حکومتی اتحاد کے ساتھ ’’ڈبل گیم‘‘
حکومتی اتحاد میں شامل جماعتیں سمجھتی ہیں کہ عمران خان کے پیچھے اب بھی انہی قوتوں کا ہاتھ ہے جو ان کو حکومت میں لائیں
عمران خان حکومت گنوا کر بھی مقبول ہوگئے۔ (فوٹو: فائل)
PESHAWAR:
پاکستان کی سیاست بھی پاکستان کے معاشی حالات کی طرح ہے، کچھ مل جائے تو تگڑی ہوجاتی ہے نہ ملے تو قدموں میں گرجاتی ہے۔ اسے اسٹاک ایکسچینج کہیں کہ لمحوں میں تیزی تو لمحوں میں گراوٹ کا شکار۔ اسے کرکٹ میچ سے تشبیہ دیں یا کچھ بھی کہیں، پل میں ماشہ پل میں تولہ ہوتی ہے۔
اب دیکھیے کہ کسی کے وہم و گمان میں ہی نہیں تھا کہ وزیراعظم عمران خان کو ہٹا کر شہباز شریف کو وزیراعظم بنادیا جائے گا، عثمان بزدار کی جگہ حمزہ شہباز آجائے گا یا پھر ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی جیتے گی۔ چلیے پی ٹی آئی جیت گئی۔ اب سب کہہ رہے تھے کہ چوہدری پرویز الٰہی پکے وزیر اعلیٰ ہیں لیکن جب عدالتی حکم پر رن آف الیکشن ہوا تو ڈرامائی تبدیلی آئی۔ زیادہ ووٹ لینے والا ہار گیا، کم ووٹ لینے والا جیت گیا۔ حمزہ شہباز نے دوبارہ شیروانی پہنی، کابینہ بھی بنا لی لیکن چند گھنٹوں بعد سپریم کورٹ نے یہ شیروانی اتار کر چوہدری پرویز الٰہی کو پہنا دی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ دو بار وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھانے والے حمزہ شہباز اقتدار کے سو دن بھی پورے نہ کرسکے۔ ریت پر بنایا گیا گھروندا 88 دن کے لیے ہی قائم رہ سکا۔ کانٹوں بھرا ان کا اقتدار صرف 2112 گھنٹوں پر محیط تھا۔ حمزہ شہباز کہتے تو ہوں گے اس اقتدار سے جان چھوٹی، لیکن لگتا نہیں۔
یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔ پی ٹی آئی کے پاس ایک بڑا صوبہ آگیا ہے۔ پہلے بھی ایک صوبے میں حکومت موجود ہے۔ وفاقی حکومت کے اختیارات محدود ہوگئے ہیں۔ اب عمران خان کے سیاسی دباؤ میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ بلاشبہ پنجاب پاکستان کا آدھا حصہ ہے۔ اس کی آبادی 12 کروڑ ہے۔ یہاں جو جیت جاتا ہے وہ وفاق میں حکومت بناتا ہے۔ عام انتخابات میں جو جیتے گا وہی حکومت بنائے گا۔
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ حکومتی اتحاد اچانک عدالت، اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کیوں بولنے لگا ہے؟ حکومتی اتحاد میں شامل جماعتیں سمجھتی ہیں کہ عمران خان کے پیچھے اب بھی انہی قوتوں کا ہاتھ ہے جو ان کو حکومت میں لائیں اور پھر انگلی پکڑ کر ساڑھے تین سال حکومت بھی کروائی۔ حکومتی اتحاد یہ بھی سمجھتا ہے کہ ان کے ساتھ ''ڈبل گیم'' ہوا ہے، جس کا وہ اب میڈیا پر بھی ذکر کرنا شروع ہوگئے ہیں۔ ایک لحاظ سے یہ ان کی سیاسی حکمت عملی بھی ہے۔ کیونکہ یہ لوگ حکومت میں آکر غیر مقبول ہوگئے اور عمران خان حکومت گنوا کر مقبول ہوگئے۔
حکومتی اتحاد میں شامل جماعتیں اب اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنائیں گی، ساتھ ہی سپریم کورٹ کو بھی آڑے ہاتھوں لیا جائے گا۔ میرے خیال میں عدالت کے خلاف جانا ان کی غلط اسٹریٹجی ہے۔ عوام میں سپریم کورٹ قابل قبول ادارہ ہے۔ اس ادارے نے ہمیشہ پاکستان کو آئینی بحرانوں سے نکالا ہے۔ غلطیاں بھی کی ہیں لیکن عوام اس پر اعتبار کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کوئی جھول نہیں۔ جج واقعات کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں۔ قاسم سوری کی رولنگ غلط تھی تو عدالت نے اسے غلط قرار دیا۔ مزاری کی رولنگ بھی صریحاً غلط تھی، اسے بھی غلط قرار دیا ہے۔ عدالت نے سیاست سے ہٹ کر فیصلہ دیا۔ اگر یہاں اسمبلی ایک ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو غلط قرار دیتی اور دوسری اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو صحیح کہتی تو خود عدالت کے کردار پر انگلیاں اٹھ جاتیں۔ یہی وہ جج تھے جنہوں نے عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ لینے کےلیے کہا تھا۔ تب ٹھیک تھے تو اب کیسے غلط ہوگئے؟
مسئلے کا حل الیکشن ہے۔ لیکن اس سے پہلے الیکشن کےلیے حالات بھی پیدا کرنے ہوں گے۔ اختلافات اپنی جگہ لیکن تمام پارٹیوں کو چارٹر آف ڈیموکریسی کے ساتھ چارٹر آف اکانومی بھی بنانا ہوگا۔ بات چیت کا آغاز ہونا چاہیے۔ سیاسی قوتوں کو اپنے فیصلے خود کرنے چاہئیں۔ الیکشن کےلیے سازگار ماحول پیدا ہونا چاہیے۔ عمران خان یو ٹرن کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں، پاکستان کے مفاد کےلیے اس معاملے پر بھی یو ٹرن لے لیں، اسی میں پاکستان اور عوام کا مفاد ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