مون سون بارشیں اور انتظامی نا اہلی
لاہور میں سات گھنٹے کی مسلسل بارش نے 20 سال کا ریکارڈ توڑ دیا
ISLAMABAD:
ملک بھر میں موسلادھار بارشوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہونے سے نشیبی علاقے ایک بار پھر پانی میں ڈوب گئے۔ گلیاں تالاب بن گئیں'متعدد فیڈرز ٹرپ ہونے سے بجلی کی آنکھ مچولی کا سلسلہ جاری رہا'چھتیں گرنے اور دیگر واقعات میں 11افراد جان کی بازی ہار گئے۔
لاہور میں سات گھنٹے کی مسلسل بارش نے20سال کا ریکارڈ توڑ دیا' کئی علاقوں میں بارش کا پانی گھروں اور دکانوں میں داخل ہو گیا مختلف شاہراہوں پر کئی کئی فٹ پانی کھڑا ہونے سے گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں بند ہوتی رہیں۔
جولائی کے شروع میں حبس اور گرمی کے باعث لوگ بارش کی دعا کرتے رہے مگر مون سون کی بارشوں کا سلسلہ شروع ہونے سے حبس اور گرمی کا زور تو ٹوٹا مگر اس سے جانی اور مالی نقصان بھی بہت زیادہ ہوا، نظام زندگی مفلوج ہو گیا بالخصوص عیدالاضحی کے موقع پر کراچی میں شروع ہونے والے شدید بارشوں کے سلسلے نے انتظامیہ اور شہریوں کو بے بس کر کے رکھ دیا نشیبی علاقے تالاب کا منظر پیش کرنے لگے' تجارتی مراکز اور دکانوں میں بارش کا پانی داخل ہونے سے شہریوں کے مسائل میں اضافہ ہوا اور ہر طرف سیلاب کی سی صورت پیدا ہو گئی۔
ملیر ندی سمیت مضافاتی علاقوں کے قریب رہائش پذیر آبادی کو نقل مکانی کرنا پڑی' کراچی شہر کا بڑا حصہ بجلی سے محروم ہو گیا' بارش کے بعد شہر قائد کے باسی محفوظ پناہ کی تلاش میں مارے مارے پھرتے نظر آئے' عید کی ساری خوشیاں بارش کے پانی میں بہہ گئیں۔ کبھی برسات کا موسم اپنے اندر رومانوی رنگ اور خوشی کے نئے جذبات لے کر آتا تھا، شعراء کرام ساون کے موسم کے حسین نقشے کھینچتے تھے' اس موسم کے لکھے گئے گیت آج بھی لوگوں کی زبانوں پر عام ہیں ،ساون آئے ساون جائے تجھ کو پکارے گیت ہمارے ' اماں میرے بابا کو بھیجو ری کہ ساون آیا ' کالی گھٹا چھائی پریم رت آئی۔
مگر اب سسٹم کی خرابی نے رومانوی رنگ اور جوش کو ڈراؤنے خواب اور خوفناک یاد میں تبدیل کر دیا ہے۔ اب ساون کی بارشوں میں خواتین اپنے میکے فون کر کے کہتی ہیں کہ اماں میرے بابا اور بھیا کو بھیجو کہ گھر میں داخل ہونے والے بارش کے پانی کو باہر نکالیں۔ بارشوں سے ہونے والی تباہی کا الزام موسم برسات کو دینا قطعی طور پر درست رویہ نہیں' برسات کا موسم ہر برس آتا ہے اور ہر موسم میں کم و بیش بارشیں ہوتی ہیں، گزشتہ 50سال کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیا جائے تو صورت حال سامنے آ جائے گی۔
بارشوں سے پیدا ہونے والے مسائل کوئی نئے نہیں، ہر سال اس موسم میں یہ مسائل جنم لیتے ہیں اور انتظامیہ اور حکومتی ادارے مصیبت سر پر پڑنے کے بعد بھاگ دوڑ کرتے اور شہریوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ارباب حکومت میڈیا کے کیمروں کے سامنے بڑے بڑے دعوے کرتے دکھائی دیتے ہیں' لیکن ان نمائشی فوٹو سیشن کے بعد وہ انھیں ایسے بھول جاتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی ہیں۔ اگر ہر سال موسم برسات شروع ہونے سے قبل نالوں کی بھرپور صفائی کی جائے، سڑکیں مرمت اور نکاسی آب کا انتظام بہتر بنایا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ موسم برسات میں صورت حال اس قدر درد ناک اور پریشان کن ہو جو لاہور' کراچی سمیت ملک بھر کے شہریوں کا مقدر بن چکی ہے۔
کراچی جیسے بڑے شہر میں انتظامی غفلت اور کرپشن کے باعث لاتعداد چھوٹے بڑے نالے غائب ہو چکے اور وہاں تجاوزات قائم ہو چکی ہیں' جو نالے موجود ہیں وہاں بھی ناجائز رہائشی آبادیاں بن چکی ہیں اور یہ نالے روز بروز تنگ ہوتے جا رہے ہیں۔
