وزارت اعلیٰ کا انتخاب کیا عمران خان ہار کر جیت گئے

جو کھیل پنجاب اسمبلی میں کھیلا گیا اس کے نتائج کا اثر پورے پاکستان کی سیاست پر پڑے گا

ایسے ہی سیاسی بے یقینی رہے گی تو معاشی حالات سدھرنے کے کوئی امکانات نہیں۔ (فوٹو: فائل)

دنیا نے دیکھا کہ اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا گیا اور اقلیت کو اکثریت میں۔ جو جیتا ہوا تھا وہ ہار گیا اور جو ہارا ہوا تھا وہ جیت گیا۔ ایک خط نے جیتے ہوئے امیدوار کی بساط لپیٹ دی اور ہارے ہوئے کے سر پر جیت کا سہرا سجادیا گیا۔ یہ منظر پنجاب اسمبلی کا ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی 186 کی اکثریت کے بعد بھی ناکام قرار پائے۔ حمزہ شہباز 179 ووٹ لے کر وزیراعلیٰ برقرار رہے۔ ایسا کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟ اس کی قانونی حیثیت کیا ہے؟

کہتے ہیں کہ وہی گھوڑا ریس جیتتا ہے جو اپنا ہو، پرائے گھوڑوں پر صرف جوا لگا کر اپنا ہی نقصان کیا جاسکتا ہے لیکن جیت کا مزا نہیں چکھا جاسکتا۔ اگر وہ جیت بھی جائیں تو اس کا مزا نہیں رہتا۔ عمران خان نے بھی غلط گھوڑے کو ریس میں اتارا، جو گزشتہ ریس میں ہڈیاں تڑوا بیٹھا تھا۔ سیکنڈ راؤنڈ میں اپنے سمیت پوری ٹیم کو ہی لے ڈوبا۔ ہم نے دیکھا کہ جن ارکان کو اپنا سمجھا جارہا تھا وہ گزشتہ ریس میں ہی دغا دے گئے، جب ان کی جگہ نئے گھوڑے ریس میں اتارے گئے تو وہ خوب دوڑے اور ریس جیت گئے۔ اس ریس میں کوئی اپنا ہونا چاہیے تھا، بیگانے پر ہی اکتفا کیا تو منہ کی کھائی۔

گزشتہ بلاگ میں لکھا تھا کہ حمزہ شہباز کی پگ کو داغ لگ چکا ہے۔ قدموں میں گری پگ وہ سر پر رکھنے میں تو کامیاب ہوگئے لیکن داغ ابھی بھی باقی ہے۔ یہ داغ اب کس ڈٹرجنٹ سے دھلے گا، یہ شاید ابھی مارکیٹ میں نہیں آیا۔ یہ نہ سمجھنے اور سمجھانے کی بات نہیں۔ پاکستان میں پہلے بھی بڑے بڑے کام ہوئے ہیں، پھٹے لگے، بیساکھیاں لگیں، نیپیاں بدلی گئیں، اب ایسا ہوگیا تو پاکستانی سیاست میں کوئی نئی بات نہیں۔ کل کی بات ہے کہ سینیٹ میں پریزائیڈنگ افسر نے جیتی پارٹی کے 6 سے سات ووٹ مسترد کرکے ہرا دیا تھا۔ تب تو کوئی وجہ بھی نہیں تھی، اس وقت تو ٹھوس وجہ اور عدالتی فیصلہ بھی موجو د تھا۔

پنجاب اسمبلی میں شاہکار کام ہوا۔ امید تھی کہ پنجاب کا سیاسی بحران حل ہونے سے ملک میں استحکام آئے گا لیکن لگتا ہے کہ ہمارے سیاستدان، جوڑ توڑ کرنے والوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ہم نے پاکستان کے حالات کو خراب کرنا ہے، اس کو انارکی کی طرف لے جانا ہے۔ اب جو کھیل پنجاب اسمبلی میں کھیلا گیا، یہ صرف سپریم کورٹ میں نہیں گیا، یہ اب سڑکوں پر بھی چلا گیا ہے۔ حمزہ کی شکل سے لگ رہا تھا کیا ہونے والا ہے، کیا اس کو کوئی قانونی وزیراعلیٰ مانے گا؟

