چھ لاکھ روپے والی صدر
دروپتی مرمو 1958 میں ریرنگ پور جیسے پسماندہ علاقہ میں پیدا ہوئی۔ غربت' جہالت اور ترقی سے محروم گاؤں ' جسکی کسی قسم کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ بس وہاں لوگ پیدا ہوتے تھے' ساٹھ ستر برس کی بے معنی سی زندگی گزارتے تھے اور پھر مر جاتے تھے۔ دروپتی بھی کچھ ایسے ہی بے معنی سے خاندان میں پیدا ہوئی تھیں۔ قبیلہ کا نام سنتل تھا جو کہ سرکاری لحاظ سے Scheduled Caste میں شمار کیا جاتا تھا۔
یعنی ایسے لوگوں کا گروہ جس میں بھوک' ننگ' لا علمی' تنگ دستی اور حقوق کا نہ ہونا شامل تھا۔ تنقیدی نظر سے دیکھا جائے تو مرمو جیسی ان گنت لڑکیاں اس قبیلہ میں صرف سانس لیتی تھیں۔ بے مقصد سے سانس۔ بہرحال مرمو نے مقامی اسکول اور کالج سے بی اے تک تعلیم حاصل کی ۔ جنھیں عرف عام میں ٹاٹ اسکول یافضول سا کالج کہا جاتا ہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک مقامی تعلیمی مرکز میں حساب' جغرافیہ اور ہندی کی تعلیم دینی شروع کر دی۔
اس اسکول کا نام شری اور بندھو اسکول تھا۔ 1979 میں مرمو کو اری گیشن ڈیپارٹمنٹ میں جونیئر اسسٹنٹ کی نوکری مل گئی ۔ جو تقریباً چار سال تک جاری رہی۔ اپنے حالات کے مطابق بہت سادہ سی زندگی گزارتی تھی۔ گھر کی صفائی ستھرائی' کھانا پکانا اور سودا سلف لانا۔ یہ تمام گھریلو کام خاموشی سے سرانجام دیتی تھیں۔ کالے سیاہ رنگ کی اس لڑکی میں کوئی بھی ایسی خصوصیت نہیں جسے دیکھ کر کوئی ذی شعور گمان کر سکے کہ وہ کبھی زندگی میں کسی قسم کی ترقی کر سکے گی۔ گھر بھی کچا تھا۔
بارش میں چھت سے پانی ٹپکتا رہتا تھا۔ جسے مرمو فرش پر برتن رکھ کر بس گزارہ کرتی تھی۔ شادی ہوئی۔ بچے ہوئے ۔ مگر کچھ عرصے کے بعد شوہر ایک ایکسیڈنٹ میں مر گیا۔ چند سال بعد دو بچے بھی خدا نے اپنے پاس بلا لیے۔ مرمو ڈپریشن میں چلی گئی۔ اس کے پاس جینے کا کوئی بھی جواز نہیں رہا تھا۔اس نے برہما کماری نام کی ایک روحانی مجلس میں شمولیت اختیار کر لی۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ برہما کماری نام کی انتہائی کامیاب تحریک کا آغاز پاکستانی شہر حیدر آباد سے 1930 میں ہوا تھا۔ بہر حال اس روحانی تحریک نے مرمو کو دوبارہ زندگی کا احساس دیا۔ 1997 میں اپنے گاؤں کی پنچائت کی سرپنچ بن گئی۔
سن 2000 میں اوڑیسہ لیجسلٹو اسمبلی کی رکن منتخب ہو گئی۔ اس کے بعد قدرت کی دیوی اس پر مہربان ہو گئی۔ پہلے صوبہ کی کامرس منسٹربنی اور پھر جنگلی حیات کی وزارت کا قلمدان سونپا گیا۔ مرمو دو مرتبہ اسمبلی کی ممبر رہیں۔ 2015میں مرکزی حکومت نے اسے جھاڑ کنڈ کا گورنر بنا دیا۔ 2015 سے لے کر 2021 تک گورنر رہیں ۔ گورنر ہاؤس میں بھی اس کی ذاتی زندگی اتنی ہی سادہ رہی جتنی پہلے تھی۔ پروٹوکول اور کسی لاؤ لشکر کے بغیر ہر جگہ جاتی تھی۔ بطور گورنر اس نے جھاڑ کنڈ میں قبائلی علاقوں کی زندگی بدل ڈالی۔ اپنے آپ کو پسماندہ ترین لوگوں کی ترقی کے لیے وقف کر ڈالا۔ ان کے لیے تعلیم ' صحت اور سڑکوں کا جال بچھا دیا۔روز گار کے ان گنت مواقع فراہم کیے۔مرمو نے اپنے علاقے کی تقدیر بدل ڈالی۔