دوسری جانب شہریوں کی بے حسی اور لاپروائی کا عالم یہ ہے کہ یہ تنگ ہوتے ہوئے نالے پولی تھین کے شاپر بیگز اور ہر قسم کے کوڑا کرکٹ سے اٹے پڑے ہیں، اس پر مستزاد یہ کہ لوگ عمارتی ملبہ اور دیگر ٹوٹا پھوٹا گھریلو سامان بھی ان نالوں میں پھینکنے سے گریز نہیں کرتے جس کے باعث ان نالوں میں پانی کی روانی متاثر ہو رہی ہے مگر جب زیادہ بارشیں ہوتی ہیں تو ان نالوں میں پھینکا گیا کچرا اور گند پانی کے بہاؤ میں بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے اور یہ نالے اپنے کناروں سے باہر آ کر ارد گرد کی آبادیوں کو متاثر کرتے ہیں۔
ایک طرف موسم برسات میں انتظامی نااہلی کے باعث شہریوں کی پریشانی میں اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری طرف مہنگائی ایک بڑے عذاب کی صورت میں نازل ہو رہی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کی آؤٹ لک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گزشتہ چھ ماہ میں مہنگائی 12سے بڑھ کر 21فیصد ہو گئی۔
ادھر ڈالر کی تیز ترین پرواز کے باعث اسٹاک مارکیٹ مندی کا شکار چلی آ رہی ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے لیے قسط کے اجراء کو رواں سال میں سعودی عرب کی جانب سے 4ارب ڈالر کی ضمانت سے مشروط کرنے کی نئی شرط اور خام تیل کی درآمدی ادائیگیوں کے دباؤ کے باعث 21جولائی کو بھی ڈالر کی تیز رفتار پرواز جاری رہی اور ملکی تاریخ میں وہ پہلی بار 230روپے کی حد کو چھو کر تقریباً 227روپے پر واپس آ گیا۔
نئی حکومت سے عوام کو توقع تھی کہ وہ مہنگائی کو قابو میں کرے گی اور ڈالر کی قیمت کم ہو گی لیکن صورت حال یہ ہے کہ جن پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے' وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ہم ڈالر کو قید نہیں کر سکتے کیونکہ ہم ڈبلیو ٹی او اور آئی ایم ایف سمیت عالمی معاہدوں میں جکڑے ہوئے ہیں' اس کے ساتھ ساتھ وہ تھپکی دیتے ہوئے حوصلہ دے رہے ہیں کہ درآمدات میں کمی سے روپیہ پر دباؤ کم ہو گا اور معیشت بہتر ہو رہی ہے، انھوں نے ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سیاسی کشیدگی کو قرار دیا۔
سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے بھی یہ کہا ہے کہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ اگر سیاسی عدم استحکام اور ارکان اسمبلی کی باہمی کشیدگی کے باعث ڈالر کی قیمت میں اضافہ اور ملک میں مہنگائی بڑھ رہی ہے تو اس کے ذمے دار صرف حکومتی ارکان ہی نہیں بلکہ اپوزیشن ارکان بھی اس میں حصہ ہے۔ حزب اقتدار اور حزب مخالف دونوں ہی ملکی معیشت کی دگرگوں ہوتی ہوئی صورت حال کے ذمے دار ہیں۔
ساون کے موسم میں بارشیں زیادہ ہونے سے جہاں سیلابی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے وہاں ایک عرصے تک بارشیں نہیں ہوتیں تب دریاؤں اور ڈیمز میں پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے' اس کی ایک بڑی وجہ حکومتی بدانتظامی اور منصوبہ بندی کا نہ ہونا ہے' مون سون بارشوں کے نتیجے میں حاصل ہونے والا پانی آبی ذخائر نہ ہونے کے باعث ضایع ہو جاتا ہے' ارسا کے مطابق پاکستان میں آبی ذخائر نہ ہونے کی وجہ سے سالانہ 21ارب ڈالر مالیت کا پانی سمندر میں شامل ہو جاتا ہے' پاکستان کے پاس اس پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 30دن کی ہے' دنیا بھر میں دستیاب پانی کا 40فیصد ذخیرہ کیا جاتا ہے جب کہ پاکستان میں یہ 10فیصد ذخیرہ ہوتا ہے۔
