قادر الکلامی
قادر الکلامی کیا ہوتی ہے؟ ایک بار اس کا مظاہرہ سینیٹ میں دیکھنے کو ملا۔ مولانا فضل الرحمن کے بھائی سینیٹر عطا الرحمن تقریر کر رہے تھے۔
انھوں نے کسی معاملے پر تبصرہ کرتے کوئی سخت لفظ استعمال کیا جس پر چیئرمین نے فوراً انھیں ٹوکا اور کہا کہ میں یہ لفظ ایکسپنچ کرتا ہوں۔ فرض کر لیجیے کہ انھوں نے لعنت کا لفظ استعمال کیا ہوگا۔یہ لفظ ایکسپنچ ہوگیا لیکن تقریر کی روانی میں کوئی فرق نہ آیا۔ کہا کہ مردود سمجھ لیں ۔ یہ لفظ بھی ایکسپنچ ہو گیا تو ایک متبادل لفظ بول دیا۔
یہ منظر دیدنی تھا۔ چیئرمین لفظ ایکسپنچ کرتے جاتے تھے اور مولانا عطا الرحمن اسی روانی میںاُسی لفظ کے ہم پلہ متبادل الفاظ بولتے جاتے تھے۔ کم و بیش کوئی دس بارہ الفاظ ایکسپنچ ہوئے لیکن مولانا کے ذخیرہ الفاظ میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی۔
یہ واقعہ مولانا فضل الرحمن کی حالیہ پریس کانفرنس سے یاد آیا ہے۔ یہ وہی پریس کانفرنس ہے جس میں انھوں نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ تمھارے لیے زمین اتنی گرم کردی جائے گی کہ تم اور تمھارے پیروکار زمین پر پاؤں نہ رکھ پائیں گے۔
یہی بیان ہے جس میں انھوں نے تتلیوں کا بھی ذکر کیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے دوبارہ انتخاب اور اس کے بعد پیدا ہونے والے تنازعات اور مباحث میں مولانا کی پریس کانفرنس کا تذکرہ ذرا بے وقت سا محسوس ہوتا ہے لیکن اس تذکرے کے ساتھ اس کی مناسبت بہت گہری ہے۔ اس مناسبت کا تذکرہ بھی بہت ضروری اور برمحل ہے لیکن اس سے پہلے کچھ ذکر تتلیوں اور ان کے تعلق سے مولانا فضل الرحمن کا ہو جائے۔
عمومی خیال تو یہی ہے کہ مولانا کو تتلیوں کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس رائے سے اتفاق کیا جاسکتا ہے۔ وہ اگر چاہتے تو کوئی متبادل لفظ استعمال کر سکتے تھے کیوں کہ قادر الکلامی میں وہ اپنے برادر خورد مولانا عطا الرحمن سے زیادہ باصلاحیت ہیں پھر ایسا کیوں ہوا کہ انھوں نے تتلیوں ہی کا لفظ استعمال کیا۔ اس کا ایک پس منظر ہے جس کا تعلق ان کے حریف اوّل عمران خان کے طرز سیاست اور اسلوب سے ہے۔
سیاست میں تحریک انصاف نے نئے رجحانات متعارف کروائے ہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے اس جماعت کے شدید مخالفین بھی اختلاف نہیں کریں گے۔ تحریک انصاف کے یہ رجحانات دو چیزوں کے گرد گھومتے ہیں۔
پہلی چیز عمران خان کی شخصیت کا وہ پہلو ہے جسے کشش کے نام سے یاد کیا جاسکتا ہے۔ انھیں کرکٹ سے رخصت ہو ئے، زمانہ بیت گیا لیکن لوگ ان کی نوجوانی کا زمانہ بھولے ہیں اور نہ وہ خود بھولنے دیتے ہیں۔ ان کی کوئی تقریر، کوئی گفتگو، کوئی انٹرویو ان کی کرکٹ کے ذکر سے خالی نہیں ہوتا۔
ممکن ہے کہ کرکٹ کے ذکر سے ممکن ہے کہ وہ خود بھی اپنے ماضی میں جا پہنچتے ہوں لیکن اس حقیقت میں تو کوئی شبہ ہی نہیں ہے کہ اس ذکر سے ان کے پرستاروں کو وہی پوسٹر بوائے یاد آجاتا ہے جس کی شہرت کسی پلے بوائے جیسی تھی۔ہمارے مشرقی معاشرے میں پلے بوائے ہونا زیادہ اچھی بات نہیں سمجھی جاتی۔ یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔
دوسرا رخ مختلف ہے۔ ہمارے یہاں ایسے لوگ بھی قابل لحاظ تعداد میں پائے جاتے ہیں جن کی نا آسودہ خواہشات کی تسکین پلے بوائز کو دیکھنے اور ان سے قربت کے احساس سے ہی ہو جاتی ہے۔ یہ کچھ ایسا ہی ہے جیسے کسی زمانے میں گنڈاسے دار فلموں کے رسیا طبقات اپنی محرومیوں کا ازالہ ایسی فلمیں دیکھ کر کیا کرتے تھے۔ عمران خان کے سیاسی مخالفین میں سے اگر کوئی اس حقیقت کو پوری شرح و بسط کے ساتھ پہچانا ہے تو وہ مولانا فضل الرحمن ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ عمران خان کے اجتماعات میں بڑی تعداد میں اکٹھے ہونے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایسے ہی لوگوں کی ہے۔ یہ تحریک انصاف کے گرد جمع ہونے والے ہجوم کا ایک پہلو ہے۔ تحریک انصاف کے مخالفین کی دوسری سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ اس جماعت کے اجتماعات اور خاص طور پر احتجاجی سرگرمیوں میں کشش کی دوسری وجہ تفریح کے مواقع ہیں۔
لوگوں کو دھرنے کے دن اچھی طرح یاد ہیں جب رات رات بھر تک وہاں ہلا گلا ہوا کرتا تھا اور بہت سے پاپ سنگر وہاں اپنے فن کا مظاہرہ کیا کرتے تھے۔ پاکستان میں اور خاص طور پر ملک کے دور دراز علاقوں میں کنسرٹس میں شرکت کوئی آسان اور سستی تفریح نہیں ۔ اس پر کافی خرچ آتا ہے لیکن پی ٹی آئی کی سیاسی سرگرمیوں نے تفریح کے اس ذریعے کو لوگوں کے لیے بہت آسان بنا دیا ہے۔
پی ٹی آئی کے متاثرین کا ایک اور طبقہ وہ خوش حال طبقات ہیں جن کے نزدیک انقلاب اور تبدیلی جیسے تصورات پر گفتگو فیشن کادرجہ رکھتی ہے لیکن یہ لوگ دائیں یا بائیں بازو کے نظریاتی انقلابیوں کی طرح اس راستے کی کٹھنائیوں اور آزمائشوں سے واقف نہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے ایک نمائندے کی معصومانہ گفتگو پی ٹی آئی کے گزشتہ مارچ کے موقع پر دیکھنے میں آئی۔ اس نوجوان نے کہا تھا کہ اگر پولیس ہمیں مارے گی تو ہم انقلاب کیسے لائیں گے۔
پی ٹی آئی کے مخالفین سمجھتے ہیں کہ عمران خان کے گرد اکٹھا ہونے والوں کی ایک بڑی تعداد اسی قسم کے لوگوں کی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے تتلیاں کہہ کر دراصل اسی طبقے کاذکر کیا ہے جو باتیں تو انقلاب کی کرتا ہے لیکن انقلاب کے تقاضوں اور اس راہ میں آنے والی مشکلات کا اندازہ نہیں رکھتا اور اسے بتا دیا ہے کہ آنے والے چند ہفتوں میں کیا ہونے والا ہے۔حکمراں اتحاد یہ سمجھتا ہے کہ اس نے اب تک اپنے مخالفین کو واک اوور دیاہوا تھا لیکن آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔
بارش کے پہلے قطرے کے طور پر مولانا فضل الرحمن نے اس فیصلے کا اعلان کیا۔ ان کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کی دوسری صف کی قیادت نے اپنے اپنے انداز میں بات کی۔ اس کے بعد احسن اقبال اور شیری رحمان اور دیگر قائدین نے خبردار کیا۔
اس کے فوراً بعد مریم نواز شریف نے اپنے ایک ٹویٹ کے ذریعے نہ صرف اپنے مخالفین کو بدلے ہوئے حالات کی خبر دی بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ اب یک طرفہ اقدامات اور فیصلوں کے روّیے کی بھی مزاحمت ہوگی۔ اس پس منظر میں ہم سمجھ سکتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں قوم کو ایک نئی طرزکی سیاست دیکھنے کا موقع ملے گا۔