آج سے ٹھیک چار دن پہلے مرمو کو ہندوستان کا صدر منتخب کر لیا گیا۔ وہ پچیس جولائی کو صدر کا حلف اٹھائے گی۔ مرمو نے یشونت سہنا جیسے مضبوط امیدوار کو بھرپور شکست دی ہے ۔ اپنے سیاسی حریف سے تگنے ووٹ حاصل کیے ہیں۔ عام سی سفید ساڑھی میں ملبوس مرمو ہمسایہ ملک کی پندرھویں صدر ہوگی۔ مگر اب میں آپ کے سامنے حیرت انگیز حقیقت رکھتا ہوں۔ دوبار اسمبلی کی رکن ' مسلسل وزیر اور چھ سال گورنر رہنے کے باوجود' مرمو کے مالیاتی اثاثے صرف اور صرف چھ لاکھ ہندوستانی روپے ہیں۔یعنی پاکستانی بارہ لاکھ روپے کے لگ بھگ۔ یہ نکتہ ہی وہ اصل بات ہے جو لوگوں کو سمجھ آنی چاہیے۔
تعلیمی لحاظ سے صرف اور صرف بی اے' قبائلی علاقوں سے تعلق اور مسلسل غربت جیسی کمزوریاں۔ یعنی کسی طرح کا کوئی ایک بھی عنصرنہیں جس سے اندازہ ہو سکے کہ مرمو کبھی بھی ترقی کر سکتی ہے۔بلکہ غربت مٹاؤ مہم سے کنارہ کشی اختیار کر سکتی ہے۔ مگر مرمو کے دہائیوں پر محیط سیاسی کیرئیر میں اس پر ایک پائی کی کرپشن کا الزام نہیں ہے۔ یہاں میں پاکستان میں موجودہ وزیراعظم کا ''ایک دھیلے کی کرپشن '' والا جملہ استعمال نہیں کر رہا۔ کیونکہ آج یہ میرا موضوع قطعاً نہیں ہے۔ ہندوستان کو بطور پاکستانی آپ جتنا مرضی برا بھلا کہیں' جتنی مرضی گالیاں نکالیں۔
ہماری مذہبی تنظیمیںجتنا مرضی شور و غوغا مچا لیں۔ میلوں لمبی انسانی زنجیریں بنا لیں۔ سچ یہ ہے کہ ہندوستان کا سیاسی نظام حد درجہ مستحکم اور فعال ہے۔ اس ٹھوس نظام نے معاشی' انسانی اور عسکری ترقی کی وہ بنیاد رکھی ہے جس کی بدولت آج ہندوستان ایک علاقائی طاقت سے بالا تر ہو کر گلوبل پاور بن چکا ہے۔ ہمارے ماننے یا نا ماننے سے کوئی بھی حقیقت تبدیل نہیں ہوتی۔ قطعاً یہ عرض نہیں کر رہا کہ انڈیا میں سب کچھ درست ہے مگر ان کی ترقی کی سمت بالکل درست ہے۔ ان کی ہر سیاسی حکومت' معاشی ترقی کو اولین ترجیح دیتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ عسکری ترقی بھی حد درجہ خیرہ کن ہے۔
یہ سب کچھ محتاط لفظوں میں لکھ رہا ہوں۔ کیونکہ ہمارے ہاں غدار اور کافر ہونے کا فتویٰ ریوڑیوں کی طرح بانٹا جاتا ہے۔ بانٹنے والے بھی وہ ظالم لوگ ہوتے ہیں ' جو ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد' امریکا' دوبئی' آسٹریلیا اور دیگر مغربی ممالک کی شہریت حاصل کرنے میں ایک لمحہ تاخیر نہیں کرتے۔ بہرحال ہمارے معاشرے میں حقیقت پسندانہ تحریر اور سوچ پر بھرپور پابندی ہے۔ ہم وہ بدقسمت لوگ ہیں جو اپنی جہالت کی بدولت پوری دنیا کے سامنے نشان عبرت بنا دیے گئے ہیں۔ اپنی پسماندگی پر ماتم کرنے کی بجائے جشن منانے میں مصروف ہیں۔
