ایک بار پھر امریکا
میرے امریکا کے اس دورے کو بھی ملتوی کرا دیا جسے شروع ہونے میں صرف ایک ہفتہ رہتا تھا
2019 میں کووڈ نے جہاں اور بہت سے کام دکھائے، وہاں میرے امریکا کے اس دورے کو بھی ملتوی کرا دیا جسے شروع ہونے میں صرف ایک ہفتہ رہتا تھا اور پھر یہ التوا نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر کی طرح پھیلتا ہی چلا گیا اور اس کے رستے میں بند باندھنے کا فریضہ امریکن پاکستانی ڈاکٹروں کی تنظیم ''اپنا'' نے انجام دیا کہ ان کی 2022کی سالانہ کانفرنس 13 جولائی کو اٹلانٹک سٹی میں طے پائی جس میں حسب روایت ایک شام مشاعرہ کے لیے بھی شامل تھی۔
منتظمین کی طرف سے ڈاکٹر جاوید اکبر اور برادرم ڈاکٹر سعید نقوی نے سفر کے تمام انتظامات اس قدر محبت اور خوش سلیقگی سے ترتیب دیے کہ معذرت کے کسی بہانے کو جگہ ہی نہ مل سکی۔ سو میں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ سیاٹل شہر میں مقیم عزیزی خالد حفیظ کو (جو ملتوی شدہ مشاعرے کے میزبان تھے) اطلاع دی کہ اگرچہ درمیان میں چھ گھنٹے کی ڈومیسٹک فلائٹ پڑتی ہے مگر میں ان سے ملنے ضرور آؤں گا اور یوں یہ معاملہ لاس اینجلس اور ڈیلس کی دو اضافی تقاریب تک پھیلتا چلا گیا۔
منگل اور بدھ کی درمیانی رات کو مجھے اور برادر عزیز اور شاعر خوش نوا شوکت فہمی کو ترکش ایئرلائن سے روانہ ہونا تھا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اگرچہ چھ گھنٹے تک استنبول کی فلائٹ، پھر وہاں چھ گھنٹے اگلی فلائٹ کا انتظار اور وہاں سے نیویارک تک ساڑھے دس گھنٹے کی فلائٹ تھی مگر امریکا سے نو گھنٹے ٹائم ڈفرنس کی وجہ سے ہم نے یہ سارا سفر 13 جولائی کی صبح چھ بجے سے سہ پہر پانچ بجے کے اندر اندر کر لیا۔
بہتر کلاس کی وجہ سے ہر طرح کا آرام اپنی جگہ مگر اتنی طویل فلائٹ اب مشکل سے مشکل تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ پتہ چلا کہ برادرم مسعود عثمانی بھی اسی فلائٹ پر ہیں مگر استنبول سے آگے ان کی فلائٹ نہ صرف ہم سے مختلف تھی بلکہ ان کا درمیانی وقفہ بھی گیارہ گھنٹے سے زیادہ کا تھا۔
اب یہ ان کا کمال ہے کہ وہ اس دوران میں زیادہ وقت شعرگوئی کے عمل میں مبتلا رہے (جس کا پتہ ان کی فیس بک پر مسلسل ظہور کرنے والی پوسٹوں سے بھی چلتا رہا) لیکن ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو اس سفر کے آغاز کا سارا کریڈٹ مسعود عثمانی کو ہی جاتا ہے کہ ہماری تین ہفتے قبل کی بھجوائی گئی ٹکٹوں پر فلائٹ کی روانگی کا وقت علی الصبح پونے چھ بجے درج تھا اور پروگرام کے مطابق میں نے اور شوکت بھٹی نے ساڑھے تین بجے ایئرپورٹ پہنچنا تھا۔ مسعود سے فون پر بات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ نیٹ پر فلائٹ کا ٹائم دو بج کر پچیس منٹ آ رہا ہے۔
