کراچی تاریخ کے آئینے میں دوسرا حصہ
1830 کی دہائی میں کراچی میں ہندوؤں کی اکثریت تھی۔ 14 ہزار کی آبادی میں تقریباً 9 ہزار ہندو تھے
ISLAMABAD:
پہلی اینگلو افغان جنگ میں شکست کے بعد انگریزوں کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ ان کو احساس تھا کہ اس بدنامی سے پیچھا چھڑانے کے لیے برطانوی حکومت کو ''سخت اقدامات'' اٹھانا پڑیں گے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ سندھ کے حوالے سے یہاں کے حکمرانوںسے نئے معاہدوں پر بات چیت کی جائے اور مزید عملداری اور تجارتی رعایتیں طلب کی جائیں اور اس طرح ان سے بچی کچھی حکمرانی چھین لی جائے۔
تجارت کے تحفظ اور توسیع کے لیے برطانیہ کو احساس تھا کہ سندھ پر مکمل فوجی اختیار ضروری ہے اور اس کے لیے کراچی، سکھر، بکھر اور روہڑی کو سندھ کے حکمران انگریز کے حوالے کر دیں اور ان شہروں کی توسیع اور چھاؤنیوں کے قیام کے لیے جگہ فراہم کریں۔
ان تجاویز کی تیاری کے دوران جنرل سرچارلس نیپئر کو 1842 میں کراچی میں برطانوی فوجی دستوں کا کمانڈر بنا دیا گیا۔ اس کا پختہ یقین تھا کہ برطانوی سہلٹ کی شمالی سرحد کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے سندھ کا الحاق واحد حل ہے۔ اس نے برطانیہ کے ساتھ امیروں کی جانب سے کیے گئے گزشتہ معاہدوں کی خلاف ورزی کا الزام لگایا۔ سندھ کے امیروں میں آپس میں شدید پھوٹ پڑ گئی۔ ان پر مسلط کی جانے والی نئی شرائط کی مزاحمت کی جو برطانوی فوجی کارروائیوں پر منتج ہوا اور سندھ کے الحاق کا باعث ثابت ہوا۔
سندھ کے امیروں اور برطانیہ کے درمیان فوجی جھڑپ کے دوران کراچی کے گرد موجود بلوچی قبائل نے کراچی میں قائم کیمپوں کو جلا کر راکھ کر دینے اور شہر پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ تاہم، کراچی کے کچھ تاجروں نے جنھوں نے انگریزوں سے وفاداری کا عہدکر رکھا تھا اس کوشش کو ناکام کر دیا۔
ایک چشم دید گواہ کا بیان ہے کہ اس شدید تنازعہ کے دوران تمام دکانیں اور دروازے بند کر دیے گئے تھے اور شہر کو خالی کر دیا گیا تھا۔ اس اثنا میں ہندو تاجروں نے یہ بندوبست کیا ہوا تھا کہ اگر شہر کی صورت حال پر تشدد ہو جاتی ہے تو وہ اپنی کشتیوں پر وہاں سے رخصت ہو جاتے۔
برطانوی دستوں نے چاوڑی (بلدیہ کی عمارت) پر نصب تالپور کا پرچم اتار کر یونین جیک لہرا دیا اور تمام اشیا، کاغذات اور حساب کتاب کے گوشواروں کو تحویل میں لے کر ایک کمرے میں ڈال کر اسے سیل کر دیا۔ یہی کارروائی کھارادر اور میٹھادر کے دونوں دروازوں پر کی گئی۔ چاوڑی کی دیواروں اور شہر کے دونوں دروازوں پر اشہارات چسپاں کیے گئے جس میں اعلان کیا گیا تھا کہ کراچی برطانیہ کے زیر نگیں آ چکا ہے مختلف سڑکوں اور شہر کے قرب و جوار میں ڈھول پیٹ کر اس کا اعلان کیا گیا۔ کیمپ کے یورپی سارجنٹ کی نگرانی میں مختلف مقامات پر فوجی تعینات کر دیے گئے اور تالپور حکومت کے افسروں کو برطانوی کیمپ میں منتقل کرکے قید کر دیا گیا۔
