مینگو فیسٹیول سے آگے ’’نوکری میلہ‘‘ بھی رکھیے
دبئی میں پاکستانی سفارتخانہ مینگو فیسٹیول سے آگے نکلے اور پاکستانی نوجوانوں کےلیے ’’نوکری میلہ‘‘ کا انعقاد ممکن بنائے
ہر سال کی طرح اس سال بھی متحدہ عرب امارات میں پاکستانی سفارتخانے کے زیر انتظام مینگو فیسٹیول کا اہتمام کیا گیا۔ بلاشبہ دبئی اور شارجہ میں منعقد ہونے والی یہ تقریبات شاندار تھیں۔ ان تقریبات میں بڑی تعداد میں پاکستانیوں کی بمعہ اہل و عیال شرکت اس بات کی غماز ہے کہ ایسی تقریبات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ ان تقریبات کے ذریعے نہ صرف آم کی فروخت میں اضافہ ممکن ہوسکے گا بلکہ پاکستانی کمیونٹی کے باہمی اتحاد و اتفاق میں اضافہ ہوگا۔
لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ اگر پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے مینگو فیسٹیول کا انعقاد نہ بھی کیا جائے تو پاکستانی آم کی فروخت پھر بھی جاری و ساری رہے گی۔ پاکستانی آم میں ایسی صفات ہیں کہ پاکستانی آم کا نہ صرف متحدہ عرب امارات میں بسنے والے پاکستانی بلکہ دیگر قومیتوں کے افراد بھی انتظار کرتے ہیں۔ یہ شاید ہماری واحد پروڈکٹ ہے جسے مارکیٹنگ کی ضرورت نہیں، لیکن دیگر بہت سی اجناس جیسے چاول، کیلا، تازہ سبزیاں وغیرہ ایسی ہیں جن کی اگر مناسب تشہیر اور سرپرستی کی جائے تو ہمارے زرمبادلہ میں خطیر اضافے کا سبب بن سکتی ہیں۔
ان سب سے بڑھ کر اگر ہمارا سفارتخانہ سال میں دو یا تین مرتبہ جاب فیسٹیول کا انعقاد کرے تو یہ نہ صرف وطن عزیز کےلیے خطیر زرمبادلہ کی آمد کا ذریعہ بن سکتا ہے بلکہ لاکھوں گھروں کے چولہے روشن ہونے سبب بھی ہوسکتا ہے۔ نوکری میلہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہر سال لاکھوں پاکستانی نوکری کی تلاش کی خاطر متحدہ عرب امارات کا رخ کرتے ہیں، لیکن مناسب رہنمائی، سرپرستی، مطلوبہ صلاحیتوں کی کمی، تیاری کی کمی اور دیگر کمزوریوں کی بدولت اپنی آمد کے تھوڑے عرصے کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر کچھ اس انداز میں مدد کے متمنی ہوتے ہیں:
''مجھے وزٹ پر آئے تین ماہ ہونے والے ہیں، ابھی تک نوکری نہیں ملی۔ گھر کا واحد کفیل ہوں۔ اگر کوئی نوکری دلانے میں مدد کرسکے تو مہربانی ہوگی۔''
''میرا دوسرا وزٹ ختم ہونے والا ہے مگر نوکری نہیں ملی۔ پیسے بھی ختم ہونے والے ہیں۔ ویسے تو میں میں انجینئر ہوں مگر کوئی بھی کام کرنے کو تیار ہوں۔''
اور کچھ شہزادے تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو بغیر سوچے سمجھے، بغیر کسی سے مشورہ کیے، اپنے بیوی بچوں کو بھی ساتھ لے آتے ہیں اور پھر یوں التجائیں کرتے ہیں:
''ہم میاں بیوی بچوں کے ساتھ وزٹ پر آئے تھے، مگر نوکری نہیں ملی۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ٹینشن بڑھتی جارہی ہے۔ پیسے بھی ختم ہونے والے ہیں۔ کوئی بھائی مدد کردے۔''
مندرجہ بالا قسم کی درخواستیں ہر دوسرے دن سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر نظروں سے گزرتی ہیں۔ اس سلسلے میں انتہائی ادب سے گزارش ہے کہ وزٹ پر آکر نوکری تلاش کرنا کسی بھی لحاظ سے صحتمندانہ سرگرمی نہیں ہے۔ یہ ایک غیر قانونی فعل ہے۔ اس کے بجائے اگر نوکری کی تلاش کا ویزہ حاصل کیا جائے تو یہ ہر لحاظ سے فائدہ مند ہوسکتا ہے۔
اگر ہمارا سفارتخانہ وطن کی محبت میں تھوڑی بھاگ دوڑ کرکے بڑی کمپنیوں سے رابطہ قائم کرے۔ ہمارے سفیر محترم کمپنیوں کے سربراہان سے ملاقاتیں کرکے اس بات پر قائل کریں کہ وہ پاکستانیوں کو موقع دیں۔ ان کی ضروریات معلوم کی جائیں اور پھر مطلوبہ صلاحیتوں کے حامل پاکستانیوں کے انٹرویوز کروائے جائیں تو نہ جانے کتنے بجھتے چولہے روشن ہوجائیں۔
اسی طرح اگر ہمارے سفیر محترم متحدہ عرب امارات کے سرکاری حکام سے ملاقات کرکے ان سے درخواست کریں کہ پاکستانیوں کو سرکاری محکموں میں مواقع دیے جائیں تو عین ممکن ہے کہ بڑی تعداد میں پاکستانیوں کو روزگار میسر آسکے۔ یاد رہے کہ اماراتی حکام پاکستانیوں سے ایک قلبی لگاؤ رکھتے ہیں، عین ممکن ہے معمولی کوشش بھی بارآور ثابت ہوگی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارا سفارتخانہ مینگو فیسٹیول سے آگے نکلے۔ زرمبادلہ میں اضافے کےلیے نوکری میلہ کا انعقاد ممکن بنائے۔ متحدہ عرب امارات کی ضروریات کے مطابق پاکستان میں موجود اداروں کے تعاون سے افرادی قوت کی تربیت کا انتظام کرے۔ وزٹ پر آکر نوکری تلاش کرنے کے بجائے نوکری کی تلاش کا ویزہ، کے بارے میں آگاہی پیدا کرے اور پاکستانیوں کے مسائل کے حل کےلیے ہاٹ لائن قائم کی جائے تاکہ مشکل وقت میں ہمارا سفارتخانہ حقیقی معنوں میں پاکستانیوں کے کام آسکے۔ بصورت دیگر ہوسکتا ہے مینگو فیسٹیول سے حکام بالا تو خوش ہوجائیں، سفیر صاحب کی تعریف میں اخبارات میں خبریں بھی لگ جائیں لیکن وطن عزیز ایک بڑے زرمبادلہ سے محروم رہ جائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ اگر پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے مینگو فیسٹیول کا انعقاد نہ بھی کیا جائے تو پاکستانی آم کی فروخت پھر بھی جاری و ساری رہے گی۔ پاکستانی آم میں ایسی صفات ہیں کہ پاکستانی آم کا نہ صرف متحدہ عرب امارات میں بسنے والے پاکستانی بلکہ دیگر قومیتوں کے افراد بھی انتظار کرتے ہیں۔ یہ شاید ہماری واحد پروڈکٹ ہے جسے مارکیٹنگ کی ضرورت نہیں، لیکن دیگر بہت سی اجناس جیسے چاول، کیلا، تازہ سبزیاں وغیرہ ایسی ہیں جن کی اگر مناسب تشہیر اور سرپرستی کی جائے تو ہمارے زرمبادلہ میں خطیر اضافے کا سبب بن سکتی ہیں۔
ان سب سے بڑھ کر اگر ہمارا سفارتخانہ سال میں دو یا تین مرتبہ جاب فیسٹیول کا انعقاد کرے تو یہ نہ صرف وطن عزیز کےلیے خطیر زرمبادلہ کی آمد کا ذریعہ بن سکتا ہے بلکہ لاکھوں گھروں کے چولہے روشن ہونے سبب بھی ہوسکتا ہے۔ نوکری میلہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہر سال لاکھوں پاکستانی نوکری کی تلاش کی خاطر متحدہ عرب امارات کا رخ کرتے ہیں، لیکن مناسب رہنمائی، سرپرستی، مطلوبہ صلاحیتوں کی کمی، تیاری کی کمی اور دیگر کمزوریوں کی بدولت اپنی آمد کے تھوڑے عرصے کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر کچھ اس انداز میں مدد کے متمنی ہوتے ہیں:
''مجھے وزٹ پر آئے تین ماہ ہونے والے ہیں، ابھی تک نوکری نہیں ملی۔ گھر کا واحد کفیل ہوں۔ اگر کوئی نوکری دلانے میں مدد کرسکے تو مہربانی ہوگی۔''
''میرا دوسرا وزٹ ختم ہونے والا ہے مگر نوکری نہیں ملی۔ پیسے بھی ختم ہونے والے ہیں۔ ویسے تو میں میں انجینئر ہوں مگر کوئی بھی کام کرنے کو تیار ہوں۔''
اور کچھ شہزادے تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو بغیر سوچے سمجھے، بغیر کسی سے مشورہ کیے، اپنے بیوی بچوں کو بھی ساتھ لے آتے ہیں اور پھر یوں التجائیں کرتے ہیں:
''ہم میاں بیوی بچوں کے ساتھ وزٹ پر آئے تھے، مگر نوکری نہیں ملی۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ٹینشن بڑھتی جارہی ہے۔ پیسے بھی ختم ہونے والے ہیں۔ کوئی بھائی مدد کردے۔''
مندرجہ بالا قسم کی درخواستیں ہر دوسرے دن سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر نظروں سے گزرتی ہیں۔ اس سلسلے میں انتہائی ادب سے گزارش ہے کہ وزٹ پر آکر نوکری تلاش کرنا کسی بھی لحاظ سے صحتمندانہ سرگرمی نہیں ہے۔ یہ ایک غیر قانونی فعل ہے۔ اس کے بجائے اگر نوکری کی تلاش کا ویزہ حاصل کیا جائے تو یہ ہر لحاظ سے فائدہ مند ہوسکتا ہے۔
اگر ہمارا سفارتخانہ وطن کی محبت میں تھوڑی بھاگ دوڑ کرکے بڑی کمپنیوں سے رابطہ قائم کرے۔ ہمارے سفیر محترم کمپنیوں کے سربراہان سے ملاقاتیں کرکے اس بات پر قائل کریں کہ وہ پاکستانیوں کو موقع دیں۔ ان کی ضروریات معلوم کی جائیں اور پھر مطلوبہ صلاحیتوں کے حامل پاکستانیوں کے انٹرویوز کروائے جائیں تو نہ جانے کتنے بجھتے چولہے روشن ہوجائیں۔
اسی طرح اگر ہمارے سفیر محترم متحدہ عرب امارات کے سرکاری حکام سے ملاقات کرکے ان سے درخواست کریں کہ پاکستانیوں کو سرکاری محکموں میں مواقع دیے جائیں تو عین ممکن ہے کہ بڑی تعداد میں پاکستانیوں کو روزگار میسر آسکے۔ یاد رہے کہ اماراتی حکام پاکستانیوں سے ایک قلبی لگاؤ رکھتے ہیں، عین ممکن ہے معمولی کوشش بھی بارآور ثابت ہوگی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارا سفارتخانہ مینگو فیسٹیول سے آگے نکلے۔ زرمبادلہ میں اضافے کےلیے نوکری میلہ کا انعقاد ممکن بنائے۔ متحدہ عرب امارات کی ضروریات کے مطابق پاکستان میں موجود اداروں کے تعاون سے افرادی قوت کی تربیت کا انتظام کرے۔ وزٹ پر آکر نوکری تلاش کرنے کے بجائے نوکری کی تلاش کا ویزہ، کے بارے میں آگاہی پیدا کرے اور پاکستانیوں کے مسائل کے حل کےلیے ہاٹ لائن قائم کی جائے تاکہ مشکل وقت میں ہمارا سفارتخانہ حقیقی معنوں میں پاکستانیوں کے کام آسکے۔ بصورت دیگر ہوسکتا ہے مینگو فیسٹیول سے حکام بالا تو خوش ہوجائیں، سفیر صاحب کی تعریف میں اخبارات میں خبریں بھی لگ جائیں لیکن وطن عزیز ایک بڑے زرمبادلہ سے محروم رہ جائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