میں نے کہا اگر ایسا ہوتا تو ایئرلائن والے ہمیں پہلے سے اطلاع کر دیتے مگر آخر میں مسعود کی بات ہی صحیح نکلی۔ پتہ چلا کہ چند دنوں سے اس فلائٹ کا وقت بوجوہ تبدیل کر دیا گیا ہے اور ہم تک اس کی اطلاع نہ پہنچنے کی وجہ غالباً یہ تھی کہ بکنگ کراتے وقت منتظمین نے اپنے فون نمبر لکھوا دیے تھے اور امریکا میں اس وقت رات تھی۔ خیر ہم کسی نہ کسی طرح لشٹم پشٹم ساڑھے بارہ بجے ایئرپورٹ پہنچ گئے۔ ترکش ایئرلائن کے اسٹیشن منیجر برادرم حامد کی خصوصی ہدایت کی وجہ سے ان کے اسٹاف نے ہمیں اس قدر ہاتھوں ہاتھ لیا کہ پتہ ہی نہیں چلا کب ہم لاؤنج میں مسعود عثمانی کے کیمرے کی زد میں آنا شروع ہو گئے۔
گزشتہ نومبر میں کورونا سے ملاقات کی وجہ سے میری دائیں ٹانگ میں عجیب طرح کی کمزوری آ گئی ہے کہ اب سیڑھیاں چڑھتے اترتے اور زیادہ دیر چلنے میں دقت ہونے لگی ہے جب کہ انٹرنیشنل ایئرپورٹ عام طور پر شیطان کی آنت کی طرح لمبے اور پرپیچ ہوتے ہیں اس لیے میں نے ہر ٹکٹ کے ساتھ ویل چیئر بک کروا دی جس نے بہت کام دیا اور امیگریشن کے عمل کے دوران اس کی مزید خوبیاں ابھر کر سامنے آئیں۔
معلوم ہوا کہ برادرم افتخار عارف نے اسلام آباد کی فلائٹ سے چل کر یہاں سے آگے ہمارے ساتھ جانا تھا سو اس وقت کی رفاقت اور گپ شپ کی وجہ سے یہ طویل دورانیہ نہ صرف کم ہو گیا بلکہ اس میں لطف کے کئی نئے پہلو بھی نکل آئے۔ تقریباً سوا دس گھنٹے کی فلائٹ عین اپنے وقت مقررہ پر لینڈ کی لیکن افتخار عارف سے اپنا سامان پہنچانے میں اتنا وقت لیا کہ دیر تک چاروں طرف منیر نیازی کا مصرعہ ''ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں'' رنگ بدل بدل کر گونجتا رہا۔
ڈاکٹر سعید نقوی اور عزیزہ فرح کامران خاصی دیر سے ہمارے منتظر تھے۔ طے پایا کہ عارف ڈاکٹر سعید کی طرف رہیں گے اور ہم فرح کی میزبانی سے لطف اندوز ہوں گے۔ فرح کے شوہر عمدہ شاعر کامران ندیم کا چند برس قبل کینسر کی وجہ سے انتقال ہو گیا تھا مگر جس لگن سے اس نے تین برس لمحہ لمحہ اس کی خبرگیری کی اور بعد میں اس کے دونوں بیٹوں کو پال کر جوان کیا، یہ ساری کہانی بیک وقت دردناک بھی ہے اور قابل ستائش بھی۔
ہوٹل میں پہنچتے ہی تھکن کی وجہ سے ایسی نیند آئی کہ ہمیں مسعود عثمانی کے آنے کا پتہ ہی نہ چل سکا۔ اگلے دن دوپہر کو فرح کے گھر پر بہت ہی محبت سے تیار کردہ لنچ کے بعد وہ ہمیں لے کر اٹلانٹک سٹی کی طرف روانہ ہوئی۔ رستے میں خوب گپ شپ رہی۔