ہندوستان کی مرمو جیسی ہمارے پاس کتنی سیاسی اور غیر سیاسی شخصیات ہیں۔ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں۔ اگر کوئی جواب ذہن میں آتا بھی ہے تو لکھ نہیں سکتا۔ بہرحال پاکستان میں سیاست اور طاقت لوٹ مار کا دوسرا نام ہے۔ آل شریف اور زرداری صاحب پر تو کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ مگر تحریک انصاف کے اکابرین کے ''کارنامے'' بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ایک بہت ادنیٰ بات عرض کروں۔
تحریک انصاف کے ایک حالیہ جلسے میں اسٹیج پر خان صاحب کے نزدیک کس نے بیٹھنا ہے' ایک سابقہ وفاقی وزیر نے اس امر کے بھی کافی پیسے لیے ہیں۔ جلسہ ان کے شہر میں ہو رہا تھا۔ اس سے آپ اندازہ فرما لیجیے کہ ہاتھی کے اصل دانت کیا ہیں بلکہ کون سے ہیں۔ یقین فرمائیے۔ مجھے سیاست دانوں کے عیب گنوانے کا کوئی شوق نہیں مگر معلومات کی بنا پر عرض نہ کرنا بھی نا انصافی میں شمار ہوگی۔ زرداری صاحب کے کارہائے نمایاں کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ن لیگ میں بہت سے ایسے اکابرین ہیں جو آج سے بیس برس پہلے سائیکل پر پھرتے تھے۔ دو تین مرلوں کے گھروں میں رہتے تھے۔
آج ایکڑوں کے محلوں میں مزے لوٹ رہے ہیں۔لطف کی بات یہ بھی ہے کہ خان صاحب ہوں' شہباز شریف ہوں یا زرداری صاحب' تمام لوگ سارا دن ہمیں ایمانداری' میرٹ اور شفافیت پر بھاشن دیتے ہیں۔ صرف سیاست دانوں میں بگاڑ نہیں۔ سرکاری ملازم' ریاستی اداروں کے سینئر ملازم' تاجر حضرات کی اکثریت اسی بدعملی کا شکار ہے۔
ذرا غور کیجیے۔ سات دہائیوں میں ہم لوگ اتنی بجلی بھی پیدا نہیں کر پائے کہ لوڈشیڈنگ ختم ہو جائے۔ ہم بائیس کروڑ لوگوں کو پینے کا صاف پانی مہیا نہیں کر پائے۔ تھر یا وزیرستان کو تور ہنے دیجیے۔ لاہور' کراچی اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں مقامی ادارے پینے کا صاف پانی مہیا کرنے سے قاصر ہیں۔ ہر سرکاری میٹنگ میں ' بوتل والا منرل واٹر ٹیبل پر سجا ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ بدقسمتی اورکیا ہو گی۔ جس دن ہمارے اکابرین کو نلکے کا پانی پینے پر مجبور کیا گیا۔
پانی بالکل بہتر ہو جائے گا۔ بالکل اسی طرح اگر تمام اکابرین کے لخت جگر سرکاری اسکولوں میں پڑھنے لگیں' ہماری تعلیم کا معیار بہتر ہو جائے گا۔ جس دن ملک کا صدر' وزیراعظم ' وزیر ' سرکاری اسپتالوں میں علاج کروانے لگے۔ ہماری صحت کا شعبہ درست ہو جائے گا۔ میرا تو مشورہ ہے کہ پارلیمنٹ قانون بنا دے جس میں مقتدر طبقے کے تمام اکابرین کو پابند کیا جائے کہ وہ عام لوگوں کی طرح زندگی گزاریں۔
نلکے سے پانی پیئے' سرکاری اسکولوں میں اپنے بچوں کو بھیجیں ' سرکاری اسپتالوں میں علاج کروائیں۔ اگر یہ قانون بن جائے تو یقین فرمائیے' ہماری تنزلی کا سفر رک جائے گا۔ مگر یہ سب کچھ صرف خام خیالی ہے۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہو پائیگا۔ ہمارے ہاں کوئی ایسا صدر ' وزیراعظم ' وزیراعلیٰ یا مقتدر طبقے کا سربراہ نہیں ہو گا جس کے قانونی اثاثے دروپتی مرمو کی طرح صرف اور صرف چھ لاکھ کے ہوں۔ یہاں تو کھربوں کا ہیر پھیر ہے۔ بھلا چھ لاکھ کی کیا اہمیت ۔لہٰذا ہم اسی ذلت میں سانس لیتے رہیںگے!
