انسداد دروغ گوئی عدالت کی ضرورت
ISLAMABAD:
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ عمران خان نے ہم پر جھوٹے کیس بنائے اب وہ سچے کیسوں کا سامنا کریں۔ وزیر داخلہ نے اپوزیشن پر عمران خان حکومت میں بنائے گئے جن جھوٹے کیسوں کا ذکر کیا ہے وہ اب تک عدالتوں میں زیر سماعت اور عدالتی فیصلوں کے منتظر ہیں کسی بھی ملکی عدالت نے اپوزیشن کے سابق اور حکومت کے موجودہ وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیروں اور رہنماؤں میں سے کسی ایک کو بھی قصور وار قرار نہیں دیا کہ انھیں مجرم سمجھا جائے مگر عمران خان موجودہ وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ پنجاب بلکہ موجودہ حکومت کو ہی چوروں کی حکومت قرار دے رہے ہیں جس میں مقدمات میں ملوث مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی کے علاوہ جے یو آئی، بی این پی مینگل اور عمران حکومت کے اتحادی تمام وزرا بھی شامل ہیں جن پر ملک کی کسی عدالت میں کوئی کیس زیر سماعت نہیں ہے۔
عمران خان جب وزیر اعظم بنے تھے تو ان سمیت صدر عارف علوی اور عمران حکومت کے متعدد وزیروں پر 2013 کی مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں بنائے گئے مقدمات شامل تھے جن کی موجودگی میں عارف علوی، عمران خان و دیگر شامل تھے جن کے مقدمات عمران حکومت میں ختم ہوئے اور ایسا پہلے بھی ہوا۔ سیاسی مخالفت میں قائم کیے گئے مقدمات (ن) لیگ اور پی پی حکومت میں ختم ہوئے اور چوہدریوں سمیت عمران خان، عارف علوی و دیگر کے خلاف مقدمات پی ٹی آئی حکومت میں ختم کرائے گئے اور ایسا ہر حکومت میں ہوتا آیا ہے۔
ملک میں ماضی کے حکمرانوں پر بننے والے کیس، بعد میں اپنی حکومت بننے پر ختم کرائے جاتے رہے ہیں۔ موجودہ حکمرانوں پر زیر سماعت جو مقدمات ہیں ان میں موجودہ حکومت اپنے سوا تین ماہ میں ایک بھی مقدمہ ختم کرا سکی نہ ہی کسی عدالت نے انھیں بری کیا ہے۔ وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ پنجاب اور بعض وزرا مسلسل عدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں اور ان کے عدالتوں میں پیش ہونے کے اقدام کو خود سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی سراہا ہے۔
پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں ہر سویلین اور غیر سویلین حکومت میں جھوٹے کیس بنوائے گئے۔ ایک وزیر اعظم پھانسی چڑھا، دوسرے کو برطرف اور نااہل ہونا پڑا۔ ایک سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ فائلوں میں دبا سالوں سے سماعت کا منتظر ہے۔
یہ بھی درست ہے کہ ملک کی تمام عدالتوں میں سالوں سے لاکھوں کیس زیر سماعت ہیں اور ان مقدمات میں سیکڑوں مقدمات سیاسی نوعیت اور ہزاروں مقدمات نیب کی احتساب عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف، بعض الیکشن کمیشن اور ٹریبونلز کے فیصلوں کے خلاف اور لاکھوں اپیلیں نچلی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف زیر سماعت ہیں اور مقدمات کے اس بھاری بوجھ کے باعث سالوں سے فیصلے نہیں ہو رہے اور متاثرین انصاف کے منتظر ہیں۔
عدالتوں میں سالوں سے یہ بھی ہو رہا ہے کہ پارلیمنٹ کے متنازعہ فیصلے اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج ہو رہے ہیں اور بڑی تعداد میں سیاسی تنازعات اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج ہوتے ہیں اور جلد زیر سماعت آجاتے ہیں کیونکہ ان میں بعض کی نوعیت فوری سماعت کی ہوتی ہے اور اب تو اپنی سیاست چمکانے کے لیے عدالتوں پر الزام لگایا جاتا ہے کہ عدالتیں راتوں کو کھول کر فیصلے دیے جا رہے ہیں۔
ملک میں پہلی بار یہ ہو رہا ہے کہ عدالتی اختیارات کے حامل آئینی ادارے الیکشن کمیشن اور اس کے سربراہ پر جھوٹے الزامات پی ٹی آئی کے رہنما لگا رہے ہیں جس پر الیکشن کمیشن کے ترجمان کو کہنا پڑا کہ عمران خان کے الزامات غلط ہیں، بے بنیاد فتوے بانٹنے سے کوئی ادارہ غدار نہیں ہو جاتا۔ الیکشن کمیشن جھوٹے الزامات سے کسی بھی دباؤ میں نہیں آئے گا اور آئین و قانون کے مطابق اپنے فرائض انجام دیتا رہے گا۔
