کراچی تاریخ کے آئینے میں پہلا حصہ
تقسیم کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہروں میں کراچی سرِ فہرست ہے
MELBOURNE:
شہر مردہ اور بے جان نہیں وہ سانس لیتے ہیں۔ اپنے یہاں موجود زندگی سے خواہ وہ کسی بھی شکل میں ہو بے پناہ محبت کرتے اور ان کا دکھ درد محسوس کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شہروں میں رہنے والے بھی اپنے شہروں پر فخر کرتے ہیں اور دنیا میں جہاں بھی رہیں اس کی محبت میں گرفتار رہتے ہیں۔
سندھ کا جھومر کراچی شاندار ماضی رکھتا ہے۔ تقسیم کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہروں میں کراچی سرِ فہرست ہے۔ برِ صغیر کے کئی شہر اجڑنے کے بعد دوبارہ آباد ہوگئے لیکن کراچی کے ساتھ ایسا نہ ہوسکا۔ جو بھی یہاں آیا اس شہر نے اُسے اپنی آغوش میں لیا، پرورش کی اور مالا مال کر دیا لیکن یہ شہر اپنے لوگوں کی محبت اور چاہت سے محروم رہا۔ یہ ایک درد بھری داستان ہے جسے سنا کر میں آپ کو اداس نہیں کرنا چاہوں گی۔ پچھلے دنوں ڈاکٹر جعفر احمد نے عارف حسن کی ایک تحقیقی کتاب عنایت کی۔
انگریزی میں لکھی اس کتاب کا عنوا ن ''کراچی برطانوی فتح سے پہلے'' ہے جو اپنے اندر گہری معنویت رکھتا ہے۔ ایک عام تاثر یہ پیدا کر دیا گیا ہے کہ آزادی سے پہلے کراچی محض ماہی گیروں کی ایک چھوٹی سی بستی تھا۔ عارف حسن نے بڑی تحقیق سے اس امر کو اجاگر کیا ہے کہ کراچی کا ماضی کتنا شاندار تھا۔ ان کی اس کتاب کے مندرجات بیان کرنے سے پہلے عارف حسن کا ایک مختصر تعارف پیش کرنا ضروری ہے تاکہ قارئین کو اندازہ ہو سکے کہ اس نوعیت کا تحقیقی کام ان جیسے لوگ ہی کر سکتے ہیں۔
عارف حسن ایک ماہر تعمیرات اور منصوبہ ساز، فعالیت پسند، استاد، محقق اور بہت سی کتابوں، تحقیقی مقالات، شہری ترقیاتی مسائل پر الگ الگ مقالات کے مصنف ہیں۔ وہ 1983 سے 2016 تک اورنگی پائلٹ پروجیکٹ، ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کے مشیر خاص رہے اور اس کی صحت گاری (گند نکاسی) اور مکانوں کے تعمیری پروگرام کی ٹیکنالوجی اور توسیعی مراحل کے موجد رہ چکے ہیں۔
وہ اربن ریسورس سینٹر کراچی کے بانی سربراہ ایشین کولیشن فار ہائوسنگ رائٹس، بینکاک کے ایک بانی رکن ہیں، ان منصوبوں اور ان کے سیکڑوں نتائج کو دنیا بھر کے متعدد شہروں میںعمل کرکے فوائد حاصل کیے جا رہے ہیں اور بین الاقوامی سند حاصل کرچکے ہیں۔ عارف حسن پاکستانی اور یورپی یونیورسٹیوں میں بھی تعلیم دے چکے ہیں، دنیا بھر میں لیکچر دے چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کی متعدد کمیٹیوں کے رکن رہے ہیں اور ان کی فعالیت پسندی، عدل و انصاف کے حق میں متعدد منصوبوں اور پالیسیوں کی اصلاح پر منتج ہوتی ہے۔
