بٹوارا
آزادی کے بعد 35-30 برس تک بھارتی مسلمان پست سے پست تر ہوتے گئے مگر پاکستان سے کوئی آواز بلند نہیں ہوئی
HYDERABAD:
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ قیام پاکستان کے لیے برصغیر کے ان مسلمانوں کی قربانی قابلِ احترام ہے۔
جنھوں نے اقلیتی صوبوں میں ہونے کے باوجود پاکستان کے لیے ووٹ اور اس سے بڑھ کر جان و مال کی قربانی دی، حالانکہ ان کو یہ معلوم تھا کہ جہاں وہ صدیوں سے رہ رہے ہیں، جہاں ان کا روزگار ہے اور باپ دادا کی قبریں ہیں، ان سب کو انھیں چھوڑنا ہوگا اور ان کو ایک نہ ایک روز ہجرت کرنی ہوگی، جہاں مسلم اکثریت بستی ہے۔
ان کے لیے یہ خسارے کا سودا تھا مگر ان کے لیے یہ نعرہ نہایت دلکش تھا کہ ''لے کے رہیں گے پاکستان، بٹ کے رہے گا ہندوستان'' آخرکار یہی ہوا کہ برصغیر منقسم ہوا، ایک حصّہ سیکولر بھارت رہا، دوسرا حصّہ اسلامی جمہوریہ پاکستان، مگر صد فیصد آبادی کا انخلا ممکن نہ تھا۔ اس لیے بھارت میں ایک بڑی مسلم اکثریت بستی رہی، بٹوارے کے بعد ان مسلمانوں کو بہت سخت دن دیکھنے پڑے، یہ مسلمان کم از کم 35 برس تک غدار سمجھے جاتے رہے۔ اس میں کوئی شک نہ تھا کہ وہ مسلمان پاکستان سے آس لگائے رہے اور اس کی ترقی اور سربلندی کے لیے دعاگو رہے۔
یہاں تک کہ کرکٹ میچوں میں بھی بھارتی مسلمان پاکستانی کھلاڑیوں کی ہمت افزائی اور مدح سرائی کرتے رہے۔ اس لیے ان کا عرصہ حیات تنگ سے تنگ تر ہوتا گیا۔ دوسری جانب ستم ظریفی یہ کہ پاکستان پر ان کی آمد کے دروازے بند کردیے گئے۔ غور تو کیجیے کہ افغانستان کے مسلمانوں نے پاکستان کے قیام کے لیے نہ جدوجہد کی اور نہ جان و مال کی قربانی مگر وہ بہ آسانی، بلاروک ٹوک افغانستان آجاسکتے ہیں، کشمیر کے لیے پاکستان میں سیاسی طور پر آواز اٹھائی جاتی رہی مگر بھارتی مسلمانوں کو بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا۔
آزادی کے بعد 35-30 برس تک بھارتی مسلمان پست سے پست تر ہوتے گئے مگر پاکستان سے نہ کوئی آواز بلند ہوئی اور نہ کوئی دست گیری کی گئی، بٹوارے کے بعد گھر کے لوگ تقسیم ہوئے، بھائی بہن، ماں باپ تقسیم ہوئے، بیوی پاکستان بچوں کے ساتھ آگئی تو باپ وہاں رہ گیا یا پاکستان کی محبت میں گھر چھوڑ کر بچوں کو چھوڑ کر ہزاروں لاکھوں لوگ پاکستان آگئے مگر یہ تقسیم شدہ خاندان نہ صرف پریشان حال رہے بلکہ بٹے ہوئے خاندان کے لوگوں سے برس ہا برس رابطہ ممکن نہ تھا۔ خط و کتابت آسان نہ تھی کیونکہ پاکستان کے طالع آزمائوں کو یہ پسند نہ تھا کہ بھارتی مسلمان پاکستان کا رخ کریں کیونکہ اس طرح پاکستان کی ڈیمو گرافی بدل سکتی ہے اور ان کا حلقہ انتخاب متاثر ہوتا ہے۔ یہ خیالات 1950 کی دہائی میں پیدا ہونے لگے تھے۔ اس طرح دو قومی نظریے کی بیخ کنی شروع ہوچکی تھی اور جلد ہی مسلم قوم کا تصور قومیت اور لسانی تصور کے مقابلے میں پھیکا پڑ گیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کے دو ممالک ایسے ہیں جو نظریاتی بنیادوں پر قائم ہوئے۔ ایک اسرائیل دوسرا پاکستان، جب کہ کسی بھی یہودی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اسرائیل میں بس سکتا ہے اور وہاں کی شہریت حاصل کرسکتا ہے۔ دوسری جانب قیامِ پاکستان کے لیے ووٹ دینے والے پاکستان میں نہیں بس سکتے، چونکہ بھارتی حکومت مسلمانوں کے اس کردار کو بری نگاہ سے دیکھتی تھی، لہٰذا اس نے بھارتی مسلمانوں پر سخت ترین پابندیاں عاید کردیں۔ دوسری جانب پاکستان کے سیاسی لیڈروں کو اپنی کرسی اور ووٹ بینک کا خدشہ تھا۔
اس لیے وہ بھی بھارت کی اس پالیسی سے متفق ہوگئے اور جب یہ یقین ہوگیا کہ اب بھارتی روپیہ کی قیمت پاکستانی روپے سے تقریباً ڈیڑھ گنا زیادہ ہے تو ایسی صورت میں وہ پاکستان کیوں کر بسیں گے، لہٰذا یہاں یہ خدشہ بھی جاتا رہا۔ مگر سندھ کے قوم پرست حلقے ابھی تک اسی خیال کی دنیا میں بس رہے ہیں۔ پنجاب میں نسبتاً روشن خیالی اور تعلیم کا اوسط زیادہ ہے، لہٰذا وہ اس خیال کو ترک کرچکے ہیں اور اپنی خوش حالی اور تجارت پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔
انھیں مشرقی پنجاب کی زرعی پیداوار اور اس کی ترقی کو دیکھ کر نئی امنگیں پیدا ہوئی ہیں اور واہگہ بارڈر سے تجارت ہوتی رہی ہے، خواہ کم یا زیادہ اس طرح معاشی اعتبار سے وہ علاقہ پس ماندگی سے دور ہوتا جارہا ہے۔ اگر ہمارے سندھ کے قوم پرست ساتھی یہ سمجھ لیں تو وہ دن دور نہیں کہ میرپور خاص سے لے کر کراچی اور مونا بائو تک ترقی کی ایک نئی لہر آجائے گی، جس کے ثمرات سے سندھ کے عام آدمی بھی فیض اٹھائیں گے مگر ہم آج تک زبان، کلچر اور نسل پرستی کے حصار سے باہر نہیں نکلے۔
بٹوارے کے وقت پاک و ہند کے اثاثے تقسیم ہوئے، فوج تقسیم ہوئی، گورنمنٹ سرونٹ تقسیم ہوئے مگر جان و مال، عزت و آبرو کا خسارہ عام آدمی کو ہی اٹھانا پڑا۔ تقسیم کے بعد بھارتی مذہبی پارٹیاں بھارت کے مسلمانوں کے خلاف حصار بناتی رہیں اور پاکستان کی مذہبی جماعتیں بھارت دشمنی اور لال قلعہ کو فتح کرنے کا نعرہ لگا کر بھارتی انتہا پسندوں کو مضبوط تر کرتی رہیں، اس طرح بھارتی مسلمان مصائب کا مزید شکار ہوتے رہے۔ پاکستان میں حالیہ دنوں میں مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا خون بہنا بھی بھارتی مسلمانوں کے لیے مایوس کن رہا اور وہ پاکستان میں سکونت کا خواب اب نہیں دیکھتے بلکہ اب انھوں نے یہ تاریخی حقیقت تسلیم کرلی ہے کہ وہ بھارت کا ہی حصّہ ہیں۔