ناؤمل لکھتے ہیں کہ ہم دوبارہ شہر کی جانب گئے۔ میر کے افسر آگے چل رہے تھے، ان کے پیچھے میں اورکیپٹن پریڈی توپ خانہ فوجی سپاہیوں کے ساتھ جا رہا تھا۔ جب ہم میٹھادر دروازے پر پہنچے تو کیپٹن پریڈی نے اونچے پلیٹ فارم پر بیٹھے چار پانچ سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہاں سے نیچے آ جائیں۔ انھیں فوراً غیر مسلح کر دیا گیا اور ان کی جگہ برطانوی رجمنٹ کے سپاہی تعینات کر دیے گئے۔ پھر ہم چاوڑی کی جانب روانہ ہوئے جہاں تالپور کا پرچم لہرا رہا تھا۔ کیپٹن پریڈی کی ہدایات کے مطابق بالترتیب پانچ یا سات سرخ اور دیواروں والا پرچم اتار کر اس کی جگہ فوری طور پر یونین جیک لہرا دیا گیا۔
چاوڑی (ٹاؤن ہال) کی تمام اشیا کاغذات، کچھ حساب کی کتابیں ایک کمرے میں بند کرکے سیل کر دی گئیں اور مجھ سے اس جگہ کو اپنی تحویل میں لینے کی درخواست کی گئی۔ ہم نے پوری طرح مرکزی بازار کی تلاشی لی اور شہر کے آخری سرے پر کھارادر دروازے پر پہنچ کر وہی عمل دہرایا جو پہلے دروازے پر کیا گیا۔ ہم چاوڑی واپس آئے جہاں دستاویزات تیار کی گئیں جس میں اعلان کیا گیا تھا کہ کراچی برطانیہ کا زیر نگین شہر ہے اور مجھے اس کا حاکم بنا دیا گیا تھا۔ اعلان کی کاپیاں چاوڑی کی دیواروں اور دونوں دروازوں پر چسپاں کر دی گئیں۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ پورے شہر کو اس کی خبر ہو جائے۔''
کراچی پر قبضہ کے واقعہ اور سندھ کے الحاق پر لکھنے والے زیادہ تر مصنفین کا خیال ہے کہ انگریزوں کی سہولت کاری میں اہم کردار شہر کے ہندو تاجروں نے ادا کیا تھا۔ اس کی دو معقول وجوہ ہیں۔ انتہائی اہم ہندو خاندانوں میں سے ایک یعنی ناؤمل ہوتچند جس کا سلسلہ نصب کراچی کے بانی بھوجومل سے تھا جسے تالپور کے خلاف شکایت تھی کہ اس کے والد کے ساتھ امیروں کا سلوک ہتک آمیز تھا۔ اور دوسرا یہ کہ ہندو تاجروں کے اندر مہم جوئی اور موقع شناسی کی صلاحیت کی بنا پر میروں کے مقابلے میں انگریزوں کی کاروباری اور محصولاتی پالیسیوں سے بے تحاشہ منافع حاصل کرنے کے قابل ہوئے تھے۔
تاہم، سندھ کے الحاق کے ساتھ ہندو تاجروں کا جفاکش بازو یعنی لوہانی برادری کی ہجرت ہو گئی۔ کیونکہ برطانیہ سے الحاق کی وجہ سے انگریزوں نے آ کر انتظامی، سیاسی اور علاقے میں تجارت اور کاروبار سے متعلق معاشی معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ اس کا مطلب ایک اہم پہلو لین دین کے لیے برطانوی روپے کو متعارف کرا کر اسے قانونی قرار دینا تھا جو تبادلہ زر کے کاروبار میں نقصان کا باعث تھا۔ ساتھ ہی تجارتی راہداری کے طور پر دریائے سندھ کے استعمال کرنے کے حوالے سے جو امیدیں دلائی گئی تھیں اس پر عمل نہیں ہو سکا کیونکہ دریائے سندھ پورا سال جہاز رانی کے لیے موزوں نہیں تھا۔