عارف حسن انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار انوائرنمنٹ اینڈ ڈیولپمنٹ یوکے، کے مہمان معلم رہ چکے ہیں اور متعدد عصری تنقیدی جریدوں کے ایڈیٹوریل بورڈ میں شامل ہیں۔ وہ 1987 میں یو آئی اے کانگریس کے ممتاز مقرر تھے اور 1992-1998 کے آغا خان ایوارڈ فار آرکیٹیکچر کی اسٹرینگ کمیٹی اور جیوری کے رکن تھے۔ انھیں اپنے کام اور تحریروں کے لیے ہلال امتیاز ایوارڈ سمیت متعدد قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جا چکا ہے۔ وہ آئی این ٹی پی اے یو، انڈیا کمیٹی آف آنر 2007 کے رکن تھے۔ اس وقت وہ ڈائو یونیورسٹی کے آرکیٹیکچر اینڈ پلاننگ ڈپارٹمنٹ میں ریسرچ سیل کے نگران ہیں۔ وہ گورنمنٹ ہیرٹیج کمیٹی کے رکن اور سندھ انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ کمیٹی کے بورڈ اور سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے رکن ہیں۔
عارف حسن نے اپنی اعلیٰ تحقیقی کتاب میں 9 موضوعات کا انتخاب کیا ہے۔ اس کے علاوہ تاریخی تصاویر اور نقشہ جات بھی کتاب میں شامل کیے گئے ہیں۔ یوں تو مذکورہ کتاب کا ہر باب پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے لیکن کراچی پر برطانوی قبضے اور آج سے صدیوں پہلے اس شہر کی شاندار سماجی اور ثقافتی زندگی سے متعلق باب خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ کراچی پر برطانیہ نے کس طرح قبضہ کیا ان اہم اور نادر تفصیلات کو بیان کرتے ہوئے عارف حسن لکھتے ہیں:
1839 میں برطانیہ کے ان فیصلوں کے نتیجے میں کہ سندھ کے اہم شہروں پر قبضہ کرکے تزویراتی مقامات پر اپنی فوجیں تعینات کرنے کے لیے کراچی کو مسلح کیا گیا تھا۔ ان فیصلوں کے زیر نظر ریئر ایڈمرل سر فریڈرک میٹ لینڈ کی سربراہی میں 1839 میں کئی جنگی بحری جہازوں نے کراچی کا رخ کیا۔ یہ بحری جہاز اس ریزرو فورس کو لے کر آ رہے تھے جسے شہر میں رکھنا تھا۔ ریئر ایڈمرل کے بحری جہاز ویلیسلے کو دیکھ کر منوڑا کے قلعے پر موجود بلوچی فوجیوں نے اس کے استقبال میں گولہ داغا تھا، یہ ایک مسلمہ رواج تھا۔ تاہم، ویلیسلے نے اسے مزاحمت سمجھا اور اس نے گولہ باری کرکے منوڑا کے قلعے کا مغربی حصہ تباہ کر دیا تھا۔
گولہ باری کی وجہ سے شہر پر گہرے دھوئیں کا بادل چھا گیا اور ''دن کی روشنی کو رات'' میں تبدیل کر دیا اور شہریوں کا سانس لینا دشوار ہو گیا۔ تالپور حکومت کے کراچی میں موجود افسروں نے ہندو تاجروں سے درخواست کی کہ وہ ان کی جانب سے برطانیہ سے جنگ بندی کے لیے ثالثی کریں کیونکہ وہ ان سے لڑنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ دریں اثناء برطانوی دستے اندر آسکتے تھے اور فیصلہ کیا گیا کہ وہ شہر اور رام باغ کے درمیان کھلے میدان میں اپنے کیمپ قائم کرلیں۔