یعنی ایسے لوگوں کا گروہ جس میں بھوک' ننگ' لا علمی' تنگ دستی اور حقوق کا نہ ہونا شامل تھا۔ تنقیدی نظر سے دیکھا جائے تو مرمو جیسی ان گنت لڑکیاں اس قبیلہ میں صرف سانس لیتی تھیں۔ بے مقصد سے سانس۔ بہرحال مرمو نے مقامی اسکول اور کالج سے بی اے تک تعلیم حاصل کی ۔ جنھیں عرف عام میں ٹاٹ اسکول یافضول سا کالج کہا جاتا ہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک مقامی تعلیمی مرکز میں حساب' جغرافیہ اور ہندی کی تعلیم دینی شروع کر دی۔
اس اسکول کا نام شری اور بندھو اسکول تھا۔ 1979 میں مرمو کو اری گیشن ڈیپارٹمنٹ میں جونیئر اسسٹنٹ کی نوکری مل گئی ۔ جو تقریباً چار سال تک جاری رہی۔ اپنے حالات کے مطابق بہت سادہ سی زندگی گزارتی تھی۔ گھر کی صفائی ستھرائی' کھانا پکانا اور سودا سلف لانا۔ یہ تمام گھریلو کام خاموشی سے سرانجام دیتی تھیں۔ کالے سیاہ رنگ کی اس لڑکی میں کوئی بھی ایسی خصوصیت نہیں جسے دیکھ کر کوئی ذی شعور گمان کر سکے کہ وہ کبھی زندگی میں کسی قسم کی ترقی کر سکے گی۔ گھر بھی کچا تھا۔
بارش میں چھت سے پانی ٹپکتا رہتا تھا۔ جسے مرمو فرش پر برتن رکھ کر بس گزارہ کرتی تھی۔ شادی ہوئی۔ بچے ہوئے ۔ مگر کچھ عرصے کے بعد شوہر ایک ایکسیڈنٹ میں مر گیا۔ چند سال بعد دو بچے بھی خدا نے اپنے پاس بلا لیے۔ مرمو ڈپریشن میں چلی گئی۔ اس کے پاس جینے کا کوئی بھی جواز نہیں رہا تھا۔اس نے برہما کماری نام کی ایک روحانی مجلس میں شمولیت اختیار کر لی۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ برہما کماری نام کی انتہائی کامیاب تحریک کا آغاز پاکستانی شہر حیدر آباد سے 1930 میں ہوا تھا۔ بہر حال اس روحانی تحریک نے مرمو کو دوبارہ زندگی کا احساس دیا۔ 1997 میں اپنے گاؤں کی پنچائت کی سرپنچ بن گئی۔
سن 2000 میں اوڑیسہ لیجسلٹو اسمبلی کی رکن منتخب ہو گئی۔ اس کے بعد قدرت کی دیوی اس پر مہربان ہو گئی۔ پہلے صوبہ کی کامرس منسٹربنی اور پھر جنگلی حیات کی وزارت کا قلمدان سونپا گیا۔ مرمو دو مرتبہ اسمبلی کی ممبر رہیں۔ 2015میں مرکزی حکومت نے اسے جھاڑ کنڈ کا گورنر بنا دیا۔ 2015 سے لے کر 2021 تک گورنر رہیں ۔ گورنر ہاؤس میں بھی اس کی ذاتی زندگی اتنی ہی سادہ رہی جتنی پہلے تھی۔ پروٹوکول اور کسی لاؤ لشکر کے بغیر ہر جگہ جاتی تھی۔ بطور گورنر اس نے جھاڑ کنڈ میں قبائلی علاقوں کی زندگی بدل ڈالی۔ اپنے آپ کو پسماندہ ترین لوگوں کی ترقی کے لیے وقف کر ڈالا۔ ان کے لیے تعلیم ' صحت اور سڑکوں کا جال بچھا دیا۔روز گار کے ان گنت مواقع فراہم کیے۔مرمو نے اپنے علاقے کی تقدیر بدل ڈالی۔