آج سے تقریباً دو صدی قبل کراچی کی کیا صورت حال تھی اس کے بارے میں عارف حسن نے ایسی معلومات پیش کی ہیں جو پڑھنے والے کو حیران کر دیتی ہیں۔کیوں کہ ایک دانستہ حکمت عملی کے ذریعے اس تاثر کو ذہنوں میں راسخ کر دیا گیا ہے کہ سماجی ، معاشرتی ، معاشی اور تہذیبی طور پر کراچی کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی۔ عارف حسن ہمیں دو سو سال پیچھے لے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں کراچی شہر کی ایک ایسی تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے جو ان مفروضوں اور کہانیوں کی نفی کر دیتی ہے جو ہمیں پڑھائی، بتائی اور سنائی جاتی ہیں۔ اس تناظر میں وہ لکھتے ہیں:
1830 کی دہائی میں کراچی میں ہندوؤں کی اکثریت تھی۔ 14 ہزار کی آبادی میں تقریباً 9 ہزار ہندو تھے۔ جن میں 38 فیصد مہاجن اور کھتری تھے جو تاجر یا معیشت کے شعبے سے تعلق رکھتے تھے۔ 4 فیصد کا تعلق برہمنوں اور فقیروں کی ذات سے تھا۔ کراچی میں انگریزوں کی آمد سے قبل ہندو تاجروں کا گروہ سب سے زیادہ طاقت ور تھا۔ جن میں سے اکثر ذات کے لوہانا تھے۔
بندرگاہ کی آمدنی زیادہ تر ہندو تاجروں سے حاصل ہونے والے ٹیکسوں سے حاصل ہوتی تھی اور اسی لیے فرماں روا ان کے کاروبار میں توسیع کے لیے ہر قسم کی مدد کرتے تھے۔ اس سے ان کی سیاسی اہمیت میں اضافہ ہو گیا تھا۔ اس بات کا اظہار اس حقیقت سے ہوا ہے کہ 1794 میں تالپور فوج کو کوراچی کی حوالگی کی شرائط دھریانمل کی وساطت سے طے ہوئی تھی اور شہر کے دروازے کی کنجیاں بھی اسی تالپوری کمانڈر کے سپرد کی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی قابل قدر سرمایہ کاری کرنے والوں کو کسٹم ڈیوٹی معاف کر دی گئی تھی۔ تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کریں۔
مسلمانوں کی آبادی 36 فیصد تھی اور وہ بلوچوں، مہانوں، جوکھیوں اور بھٹوں پر مشتمل تھی اور بہت تھوڑی تعداد خوجوں اور میمنوں کی تھی اور مسلمانوں کی یہ واحد برادری تھی جو کاروبار اور تجارت سے تعلق رکھتی تھی۔ بلوچوں میں قبائلی سردار ان کے محافظ تھے۔
مہانے مچھیرے تھے اور ان کی کشتیوں کو اشیا اور لوگوں کی نقل و حمل کے لیے کرائے پر لیا جاتا تھا۔ جوکھیو جن کی اکثریت کیرتھر کی پہاڑیوں پر آباد تھی وہ منوڑہ کے قلعے پر کوٹھریوں یا قافلوں کی حفاظت کے لیے ملازم رکھے گئے تھے اور جٹ گراوٹ پالتے اور شہری مزدوری کا حصہ تھے اور پرچون فروش، ترکھان، قلی ، رنگریز، ریڑھی بانوں پر مشتمل تھے۔ جوکھیو جیسے پہاڑی قبائل اور شہری دکانداروں کے درمیان باقاعدہ تجارت ہوتی تھی جو ایک دوسرے سے اناج اور جانوروں کا تبادلہ کیا کرتے تھے۔ کراچی کے امرا اور مچھیروں کی غذا کھجوروں اور چاول کے ساتھ مچھلی پر مشتمل تھی جب کہ پہاڑی قبائل کی خوراک دودھ، دہی اور مکھن پر مشتمل تھی۔