منوڑہ کے قلعے پر گولہ باری کے حوالے سے برطانوی تحقیقات کے مطابق پتہ چلا ہے کہ گولہ باری شروع ہونے پر قلعے میں موجود بلوچی فوجی بے یارو مدد گار دم بخود کھڑے رہ گئے۔ انھیں اس کی توقع نہیں تھی اور وہ حیرت زدہ تھے۔ وہاں ان کی تعداد صرف 16 تھی اور اپنی تلواروں کے علاوہ ان کے پاس اور کوئی اسلحہ نہیں تھا۔ ان کے پاس بغیر بارود کے ایک گولے کے علاوہ کوئی گولہ بارود نہیں تھا جسے انھوں نے ویلیسلے کے استقبال کے لیے داغا تھا اور ان کے پاس صرف 6 سیر بارود تھا جسے مٹی کے برتن میں رکھا گیا تھا۔
3 فروری 1839 کو سمجھوتے کی شرائط پر دستخط کیے گئے۔ اپنے فوجی سربراہ کی جانب سے منوڑہ قلعے کے صوبیدار حسن بن بچہ خان اور کراچی میں تالپور حکومت کی انتظامیہ کی طرف سے سینا خان اور ایسٹ انڈیز میں پرٹانک میجسٹی کی بحری افواج کے کمانڈر ان چیف سر فریڈرک لیوس میٹ لینڈ نے دستخط کیے تھے۔
ناؤمل نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ اگلے ہی دن مجھے کراچی سے ایک خط ملا کہ بندرگاہ پر کئی برطانوی جہازوں نے منوڑہ کے قلعے پر اتنی شدید گولہ باری کی کہ تین گھنٹے کے اندر قلعے کے مغربی بازو کو زمیں بوس کر دیا اور توپ کے دہانے سے نکلنے والے دھوئیں کے کالے بادلوں نے شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے کر روشنی کو تاریکی میں تبدیل کر دیا۔ ان حالات میں کراچی تالپور حکومت کے افسران جن میں نظامانی قبیلے کے بلوچ نواب خیر محمد، حاجی اللہ رکھا بوگیر نے چھوٹے افسروںکے ساتھ میرے بڑے بھائی سیٹھ پریتم داس کے سامنے آ کر بتایا کہ دھوئیں نے لوگوں کا سانس لینا دوبھر کر دیا ہے اور یہ کہ انگریزوں کا مقابلہ کرنا ان کے بس میں نہیں ہے۔ لہٰذا توپ سے گولہ باری بند کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔''
ہتھیار ڈالنے کی دستاویز کی شرائط کے تحت منوڑہ پر انگریزوں کا کنٹرول تھا اور اس کے علاوہ کراچی میں فوجی دستوں کو قیام کا بھی حق حاصل تھا۔ تاہم، شہر کی سول ایڈمنسٹریشن تالپور کے ہاتھوں میں رہے گی۔ فوجی کیمپ قائم کرنے کے فوراً بعد صدر بازار کوارٹر انتظامی طور پر صدر کوارٹر کہلاتا ہے۔ برطانوی چھائونی کی خدمت کے لیے تیار کیا گیا۔
برطانوی فوجیوں نے میروں کو مجبور کیا کہ بازار میں فروخت کردہ تمام اشیا پر سے چنگی کی محصولات منہا رکھی جائیں تاکہ تاجروں کو صدر بازار میں دکانیںکھولنے پر راغب کیا جائے۔ گوکہ تالپور حکومت چنگی محصولات کے حوالے سے برطانوی دبائو کے سامنے سرنگوں ہونے پر مجبور تھی پھر بھی اس نے مقامی لوگوں کو صدر میں خریدو فروخت یا کاروبار کرنے کی کامیابی کے ساتھ حوصلہ شکنی کی۔ بہرحال چند ہندو تاجروں نے صدر میں ذاتی حیثیت میں دکانیں اور گھر بناکر انگریزوں کی مدد کی۔ لیکن یہ 1843 میں سندھ کے برطانیہ سے الحاق کے بعد ہی ممکن ہوسکا کہ صدر ایک قابل عمل کاروباری علاقہ بن گیا۔ (جاری ہے)