آج سے ٹھیک چار دن پہلے مرمو کو ہندوستان کا صدر منتخب کر لیا گیا۔ وہ پچیس جولائی کو صدر کا حلف اٹھائے گی۔ مرمو نے یشونت سہنا جیسے مضبوط امیدوار کو بھرپور شکست دی ہے ۔ اپنے سیاسی حریف سے تگنے ووٹ حاصل کیے ہیں۔ عام سی سفید ساڑھی میں ملبوس مرمو ہمسایہ ملک کی پندرھویں صدر ہوگی۔ مگر اب میں آپ کے سامنے حیرت انگیز حقیقت رکھتا ہوں۔ دوبار اسمبلی کی رکن ' مسلسل وزیر اور چھ سال گورنر رہنے کے باوجود' مرمو کے مالیاتی اثاثے صرف اور صرف چھ لاکھ ہندوستانی روپے ہیں۔یعنی پاکستانی بارہ لاکھ روپے کے لگ بھگ۔ یہ نکتہ ہی وہ اصل بات ہے جو لوگوں کو سمجھ آنی چاہیے۔
تعلیمی لحاظ سے صرف اور صرف بی اے' قبائلی علاقوں سے تعلق اور مسلسل غربت جیسی کمزوریاں۔ یعنی کسی طرح کا کوئی ایک بھی عنصرنہیں جس سے اندازہ ہو سکے کہ مرمو کبھی بھی ترقی کر سکتی ہے۔بلکہ غربت مٹاؤ مہم سے کنارہ کشی اختیار کر سکتی ہے۔ مگر مرمو کے دہائیوں پر محیط سیاسی کیرئیر میں اس پر ایک پائی کی کرپشن کا الزام نہیں ہے۔ یہاں میں پاکستان میں موجودہ وزیراعظم کا ''ایک دھیلے کی کرپشن '' والا جملہ استعمال نہیں کر رہا۔ کیونکہ آج یہ میرا موضوع قطعاً نہیں ہے۔ ہندوستان کو بطور پاکستانی آپ جتنا مرضی برا بھلا کہیں' جتنی مرضی گالیاں نکالیں۔
ہماری مذہبی تنظیمیںجتنا مرضی شور و غوغا مچا لیں۔ میلوں لمبی انسانی زنجیریں بنا لیں۔ سچ یہ ہے کہ ہندوستان کا سیاسی نظام حد درجہ مستحکم اور فعال ہے۔ اس ٹھوس نظام نے معاشی' انسانی اور عسکری ترقی کی وہ بنیاد رکھی ہے جس کی بدولت آج ہندوستان ایک علاقائی طاقت سے بالا تر ہو کر گلوبل پاور بن چکا ہے۔ ہمارے ماننے یا نا ماننے سے کوئی بھی حقیقت تبدیل نہیں ہوتی۔ قطعاً یہ عرض نہیں کر رہا کہ انڈیا میں سب کچھ درست ہے مگر ان کی ترقی کی سمت بالکل درست ہے۔ ان کی ہر سیاسی حکومت' معاشی ترقی کو اولین ترجیح دیتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ عسکری ترقی بھی حد درجہ خیرہ کن ہے۔
یہ سب کچھ محتاط لفظوں میں لکھ رہا ہوں۔ کیونکہ ہمارے ہاں غدار اور کافر ہونے کا فتویٰ ریوڑیوں کی طرح بانٹا جاتا ہے۔ بانٹنے والے بھی وہ ظالم لوگ ہوتے ہیں ' جو ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد' امریکا' دوبئی' آسٹریلیا اور دیگر مغربی ممالک کی شہریت حاصل کرنے میں ایک لمحہ تاخیر نہیں کرتے۔ بہرحال ہمارے معاشرے میں حقیقت پسندانہ تحریر اور سوچ پر بھرپور پابندی ہے۔ ہم وہ بدقسمت لوگ ہیں جو اپنی جہالت کی بدولت پوری دنیا کے سامنے نشان عبرت بنا دیے گئے ہیں۔ اپنی پسماندگی پر ماتم کرنے کی بجائے جشن منانے میں مصروف ہیں۔
ہندوستان کی مرمو جیسی ہمارے پاس کتنی سیاسی اور غیر سیاسی شخصیات ہیں۔ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں۔ اگر کوئی جواب ذہن میں آتا بھی ہے تو لکھ نہیں سکتا۔ بہرحال پاکستان میں سیاست اور طاقت لوٹ مار کا دوسرا نام ہے۔ آل شریف اور زرداری صاحب پر تو کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ مگر تحریک انصاف کے اکابرین کے ''کارنامے'' بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ایک بہت ادنیٰ بات عرض کروں۔