ملک میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث یا تو بہت زیادہ بارشیں ہوتی ہیں یا پھر بہت کم مگر زیادہ بارشیں ہونے سے جانی اور مالی نقصان میں خاطر خواہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ آنے والے وقت میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے حکومتی سطح پر ابھی سے تیاری کرنا ہو گی آبی وسائل کے خطیر زیاں سے بچنے کے لیے بہتر پالیسیاں وضع کرنی ہوں گی' بارشوں کے پانی کو ضایع ہونے سے بچانے کے لیے آبی ذخائر کی تعمیر ناگزیر ہو چکی ہے' آبی وسائل نہ صرف زراعت اور بجلی کے لیے ضروری ہیں بلکہ انسان اور فطرت پر انحصار کرنے والی تمام حیاتیاتی انواع کے لیے بھی ناگزیر ہے۔
آبی ماہرین کا خیال ہے کہ جس قدر تیزی سے پاکستان میں پانی کے ذخائر میں کمی ہو رہی ہے اگر یہی صورت حال جاری رہی تو 2025تک پانی کی دستیابی 500کیوبک میٹر رہ جائے گی اور پاکستان کا شمار دنیا کے شدید ترین آبی قلت کے شکار ملک میں ہونے لگے گا' بالخصوص بلوچستان میں پانی کی بڑھتی ہوئی قلت کے باعث ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے۔دوسری جانب پڑوسی ملک بھارت کی جانب سے بڑھتی ہوئی آبی جارحت کے نتیجے میں پانی کا بہاؤ ہر گزرتے سال کے ساتھ کم ہوتا جا رہا ہے۔
عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں بارشوں اور برفباری کے انداز بدل رہے ہیں مختلف ممالک میں خشک سالی یا بے موسمی بارشیں ہو رہی ہیں جو فصلوں 'قدرتی حیات اور جنگلات کو سخت نقصان پہنچا رہی ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت اور پانی کی قلت کے مسائل کو حل کرنے کے لیے بہترین منصوبہ بندی کی جائے' حکومتی اداروں کا تساہل اور لاپروائی اسی طرح جاری رہی تو دن دور نہیں کہ پاکستان آبی وسائل کی قلت والے ممالک میں سرفہرست آ جائے گا۔
ملک بھر میں موسلادھار بارشوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہونے سے نشیبی علاقے ایک بار پھر پانی میں ڈوب گئے۔ گلیاں تالاب بن گئیں'متعدد فیڈرز ٹرپ ہونے سے بجلی کی آنکھ مچولی کا سلسلہ جاری رہا'چھتیں گرنے اور دیگر واقعات میں 11افراد جان کی بازی ہار گئے۔
لاہور میں سات گھنٹے کی مسلسل بارش نے20سال کا ریکارڈ توڑ دیا' کئی علاقوں میں بارش کا پانی گھروں اور دکانوں میں داخل ہو گیا مختلف شاہراہوں پر کئی کئی فٹ پانی کھڑا ہونے سے گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں بند ہوتی رہیں۔
جولائی کے شروع میں حبس اور گرمی کے باعث لوگ بارش کی دعا کرتے رہے مگر مون سون کی بارشوں کا سلسلہ شروع ہونے سے حبس اور گرمی کا زور تو ٹوٹا مگر اس سے جانی اور مالی نقصان بھی بہت زیادہ ہوا، نظام زندگی مفلوج ہو گیا بالخصوص عیدالاضحی کے موقع پر کراچی میں شروع ہونے والے شدید بارشوں کے سلسلے نے انتظامیہ اور شہریوں کو بے بس کر کے رکھ دیا نشیبی علاقے تالاب کا منظر پیش کرنے لگے' تجارتی مراکز اور دکانوں میں بارش کا پانی داخل ہونے سے شہریوں کے مسائل میں اضافہ ہوا اور ہر طرف سیلاب کی سی صورت پیدا ہو گئی۔
ملیر ندی سمیت مضافاتی علاقوں کے قریب رہائش پذیر آبادی کو نقل مکانی کرنا پڑی' کراچی شہر کا بڑا حصہ بجلی سے محروم ہو گیا' بارش کے بعد شہر قائد کے باسی محفوظ پناہ کی تلاش میں مارے مارے پھرتے نظر آئے' عید کی ساری خوشیاں بارش کے پانی میں بہہ گئیں۔ کبھی برسات کا موسم اپنے اندر رومانوی رنگ اور خوشی کے نئے جذبات لے کر آتا تھا، شعراء کرام ساون کے موسم کے حسین نقشے کھینچتے تھے' اس موسم کے لکھے گئے گیت آج بھی لوگوں کی زبانوں پر عام ہیں ،ساون آئے ساون جائے تجھ کو پکارے گیت ہمارے ' اماں میرے بابا کو بھیجو ری کہ ساون آیا ' کالی گھٹا چھائی پریم رت آئی۔
