اقتدار کا کھیل

افسوس کہ اس فیصلے کو قبول نہیں کیا جا رہا ہے کہ عدالت کو خود تفتیش کرکے سازش کا پتا لگانا چاہیے


عثمان دموہی July 24, 2022
[email protected]

ISLAMABAD: وطن عزیز میں جہاں ہماری قومی معیشت روز بروز کمزور ہوتی جا رہی ہے وہاں لوگوں کے اخلاقی اقدار میں بھی گراوٹ پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ کیا واقعی معیشت کی کمزوری سے ہماری اخلاقی اقدار میں گراوٹ پیدا ہو رہی ہے؟

اس مسئلے کا فیصلہ تو ہمارے ملک کے دانشور اور مبصرین حضرات ہی کریں گے مگر میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اخلاقی اقدار کی تنزلی کا تعلق ہماری سیاست سے ہے۔ جب سے ہمارے ہاں سیاست میں تبدیلی آئی ہے عوامی اخلاقی اقدار میں گراوٹ کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ یہ سلسلہ دن بہ دن آگے بڑھتا جا رہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں آج جیسا ہیجان اور ابتری پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔ کرپشن ہمارے ہاں کوئی نئی چیز نہیں ہے۔

ہمارے بعض سیاستدان آج سے نہیں برسوں سے کرپشن میں مبتلا ہیں اس کے باوجود بھی وہ سڑکوں اور بازاروں میں عوام کے سامنے آتے رہے ہیں کبھی کسی نے بھی انھیں دیکھ کر چور چور اور ڈاکو ڈاکو کے نعرے بلند نہیں کیے تھے۔ وہ کرپشن میں ملوث ہونے یا کرپشن کا ان پر الزام لگنے کے باوجود عوامی احترام سے مستفید ہوتے تھے عوام ان کا احترام کرتے تھے اور کبھی ان پر ہوٹنگ کرنا تو درکنار ان پر انگلی تک نہیں اٹھاتے تھے۔ اس لیے کہ یہ معاملہ ان کا نہیں کرپشن یا غبن کا فیصلہ کرنے کے لیے ہماری عدالتیں موجود ہیں۔

یہ ان کا کام ہے کہ جب ان کی عدالت میں کسی سیاستدان کے خلاف کرپشن یا کوئی اور بدعنوانی کا مقدمہ پیش ہو تو وہ اس کا فیصلہ کریں۔ عوام یا کسی سیاستدان کو کسی دوسرے سیاستدان پر کرپشن یا بدعنوانی کا فیصلہ صادر کرنے کا کوئی اختیار نہیں۔ لیکن اب ہمارے ملک کی سیاست میں چند سالوں سے جو گالم گلوچ والا ماحول ابھرا ہے اس سے پورا معاشرہ متاثر ہوا ہے۔ سیاست میں اشتعال انگیزی عام ہے۔ اب بات سیاست سے ذاتیات تک پہنچ گیا ہے۔ یعنی اب سیاسی مخالفت ذاتی مخالفت بن گئی ہے۔

یہ کسی بھی قوم کے لیے انتہائی خطرناک چیز ہے اس سے ملک کی ساکھ بھی متاثر ہو سکتی ہے اور ملک کو نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔ آج کل کچھ سیاستدان اپنے مخالف سیاستدانوں کے خلاف عوام کو بھڑکا رہے ہیں اور انھیں چور اور ڈاکو کہنے کا درس دے رہے ہیں۔ وہ صرف اپنے ورکرز کو ہی نہیں عام لوگوں کو یہ ہدایت کر رہے ہیں کہ مخالف سیاستدانوں کا چور اور ڈاکو کے نعروں سے استقبال کریں صرف جلسوں اور ریلیوں میں ہی نہیں وہ جہاں کہیں بھی نظر آئیں خواہ سڑکوں پر یا کسی شاپنگ سینٹر میں ہوں انھیں وہاں بھی نہ چھوڑا جائے اور چور و ڈاکو کہہ کر پکارا جائے اور اتنا شور کیا جائے کہ وہ متاثرہ سیاستدان یا تو ان کے آگے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو جائے یا پھر وہاں سے چلتا بنے۔

ایسا ہی ایک واقعہ یا سانحہ مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما احسن اقبال کے ساتھ پیش آیا ہے مگر یہ اچھا ہوا کہ جن لوگوں نے احسن اقبال کے خلاف نعرے لگائے تھے وہ بعد میں ان کے گھر گئے اور ان سے معافی مانگ لی۔ اس سے قبل مسجد نبویؐ میں بھی کچھ لوگوں نے وہاں عمرے کی غرض سے گئے موجودہ حکومتی اتحاد کے رہنماؤں کے ساتھ بھی ایسا ہی منفی رویہ اختیار کیا تھا۔ اس کا پاکستانی عوام نے نوٹس لیا اور اسے دیار غیر میں ملک کی بدنامی کرانے سے تعبیر کیا تھا۔

اس سانحے کا ملک میں تو برا منایا ہی گیا تھا وہاں سعودی حکومت نے بھی نوٹس لیا تھا اور نعرے لگانے والے وہاں رہائشی پاکستانیوں کے خلاف کارروائی کرنے کا عندیہ دیا تھا مگر پھر حکومت پاکستان کی درخواست پر اس معاملے کو رفع دفع کردیا گیا تھا ورنہ ایسے افراد کو پاکستان واپس بھی بھیجا جاسکتا تھا جس سے ایسے لوگ بے روزگار ہو سکتے تھے اور ملک ان کے بھیجے جانے والے زرمبادلہ سے بھی محروم ہو سکتا تھا۔ ایسے میں دراصل چور ڈاکو کے نعرے لگانے کی ترغیب دینے والوں کو ہوش کے ناخن لینا چاہیے کہ وہ آخر کیا کر رہے ہیں۔

انھیں اس گندے کھیل سے باز آجانا چاہیے کہ اس طرح وہ اپنے طرز عمل سے سیاست کو نہ صرف گندا کر رہے ہیں بلکہ سیاست کی بساط الٹنے کی نادانی کر رہے ہیں۔پی ٹی آئی کی جانب سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں اس کی حکومت کو سازش کے ذریعے ختم کیے جانے کے سلسلے میں دائر کردہ مقدمے کا اب فیصلہ آچکا ہے۔ سپریم کورٹ نے واضح کردیا ہے کہ سازش کے سلسلے میں نہ تو کوئی ثبوت پیش کیا گیا ہے اور نہ ہی سازش کرنے والوں کے نام دیے گئے ہیں چنانچہ عدالت اس سلسلے میں کیا فیصلہ دے سکتی ہے۔

افسوس کہ اس فیصلے کو قبول نہیں کیا جا رہا ہے کہ عدالت کو خود تفتیش کرکے سازش کا پتا لگانا چاہیے اور سازشی لوگوں کو بھی بے نقاب کرنا چاہیے تھا ایک بااثر تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ عدالت کا کام قانون کے مطابق فیصلہ دینا ہے نہ کہ تفتیش کرنا کیونکہ یہ کوئی انوسٹی گیشن ادارہ نہیں ہے۔کاش کہ حکومت اور حزب اختلاف اب اپنے اختلافات کو رفع دفع کریں اور ملک کو آگے چلنے دیں تاکہ غریبوں پر توجہ کی جاسکے اور اب تو مہنگائی نے متوسط خاندانوں کو بھی غربت کی لکیر کے نیچے کردیا ہے چنانچہ ان کی مشکلات کو حل کیا جائے اور اقتدار کا یہ کھیل اب یہیں ختم کیا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں