ڈائیلاگ کا راستہ

معیشت برباد ہوتی رہے گی، جب کہ سیاسی مبصرین کی نظر میں عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہتی کہ پاکستان میں سیاسی استحکام آئے

ali.dhillon@ymail.com

WASHINGTON:
یہ 1993 کی بات ہے جب مرکز میں پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی حکومت بنی اور مسلم لیگ(ن) کو اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنا پڑا۔

اس وقت پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان سیاسی کشمکش کے باعث قرعہ فال مسلم لیگ (جونیجو) کے نام نکلا تھا (سابق وزیرِ اعظم محمد خان جونیجو کے 1993 میں انتقال کے بعد مسلم لیگ (جونیجو) کی کمان حامد ناصر چٹھہ نے سنبھالی تھی۔ جس کی صوبے میں محض 18سیٹیں تھیں۔ جب کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی نشستیں 100، 100سے زائد تھیں۔

ایسے میں حکومت سازی کے لیے مسلم لیگ (جونیجو) کا کردار اہمیت اختیار کر گیا۔ یہ بالکل ایسے ہی تھا جیسے آج مسلم لیگ ق 10نشستوں کے ساتھ پنجاب پر حکومت کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ مسلم لیگ جونیجو گروپ سیاسی بلیک میلنگ کی پوزیشن میں آ گیا۔

وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کی خواہش تھی کہ پنجاب میں نواز شریف وزیر اعلیٰ نہ بن سکیں لہٰذا حالات کا فائدہ جونیجو لیگ نے اٹھایا اور جونیجو گروپ کے منظور وٹو وزیرِ اعلیٰ بن گئے تھے ۔پیپلز پارٹی کے وزرا ان سے خوش نہیں تھے اور وہ بے نظیر بھٹو سے شکوے شکایات کرتے تھے۔ شکایتیں بڑھنے کے بعد بے نظیر بھٹو نے اس وقت کے صدر فاروق لغاری کو تجویز دی کہ وہ منظور وٹو سے کہیں کہ وہ اعتماد کا ووٹ لیں۔صدر فاروق لغاری نے گورنر پنجاب کو ہدایت کی جس کے بعد آرٹیکل 234 کے تحت میاں منظور وٹو سے کہا گیا کہ وہ اعتماد کا ووٹ لیں۔

وہ حسبِ توقع ناکام رہے اور پھر سردار عارف نکئی کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب بنا دیا گیا۔ایسا اس لیے ہوا کہ منظور وٹو کو ہٹانے کے بعد پیپلزپارٹی نے کوشش کی جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے مخدوم الطاف کو وزیرِ اعلیٰ بنایا جائے لیکن مسلم لیگ (جونیجو) کے سربراہ حامد ناصر چٹھہ کا اصرار تھا کہ وزیرِ اعلیٰ اُن کی جماعت سے ہی ہو گا ورنہ وہ الگ ہو جائیں گے' پیپلزپارٹی کو ایک بھر پھر بلیک میل ہونا پڑا اور اس نے سردار عارف نکئی کی حمایت کی۔

یوں جیسے تیسے کرکے 1993 سے لے کر 1996 تک پنجاب میں 18 نشستوں والی جماعت کا وزیرِ اعلیٰ تو رہا مگر ان تین سالوں میں پیپلزپارٹی کے وزراء اور مسلم لیگ جونیجو گروپ کے وزرا کے اختلافات تھے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔ پیپلز پارٹی کو پنجاب میں زبردست سیاسی نقصان پہنچا اور وہ دوبارہ اس پوزیشن میں نہیں آ سکی۔ آج پنجاب میں پیپلز پارٹی کی جگہ تحریک انصاف نے لے لی ہے۔

لہٰذاآج بھی پنجاب میں وہی صورتحال ہے۔ پنجاب اس وقت دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایک طرف کھائی ہے اور دوسری طرف کنواں۔ ایک جانب انتشار ہے تو دوسری جانب سیاسی عدم استحکام۔ تین ماہ سے زائد ہو چکے ہیں کہ پنجاب میں آئینی اور سیاسی بحران ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ پہلے اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ کا الیکشن ہونے نہیں دے رہے تھے، پھرگورنر نے حمزہ شہباز سے حلف لینے سے انکار کردیا، اس کے بعد کئی ہفتوں تک پنجاب کی کابینہ حلف کے لیے ماری ماری پھرتی رہی۔ آخرگورنر کو تبدیل کیا گیا تو صدرِ پاکستان نے وزیراعظم کی سمری مسترد کردی۔


