سیاسی جوڑ توڑ جمہوری کلچر کے لیے خطرہ
مسلم لیگ (ن) نے انتخابات میں شکست تسلیم کر کے ایک اعلیٰ جمہوری روایت کی بنیاد رکھی
BUDAPEST:
پنجاب میں 17 جولائی کو بیس نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں تحریک انصاف نے پندرہ نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے Populists in power کے نظریہ کو درست ثابت کر دیا۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کے بیرونی سازش کے بیانیہ کو قومی سلامتی کمیٹی نے قبول نہیں کیا۔ پھر سپریم کورٹ نے بھی اس بیانیہ کو مسترد کیا مگر تحریک انصاف کے حامیوں نے بیرونی سازش کے بیانیہ کو قبول کر لیا۔
مسلم لیگ (ن) نے انتخابات میں شکست تسلیم کر کے ایک اعلیٰ جمہوری روایت کی بنیاد رکھی۔ مریم نواز کی جانب سے عوامی فیصلے کے سامنے سر جھکانے کا بیان اور کمزوریوں کی نشاندہی کے عزم کا اظہار جمہوریت کے لیے ایک خوشگوار امید ہے مگر مسلم لیگ (ن) کا فوری طور پر عام انتخابات کے انعقاد سے انکار عمران خان کے بیانیہ کو مزید تقویت دے سکتا ہے۔ پنجاب میں ہونے والے ان ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف نے تمام قسم کے ہتھکنڈے استعمال کیے۔
تحریک انصاف نے اپنے بینر اور پمفلٹ میں ان انتخابات کو جہاد کہا اور مخالفین کو ملک دشمن قرار دے کر ووٹروں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ پھر الیکشن کمیشن کے غیر جانب دار کردار کے باوجود کمیشن کے سربراہ پر غیر منطقی اور بے بنیاد الزامات لگاکر رائے عامہ کے سامنے مظلوم ہونے کی کوشش کی۔ گزشتہ صدی میں Populism کا نظریہ یورپ میں خاصا مقبول ہوا تھا۔ جرمن نازی پارٹی کے سربراہ ہٹلر نے اس نظریہ کو اپنی مقبولیت کے لیے استعمال کیا تھا۔
ہٹلر نے جرمن قوم کی عظمت، نسل پرستی اور یہودی دشمنی کے نعروں سے مقبولیت حاصل کی تھی۔ پھر اقتدار میں آکر جمہوری نظام کو مفلوج کیا گیا۔ انسانی حقوق کو ٹھپ کیا اور مخالفین کو غیر ملکی ایجنٹ اور ملک دشمن ہونے کے خطابات دیے گئے۔
ہٹلر نے مخالفین کو لاپتہ کرنے اور کنسٹریشن کیمپوں میں نظربند کیا۔ اٹلی میں فاشسٹ پارٹی کے موسلینی نے بھی ایسی ہی پالیسی اختیار کی تھی۔ اپنے مخالفین سے زندگی کا حق چھین لیا۔ اس صدی میں امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے Populism کے نظریہ کے تحت سیاہ فام شہریوں کے خلاف نفرت آمیز پروپیگنڈا کیا اور سفید فام نسل کی برتری کے نعرے لگا کر اقتدار حاصل کیا۔
انھوں نے انتخابات میں شکست تسلیم نہ کر کے وائٹ ہاؤس پر دھاوا بولا جو امریکا کی تاریخ میں انوکھا واقعہ تھا۔ پھر بھارت میں ہندو انتہا پسند جماعت کے سربراہ مودی مذہبی جنونیت اور مخالفین کے ساتھ توہین آمیز سلوک کے نعروں کی آڑ میں رائے عامہ ہموار کرنے میں کامیاب ہوئے اور سیکولر بھارت کو ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کے نعرہ کی بنا پر مقبولیت حاصل کی تھی۔ موجودہ حکومت برسر اقتدار آئی تو معیشت زبوں حالی کا شکار تھی۔
سابقہ حکومت نے آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تیل کی قیمت کم کی تھی، یوں مالیاتی خسارہ خطرناک حد کو عبور کر گیا۔ سابقہ حکومت کی ان پالیسیوں کی بنا پر آئی ایم ایف نے ایک ارب ڈالر کے قرضہ کی ادائیگی کے لیے سخت شرائط پیش کر دیں۔ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات وغیرہ فوراً قرضہ دینے کو تیار نہیں تھے۔ آئی ایم ایف نے حکومت سے مل کر تیل، گیس اور بجلی پر سبسڈی کی شرط عائد کی تھی۔
ایشیا اور مشرق بعید کی مالیاتی دہشت گردی کی روک تھام کے لیے قائم کی گئی ٹاسک فورس نے پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھا ہوا تھا۔ حکومت نے تیل، ڈیزل، بجلی اور گیس پر سبسڈی واپس لی تو ان بنیادی اشیا کی قیمتیں بڑھ گئیں، یوں مہنگائی کا ایسا طوفان آیا کہ عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوگئی۔ وفاقی وزرا نے عمران خان کی مبینہ بدعنوانیوں کے کئی انکشافات کیے مگر توشہ خانہ مقدمہ، فرح گوگی اور اس کے شوہر کے خلاف تحقیقات کے اعلانات کے علاوہ کوئی اور اسکینڈل تلاش نہ ہوسکا۔ ضمنی انتخابات میں رجعت پسند ایجنڈے کو تقویت دی گئی۔