شہر مردہ اور بے جان نہیں وہ سانس لیتے ہیں۔ اپنے یہاں موجود زندگی سے خواہ وہ کسی بھی شکل میں ہو بے پناہ محبت کرتے اور ان کا دکھ درد محسوس کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شہروں میں رہنے والے بھی اپنے شہروں پر فخر کرتے ہیں اور دنیا میں جہاں بھی رہیں اس کی محبت میں گرفتار رہتے ہیں۔
سندھ کا جھومر کراچی شاندار ماضی رکھتا ہے۔ تقسیم کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہروں میں کراچی سرِ فہرست ہے۔ برِ صغیر کے کئی شہر اجڑنے کے بعد دوبارہ آباد ہوگئے لیکن کراچی کے ساتھ ایسا نہ ہوسکا۔ جو بھی یہاں آیا اس شہر نے اُسے اپنی آغوش میں لیا، پرورش کی اور مالا مال کر دیا لیکن یہ شہر اپنے لوگوں کی محبت اور چاہت سے محروم رہا۔ یہ ایک درد بھری داستان ہے جسے سنا کر میں آپ کو اداس نہیں کرنا چاہوں گی۔ پچھلے دنوں ڈاکٹر جعفر احمد نے عارف حسن کی ایک تحقیقی کتاب عنایت کی۔
انگریزی میں لکھی اس کتاب کا عنوا ن ''کراچی برطانوی فتح سے پہلے'' ہے جو اپنے اندر گہری معنویت رکھتا ہے۔ ایک عام تاثر یہ پیدا کر دیا گیا ہے کہ آزادی سے پہلے کراچی محض ماہی گیروں کی ایک چھوٹی سی بستی تھا۔ عارف حسن نے بڑی تحقیق سے اس امر کو اجاگر کیا ہے کہ کراچی کا ماضی کتنا شاندار تھا۔ ان کی اس کتاب کے مندرجات بیان کرنے سے پہلے عارف حسن کا ایک مختصر تعارف پیش کرنا ضروری ہے تاکہ قارئین کو اندازہ ہو سکے کہ اس نوعیت کا تحقیقی کام ان جیسے لوگ ہی کر سکتے ہیں۔
عارف حسن ایک ماہر تعمیرات اور منصوبہ ساز، فعالیت پسند، استاد، محقق اور بہت سی کتابوں، تحقیقی مقالات، شہری ترقیاتی مسائل پر الگ الگ مقالات کے مصنف ہیں۔ وہ 1983 سے 2016 تک اورنگی پائلٹ پروجیکٹ، ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کے مشیر خاص رہے اور اس کی صحت گاری (گند نکاسی) اور مکانوں کے تعمیری پروگرام کی ٹیکنالوجی اور توسیعی مراحل کے موجد رہ چکے ہیں۔
وہ اربن ریسورس سینٹر کراچی کے بانی سربراہ ایشین کولیشن فار ہائوسنگ رائٹس، بینکاک کے ایک بانی رکن ہیں، ان منصوبوں اور ان کے سیکڑوں نتائج کو دنیا بھر کے متعدد شہروں میںعمل کرکے فوائد حاصل کیے جا رہے ہیں اور بین الاقوامی سند حاصل کرچکے ہیں۔ عارف حسن پاکستانی اور یورپی یونیورسٹیوں میں بھی تعلیم دے چکے ہیں، دنیا بھر میں لیکچر دے چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کی متعدد کمیٹیوں کے رکن رہے ہیں اور ان کی فعالیت پسندی، عدل و انصاف کے حق میں متعدد منصوبوں اور پالیسیوں کی اصلاح پر منتج ہوتی ہے۔