ادھر حمزہ شہباز کو ووٹ ڈالنے والے پی ٹی آئی کے 25ارکان کو نااہل کرانے کے لیے پی ٹی آئی اور پرویز الٰہی کے25ارکان ڈی سیٹ ہو گئے' پنجاب حکومت مفلوج ہو چکی تھی' ضمنی الیکشن ہوئے تو پھر وہی بحران پیدا ہو گیا۔ غرض ایک کے بعد ایک آئینی اور سیاسی بحران جنم لیتا رہا۔ اب وزیراعلیٰ کے انتخاب کے بعد ایک اور بحران پیدا ہوگیا ہے۔ کون جانے یہ بحران آخری ہوگا یا پھر اس کی کوکھ سے مزید تلخیاں جنم لیں گے۔ کسی کے لیے بھی وزارت اعلیٰ پھولوں کی سیج ثابت نہیں ہوگی ؟ لگتا ہے اقتدار حاصل کرنے کی ضد نے بحران پیدا کیا ہے۔ حالانکہ مولانا روم کا قول ہے ''ضد میں تباہی ہے اور نرمی میں خیر۔ جو ضد چھوڑ کر ایک قدم پیچھے ہٹتا ہے وہ تباہی سے بچ جاتا ہے اور جو ضد کا دامن نہیں چھوڑتا وہ تباہی کو گلے لگاتا ہے''۔

لہٰذا چوہدری پرویز الٰہی صاحب جنرل الیکشن کی تیاری کریں۔ ق لیگ بھرپور الیکشن لڑے، یا تو 100سے زائد سیٹیں حاصل کرے جو شاید ممکن نہیں ہیں، یا پھر اپنی جماعت کو تحریک انصاف میں ضم کر دیں۔ اُس کا فائدہ یہ ہوگا کہ کم از کم تحریک انصاف کے اراکین انھیں تسلیم کریں گے، اور عمران خان کو بھی اپنی پارٹی میں زیرک سیاستدان اور اچھا ایڈمنسٹریٹر نصیب ہوگا۔اور ویسے بھی پاکستان کی تاریخ میں ایک پارٹی کا دوسری پارٹی میں ضم ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔

مطلب یہ بالکل ایسے ہی ہوگا جیسے 1986 میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی، بلوچستان اور سندھ سے تعلق رکھنے والی قوم پرست جماعتوں میں ضم کر دی گئی اور اس طرح عوامی نیشنل پارٹی وجود میں آئی جس کے صدر ولی خان اور جنرل سیکریٹری رسول بخش پلیجو تھے۔پھر 2012 میں تحریک استقلال پارٹی ،تحریک انصاف میں ضم ہوگئی۔پھرمسلم لیگ جونیجو، مسلم لیگ جناح اور ملت پارٹی 2004میں ق لیگ میں ضم ہوئیں۔ پھر شیرانی گروپ تحریک انصاف میں ضم ہوا، عوامی جمہوری اتحاد تحریک انصاف میں ضم ہوا، تحریک استقلال بھی تحریک انصاف میں ضم ہوئی ہے وغیرہ جیسی بہت سی مثالیں ہیں جس میں چھوٹی سیاسی پارٹیاں بڑی سیاسی پارٹیوں میں شامل ہو کر ملک و قوم کی خدمت کرتی رہی ہیں۔ لہٰذامسلم لیگ ن پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کو بھی چاہیے کہ وہ ضد چھوڑے اور ڈائیلاگ کی طرف آئے۔

کیوں کہ آج ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہماری سیاست میں فی الوقت انتشار بڑھ رہا ہے، نفرتیں آگ اُگل رہی ہیں اور حسد سوا نیزے پر ہے۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کا حقِ حکمرانی چھیننے کے درپے ہیں۔ طاقت اور اقتدار کی خواہشیں اتنی بے لگام ہو چکی ہیں کہ کوئی ملک کا سوچ رہا ہے نہ عوا م کا۔ معیشت کا دیا منڈیر پڑا آخری سانسیں لے رہا ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ ہماری اشرافیہ اپنی ہی دھن میں مگن ہے۔ ہمہ وقت ایک دوسرے کا راستہ کاٹنے کو تیار اور اپنے ہی قبیلے کی ٹانگیں کھینچنے کے لیے بے تاب ، بقول شاعر

سمجھنے ہی نہیں دیتی سیاست ہم کو سچائی

کبھی چہرہ نہیں ملتا کبھی درپن نہیں ملتا

بہرکیف حالات خراب ہو رہے ہیں،وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز ہو یا پرویز الٰہی ہوں دونوں صورتوں میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا، یہ آپس میں لڑتے رہیںگے، الزامات کی سیاست ہوتی رہے گی، ڈالر مزید مہنگا ہوتا رہے گا.

معیشت برباد ہوتی رہے گی، جب کہ سیاسی مبصرین کی نظر میں عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہتی کہ پاکستان میں سیاسی استحکام آئے، جب کہ دوسری جانب ہمارے اراکین اسمبلی کی کوئی ذہنی تربیت نہیں، نہ اُن کی اپنی کوئی سوچ ہوتی ہے کہ وہ اپنے معاملات کو خود سدھار سکیں۔ بس مقتدر حلقے اگر سیاست میں بہتری چاہتے ہیں تو وہ صرف ایک کام کر دیں وہ یہ کہ ان تمام سیاسی جماعتوں کو ایک ٹیبل پر بٹھا دیں، کیوں کہ اس سیاسی بحران کا واحد حل ڈائیلاگ میں پنہاں ہے جب تک ساری جماعتیں ڈائیلاگ کا راستہ نہیں اپناتیں نئے الیکشن کی راہ ہموار ہوگی نہ سیاسی استحکام کا دروازہ کھلے گا۔اور بدلے میں عوام کا ووٹ بھی چوری ہوتا رہے گا!
Load Next Story