المیہ یہ ہے کہ ووٹ کی اہمیت کے بارے میں آگہی کے باوجود پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے چند سو کلومیٹر دور چیچہ وطنی کے ایک نواحی گاؤں میں اہل دیہہ کے متفقہ فیصلے کے مطابق عورتوں نے ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔ کسی سیاسی جماعت نے اس رجعت پسندانہ عمل کی مذمت نہیں کی۔
عمران خان نے اپنی انتخابی مہم کی بنیاد تیل، پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور اس کے اثرات پر رکھی۔ مسلم لیگ (ن) کے بیانیہ میں مہنگائی کی وجوہات کو موثر انداز میں پیش کرنے پر توجہ نہیں دی گئی۔ عمران خان نے اپنے جلسوں میں ملٹی میڈیا کی مدد سے وفادار وزرا کے بیانات کے بعض حصوں کو اس طرح پیش کیا کہ عام آدمی کو یقین ہو چلا کہ عمران خان درست کہہ رہے ہیں۔
وفاقی حکومت کے بیانات کو اس طرح توڑ مروڑ کر جلسوں میں دکھایا گیا کہ عوام ان بیانات کو ملک دشمن سمجھنے لگے۔ خواجہ آصف نے ایک بیان میں واضح کیا تھا کہ پاکستان یورپی ممالک کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا۔ ان کا بیان ایک زندہ حقیقت ہے۔ اس وقت سوال مستقبل کی حکومت کا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے قائدین کا کہنا ہے کہ قبل از مدت انتخابات نہیں ہوں گے۔ مسلم لیگ کا اس بیانیہ کا پس منظر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ حزب اختلاف کی تمام جماعتیں اس وقت انتخابات کے حق میں نہیں ہیں۔ مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی تین ماہ کی کارکردگی مایوس کن ہے۔
حکومت بین الاقوامی پابندیوں کی بنا پر عوام کو ریلیف دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے، یوں عالمی مارکیٹ میں بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں بڑھیں گی تو اس کے سارے اثرات عام آدمی پر پڑیں گے۔ موجودہ حکومت کی تمام ریاستی اداروں پر بالادستی موجود نہیں ہے۔ حکمران لاپتہ افراد کے دائمی مسئلہ کو حل کرنے اور دیگر سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا عزم کرتے ہیں مگر پھر ناکام ہو جاتے ہیں۔
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری پڑوسی ممالک سے کشیدگی ختم کرنے اور تعلقات کو معمول پر لانے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں مگر ابھی تک اس جانب قدم نہیں بڑھایا گیا۔ آئی ایم ایف کا دباؤ ختم کرنے کے لیے ملک کے انفرا اسٹرکچر کو مضبوط کرنے اور ادارہ جاتی فیصلوں کی ضرورت ہے۔ مگر مخلوط حکومت ایسے فیصلے کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ تیل، گیس اور پٹرول کی قیمتیں اب عالمی منڈی کے اتار چڑھاؤ سے طے ہوں گی۔
حکومت ان اشیا کی قیمتوں کو کنٹرول کرکے عوام کو ریلیف نہیں دے سکتی۔ عالمی مارکیٹ میں ان بنیادی اشیا کی قیمتیں بڑھتی ہیں، یوں اگلے مالیاتی سال کے آغاز تک مہنگائی کم نہیں ہوگی۔ کچھ سیاستدان جوڑ توڑ کی سیاست کے بادشاہ ہیں مگر تاریخ شاہد ہے کہ جوڑ توڑ کی سیاست کی عمر محدود ہوتی ہے۔ تبدیلی عوام کو متحرک کرنے اور مظلوم طبقات کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے سے آتی ہے۔
پنجاب اسمبلی میں ووٹوں کی خرید و فروخت کی خبروں سے جمہوری کلچر خاصا مجروح ہوا ہے۔ پنجاب میں اقلیتی حکومت کے قیام کے لیے جستجو سے عوام میں سیاسی جماعتوں کی ساکھ مزید مجروح ہوگی۔
موجودہ وفاقی حکومت اب اسلام آباد تک محدود ہوگئی ہے۔ سندھ کی حکومت اس کی اتحادی ہے۔ دو صوبوں کے علاوہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتیں وفاقی حکومت سے تصادم کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ عمران خان اسلام آباد پر مسلسل دباؤ جاری رکھیں گے۔ وفاقی حکومت مسلسل بے چینی کا شکار رہے گی۔ فوری انتخابات ہی اس دباؤ کو کم کرسکتے ہیں۔ عمران خان اگر اقتدار میں آگئے تو کیا وہ یو ٹرن لے لیں گے مگر ان کے پاس بھی عوام کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