اردو کے عظیم انقلابی شاعر حبیب جالب کی آج 21 برسی منائی جارہی ہے
جالب نے جو بھی دیکھا اورمحسوس کیا اسے اپنے اشعار میں ڈھال کر ہر دور کے حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق بیان کیا۔
NIDDERAU, GERMANY:
ملک کے نامساعد حالات کے باوجود عوام کے جذبات کو شاعری کے قالب میں ڈھالنے والے حبیب جالب کو دنیا سے گئے آج 21 برس ہوگئے ہیں۔
24 مارچ 1928 کو ہندوستان کے ضلع ہوشیار پور میں ایک کسان گھرانے میں آنکھیں کھولنے والے حبیب جالب نے نئی دلی کے اینگلو عربک ہائی اسکول سے میٹرک کیا، ابتدا میں وہ روایتی انداز میں غزلیں کہا کرتے تھے تاہم تقسیم ہند کے بعد انہوں نے کراچی میں سکونت اختیار کی اور کچھ عرصہ معروف کسان رہنما حیدر بخش جتوئی کی سندھ ہاری تحریک میں کام کیا۔ جس کے بعد غریبوں کے حالات زندگی اور معاشرتی نا انصافیاں ان کی شاعری کا موضوع بن گئے۔ بعد ازاں وہ لاہور منتقل ہوگئے اور تمام زندگی وہیں گزاری۔
حبیب جالب کی سوچ ایک عام آدمی کی عکاس تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ سماج کے ہر اُس پہلو سے لڑے جس میں آمریت کا رنگ جھلکتا تھا۔ وہ اپنی انقلابی سوچ کے تحت آخر دم تک سماج کے محکوم عوام کو اعلی طبقات کے استحصال سے نجات دلانے کا کام کرتے رہے۔ انہوں نے جو دیکھا اورجو محسوس کیا، نتائج کی پرواہ کئے بغیر اس کومن و عن اشعار میں ڈھال کر ہر دور کے جابر اور آمر حکمران کے سامنے کلمہ حق بیان کیا۔ یہی وجہ تھی کہ جہاں انہوں نے ایوب خان ، یحییٰ خان اور ضیاالحق کے دور آمریت میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں وہیں جمہوری ادوار میں بھی ان پر مختلف پابندیاں لگائی جاتی رہیں۔
حبیب جالب نے ظلم ، زیادتی ، ناانصافی اور عدم مساوات کے حوالے سے جو بھی کہا وہ زبان زدِعام ہو گیا، ان کا ہر شعر مظلوم کے دل کی آواز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آمرانہ ادوار میں کی جانے والی جدوجہد ہو یا سیاسی قائدین کے انتخابی خطاب، کوئی بھی تقریر یا مقالہ ان کی شاعری کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتا۔ حبیب جالب 1993 کو آج ہی کے روز انتہائی کسمپرسی کی حالت میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے لیکن ان کی شاعری سے پیدا ہونے والا جوش، ولولہ اور پیدا کردہ ولولہ آج بھی لوگوں کے دلوں میں موجزن ہے۔
ملک کے نامساعد حالات کے باوجود عوام کے جذبات کو شاعری کے قالب میں ڈھالنے والے حبیب جالب کو دنیا سے گئے آج 21 برس ہوگئے ہیں۔
24 مارچ 1928 کو ہندوستان کے ضلع ہوشیار پور میں ایک کسان گھرانے میں آنکھیں کھولنے والے حبیب جالب نے نئی دلی کے اینگلو عربک ہائی اسکول سے میٹرک کیا، ابتدا میں وہ روایتی انداز میں غزلیں کہا کرتے تھے تاہم تقسیم ہند کے بعد انہوں نے کراچی میں سکونت اختیار کی اور کچھ عرصہ معروف کسان رہنما حیدر بخش جتوئی کی سندھ ہاری تحریک میں کام کیا۔ جس کے بعد غریبوں کے حالات زندگی اور معاشرتی نا انصافیاں ان کی شاعری کا موضوع بن گئے۔ بعد ازاں وہ لاہور منتقل ہوگئے اور تمام زندگی وہیں گزاری۔
حبیب جالب کی سوچ ایک عام آدمی کی عکاس تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ سماج کے ہر اُس پہلو سے لڑے جس میں آمریت کا رنگ جھلکتا تھا۔ وہ اپنی انقلابی سوچ کے تحت آخر دم تک سماج کے محکوم عوام کو اعلی طبقات کے استحصال سے نجات دلانے کا کام کرتے رہے۔ انہوں نے جو دیکھا اورجو محسوس کیا، نتائج کی پرواہ کئے بغیر اس کومن و عن اشعار میں ڈھال کر ہر دور کے جابر اور آمر حکمران کے سامنے کلمہ حق بیان کیا۔ یہی وجہ تھی کہ جہاں انہوں نے ایوب خان ، یحییٰ خان اور ضیاالحق کے دور آمریت میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں وہیں جمہوری ادوار میں بھی ان پر مختلف پابندیاں لگائی جاتی رہیں۔
حبیب جالب نے ظلم ، زیادتی ، ناانصافی اور عدم مساوات کے حوالے سے جو بھی کہا وہ زبان زدِعام ہو گیا، ان کا ہر شعر مظلوم کے دل کی آواز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آمرانہ ادوار میں کی جانے والی جدوجہد ہو یا سیاسی قائدین کے انتخابی خطاب، کوئی بھی تقریر یا مقالہ ان کی شاعری کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتا۔ حبیب جالب 1993 کو آج ہی کے روز انتہائی کسمپرسی کی حالت میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے لیکن ان کی شاعری سے پیدا ہونے والا جوش، ولولہ اور پیدا کردہ ولولہ آج بھی لوگوں کے دلوں میں موجزن ہے۔