مگر اب سسٹم کی خرابی نے رومانوی رنگ اور جوش کو ڈراؤنے خواب اور خوفناک یاد میں تبدیل کر دیا ہے۔ اب ساون کی بارشوں میں خواتین اپنے میکے فون کر کے کہتی ہیں کہ اماں میرے بابا اور بھیا کو بھیجو کہ گھر میں داخل ہونے والے بارش کے پانی کو باہر نکالیں۔ بارشوں سے ہونے والی تباہی کا الزام موسم برسات کو دینا قطعی طور پر درست رویہ نہیں' برسات کا موسم ہر برس آتا ہے اور ہر موسم میں کم و بیش بارشیں ہوتی ہیں، گزشتہ 50سال کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیا جائے تو صورت حال سامنے آ جائے گی۔
بارشوں سے پیدا ہونے والے مسائل کوئی نئے نہیں، ہر سال اس موسم میں یہ مسائل جنم لیتے ہیں اور انتظامیہ اور حکومتی ادارے مصیبت سر پر پڑنے کے بعد بھاگ دوڑ کرتے اور شہریوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ارباب حکومت میڈیا کے کیمروں کے سامنے بڑے بڑے دعوے کرتے دکھائی دیتے ہیں' لیکن ان نمائشی فوٹو سیشن کے بعد وہ انھیں ایسے بھول جاتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی ہیں۔ اگر ہر سال موسم برسات شروع ہونے سے قبل نالوں کی بھرپور صفائی کی جائے، سڑکیں مرمت اور نکاسی آب کا انتظام بہتر بنایا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ موسم برسات میں صورت حال اس قدر درد ناک اور پریشان کن ہو جو لاہور' کراچی سمیت ملک بھر کے شہریوں کا مقدر بن چکی ہے۔
کراچی جیسے بڑے شہر میں انتظامی غفلت اور کرپشن کے باعث لاتعداد چھوٹے بڑے نالے غائب ہو چکے اور وہاں تجاوزات قائم ہو چکی ہیں' جو نالے موجود ہیں وہاں بھی ناجائز رہائشی آبادیاں بن چکی ہیں اور یہ نالے روز بروز تنگ ہوتے جا رہے ہیں۔
دوسری جانب شہریوں کی بے حسی اور لاپروائی کا عالم یہ ہے کہ یہ تنگ ہوتے ہوئے نالے پولی تھین کے شاپر بیگز اور ہر قسم کے کوڑا کرکٹ سے اٹے پڑے ہیں، اس پر مستزاد یہ کہ لوگ عمارتی ملبہ اور دیگر ٹوٹا پھوٹا گھریلو سامان بھی ان نالوں میں پھینکنے سے گریز نہیں کرتے جس کے باعث ان نالوں میں پانی کی روانی متاثر ہو رہی ہے مگر جب زیادہ بارشیں ہوتی ہیں تو ان نالوں میں پھینکا گیا کچرا اور گند پانی کے بہاؤ میں بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے اور یہ نالے اپنے کناروں سے باہر آ کر ارد گرد کی آبادیوں کو متاثر کرتے ہیں۔
ایک طرف موسم برسات میں انتظامی نااہلی کے باعث شہریوں کی پریشانی میں اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری طرف مہنگائی ایک بڑے عذاب کی صورت میں نازل ہو رہی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کی آؤٹ لک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گزشتہ چھ ماہ میں مہنگائی 12سے بڑھ کر 21فیصد ہو گئی۔
ادھر ڈالر کی تیز ترین پرواز کے باعث اسٹاک مارکیٹ مندی کا شکار چلی آ رہی ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے لیے قسط کے اجراء کو رواں سال میں سعودی عرب کی جانب سے 4ارب ڈالر کی ضمانت سے مشروط کرنے کی نئی شرط اور خام تیل کی درآمدی ادائیگیوں کے دباؤ کے باعث 21جولائی کو بھی ڈالر کی تیز رفتار پرواز جاری رہی اور ملکی تاریخ میں وہ پہلی بار 230روپے کی حد کو چھو کر تقریباً 227روپے پر واپس آ گیا۔