عارف حسن انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار انوائرنمنٹ اینڈ ڈیولپمنٹ یوکے، کے مہمان معلم رہ چکے ہیں اور متعدد عصری تنقیدی جریدوں کے ایڈیٹوریل بورڈ میں شامل ہیں۔ وہ 1987 میں یو آئی اے کانگریس کے ممتاز مقرر تھے اور 1992-1998 کے آغا خان ایوارڈ فار آرکیٹیکچر کی اسٹرینگ کمیٹی اور جیوری کے رکن تھے۔ انھیں اپنے کام اور تحریروں کے لیے ہلال امتیاز ایوارڈ سمیت متعدد قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جا چکا ہے۔ وہ آئی این ٹی پی اے یو، انڈیا کمیٹی آف آنر 2007 کے رکن تھے۔ اس وقت وہ ڈائو یونیورسٹی کے آرکیٹیکچر اینڈ پلاننگ ڈپارٹمنٹ میں ریسرچ سیل کے نگران ہیں۔ وہ گورنمنٹ ہیرٹیج کمیٹی کے رکن اور سندھ انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ کمیٹی کے بورڈ اور سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے رکن ہیں۔
عارف حسن نے اپنی اعلیٰ تحقیقی کتاب میں 9 موضوعات کا انتخاب کیا ہے۔ اس کے علاوہ تاریخی تصاویر اور نقشہ جات بھی کتاب میں شامل کیے گئے ہیں۔ یوں تو مذکورہ کتاب کا ہر باب پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے لیکن کراچی پر برطانوی قبضے اور آج سے صدیوں پہلے اس شہر کی شاندار سماجی اور ثقافتی زندگی سے متعلق باب خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ کراچی پر برطانیہ نے کس طرح قبضہ کیا ان اہم اور نادر تفصیلات کو بیان کرتے ہوئے عارف حسن لکھتے ہیں:
1839 میں برطانیہ کے ان فیصلوں کے نتیجے میں کہ سندھ کے اہم شہروں پر قبضہ کرکے تزویراتی مقامات پر اپنی فوجیں تعینات کرنے کے لیے کراچی کو مسلح کیا گیا تھا۔ ان فیصلوں کے زیر نظر ریئر ایڈمرل سر فریڈرک میٹ لینڈ کی سربراہی میں 1839 میں کئی جنگی بحری جہازوں نے کراچی کا رخ کیا۔ یہ بحری جہاز اس ریزرو فورس کو لے کر آ رہے تھے جسے شہر میں رکھنا تھا۔ ریئر ایڈمرل کے بحری جہاز ویلیسلے کو دیکھ کر منوڑا کے قلعے پر موجود بلوچی فوجیوں نے اس کے استقبال میں گولہ داغا تھا، یہ ایک مسلمہ رواج تھا۔ تاہم، ویلیسلے نے اسے مزاحمت سمجھا اور اس نے گولہ باری کرکے منوڑا کے قلعے کا مغربی حصہ تباہ کر دیا تھا۔
گولہ باری کی وجہ سے شہر پر گہرے دھوئیں کا بادل چھا گیا اور ''دن کی روشنی کو رات'' میں تبدیل کر دیا اور شہریوں کا سانس لینا دشوار ہو گیا۔ تالپور حکومت کے کراچی میں موجود افسروں نے ہندو تاجروں سے درخواست کی کہ وہ ان کی جانب سے برطانیہ سے جنگ بندی کے لیے ثالثی کریں کیونکہ وہ ان سے لڑنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ دریں اثناء برطانوی دستے اندر آسکتے تھے اور فیصلہ کیا گیا کہ وہ شہر اور رام باغ کے درمیان کھلے میدان میں اپنے کیمپ قائم کرلیں۔