(جاری ہے)
پہلی اینگلو افغان جنگ میں شکست کے بعد انگریزوں کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ ان کو احساس تھا کہ اس بدنامی سے پیچھا چھڑانے کے لیے برطانوی حکومت کو ''سخت اقدامات'' اٹھانا پڑیں گے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ سندھ کے حوالے سے یہاں کے حکمرانوںسے نئے معاہدوں پر بات چیت کی جائے اور مزید عملداری اور تجارتی رعایتیں طلب کی جائیں اور اس طرح ان سے بچی کچھی حکمرانی چھین لی جائے۔
تجارت کے تحفظ اور توسیع کے لیے برطانیہ کو احساس تھا کہ سندھ پر مکمل فوجی اختیار ضروری ہے اور اس کے لیے کراچی، سکھر، بکھر اور روہڑی کو سندھ کے حکمران انگریز کے حوالے کر دیں اور ان شہروں کی توسیع اور چھاؤنیوں کے قیام کے لیے جگہ فراہم کریں۔
ان تجاویز کی تیاری کے دوران جنرل سرچارلس نیپئر کو 1842 میں کراچی میں برطانوی فوجی دستوں کا کمانڈر بنا دیا گیا۔ اس کا پختہ یقین تھا کہ برطانوی سہلٹ کی شمالی سرحد کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے سندھ کا الحاق واحد حل ہے۔ اس نے برطانیہ کے ساتھ امیروں کی جانب سے کیے گئے گزشتہ معاہدوں کی خلاف ورزی کا الزام لگایا۔ سندھ کے امیروں میں آپس میں شدید پھوٹ پڑ گئی۔ ان پر مسلط کی جانے والی نئی شرائط کی مزاحمت کی جو برطانوی فوجی کارروائیوں پر منتج ہوا اور سندھ کے الحاق کا باعث ثابت ہوا۔
سندھ کے امیروں اور برطانیہ کے درمیان فوجی جھڑپ کے دوران کراچی کے گرد موجود بلوچی قبائل نے کراچی میں قائم کیمپوں کو جلا کر راکھ کر دینے اور شہر پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ تاہم، کراچی کے کچھ تاجروں نے جنھوں نے انگریزوں سے وفاداری کا عہدکر رکھا تھا اس کوشش کو ناکام کر دیا۔
ایک چشم دید گواہ کا بیان ہے کہ اس شدید تنازعہ کے دوران تمام دکانیں اور دروازے بند کر دیے گئے تھے اور شہر کو خالی کر دیا گیا تھا۔ اس اثنا میں ہندو تاجروں نے یہ بندوبست کیا ہوا تھا کہ اگر شہر کی صورت حال پر تشدد ہو جاتی ہے تو وہ اپنی کشتیوں پر وہاں سے رخصت ہو جاتے۔
برطانوی دستوں نے چاوڑی (بلدیہ کی عمارت) پر نصب تالپور کا پرچم اتار کر یونین جیک لہرا دیا اور تمام اشیا، کاغذات اور حساب کتاب کے گوشواروں کو تحویل میں لے کر ایک کمرے میں ڈال کر اسے سیل کر دیا۔ یہی کارروائی کھارادر اور میٹھادر کے دونوں دروازوں پر کی گئی۔ چاوڑی کی دیواروں اور شہر کے دونوں دروازوں پر اشہارات چسپاں کیے گئے جس میں اعلان کیا گیا تھا کہ کراچی برطانیہ کے زیر نگیں آ چکا ہے مختلف سڑکوں اور شہر کے قرب و جوار میں ڈھول پیٹ کر اس کا اعلان کیا گیا۔ کیمپ کے یورپی سارجنٹ کی نگرانی میں مختلف مقامات پر فوجی تعینات کر دیے گئے اور تالپور حکومت کے افسروں کو برطانوی کیمپ میں منتقل کرکے قید کر دیا گیا۔