کانفرنس کے لیے بک کیا گیا ہوٹل کسی چھوٹے سے شہر سے کم نہیں تھا۔ بیسمنٹ میں پارکنگ کے بعد تقریباً پندرہ منٹ ہمیں ایک کیسینو کے درمیان سے گزرنا پڑا کہ ہوٹل کی ریسپشن آ کے ہی نہیں دے رہی تھی۔ ڈاکٹر سعید عارف کو لے کر پہنچ چکے تھے جب کہ باقی شعراء بھی ہمارے منتظر تھے۔ طے یہی پایا کہ رات کو موسیقی کے پروگرام سے منسلک ڈنر میں سب اکٹھے ہوں گے اور پھر وہ محفل سجے گی جس کے لیے یہ اتنا لمبا سفر کیا گیا ہے۔
منتظمین کی طرف سے ڈاکٹر جاوید اکبر اور برادرم ڈاکٹر سعید نقوی نے سفر کے تمام انتظامات اس قدر محبت اور خوش سلیقگی سے ترتیب دیے کہ معذرت کے کسی بہانے کو جگہ ہی نہ مل سکی۔ سو میں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ سیاٹل شہر میں مقیم عزیزی خالد حفیظ کو (جو ملتوی شدہ مشاعرے کے میزبان تھے) اطلاع دی کہ اگرچہ درمیان میں چھ گھنٹے کی ڈومیسٹک فلائٹ پڑتی ہے مگر میں ان سے ملنے ضرور آؤں گا اور یوں یہ معاملہ لاس اینجلس اور ڈیلس کی دو اضافی تقاریب تک پھیلتا چلا گیا۔
منگل اور بدھ کی درمیانی رات کو مجھے اور برادر عزیز اور شاعر خوش نوا شوکت فہمی کو ترکش ایئرلائن سے روانہ ہونا تھا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اگرچہ چھ گھنٹے تک استنبول کی فلائٹ، پھر وہاں چھ گھنٹے اگلی فلائٹ کا انتظار اور وہاں سے نیویارک تک ساڑھے دس گھنٹے کی فلائٹ تھی مگر امریکا سے نو گھنٹے ٹائم ڈفرنس کی وجہ سے ہم نے یہ سارا سفر 13 جولائی کی صبح چھ بجے سے سہ پہر پانچ بجے کے اندر اندر کر لیا۔
بہتر کلاس کی وجہ سے ہر طرح کا آرام اپنی جگہ مگر اتنی طویل فلائٹ اب مشکل سے مشکل تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ پتہ چلا کہ برادرم مسعود عثمانی بھی اسی فلائٹ پر ہیں مگر استنبول سے آگے ان کی فلائٹ نہ صرف ہم سے مختلف تھی بلکہ ان کا درمیانی وقفہ بھی گیارہ گھنٹے سے زیادہ کا تھا۔
اب یہ ان کا کمال ہے کہ وہ اس دوران میں زیادہ وقت شعرگوئی کے عمل میں مبتلا رہے (جس کا پتہ ان کی فیس بک پر مسلسل ظہور کرنے والی پوسٹوں سے بھی چلتا رہا) لیکن ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو اس سفر کے آغاز کا سارا کریڈٹ مسعود عثمانی کو ہی جاتا ہے کہ ہماری تین ہفتے قبل کی بھجوائی گئی ٹکٹوں پر فلائٹ کی روانگی کا وقت علی الصبح پونے چھ بجے درج تھا اور پروگرام کے مطابق میں نے اور شوکت بھٹی نے ساڑھے تین بجے ایئرپورٹ پہنچنا تھا۔ مسعود سے فون پر بات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ نیٹ پر فلائٹ کا ٹائم دو بج کر پچیس منٹ آ رہا ہے۔
