جامعہ کراچی میں کرنٹ لگنے کے واقعات ٹیچرز نے کلاسسز کا بائیکاٹ کردیا
قائم مقام وائس چانسلر نے اپنے دورے کے موقع پر واضح کردیا تھا کہ یونیورسٹی کے پاس تعمیر و مرمت کے لیے پیسے نہیں ہیں
LONDON:
جامعہ کراچی میں عمارتوں کی خستہ حالی اور ٹیچرز کو کرنٹ لگنے کے متعدد واقعات رونما ہونے کے باوجود انتظامیہ کی عدم توجہی پر اساتذہ نے سیمسٹر کلاسسز کا بائیکاٹ کردیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق جامعہ کراچی میں موجودہ و سابقہ کئی انتظامیہ کی عدم توجہی کے باعث یونیورسٹی انفرااسٹریکچر بدترین زبوحالی سے دوچار ہوچکا ہے اور عمارتی خستہ حالی کے سبب چھتوں کے گرنے اور ٹیچر کو کرنٹ لگنے کے واقعات رونما ہونے کے بعد اب شعبہ بائیو کیمسٹری کے اساتذہ نے سیمسٹر کلاسز کا بائیکاٹ کردیا ہے۔
نمائندہ ایکسپریس نیوز کا کہنا ہے کہ یہ بائیکاٹ رواں تعلیمی سال کے نئے سیمسٹر کے شروع ہوتے ہی کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں ایک جانب بیچلرز اور ماسٹرز کے طلباء و طالبات کو آگاہ بھی کردیا گیا ہے تو دوسری جانب شعبہ کے تمام اساتذہ نے مشترکہ طور پر ایک خط چیئرپرسن ڈاکٹر فرحت بتول کے حوالے کیا ہے جس میں واضح مؤقف اپناتے ہوئے 17 اساتذہ نے کہا ہے کہ جب تک شعبے میں تعمیر و مرمت کا کام نہیں کرایا جائے گا اساتزہ کلاسز میں نہیں جائیں گے تدریسی بائیکاٹ جاری رہے گا۔
جامعہ کراچی کے اساتذہ نے مؤقف اپنایا کہ ہم اپنے اور طلبہ کی زندگیوں کو مزید خطرے میں نہیں ڈال سکتے، انجمن اساتذہ جامعہ کراچی کے صدر پروفیسر شاہ علی القدر جو اس شعبہ کے ہی استاد ہیں "ایکسپریس" کے رابطہ کرنے پر شعبہ کی چیئرپرسن کو لکھے گئے خط اور اساتذہ کی جانب سے کلاسز کے بائیکاٹ کی تصدیق کی۔
شاہ علی القدر کا کہنا تھا کہ صرف ہمارے شعبے کی ہی نہیں بلکہ پوری یونیورسٹی کی ہی یہی صورتحال ہے میں نے خود اس خط پر دستخط کیے ہیں لہذا میں بھی اپنے اساتذہ کے ساتھ کلاسز کے بائیکاٹ پر ہوں۔
انھوں نے بتایا کہ وائس چانسلر نے چند روز قبل شعبہ کا دورہ کیا تھا اور کہا تھا کہ ہم اس کی ریپیئرنگ کرادیتے ہیں۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ قائم مقام وائس چانسلر جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر ناصرہ خاتون نے اپنے دورے کے موقع پر یہ واضح کردیا تھا کہ یونیورسٹی کے پاس تعمیر و مرمت کے لیے پیسے نہیں ہیں اساتذہ کو چاہیے کہ اپنی المنائی اور ایسے صاحب ثروت افراد جو تعلیم پر خرچ کرنا چاہتے ہیں ان سے رابطہ کیا جائے۔
یاد رہے کہ جامعہ کراچی کی قائم مقام وائس چانسلر کے دورے کے باوجود اب تک شعبہ کی صورتحال جوں کی توں ہے اور ایک ہفتے سے اساتذہ تدریسی بائیکاٹ پر ہیں اس دوران شعبہ بائیو کیمسٹری کے طلباء و طالبات کلاسز کی جانب آتے ہیں کچھ وقت گزارتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں.
اس حوالے سے ایک طالب علم نے "ایکسپریس" کو بتایا کہ ہمارے شعبے کے انفرااسٹریکچر کی صور تحال اس قدر خراب ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم کھنڈرات پر ریسرچ کرنے کے لیے کسی پرانی عمارت میں فیلڈ ورک پر آئے ہوئے ہیں۔
طالب علم کا کہنا تھا کہ اساتذہ نے بائیکاٹ کیا ہے بظاہر یہ بائیکاٹ ہمارے اور خود ان کے بھی فائدے میں ہے لیکن اس کا نتیجہ بھی آنا چاہیے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل ماضی قریب میں شعبے کے ایک استاد کو اسی خراب انفرااسٹریکچر کے سبب کرنٹ بھی لگ چکا ہے جب کہ ایک خاتون ٹیچر کے دفتر کی چھت کا پلاسٹر ان کی میز اور کرسی ہر گرنے کا واقعہ بھی رونما ہوچکا ہے جس میں خاتون ٹیچر خوش قسمتی سے محفوظ رہی تھیں ان دونوں واقعات کا ذکر 17 اساتذہ کی جانب سے لکھے گئے اس خط میں موجود ہے شعبے کی صورتحال یہ ہے کہ اب جابجا عمارتی سریا نظر آتا اور انتظامی بے حسی کا مذاق اڑاتا ہے یہ صورتحال شعبے کی تجربہ گاہوں ، کمرہ جماعت، اساتذہ کے دفاتر اور شعبہ کی راہداریوں میں ہے۔
اساتذہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک ماہ میں بارشوں کے متعدد سلسلوں کے سبب اب عمارت مزید مخدوش ہوچکی ہے اور کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوسکتا ہے لیکن شاید انتظامیہ شعبہ کی چھتوں کے گرنے کا انتظار کررہی ہے۔
ایک استاد نے بتایا کہ یونیورسٹی کے انجینیئر کہتے ہیں کہ ہمیں تعمیر و مرمت کا ٹینڈر کرنا ہوگا جس میں کافی وقت درکار ہے اور یہ بات کئی ماہ سے بار بار کہہ گئی ہے لیکن اب تک ٹینڈر ہوا نہ تعمیر و مرمت شروع ہوئی اور اساتذہ و طلبہ کی زندگیاں دائو پر لگی ہوئی ہیں۔
واضح رہے کہ یہ صورتحال اچانک پیدا نہیں ہوئی ہے بلکہ کم از کم گزشتہ تین وائس چانسلرز کے دور سے شعبہ سمیت جامعہ کراچی کے انفرااسٹریکچر کی صورتحال مسلسل دگرگوں ہے تاہم موجودہ یا سابقہ کسی بھی انتظامی سربراہوں نے اس جانب توجہ نہیں دی البتہ حکومت سندھ یا ایچ ای سی کی جانب سے دئے گئے فنڈز سے لیووانکیشمنٹ کی تقسیم کا سلسلہ گزشتہ وائس چانسلر کے سوائے ایک سال کے ہر دور کے ہر برس میں جاری ہے۔