تحریک انصاف کے ایک حالیہ جلسے میں اسٹیج پر خان صاحب کے نزدیک کس نے بیٹھنا ہے' ایک سابقہ وفاقی وزیر نے اس امر کے بھی کافی پیسے لیے ہیں۔ جلسہ ان کے شہر میں ہو رہا تھا۔ اس سے آپ اندازہ فرما لیجیے کہ ہاتھی کے اصل دانت کیا ہیں بلکہ کون سے ہیں۔ یقین فرمائیے۔ مجھے سیاست دانوں کے عیب گنوانے کا کوئی شوق نہیں مگر معلومات کی بنا پر عرض نہ کرنا بھی نا انصافی میں شمار ہوگی۔ زرداری صاحب کے کارہائے نمایاں کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ن لیگ میں بہت سے ایسے اکابرین ہیں جو آج سے بیس برس پہلے سائیکل پر پھرتے تھے۔ دو تین مرلوں کے گھروں میں رہتے تھے۔
آج ایکڑوں کے محلوں میں مزے لوٹ رہے ہیں۔لطف کی بات یہ بھی ہے کہ خان صاحب ہوں' شہباز شریف ہوں یا زرداری صاحب' تمام لوگ سارا دن ہمیں ایمانداری' میرٹ اور شفافیت پر بھاشن دیتے ہیں۔ صرف سیاست دانوں میں بگاڑ نہیں۔ سرکاری ملازم' ریاستی اداروں کے سینئر ملازم' تاجر حضرات کی اکثریت اسی بدعملی کا شکار ہے۔
ذرا غور کیجیے۔ سات دہائیوں میں ہم لوگ اتنی بجلی بھی پیدا نہیں کر پائے کہ لوڈشیڈنگ ختم ہو جائے۔ ہم بائیس کروڑ لوگوں کو پینے کا صاف پانی مہیا نہیں کر پائے۔ تھر یا وزیرستان کو تور ہنے دیجیے۔ لاہور' کراچی اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں مقامی ادارے پینے کا صاف پانی مہیا کرنے سے قاصر ہیں۔ ہر سرکاری میٹنگ میں ' بوتل والا منرل واٹر ٹیبل پر سجا ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ بدقسمتی اورکیا ہو گی۔ جس دن ہمارے اکابرین کو نلکے کا پانی پینے پر مجبور کیا گیا۔
پانی بالکل بہتر ہو جائے گا۔ بالکل اسی طرح اگر تمام اکابرین کے لخت جگر سرکاری اسکولوں میں پڑھنے لگیں' ہماری تعلیم کا معیار بہتر ہو جائے گا۔ جس دن ملک کا صدر' وزیراعظم ' وزیر ' سرکاری اسپتالوں میں علاج کروانے لگے۔ ہماری صحت کا شعبہ درست ہو جائے گا۔ میرا تو مشورہ ہے کہ پارلیمنٹ قانون بنا دے جس میں مقتدر طبقے کے تمام اکابرین کو پابند کیا جائے کہ وہ عام لوگوں کی طرح زندگی گزاریں۔
نلکے سے پانی پیئے' سرکاری اسکولوں میں اپنے بچوں کو بھیجیں ' سرکاری اسپتالوں میں علاج کروائیں۔ اگر یہ قانون بن جائے تو یقین فرمائیے' ہماری تنزلی کا سفر رک جائے گا۔ مگر یہ سب کچھ صرف خام خیالی ہے۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہو پائیگا۔ ہمارے ہاں کوئی ایسا صدر ' وزیراعظم ' وزیراعلیٰ یا مقتدر طبقے کا سربراہ نہیں ہو گا جس کے قانونی اثاثے دروپتی مرمو کی طرح صرف اور صرف چھ لاکھ کے ہوں۔ یہاں تو کھربوں کا ہیر پھیر ہے۔ بھلا چھ لاکھ کی کیا اہمیت ۔لہٰذا ہم اسی ذلت میں سانس لیتے رہیںگے!