انھوں نے کسی معاملے پر تبصرہ کرتے کوئی سخت لفظ استعمال کیا جس پر چیئرمین نے فوراً انھیں ٹوکا اور کہا کہ میں یہ لفظ ایکسپنچ کرتا ہوں۔ فرض کر لیجیے کہ انھوں نے لعنت کا لفظ استعمال کیا ہوگا۔یہ لفظ ایکسپنچ ہوگیا لیکن تقریر کی روانی میں کوئی فرق نہ آیا۔ کہا کہ مردود سمجھ لیں ۔ یہ لفظ بھی ایکسپنچ ہو گیا تو ایک متبادل لفظ بول دیا۔
یہ منظر دیدنی تھا۔ چیئرمین لفظ ایکسپنچ کرتے جاتے تھے اور مولانا عطا الرحمن اسی روانی میںاُسی لفظ کے ہم پلہ متبادل الفاظ بولتے جاتے تھے۔ کم و بیش کوئی دس بارہ الفاظ ایکسپنچ ہوئے لیکن مولانا کے ذخیرہ الفاظ میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی۔
یہ واقعہ مولانا فضل الرحمن کی حالیہ پریس کانفرنس سے یاد آیا ہے۔ یہ وہی پریس کانفرنس ہے جس میں انھوں نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ تمھارے لیے زمین اتنی گرم کردی جائے گی کہ تم اور تمھارے پیروکار زمین پر پاؤں نہ رکھ پائیں گے۔
یہی بیان ہے جس میں انھوں نے تتلیوں کا بھی ذکر کیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے دوبارہ انتخاب اور اس کے بعد پیدا ہونے والے تنازعات اور مباحث میں مولانا کی پریس کانفرنس کا تذکرہ ذرا بے وقت سا محسوس ہوتا ہے لیکن اس تذکرے کے ساتھ اس کی مناسبت بہت گہری ہے۔ اس مناسبت کا تذکرہ بھی بہت ضروری اور برمحل ہے لیکن اس سے پہلے کچھ ذکر تتلیوں اور ان کے تعلق سے مولانا فضل الرحمن کا ہو جائے۔
عمومی خیال تو یہی ہے کہ مولانا کو تتلیوں کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس رائے سے اتفاق کیا جاسکتا ہے۔ وہ اگر چاہتے تو کوئی متبادل لفظ استعمال کر سکتے تھے کیوں کہ قادر الکلامی میں وہ اپنے برادر خورد مولانا عطا الرحمن سے زیادہ باصلاحیت ہیں پھر ایسا کیوں ہوا کہ انھوں نے تتلیوں ہی کا لفظ استعمال کیا۔ اس کا ایک پس منظر ہے جس کا تعلق ان کے حریف اوّل عمران خان کے طرز سیاست اور اسلوب سے ہے۔
سیاست میں تحریک انصاف نے نئے رجحانات متعارف کروائے ہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے اس جماعت کے شدید مخالفین بھی اختلاف نہیں کریں گے۔ تحریک انصاف کے یہ رجحانات دو چیزوں کے گرد گھومتے ہیں۔
پہلی چیز عمران خان کی شخصیت کا وہ پہلو ہے جسے کشش کے نام سے یاد کیا جاسکتا ہے۔ انھیں کرکٹ سے رخصت ہو ئے، زمانہ بیت گیا لیکن لوگ ان کی نوجوانی کا زمانہ بھولے ہیں اور نہ وہ خود بھولنے دیتے ہیں۔ ان کی کوئی تقریر، کوئی گفتگو، کوئی انٹرویو ان کی کرکٹ کے ذکر سے خالی نہیں ہوتا۔
ممکن ہے کہ کرکٹ کے ذکر سے ممکن ہے کہ وہ خود بھی اپنے ماضی میں جا پہنچتے ہوں لیکن اس حقیقت میں تو کوئی شبہ ہی نہیں ہے کہ اس ذکر سے ان کے پرستاروں کو وہی پوسٹر بوائے یاد آجاتا ہے جس کی شہرت کسی پلے بوائے جیسی تھی۔ہمارے مشرقی معاشرے میں پلے بوائے ہونا زیادہ اچھی بات نہیں سمجھی جاتی۔ یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔
دوسرا رخ مختلف ہے۔ ہمارے یہاں ایسے لوگ بھی قابل لحاظ تعداد میں پائے جاتے ہیں جن کی نا آسودہ خواہشات کی تسکین پلے بوائز کو دیکھنے اور ان سے قربت کے احساس سے ہی ہو جاتی ہے۔ یہ کچھ ایسا ہی ہے جیسے کسی زمانے میں گنڈاسے دار فلموں کے رسیا طبقات اپنی محرومیوں کا ازالہ ایسی فلمیں دیکھ کر کیا کرتے تھے۔ عمران خان کے سیاسی مخالفین میں سے اگر کوئی اس حقیقت کو پوری شرح و بسط کے ساتھ پہچانا ہے تو وہ مولانا فضل الرحمن ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ عمران خان کے اجتماعات میں بڑی تعداد میں اکٹھے ہونے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایسے ہی لوگوں کی ہے۔ یہ تحریک انصاف کے گرد جمع ہونے والے ہجوم کا ایک پہلو ہے۔ تحریک انصاف کے مخالفین کی دوسری سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ اس جماعت کے اجتماعات اور خاص طور پر احتجاجی سرگرمیوں میں کشش کی دوسری وجہ تفریح کے مواقع ہیں۔
لوگوں کو دھرنے کے دن اچھی طرح یاد ہیں جب رات رات بھر تک وہاں ہلا گلا ہوا کرتا تھا اور بہت سے پاپ سنگر وہاں اپنے فن کا مظاہرہ کیا کرتے تھے۔ پاکستان میں اور خاص طور پر ملک کے دور دراز علاقوں میں کنسرٹس میں شرکت کوئی آسان اور سستی تفریح نہیں ۔ اس پر کافی خرچ آتا ہے لیکن پی ٹی آئی کی سیاسی سرگرمیوں نے تفریح کے اس ذریعے کو لوگوں کے لیے بہت آسان بنا دیا ہے۔
پی ٹی آئی کے متاثرین کا ایک اور طبقہ وہ خوش حال طبقات ہیں جن کے نزدیک انقلاب اور تبدیلی جیسے تصورات پر گفتگو فیشن کادرجہ رکھتی ہے لیکن یہ لوگ دائیں یا بائیں بازو کے نظریاتی انقلابیوں کی طرح اس راستے کی کٹھنائیوں اور آزمائشوں سے واقف نہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے ایک نمائندے کی معصومانہ گفتگو پی ٹی آئی کے گزشتہ مارچ کے موقع پر دیکھنے میں آئی۔ اس نوجوان نے کہا تھا کہ اگر پولیس ہمیں مارے گی تو ہم انقلاب کیسے لائیں گے۔
پی ٹی آئی کے مخالفین سمجھتے ہیں کہ عمران خان کے گرد اکٹھا ہونے والوں کی ایک بڑی تعداد اسی قسم کے لوگوں کی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے تتلیاں کہہ کر دراصل اسی طبقے کاذکر کیا ہے جو باتیں تو انقلاب کی کرتا ہے لیکن انقلاب کے تقاضوں اور اس راہ میں آنے والی مشکلات کا اندازہ نہیں رکھتا اور اسے بتا دیا ہے کہ آنے والے چند ہفتوں میں کیا ہونے والا ہے۔حکمراں اتحاد یہ سمجھتا ہے کہ اس نے اب تک اپنے مخالفین کو واک اوور دیاہوا تھا لیکن آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔
بارش کے پہلے قطرے کے طور پر مولانا فضل الرحمن نے اس فیصلے کا اعلان کیا۔ ان کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کی دوسری صف کی قیادت نے اپنے اپنے انداز میں بات کی۔ اس کے بعد احسن اقبال اور شیری رحمان اور دیگر قائدین نے خبردار کیا۔
اس کے فوراً بعد مریم نواز شریف نے اپنے ایک ٹویٹ کے ذریعے نہ صرف اپنے مخالفین کو بدلے ہوئے حالات کی خبر دی بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ اب یک طرفہ اقدامات اور فیصلوں کے روّیے کی بھی مزاحمت ہوگی۔ اس پس منظر میں ہم سمجھ سکتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں قوم کو ایک نئی طرزکی سیاست دیکھنے کا موقع ملے گا۔