میں نے کہا اگر ایسا ہوتا تو ایئرلائن والے ہمیں پہلے سے اطلاع کر دیتے مگر آخر میں مسعود کی بات ہی صحیح نکلی۔ پتہ چلا کہ چند دنوں سے اس فلائٹ کا وقت بوجوہ تبدیل کر دیا گیا ہے اور ہم تک اس کی اطلاع نہ پہنچنے کی وجہ غالباً یہ تھی کہ بکنگ کراتے وقت منتظمین نے اپنے فون نمبر لکھوا دیے تھے اور امریکا میں اس وقت رات تھی۔ خیر ہم کسی نہ کسی طرح لشٹم پشٹم ساڑھے بارہ بجے ایئرپورٹ پہنچ گئے۔ ترکش ایئرلائن کے اسٹیشن منیجر برادرم حامد کی خصوصی ہدایت کی وجہ سے ان کے اسٹاف نے ہمیں اس قدر ہاتھوں ہاتھ لیا کہ پتہ ہی نہیں چلا کب ہم لاؤنج میں مسعود عثمانی کے کیمرے کی زد میں آنا شروع ہو گئے۔
گزشتہ نومبر میں کورونا سے ملاقات کی وجہ سے میری دائیں ٹانگ میں عجیب طرح کی کمزوری آ گئی ہے کہ اب سیڑھیاں چڑھتے اترتے اور زیادہ دیر چلنے میں دقت ہونے لگی ہے جب کہ انٹرنیشنل ایئرپورٹ عام طور پر شیطان کی آنت کی طرح لمبے اور پرپیچ ہوتے ہیں اس لیے میں نے ہر ٹکٹ کے ساتھ ویل چیئر بک کروا دی جس نے بہت کام دیا اور امیگریشن کے عمل کے دوران اس کی مزید خوبیاں ابھر کر سامنے آئیں۔
معلوم ہوا کہ برادرم افتخار عارف نے اسلام آباد کی فلائٹ سے چل کر یہاں سے آگے ہمارے ساتھ جانا تھا سو اس وقت کی رفاقت اور گپ شپ کی وجہ سے یہ طویل دورانیہ نہ صرف کم ہو گیا بلکہ اس میں لطف کے کئی نئے پہلو بھی نکل آئے۔ تقریباً سوا دس گھنٹے کی فلائٹ عین اپنے وقت مقررہ پر لینڈ کی لیکن افتخار عارف سے اپنا سامان پہنچانے میں اتنا وقت لیا کہ دیر تک چاروں طرف منیر نیازی کا مصرعہ ''ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں'' رنگ بدل بدل کر گونجتا رہا۔
ڈاکٹر سعید نقوی اور عزیزہ فرح کامران خاصی دیر سے ہمارے منتظر تھے۔ طے پایا کہ عارف ڈاکٹر سعید کی طرف رہیں گے اور ہم فرح کی میزبانی سے لطف اندوز ہوں گے۔ فرح کے شوہر عمدہ شاعر کامران ندیم کا چند برس قبل کینسر کی وجہ سے انتقال ہو گیا تھا مگر جس لگن سے اس نے تین برس لمحہ لمحہ اس کی خبرگیری کی اور بعد میں اس کے دونوں بیٹوں کو پال کر جوان کیا، یہ ساری کہانی بیک وقت دردناک بھی ہے اور قابل ستائش بھی۔
ہوٹل میں پہنچتے ہی تھکن کی وجہ سے ایسی نیند آئی کہ ہمیں مسعود عثمانی کے آنے کا پتہ ہی نہ چل سکا۔ اگلے دن دوپہر کو فرح کے گھر پر بہت ہی محبت سے تیار کردہ لنچ کے بعد وہ ہمیں لے کر اٹلانٹک سٹی کی طرف روانہ ہوئی۔ رستے میں خوب گپ شپ رہی۔
کانفرنس کے لیے بک کیا گیا ہوٹل کسی چھوٹے سے شہر سے کم نہیں تھا۔ بیسمنٹ میں پارکنگ کے بعد تقریباً پندرہ منٹ ہمیں ایک کیسینو کے درمیان سے گزرنا پڑا کہ ہوٹل کی ریسپشن آ کے ہی نہیں دے رہی تھی۔ ڈاکٹر سعید عارف کو لے کر پہنچ چکے تھے جب کہ باقی شعراء بھی ہمارے منتظر تھے۔ طے یہی پایا کہ رات کو موسیقی کے پروگرام سے منسلک ڈنر میں سب اکٹھے ہوں گے اور پھر وہ محفل سجے گی جس کے لیے یہ اتنا لمبا سفر کیا گیا ہے۔