سیاسی رہنما تو اپنے سیاسی مخالفین کو جلسوں اور میڈیا میں ان کے جھوٹے الزامات کا جواب دے دیتے ہیں۔ وزیر خزانہ نے جھوٹی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام تاخیر کا شکار یا معطل نہیں ہوا۔ ایسی خبریں ملک کے خلاف ہیں۔ حکومت کہہ رہی ہے کہ پاکستان کی صورت حال سری لنکا سے مختلف ہے مگر عمران خان کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کو سری لنکا بننے میں معمولی وقت درکار ہے اور ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے۔
وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ سابق حکومت نے کیا اگر معاہدے پر موجودہ وزیر خزانہ کے دستخط ثابت ہو جائیں تو ہم سزا کے لیے تیار ہیں پی ٹی آئی رہنما کھلم کھلا جھوٹ بول رہے ہیں۔حکومت جھوٹوں کی تردید کرتی ہی ہے۔
بعض خواتین نے اس وقت کے چیئرمین نیب پر الزامات لگائے مگر نہ جانے حکومت کیوں خاموش رہی البتہ قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے ایکشن لیا۔ کیا ملک میں ایک ایسی اعلیٰ آئینی عدالت کی ضرورت نہیں ہے جو ملک میں جاری دروغ گوئی پر ایکشن لینے کا اختیار رکھتی ہو۔
ملک میں اس وقت جھوٹے الزامات، بیانات اور جھوٹی سیاست کا بول سب سے بالا اور جھوٹ عروج پر ہیں۔ جھوٹے بیانات سے ملک کی ساکھ بھی خراب ہو رہی ہے۔ حکومت اور عدلیہ ملک میں جھوٹوں کے عروج پر نہ جانے کیوں خاموش ہیں اور کوئی ایکشن نہیں لیا جا رہا۔ ہمارے جھوٹے الزامات اور بیانات کی امریکا اور روس بھی تردید کر چکے مگر پھر بھی جھوٹ بولا جا رہا ہے۔
ایسے حالات میں ضروری ہے کہ ملک میں کوئی انسداد دروغ گوئی کی عدالت اعلیٰ سطح پر قائم کی جائے جو ہر ایک کے جھوٹوں، جھوٹے الزامات، بیانات اور میڈیا ٹاک پر فوری ایکشن لے۔ اس لیے پارلیمنٹ فوری طور پر جھوٹوں کے روکنے اور سزا کے لیے ایک اعلیٰ آئینی عدالت بنائے جو صرف انسداد دروغ گوئی کے لیے ہو اور فوری ایکشن لے کر جھوٹوں کو سزا دے سکے۔
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ عمران خان نے ہم پر جھوٹے کیس بنائے اب وہ سچے کیسوں کا سامنا کریں۔ وزیر داخلہ نے اپوزیشن پر عمران خان حکومت میں بنائے گئے جن جھوٹے کیسوں کا ذکر کیا ہے وہ اب تک عدالتوں میں زیر سماعت اور عدالتی فیصلوں کے منتظر ہیں کسی بھی ملکی عدالت نے اپوزیشن کے سابق اور حکومت کے موجودہ وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیروں اور رہنماؤں میں سے کسی ایک کو بھی قصور وار قرار نہیں دیا کہ انھیں مجرم سمجھا جائے مگر عمران خان موجودہ وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ پنجاب بلکہ موجودہ حکومت کو ہی چوروں کی حکومت قرار دے رہے ہیں جس میں مقدمات میں ملوث مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی کے علاوہ جے یو آئی، بی این پی مینگل اور عمران حکومت کے اتحادی تمام وزرا بھی شامل ہیں جن پر ملک کی کسی عدالت میں کوئی کیس زیر سماعت نہیں ہے۔
عمران خان جب وزیر اعظم بنے تھے تو ان سمیت صدر عارف علوی اور عمران حکومت کے متعدد وزیروں پر 2013 کی مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں بنائے گئے مقدمات شامل تھے جن کی موجودگی میں عارف علوی، عمران خان و دیگر شامل تھے جن کے مقدمات عمران حکومت میں ختم ہوئے اور ایسا پہلے بھی ہوا۔ سیاسی مخالفت میں قائم کیے گئے مقدمات (ن) لیگ اور پی پی حکومت میں ختم ہوئے اور چوہدریوں سمیت عمران خان، عارف علوی و دیگر کے خلاف مقدمات پی ٹی آئی حکومت میں ختم کرائے گئے اور ایسا ہر حکومت میں ہوتا آیا ہے۔
ملک میں ماضی کے حکمرانوں پر بننے والے کیس، بعد میں اپنی حکومت بننے پر ختم کرائے جاتے رہے ہیں۔ موجودہ حکمرانوں پر زیر سماعت جو مقدمات ہیں ان میں موجودہ حکومت اپنے سوا تین ماہ میں ایک بھی مقدمہ ختم کرا سکی نہ ہی کسی عدالت نے انھیں بری کیا ہے۔ وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ پنجاب اور بعض وزرا مسلسل عدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں اور ان کے عدالتوں میں پیش ہونے کے اقدام کو خود سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی سراہا ہے۔
پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں ہر سویلین اور غیر سویلین حکومت میں جھوٹے کیس بنوائے گئے۔ ایک وزیر اعظم پھانسی چڑھا، دوسرے کو برطرف اور نااہل ہونا پڑا۔ ایک سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ فائلوں میں دبا سالوں سے سماعت کا منتظر ہے۔
یہ بھی درست ہے کہ ملک کی تمام عدالتوں میں سالوں سے لاکھوں کیس زیر سماعت ہیں اور ان مقدمات میں سیکڑوں مقدمات سیاسی نوعیت اور ہزاروں مقدمات نیب کی احتساب عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف، بعض الیکشن کمیشن اور ٹریبونلز کے فیصلوں کے خلاف اور لاکھوں اپیلیں نچلی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف زیر سماعت ہیں اور مقدمات کے اس بھاری بوجھ کے باعث سالوں سے فیصلے نہیں ہو رہے اور متاثرین انصاف کے منتظر ہیں۔
عدالتوں میں سالوں سے یہ بھی ہو رہا ہے کہ پارلیمنٹ کے متنازعہ فیصلے اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج ہو رہے ہیں اور بڑی تعداد میں سیاسی تنازعات اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج ہوتے ہیں اور جلد زیر سماعت آجاتے ہیں کیونکہ ان میں بعض کی نوعیت فوری سماعت کی ہوتی ہے اور اب تو اپنی سیاست چمکانے کے لیے عدالتوں پر الزام لگایا جاتا ہے کہ عدالتیں راتوں کو کھول کر فیصلے دیے جا رہے ہیں۔
ملک میں پہلی بار یہ ہو رہا ہے کہ عدالتی اختیارات کے حامل آئینی ادارے الیکشن کمیشن اور اس کے سربراہ پر جھوٹے الزامات پی ٹی آئی کے رہنما لگا رہے ہیں جس پر الیکشن کمیشن کے ترجمان کو کہنا پڑا کہ عمران خان کے الزامات غلط ہیں، بے بنیاد فتوے بانٹنے سے کوئی ادارہ غدار نہیں ہو جاتا۔ الیکشن کمیشن جھوٹے الزامات سے کسی بھی دباؤ میں نہیں آئے گا اور آئین و قانون کے مطابق اپنے فرائض انجام دیتا رہے گا۔
سیاسی رہنما تو اپنے سیاسی مخالفین کو جلسوں اور میڈیا میں ان کے جھوٹے الزامات کا جواب دے دیتے ہیں۔ وزیر خزانہ نے جھوٹی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام تاخیر کا شکار یا معطل نہیں ہوا۔ ایسی خبریں ملک کے خلاف ہیں۔ حکومت کہہ رہی ہے کہ پاکستان کی صورت حال سری لنکا سے مختلف ہے مگر عمران خان کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کو سری لنکا بننے میں معمولی وقت درکار ہے اور ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے۔
وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ سابق حکومت نے کیا اگر معاہدے پر موجودہ وزیر خزانہ کے دستخط ثابت ہو جائیں تو ہم سزا کے لیے تیار ہیں پی ٹی آئی رہنما کھلم کھلا جھوٹ بول رہے ہیں۔حکومت جھوٹوں کی تردید کرتی ہی ہے۔
بعض خواتین نے اس وقت کے چیئرمین نیب پر الزامات لگائے مگر نہ جانے حکومت کیوں خاموش رہی البتہ قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے ایکشن لیا۔ کیا ملک میں ایک ایسی اعلیٰ آئینی عدالت کی ضرورت نہیں ہے جو ملک میں جاری دروغ گوئی پر ایکشن لینے کا اختیار رکھتی ہو۔
ملک میں اس وقت جھوٹے الزامات، بیانات اور جھوٹی سیاست کا بول سب سے بالا اور جھوٹ عروج پر ہیں۔ جھوٹے بیانات سے ملک کی ساکھ بھی خراب ہو رہی ہے۔ حکومت اور عدلیہ ملک میں جھوٹوں کے عروج پر نہ جانے کیوں خاموش ہیں اور کوئی ایکشن نہیں لیا جا رہا۔ ہمارے جھوٹے الزامات اور بیانات کی امریکا اور روس بھی تردید کر چکے مگر پھر بھی جھوٹ بولا جا رہا ہے۔
ایسے حالات میں ضروری ہے کہ ملک میں کوئی انسداد دروغ گوئی کی عدالت اعلیٰ سطح پر قائم کی جائے جو ہر ایک کے جھوٹوں، جھوٹے الزامات، بیانات اور میڈیا ٹاک پر فوری ایکشن لے۔ اس لیے پارلیمنٹ فوری طور پر جھوٹوں کے روکنے اور سزا کے لیے ایک اعلیٰ آئینی عدالت بنائے جو صرف انسداد دروغ گوئی کے لیے ہو اور فوری ایکشن لے کر جھوٹوں کو سزا دے سکے۔