جاپان… ترقی کا راز
جاپانی قوم پھولوں کی بھی شیدائی ہے، خوشنما پھول ہر گھر اور سڑک کی زینت ہیں
کراچی:
اﷲ کا صدشکرکہ مجھے براعظم امریکا، افریقہ، ایشیااور یورپ بہت سے ممالک دیکھنے کا موقع ملا۔ میں جاپان میں بھی گیا۔
جاپان میں قیام کے دوران میں نے ٹوکیو، ہیروشیما، کویوٹو،اوساکا اور دوسرے کئی شہروں کا مطالعاتی دورہ کیا۔ جاپان میں متعین پاکستانی سفارتی عملے سے تفصیلی تبادلہ خیال کے علاوہ جاپان میں تجارت کرنیوالے پاکستانیوں سے ملاقات بھی کی۔
جاپانی نفیس، ٹھنڈے اور حلیم الطبع ہیں۔ قانون کا احترام کرنا اور دوسروں سے قانون کی پاسداری کرانا ، ان کے کردار کا خاصہ ہے۔ خود بھی خوش رہتے ہیں اور دوسروں کے لیے بھی خوشی کا باعث بنتے ہیں۔جاپانی امیگریشن کے پاس ایک ہزار سال سال کا Activeریکارڈ موجود ہے۔
کوئی بھی شخص جس نے جاپان میں قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے Overstay کیا ہو یا کسی جرم میں سزا پائی ہو ، وہ دوبارہ جاپان میں داخل نہیں ہو سکتا۔غذائی اشیاء میںملاوٹ کرنے کا تصور بھی نہیں۔جاپانی پراڈکٹس کی تیاری کے معیار میں اگر معمولی سا فرق بھی آ جائے تو اسے اندون یا بیرون ملک مارکیٹ نہیں کیا جا سکتا۔
جاپانی معاشرت میں ایک اور بات جسے میں نے شدت سے محسوس کی وہ یہ ہے کہ وہ انسانی جسم کو آسائش مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی قوم کی روحانی تربیت کا بھی بڑا اہتمام کرتے ہیں۔جاپانی قوم صفائی کو عملاً نصف ایمان سمجھتی ہے۔ جاپان دنیا کے ان چند ممالک میں سرفہرست ہے جہاں رزق کی فراوانی ہے۔
جاپان میں رہنے والے پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ ہم نے جس قدر کشادہ رزق جاپان میں پایا وہ دنیا کے کسی اور خطے میں نہیں دیکھا۔جاپانی قوم اپنی غذائی پیداوار میں کیمیائی کھاد کی جگہ Organic کھاد استعمال کرتی ہے۔اسی بناء پر جاپان میں پیدا ہونے والے پھل اور سبزیاں، چین، کوریا اور دوسرے ممالک سے آنے والے پھل اور سبزیوں کے مقابلے میں دوگنا مہنگی ملتی ہیں۔
یونیورسٹی کے ایک پروفیسرصاحب بتا رہے تھے کہ جدید جاپانی معاشرت کے لیے قانون سازی کرتے ہوئے ہم نے جن قوانین کو بنیاد بنایا ہے ، ان میں حضرت عمرؓ کے دیے ہوئے اصلاحی اصولوں Umar Lawکو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ جاپان میں استاد کے احترام اور مقام کا اندازہ آپ ابن انشاء اور حکیم سعید کی ان تحریوں سے لگا سکتے ہیں جو انھوں نے کئی دہائیوں پہلے جاپانی سفر ناموں میں بیان کیں۔
ابن انشاء لکھتے ہیں کہ ایک جاپانی یونیورسٹی کے پروفیسرملاقات کے بعد جب وہ مجھے رخصت کرنے باہر آئے تو میں نے دیکھا کہ ہم جہاں سے گزرتے تو طالب علموں کا گروپ ہمارے پیچھے چھوٹی چھوٹی چھلانگیں لگا کر دوسری طرف ہو جاتا ہے۔ میں نے جب ان سے پوچھا کہ ایسا کیوں کر رہے ہیں تو انھوں نے کہا کہ ہم اپنے استاد کے سائے پر پائوں رکھنا ان کے تقدس کے خلاف سمجھتے ہیں۔
آپ اندازہ لگا لیجیے کہ جس قوم کے نوجوان اپنے اساتذہ کا اس قدر احترام کرتے ہوں وہ دنیا بھر میں سائنس اور ٹیکنالوجی اور ترقی میں نمایاں مقام کیوں نہ حاصل کرے گی۔سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے جاپانی قوم نے دنیا کی تیز رفتار ترین بلٹ ٹرین کی سہولت عام آدمی کو فراہم کی ہے۔ جس کی رفتار 603کلو میٹر فی گھنٹہ ہے۔ زلزلوں اور سونامی کے خطرات سے بھری اس زمین پر جاپانیوں نے ایسی عمارتیں اور سٹرکیں تعمیر کیں ہیں کہ ریکٹرا سکیل پر نو درجے تک کے زلزلے انھیں سرنگوں نہیں کر سکتے۔
ٹوکیو شہر میں زیر زمین کئی سو فٹ گہری سرنگوں میں تیزرفتار ٹرینیں اور گاڑیاں رواں دواں ہیں تو زمین کے اوپر بڑے بڑے پلازوں کی دسویں منزل کے سامنے سے تین تین منزلہ ہائی وے گزر رہی ہیں۔
جاپانی قوم پھولوں کی بھی شیدائی ہے، خوشنما پھول ہر گھر اور سڑک کی زینت ہیں۔ چار بڑے جزیروں پر پھیلے ملک جاپان کو چڑھتے سورج کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے۔جہاں روئے زمین پر سب سے پہلے سورج کی کرنیں دن کی نوید لے کر آتی ہیں۔