منوڑہ کے قلعے پر گولہ باری کے حوالے سے برطانوی تحقیقات کے مطابق پتہ چلا ہے کہ گولہ باری شروع ہونے پر قلعے میں موجود بلوچی فوجی بے یارو مدد گار دم بخود کھڑے رہ گئے۔ انھیں اس کی توقع نہیں تھی اور وہ حیرت زدہ تھے۔ وہاں ان کی تعداد صرف 16 تھی اور اپنی تلواروں کے علاوہ ان کے پاس اور کوئی اسلحہ نہیں تھا۔ ان کے پاس بغیر بارود کے ایک گولے کے علاوہ کوئی گولہ بارود نہیں تھا جسے انھوں نے ویلیسلے کے استقبال کے لیے داغا تھا اور ان کے پاس صرف 6 سیر بارود تھا جسے مٹی کے برتن میں رکھا گیا تھا۔
3 فروری 1839 کو سمجھوتے کی شرائط پر دستخط کیے گئے۔ اپنے فوجی سربراہ کی جانب سے منوڑہ قلعے کے صوبیدار حسن بن بچہ خان اور کراچی میں تالپور حکومت کی انتظامیہ کی طرف سے سینا خان اور ایسٹ انڈیز میں پرٹانک میجسٹی کی بحری افواج کے کمانڈر ان چیف سر فریڈرک لیوس میٹ لینڈ نے دستخط کیے تھے۔
ناؤمل نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ اگلے ہی دن مجھے کراچی سے ایک خط ملا کہ بندرگاہ پر کئی برطانوی جہازوں نے منوڑہ کے قلعے پر اتنی شدید گولہ باری کی کہ تین گھنٹے کے اندر قلعے کے مغربی بازو کو زمیں بوس کر دیا اور توپ کے دہانے سے نکلنے والے دھوئیں کے کالے بادلوں نے شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے کر روشنی کو تاریکی میں تبدیل کر دیا۔ ان حالات میں کراچی تالپور حکومت کے افسران جن میں نظامانی قبیلے کے بلوچ نواب خیر محمد، حاجی اللہ رکھا بوگیر نے چھوٹے افسروںکے ساتھ میرے بڑے بھائی سیٹھ پریتم داس کے سامنے آ کر بتایا کہ دھوئیں نے لوگوں کا سانس لینا دوبھر کر دیا ہے اور یہ کہ انگریزوں کا مقابلہ کرنا ان کے بس میں نہیں ہے۔ لہٰذا توپ سے گولہ باری بند کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔''
ہتھیار ڈالنے کی دستاویز کی شرائط کے تحت منوڑہ پر انگریزوں کا کنٹرول تھا اور اس کے علاوہ کراچی میں فوجی دستوں کو قیام کا بھی حق حاصل تھا۔ تاہم، شہر کی سول ایڈمنسٹریشن تالپور کے ہاتھوں میں رہے گی۔ فوجی کیمپ قائم کرنے کے فوراً بعد صدر بازار کوارٹر انتظامی طور پر صدر کوارٹر کہلاتا ہے۔ برطانوی چھائونی کی خدمت کے لیے تیار کیا گیا۔
برطانوی فوجیوں نے میروں کو مجبور کیا کہ بازار میں فروخت کردہ تمام اشیا پر سے چنگی کی محصولات منہا رکھی جائیں تاکہ تاجروں کو صدر بازار میں دکانیںکھولنے پر راغب کیا جائے۔ گوکہ تالپور حکومت چنگی محصولات کے حوالے سے برطانوی دبائو کے سامنے سرنگوں ہونے پر مجبور تھی پھر بھی اس نے مقامی لوگوں کو صدر میں خریدو فروخت یا کاروبار کرنے کی کامیابی کے ساتھ حوصلہ شکنی کی۔ بہرحال چند ہندو تاجروں نے صدر میں ذاتی حیثیت میں دکانیں اور گھر بناکر انگریزوں کی مدد کی۔ لیکن یہ 1843 میں سندھ کے برطانیہ سے الحاق کے بعد ہی ممکن ہوسکا کہ صدر ایک قابل عمل کاروباری علاقہ بن گیا۔ (جاری ہے)