نئی حکومت سے عوام کو توقع تھی کہ وہ مہنگائی کو قابو میں کرے گی اور ڈالر کی قیمت کم ہو گی لیکن صورت حال یہ ہے کہ جن پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے' وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ہم ڈالر کو قید نہیں کر سکتے کیونکہ ہم ڈبلیو ٹی او اور آئی ایم ایف سمیت عالمی معاہدوں میں جکڑے ہوئے ہیں' اس کے ساتھ ساتھ وہ تھپکی دیتے ہوئے حوصلہ دے رہے ہیں کہ درآمدات میں کمی سے روپیہ پر دباؤ کم ہو گا اور معیشت بہتر ہو رہی ہے، انھوں نے ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سیاسی کشیدگی کو قرار دیا۔
سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے بھی یہ کہا ہے کہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ اگر سیاسی عدم استحکام اور ارکان اسمبلی کی باہمی کشیدگی کے باعث ڈالر کی قیمت میں اضافہ اور ملک میں مہنگائی بڑھ رہی ہے تو اس کے ذمے دار صرف حکومتی ارکان ہی نہیں بلکہ اپوزیشن ارکان بھی اس میں حصہ ہے۔ حزب اقتدار اور حزب مخالف دونوں ہی ملکی معیشت کی دگرگوں ہوتی ہوئی صورت حال کے ذمے دار ہیں۔
ساون کے موسم میں بارشیں زیادہ ہونے سے جہاں سیلابی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے وہاں ایک عرصے تک بارشیں نہیں ہوتیں تب دریاؤں اور ڈیمز میں پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے' اس کی ایک بڑی وجہ حکومتی بدانتظامی اور منصوبہ بندی کا نہ ہونا ہے' مون سون بارشوں کے نتیجے میں حاصل ہونے والا پانی آبی ذخائر نہ ہونے کے باعث ضایع ہو جاتا ہے' ارسا کے مطابق پاکستان میں آبی ذخائر نہ ہونے کی وجہ سے سالانہ 21ارب ڈالر مالیت کا پانی سمندر میں شامل ہو جاتا ہے' پاکستان کے پاس اس پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 30دن کی ہے' دنیا بھر میں دستیاب پانی کا 40فیصد ذخیرہ کیا جاتا ہے جب کہ پاکستان میں یہ 10فیصد ذخیرہ ہوتا ہے۔
ملک میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث یا تو بہت زیادہ بارشیں ہوتی ہیں یا پھر بہت کم مگر زیادہ بارشیں ہونے سے جانی اور مالی نقصان میں خاطر خواہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ آنے والے وقت میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے حکومتی سطح پر ابھی سے تیاری کرنا ہو گی آبی وسائل کے خطیر زیاں سے بچنے کے لیے بہتر پالیسیاں وضع کرنی ہوں گی' بارشوں کے پانی کو ضایع ہونے سے بچانے کے لیے آبی ذخائر کی تعمیر ناگزیر ہو چکی ہے' آبی وسائل نہ صرف زراعت اور بجلی کے لیے ضروری ہیں بلکہ انسان اور فطرت پر انحصار کرنے والی تمام حیاتیاتی انواع کے لیے بھی ناگزیر ہے۔
آبی ماہرین کا خیال ہے کہ جس قدر تیزی سے پاکستان میں پانی کے ذخائر میں کمی ہو رہی ہے اگر یہی صورت حال جاری رہی تو 2025تک پانی کی دستیابی 500کیوبک میٹر رہ جائے گی اور پاکستان کا شمار دنیا کے شدید ترین آبی قلت کے شکار ملک میں ہونے لگے گا' بالخصوص بلوچستان میں پانی کی بڑھتی ہوئی قلت کے باعث ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے۔دوسری جانب پڑوسی ملک بھارت کی جانب سے بڑھتی ہوئی آبی جارحت کے نتیجے میں پانی کا بہاؤ ہر گزرتے سال کے ساتھ کم ہوتا جا رہا ہے۔
عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں بارشوں اور برفباری کے انداز بدل رہے ہیں مختلف ممالک میں خشک سالی یا بے موسمی بارشیں ہو رہی ہیں جو فصلوں 'قدرتی حیات اور جنگلات کو سخت نقصان پہنچا رہی ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت اور پانی کی قلت کے مسائل کو حل کرنے کے لیے بہترین منصوبہ بندی کی جائے' حکومتی اداروں کا تساہل اور لاپروائی اسی طرح جاری رہی تو دن دور نہیں کہ پاکستان آبی وسائل کی قلت والے ممالک میں سرفہرست آ جائے گا۔