اﷲ کا صدشکرکہ مجھے براعظم امریکا، افریقہ، ایشیااور یورپ بہت سے ممالک دیکھنے کا موقع ملا۔ میں جاپان میں بھی گیا۔
جاپان میں قیام کے دوران میں نے ٹوکیو، ہیروشیما، کویوٹو،اوساکا اور دوسرے کئی شہروں کا مطالعاتی دورہ کیا۔ جاپان میں متعین پاکستانی سفارتی عملے سے تفصیلی تبادلہ خیال کے علاوہ جاپان میں تجارت کرنیوالے پاکستانیوں سے ملاقات بھی کی۔
جاپانی نفیس، ٹھنڈے اور حلیم الطبع ہیں۔ قانون کا احترام کرنا اور دوسروں سے قانون کی پاسداری کرانا ، ان کے کردار کا خاصہ ہے۔ خود بھی خوش رہتے ہیں اور دوسروں کے لیے بھی خوشی کا باعث بنتے ہیں۔جاپانی امیگریشن کے پاس ایک ہزار سال سال کا Activeریکارڈ موجود ہے۔
کوئی بھی شخص جس نے جاپان میں قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے Overstay کیا ہو یا کسی جرم میں سزا پائی ہو ، وہ دوبارہ جاپان میں داخل نہیں ہو سکتا۔غذائی اشیاء میںملاوٹ کرنے کا تصور بھی نہیں۔جاپانی پراڈکٹس کی تیاری کے معیار میں اگر معمولی سا فرق بھی آ جائے تو اسے اندون یا بیرون ملک مارکیٹ نہیں کیا جا سکتا۔
جاپانی معاشرت میں ایک اور بات جسے میں نے شدت سے محسوس کی وہ یہ ہے کہ وہ انسانی جسم کو آسائش مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی قوم کی روحانی تربیت کا بھی بڑا اہتمام کرتے ہیں۔جاپانی قوم صفائی کو عملاً نصف ایمان سمجھتی ہے۔ جاپان دنیا کے ان چند ممالک میں سرفہرست ہے جہاں رزق کی فراوانی ہے۔
جاپان میں رہنے والے پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ ہم نے جس قدر کشادہ رزق جاپان میں پایا وہ دنیا کے کسی اور خطے میں نہیں دیکھا۔جاپانی قوم اپنی غذائی پیداوار میں کیمیائی کھاد کی جگہ Organic کھاد استعمال کرتی ہے۔اسی بناء پر جاپان میں پیدا ہونے والے پھل اور سبزیاں، چین، کوریا اور دوسرے ممالک سے آنے والے پھل اور سبزیوں کے مقابلے میں دوگنا مہنگی ملتی ہیں۔
یونیورسٹی کے ایک پروفیسرصاحب بتا رہے تھے کہ جدید جاپانی معاشرت کے لیے قانون سازی کرتے ہوئے ہم نے جن قوانین کو بنیاد بنایا ہے ، ان میں حضرت عمرؓ کے دیے ہوئے اصلاحی اصولوں Umar Lawکو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ جاپان میں استاد کے احترام اور مقام کا اندازہ آپ ابن انشاء اور حکیم سعید کی ان تحریوں سے لگا سکتے ہیں جو انھوں نے کئی دہائیوں پہلے جاپانی سفر ناموں میں بیان کیں۔
ابن انشاء لکھتے ہیں کہ ایک جاپانی یونیورسٹی کے پروفیسرملاقات کے بعد جب وہ مجھے رخصت کرنے باہر آئے تو میں نے دیکھا کہ ہم جہاں سے گزرتے تو طالب علموں کا گروپ ہمارے پیچھے چھوٹی چھوٹی چھلانگیں لگا کر دوسری طرف ہو جاتا ہے۔ میں نے جب ان سے پوچھا کہ ایسا کیوں کر رہے ہیں تو انھوں نے کہا کہ ہم اپنے استاد کے سائے پر پائوں رکھنا ان کے تقدس کے خلاف سمجھتے ہیں۔
آپ اندازہ لگا لیجیے کہ جس قوم کے نوجوان اپنے اساتذہ کا اس قدر احترام کرتے ہوں وہ دنیا بھر میں سائنس اور ٹیکنالوجی اور ترقی میں نمایاں مقام کیوں نہ حاصل کرے گی۔سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے جاپانی قوم نے دنیا کی تیز رفتار ترین بلٹ ٹرین کی سہولت عام آدمی کو فراہم کی ہے۔ جس کی رفتار 603کلو میٹر فی گھنٹہ ہے۔ زلزلوں اور سونامی کے خطرات سے بھری اس زمین پر جاپانیوں نے ایسی عمارتیں اور سٹرکیں تعمیر کیں ہیں کہ ریکٹرا سکیل پر نو درجے تک کے زلزلے انھیں سرنگوں نہیں کر سکتے۔
ٹوکیو شہر میں زیر زمین کئی سو فٹ گہری سرنگوں میں تیزرفتار ٹرینیں اور گاڑیاں رواں دواں ہیں تو زمین کے اوپر بڑے بڑے پلازوں کی دسویں منزل کے سامنے سے تین تین منزلہ ہائی وے گزر رہی ہیں۔
جاپانی قوم پھولوں کی بھی شیدائی ہے، خوشنما پھول ہر گھر اور سڑک کی زینت ہیں۔ چار بڑے جزیروں پر پھیلے ملک جاپان کو چڑھتے سورج کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے۔جہاں روئے زمین پر سب سے پہلے سورج کی کرنیں دن کی نوید لے کر آتی ہیں۔