یہاں بنیادی حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پی ٹی آئی کے 176 ارکان تھے، 10 ق لیگ کے تھے۔ انہوں نے اپنی پارٹی کے مخالف امیدوار کو ووٹ دینے کا کہا۔ چوہدری پرویز الٰہی ن لیگ، پیپلز پارٹی اور ق لیگ کے متفقہ امیدوار تھے، جس کے ضامن چوہدری شجاعت تھے۔ پرویز الٰہی نے خود قبلہ بدلا اور عمران خان کے ساتھ چلے گئے۔ جس طرح پارٹی سربراہ کی ڈائریکشن کے خلاف ووٹ دینے پر پی ٹی آئی کے ارکان منحرف ٹھہرے تھے، اسی طرح ق لیگ کے ارکان بھی منحرف ہوئے ہیں۔ اب قانون اپنا راستہ بنائے گا۔


قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ اور چوہدری شجاعت کے خط کی حیثیت کا اندازہ تو اب سپریم کورٹ میں ہی ہوگا کہ یہ کتنا ویلڈ ہے۔ پنجاب اسمبلی کا معاملہ پہلی مرتبہ عدالت نہیں گیا، یہ پانچ سے چھ دفعہ عدالت میں گیا ہے۔ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ قانون کے منافی ہے، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو چیلنج کیا جانا چاہیے، ڈپٹی اسپیکرنے غیرقانونی اور غیرآئینی عمل کیا۔

ان نتائج کا اثر پورے پاکستان کی سیاست پر پڑے گا۔ سب سے زیادہ تو متاثر ق لیگ ہوئی ہے۔ اگر کوئی مزید کارروائی ہوتی ہے جو یقیناً ہوگی، مزید کارروائی سے ق لیگ پنجاب اسمبلی میں اپنی تمام نشستیں کھودے گی۔ ان تمام نشستوں پر ضمنی الیکشن ہوگا۔ ساتھ ہی اسپیکر پرویز الٰہی اسپیکر شپ تو کھو ہی دیں گے، ساتھ ہی ایم پی اے بھی نہیں رہیں گے۔ ایک ہی جھٹکے میں پوری جماعت ختم ہوگئی ہے۔ اگر ان حلقوں میں دوبارہ سے جیت کر یہ واپس آجاتے ہیں تو پھر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ فی الحال پنجاب اور وفاق میں اتحادی حکومت بچ گئی ہے۔ اگر سخت فیصلے نہ آئے تو یہ جڑ نہیں پکڑ پائے گی، عمران خان کے بیانیے کو مزید تقویت ملے گی، ان کے غصہ میں مزید اضافہ ہوگا جس کا مظاہرہ ہم نے گزشتہ دنوں دیکھ بھی لیا ہے۔

حکمران جماعت کا یہ حال ہے کہ اس کے فیصلوں سے لگتا ہے اس پارٹی کا سربراہ نواز شریف نہیں کوئی اور ہے۔ ایسے ہی لگتا ہے ن لیگ نے اپنی سوچ کسی کے حوالے کردی ہے۔ جیسے چوہدریوں میں تقسیم ہے، ایسے ہی لگتا ہے ن لیگ میں بھی تقسیم ہے۔ عوام نے چند روز پہلے جو فیصلہ کیا، اس کو تسلیم کرنا چاہیے تھا لیکن اس کو تسلیم کرنے کے بجائے جلتی آگ پر مزید تیل چھڑک دیا گیا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ گاڑی کے اسٹیئرنگ پر کوئی نہیں، خود بخود چلتی جارہی ہے۔

ایسے ہی سیاسی بے یقینی رہے گی تو معاشی حالات سدھرنے کے کوئی امکانات نہیں۔ روپے کی بے قدری ہوتی رہے گی، ڈالر اپنی اڑان جاری رکھے گا۔ ایسے میں سیاسی شطرنج پر بیٹھے شاطروں کو سوچنا ہوگا کہ اب اپنے مہروں کو کیسے استعمال کرنا ہے۔ شاطر یہ تو بتائیں کہ پاکستان کی خراب معیشت کا علاج کیسے کیا جائے گا؟ عمران خان کا علاج کیسے ہوگا؟ پاکستان کے عوام کا کیا علاج کیا جائے گا؟ نجی محفلوں، ٹیلی فون کالز، سوشل میڈیا پر عوام ایسی ایسی باتیں کررہے ہیں جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ مرض واویلے سے ختم نہیں ہوگا، سیاستدان ایک دوسرے کو راستہ دیں، عوام کے پاس جائیں، عوام کو فیصلہ کرنے دیں، ملک کے مستقبل کے ساتھ مت کھیلیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

 
Load Next Story