تقسیمِ ہند کے بعد بھارتی حکمرانوں کا رویہ پاکستان کے خلاف معاندانہ تھا، اس لیے پاکستان کے اسٹیبلشمنٹ نے بھی بھارت کو دشمن نمبر ایک کی فہرست میں ڈال دیا۔ یہ صورتِ حال اس قدر بڑھی کہ دونوں ملکوں نے اپنی تمام تر توانائی ایٹمی اسلحے پر جھونک دی۔ پس ماندہ قوموں کی اس جنگجویانہ پالیسی نے ہمہ وقت سردِ جنگ کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے، مگر دنیا کی بدلتی ہوئی سیاسی تبدیلیوں نے ایک طویل عرصے کے بعد یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ اگر معاشی ترقی نہ ہوئی تو پھر جنگ تو کجا یہ ملک اپنا وجود بھی بہ مشکل برقرار رکھ سکیں گے اور اگر یہ برقرار رکھیں گے بھی تو ترقی یافتہ ممالک کے رحم و کرم پر ہی رہیں گے۔
بھارت چونکہ ایک بڑا ملک ہے وہ کسی حد تک نسبتاً زیادہ عرصہ کھینچ سکتا ہے مگر ہماری معیشت سست روی کا شکار ہے، مزید سست روی کا شکار ہوتی جائے گی۔ غالباً بھارت کی سمجھ میں یہ بات آگئی ہے کہ مضبوط خوش حال اور پرامن پاکستان بھارت کے لیے بھی زیادہ ضروری ہے۔ مسٹر کرشنا کا حالیہ دورہ کچھ اسی طرف اشارہ کرتا ہے مگر ان کے دورے سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ مغربی ممالک بھی اب اس خطے کو فی الحال چھیڑنا نہیں چاہتے اور پاکستان کا چین کی طرف ضرورت سے زیادہ جھکائو بھی کسی حد تک کم کیا جائے۔
واضح رہے کہ چین کوئی اسلامی ملک نہیں بلکہ وہ ایک کمیونسٹ اسٹیٹ ہے، وہاں کی جمہوریت کے خدوخال مغربی جمہوریت جس کو عرفِ عام میں بالادست طبقات کی جمہوریت کہا جاتا ہے، وہ چین میں نہیں اور نہ وہاں کسی کو ایسی مذہبی آزادی ہے جیسی کہ بھارت میں ہے یا پاکستان میں۔ مگر جمہوریت کا یہ تصور کہ انسان بے لگام ہوجائے اور دوسرے کے حقوق سلب کرلے، یہ جمہوریت نہ چین میں ہے اور نہ امریکا میں۔
یہ جمہوریت صرف پاکستان میں ہے، جہاں اسمبلی کے ممبران جعلی ڈگریاں لے کر بیٹھے ہیں ، اور عدالتوں سے آجکل سزا پا رہے ہیں۔ جمہوریت کی یہ قسم بھی نرالی ہے، بہرصورت حالیہ دنوں میں تھوڑی بہت جو پیش رفت ہوئی ہے، وہ بھی حوصلہ افزا ہے۔ بھارت اور پاکستان دونوں کے مفاد میں یہ بات جاتی ہے کہ وہ سماجی، معاشی رشتہ استوار کریں اور ایک دوسرے کو ایٹمی جنگ کے خوف سے دور کریں تو پھر معاشی پہیہ تیزی سے دوڑے گا۔ بھارت کو تو یہاں 18 کروڑ کی مارکیٹ ملے گی جب کہ پاکستانی صنعت کاروں کو 1.25 ارب کی مارکیٹ۔
دونوں ملکوں کی بولی رسم و رواج، بھاشا ایک ہے۔ ہم صدیوں ایک ساتھ رہے ہیں، لہٰذا سفر تازہ شروع کرنے اور رنجشوں کو بھلا کر پریم کا سفر کرنا دونوں کے حق میں ہے۔ اس طرح سرحدی جھگڑوں سے دھیان ہٹے گا تو پھر اندرونی استحکام پر زیادہ توجہ دی جاسکتی ہے، خصوصاً پاکستان کے لیے یہ زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ پاکستان بیرونی اور اندرونی خطرات کی زد پر ہے، ویزے کا اجرا ایک اہم پیش رفت ہے مگر سفر کٹھن اور صبر آزما ہے۔ یورپی یونین کی طرح برصغیر میں کراچی سے لے کر کٹھمنڈو تک کا سفر و سیاحت ہمارے خطے کو ایک سماجی اور معاشی تبدیلی کی نوید سنائے گا۔ ہمارے ملک میں کشت و خون کا بازار گرم ہے جس کے سیاسی محرکات ہیں مگر معاشی محرکات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