرب ممالک کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ عرب ممالک میں پاگل خانہ نہیں ہوتا کیونکہ وہاں نماز پڑھنے والوں کی اکثریت ہوتی ہے، دنیا کے زیادہ تر ممالک میں پاگل خانے ہوتے ہیں، عرب ممالک میں ایک بھی پاگل خانہ نہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ نماز پڑھنے سے انسان کی دماغی نشوونما میں اضافہ ہوتا ہے اور دماغی امراض سے محفوظ رہتے ہیں۔ ڈاکٹر بی وی پٹا بھی رام نے کہا ہے کہ نماز کے طریقہ کار بالخصوص قاعدہ کا طریقہ انتہائی اہم ہے۔ ان کے مطابق قاعدے میں بیٹھنے والے شخص کے دوران خون کی وجہ سے ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے، ذہنی بیماری کا بھی علاج ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں نماز کے دوسرے ارکان قیام، رکوع اور سجدے کی وجہ سے خون کے اتار چڑھاؤ سے دماغ اور جسم کی رگوں میں تبدیلی ہوتی ہے جس سے کئی امراض کا علاج ہوتا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ آیورویدک کے ذریعے دماغی بیماریوں کا علاج کیا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر بی وی پٹابھی رام نے یہ انٹرویو ایک تلگو چینل کو دیا تھا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ غیر مسلم بھی اسلام کے اس اہم رکن کی اہمیت کو پہچان چکے ہیں۔ دنیا بھر میں ریسرچ ہو رہی ہیں، جانچا جارہا ہے کہ انسانی صحت کے لیے کون سی غذا مفید اور کون سی خطرناک ہے، کس طرح کی ورزش کس عمر اور صحت کے افراد کے لیے موزوں ہے لیکن ہم ان سب باتوں میں یہ بھول جاتے ہیں کہ جو رکن رب العزت کی جانب سے کنفرم کردیے گئے ہیں اور جو عبادت کا طریقہ، انداز حضور اکرمؐ کی جانب سے بتا دیا گیا ہے اس میں یقینا انسانوں کے لیے فائدہ ہی ہے، نقصان کوئی نہیں ہے۔

ابھی چند دنوں کی ہی تو جیسے بات ہے بارش سے قبل بھارت سے ایسے ایسے خطرناک وڈیو وائرل ہو رہے تھے جنھیں دیکھ کر ایک حساس دل رکھنے والا انسان بے اختیار رو پڑتا، آج وہاں کیا صورت حال ہے خدا جانے! لیکن مسلمانوں کے خلاف تعصب پسندی کا زہریلا جذبہ برسوں سے رہنے والے مسلمانوں کے وجود پر سوال اٹھا رہا ہے، یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے، گو ایک انتہائی پرتعصب نوپور شرما کے بیان نے ایک تناؤ تو پیدا کر ہی دیا تھا لیکن بیرونی طاقت ور ممالک جہاں سے بھارتی ہندو عوام کی ایک بڑی تعداد کھا کما رہی ہے۔ احساس دلا دیا کہ مسلمانوں کے وجود کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہے۔

جسے رب العزت نے پیدا کیا ہے اس کے وجود سے ہم انکار کیسے کرسکتے ہیں، یہ دنیا مختلف خطوں میں بٹی ہوئی ہے۔ رنگ، نسل، زبان، مذہب اور نجانے کیسے کیسے پیمانے ہیں جو دو انسانوں کو ایک دوسرے سے اس طرح سے جدا کردیتے ہیں کہ جیسے وہ ایک ہو ہی نہیں سکتے، درحقیقت یہ ساری اختراع اسی کمزور انسانی دماغ کی ہے کہ جس کے تحت خطوں اور اس میں بسنے والوں کے درمیان نفرتوں کی فصل بو دی جاتی ہے۔ کیا کبھی نفرتوں کی جنگ سے دنیا کو فائدہ حاصل ہوا ہے؟

یہ زمین اسی رب کی ہے کہ جس نے ہمیں پیدا کیا ہے، ہم خوش نصیب ہیں کہ ایک مسلم ریاست میں آزادانہ رہتے ہیں، ڈاکٹر بی وی پٹابھی رام مسلمان نہیں ہیں لیکن انھوں نے یہ جان لیا ہے کہ نماز پڑھنے کے عملی کیا فوائد حاصل ہوتے ہیں، لیکن اگر ہم اس پریکٹس کو اس طرح سے شروع کریں کہ ہماری باطنی بیماریاں بھی رخصت ہو جائیں تو یقینا ہمارے ملک میں نہ صرف کوئی پاگل خانہ نظر نہیں آئے گا بلکہ سڑکیں صاف ستھری، پانی کے وافر ڈیمز، انرجی کے وافر پلانٹس، ملک بھر کے نلکوں سے دن رات صاف ستھرا پانی دستیاب ہوگا، گیس سے سارے صارفین مستفید ہوں گے اور حضرت عمر فاروقؓ کی ریاست کی مانند کوئی فقیر دستیاب نہ ہوگا کہ جس کو ہم بھیک دے سکیں۔

ہمارا ملک قرضہ لینے والا نہیں بلکہ قرضے دینے والا ملک بن جائے گا اور بھس میں چنگاری ڈالنے والے منہ چھپا کے کہیں سوئے پڑے ہوں گے۔ یقین جانیے یہ کسی دیوانے کا خواب نہیں ہے۔ اپنی صفوں کو سیدھا رکھنے کے لیے ہمیں اپنے اندر اس روح کو بیدار کرنا ضروری ہے جسے تھپک تھپک کر دو سو سال سے سلایا جا رہا ہے۔ دعا ہے کہ ہم سب کو رب العزت نیک ہدایت دے آمین۔
Load Next Story