ناؤمل لکھتے ہیں کہ ہم دوبارہ شہر کی جانب گئے۔ میر کے افسر آگے چل رہے تھے، ان کے پیچھے میں اورکیپٹن پریڈی توپ خانہ فوجی سپاہیوں کے ساتھ جا رہا تھا۔ جب ہم میٹھادر دروازے پر پہنچے تو کیپٹن پریڈی نے اونچے پلیٹ فارم پر بیٹھے چار پانچ سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہاں سے نیچے آ جائیں۔ انھیں فوراً غیر مسلح کر دیا گیا اور ان کی جگہ برطانوی رجمنٹ کے سپاہی تعینات کر دیے گئے۔ پھر ہم چاوڑی کی جانب روانہ ہوئے جہاں تالپور کا پرچم لہرا رہا تھا۔ کیپٹن پریڈی کی ہدایات کے مطابق بالترتیب پانچ یا سات سرخ اور دیواروں والا پرچم اتار کر اس کی جگہ فوری طور پر یونین جیک لہرا دیا گیا۔
چاوڑی (ٹاؤن ہال) کی تمام اشیا کاغذات، کچھ حساب کی کتابیں ایک کمرے میں بند کرکے سیل کر دی گئیں اور مجھ سے اس جگہ کو اپنی تحویل میں لینے کی درخواست کی گئی۔ ہم نے پوری طرح مرکزی بازار کی تلاشی لی اور شہر کے آخری سرے پر کھارادر دروازے پر پہنچ کر وہی عمل دہرایا جو پہلے دروازے پر کیا گیا۔ ہم چاوڑی واپس آئے جہاں دستاویزات تیار کی گئیں جس میں اعلان کیا گیا تھا کہ کراچی برطانیہ کا زیر نگین شہر ہے اور مجھے اس کا حاکم بنا دیا گیا تھا۔ اعلان کی کاپیاں چاوڑی کی دیواروں اور دونوں دروازوں پر چسپاں کر دی گئیں۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ پورے شہر کو اس کی خبر ہو جائے۔''
کراچی پر قبضہ کے واقعہ اور سندھ کے الحاق پر لکھنے والے زیادہ تر مصنفین کا خیال ہے کہ انگریزوں کی سہولت کاری میں اہم کردار شہر کے ہندو تاجروں نے ادا کیا تھا۔ اس کی دو معقول وجوہ ہیں۔ انتہائی اہم ہندو خاندانوں میں سے ایک یعنی ناؤمل ہوتچند جس کا سلسلہ نصب کراچی کے بانی بھوجومل سے تھا جسے تالپور کے خلاف شکایت تھی کہ اس کے والد کے ساتھ امیروں کا سلوک ہتک آمیز تھا۔ اور دوسرا یہ کہ ہندو تاجروں کے اندر مہم جوئی اور موقع شناسی کی صلاحیت کی بنا پر میروں کے مقابلے میں انگریزوں کی کاروباری اور محصولاتی پالیسیوں سے بے تحاشہ منافع حاصل کرنے کے قابل ہوئے تھے۔
تاہم، سندھ کے الحاق کے ساتھ ہندو تاجروں کا جفاکش بازو یعنی لوہانی برادری کی ہجرت ہو گئی۔ کیونکہ برطانیہ سے الحاق کی وجہ سے انگریزوں نے آ کر انتظامی، سیاسی اور علاقے میں تجارت اور کاروبار سے متعلق معاشی معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ اس کا مطلب ایک اہم پہلو لین دین کے لیے برطانوی روپے کو متعارف کرا کر اسے قانونی قرار دینا تھا جو تبادلہ زر کے کاروبار میں نقصان کا باعث تھا۔ ساتھ ہی تجارتی راہداری کے طور پر دریائے سندھ کے استعمال کرنے کے حوالے سے جو امیدیں دلائی گئی تھیں اس پر عمل نہیں ہو سکا کیونکہ دریائے سندھ پورا سال جہاز رانی کے لیے موزوں نہیں تھا۔
آج سے تقریباً دو صدی قبل کراچی کی کیا صورت حال تھی اس کے بارے میں عارف حسن نے ایسی معلومات پیش کی ہیں جو پڑھنے والے کو حیران کر دیتی ہیں۔کیوں کہ ایک دانستہ حکمت عملی کے ذریعے اس تاثر کو ذہنوں میں راسخ کر دیا گیا ہے کہ سماجی ، معاشرتی ، معاشی اور تہذیبی طور پر کراچی کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی۔ عارف حسن ہمیں دو سو سال پیچھے لے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں کراچی شہر کی ایک ایسی تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے جو ان مفروضوں اور کہانیوں کی نفی کر دیتی ہے جو ہمیں پڑھائی، بتائی اور سنائی جاتی ہیں۔ اس تناظر میں وہ لکھتے ہیں:
1830 کی دہائی میں کراچی میں ہندوؤں کی اکثریت تھی۔ 14 ہزار کی آبادی میں تقریباً 9 ہزار ہندو تھے۔ جن میں 38 فیصد مہاجن اور کھتری تھے جو تاجر یا معیشت کے شعبے سے تعلق رکھتے تھے۔ 4 فیصد کا تعلق برہمنوں اور فقیروں کی ذات سے تھا۔ کراچی میں انگریزوں کی آمد سے قبل ہندو تاجروں کا گروہ سب سے زیادہ طاقت ور تھا۔ جن میں سے اکثر ذات کے لوہانا تھے۔
بندرگاہ کی آمدنی زیادہ تر ہندو تاجروں سے حاصل ہونے والے ٹیکسوں سے حاصل ہوتی تھی اور اسی لیے فرماں روا ان کے کاروبار میں توسیع کے لیے ہر قسم کی مدد کرتے تھے۔ اس سے ان کی سیاسی اہمیت میں اضافہ ہو گیا تھا۔ اس بات کا اظہار اس حقیقت سے ہوا ہے کہ 1794 میں تالپور فوج کو کوراچی کی حوالگی کی شرائط دھریانمل کی وساطت سے طے ہوئی تھی اور شہر کے دروازے کی کنجیاں بھی اسی تالپوری کمانڈر کے سپرد کی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی قابل قدر سرمایہ کاری کرنے والوں کو کسٹم ڈیوٹی معاف کر دی گئی تھی۔ تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کریں۔
مسلمانوں کی آبادی 36 فیصد تھی اور وہ بلوچوں، مہانوں، جوکھیوں اور بھٹوں پر مشتمل تھی اور بہت تھوڑی تعداد خوجوں اور میمنوں کی تھی اور مسلمانوں کی یہ واحد برادری تھی جو کاروبار اور تجارت سے تعلق رکھتی تھی۔ بلوچوں میں قبائلی سردار ان کے محافظ تھے۔
مہانے مچھیرے تھے اور ان کی کشتیوں کو اشیا اور لوگوں کی نقل و حمل کے لیے کرائے پر لیا جاتا تھا۔ جوکھیو جن کی اکثریت کیرتھر کی پہاڑیوں پر آباد تھی وہ منوڑہ کے قلعے پر کوٹھریوں یا قافلوں کی حفاظت کے لیے ملازم رکھے گئے تھے اور جٹ گراوٹ پالتے اور شہری مزدوری کا حصہ تھے اور پرچون فروش، ترکھان، قلی ، رنگریز، ریڑھی بانوں پر مشتمل تھے۔ جوکھیو جیسے پہاڑی قبائل اور شہری دکانداروں کے درمیان باقاعدہ تجارت ہوتی تھی جو ایک دوسرے سے اناج اور جانوروں کا تبادلہ کیا کرتے تھے۔ کراچی کے امرا اور مچھیروں کی غذا کھجوروں اور چاول کے ساتھ مچھلی پر مشتمل تھی جب کہ پہاڑی قبائل کی خوراک دودھ، دہی اور مکھن پر مشتمل تھی۔
(جاری ہے)