امن کے لیے حکومتی فیصلوں کی حمایت
اس وقت پوری قوم کی امیدیں مذاکراتی عمل کے دوبارہ شروع ہونے کے بعد مفاہمتی عمل کی کامیابی سے وابستہ ہیں
اس وقت پوری قوم کی امیدیں مذاکراتی عمل کے دوبارہ شروع ہونے کے بعد مفاہمتی عمل کی کامیابی سے وابستہ ہیں، مذاکرات کی کامیابی اور ناکامی کے حوالے سے امیدیں،خدشات ، واہمے ذہنوں میں موجود ہیں اور میڈیا پر مباحث بھی جاری ہیں ۔ اس ساری صورتحال میں منگل کو جو اہم پیش رفت سامنے آئی ہے کہ سویلین اورعسکری قیادت کے درمیان حکومتی مذاکراتی کمیٹی میں تبدیلی پر اتفاق رائے ہوگیا ہے۔ عسکری قیادت نے کمیٹی میں تبدیلی کا معاملہ حکومت کے سپردکردیا ہے اور واضح کیا ہے کہ حکومت جس کو چاہے کمیٹی میںشامل کرلے۔
عسکری قیادت امن کے لیے حکومتی فیصلوں کی حمایت کرتی ہے۔دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کرنے کا خمیازہ نہ صرف ہمیں پچاس ہزارسے زائد سویلین وفوجی افرادکی شہادت کی صورت میں بھگتنا پڑا ہے بلکہ ملکی معیشت کو بھی اربوں کا نقصان ہوچکا ہے۔ وطن عزیزگوناگوں مسائل کا شکار ہے لیکن اہم ترین حل طلب مسئلہ بدامنی کا خاتمہ اور قیام امن کا ہے ،مذاکراتی عمل میں پہلے تعطل اور پھر نئی کمیٹیوں کی تشکیل پر میڈیا کے ٹاک شوز میں مباحث کا سلسلہ جاری ہے، میڈیا پر جاری بحث کا نتیجہ یہ ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صورتحال بہت گنجلک ہوچکی ہے اور اس گتھی کو سلجھانے والا کوئی نہیں،ایسا ہرگزنہیں ہے،حکومت پوری نیک نیتی سے بدامنی کے مسئلے کو ختم کرنا چاہتی ہے۔تب ہی حکومت مذاکرات کے عمل کو پرامن مفاہمت کی راہ پر لے جانا چاہتی ہے ۔ حکومت پر تنقید بھی رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے ۔گزشتہ روز ایسی صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب سینیٹ کے ارکان نے طالبان کا دفترکھولنے کی اجازت دینے کی مبینہ خبروں پرایوان سے واک آؤٹ کیا۔ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما میاں افتخار حسین کا کہنا تھا کہ طالبان دفتر کا مطلب یہی ہے کہ ریاست کے اندر ریاست کو تسلیم کیا جائے، پیپلزپارٹی کے رہنما قمرزمان کائرہ کا موقف تھا کہ طالبان کادفترکسی صورت میں بھی نہیں کھلناچاہیے ہمیں باہر سے اتنا خطرہ نہیںجتنا اندر سے ہے۔
جوابی ردعمل کے طور پر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویزخٹک کا بیان آیا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات پہاڑوں میں نہیں ہوسکتے اسی لیے پختونخوا حکومت نے انھیں پشاور میں دفترکھولنے کی پیشکش کی ہے ۔اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ضرور ہے لیکن غیرمصدقہ باتوں پر الجھانا قطعاً سمجھداری کے زمرے میں نہیں آتا ،کیونکہ تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ہم نے پاکستان میں کہیں بھی اپنا دفتر کھولنے کا مطالبہ نہیں کیا،حکومت سے براہ راست مذاکرات شمالی یا جنوبی وزیرستان میں ہی ہوں گے ،مولانا سمیع الحق کی قیادت میں کمیٹی پر مکمل اعتماد ہے'مذاکراتی عمل کی کامیابی کے لیے بہتر ہوگا کہ لاشوں کی سیاست نہ کی جائے۔ ہماری جانب سے مکمل سیز فائرہے،طالبان مذاکراتی کمیٹی اور حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے اراکین رابطے میں ہیں۔جنگ بندی کے بعد بلاشبہ ملک کی سیاسی قیادت کے تدبر اور فہم کا یہ کڑا امتحان ہے کہ وہ کس طرح مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے قیام امن کی راہ ہموار کرتے ہیں ،بہرحال اس موقعے پر طالبان کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق کے اس بیان اور نقطہ نظر کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے ان کے بقول طالبان سے مذاکراتی عمل کو اب بھی امریکا اور بھارت سمیت ملک دشمنوں سے خطرہ ہے'حکومت کے ساتھ ساتھ طالبان کو بھی سازشی عناصر سے ہوشیار رہنا ہو گا۔مذاکرات ومعاملات کی نزاکت پر اصرار کرتا ہوا ان کا موقف درست محسوس ہوتا ہے ۔
حکومت اور طالبان کو ایک ایک قدم پھونک کر رکھنا ہوگا کہ کیونکہ یہ وطن عزیز کی سالمیت اور بقا کا سوال ہے ۔دوسری جانب تجزیہ نگاروں اوراینکرزکا ٹاک شوز میں اس نقطے کو اٹھانا کہ فوج اور سیاسی قیادت ایک صفحہ پر نہیں ہیں،ابہام پیدا کرنے کی دانستہ کوشش محسوس ہوتی ہے ۔یہ بحث یوں بھی بے معنی ہوجاتی ہے کہ ماضی میں فوج کی معاہدوں میں شمولیت اور ضامن بننے کے کئی معاملات بھی ہوچکے ہیں۔ اسی تناظر میں آرمی چیف نے وزیراعظم سے ملاقات میں حالیہ کورکمانڈرز اجلاس کے فیصلوں اور ڈی جی آئی ایس آئی نے ملک کی اندرونی اورسرحدی سیکیورٹی صورتحال پر بریفنگ دی جب کہ وزیرداخلہ چوہدری نثار نے طالبان رابطہ کمیٹی اوردیگر سیاسی رہنماؤں سے رابطوں کے بارے میں آگاہ کیا۔وزیراعظم خلوص نیت سے چاہتے ہیں کہ ملک میں امن وامان قائم ہو اور پاکستان معاشی میدان میں ترقی کی منازل طے کرے اس لیے مذاکراتی عمل کو ان کی بھرپور تائید حاصل ہے ۔ طالبان شوریٰ نے طالبان کمیٹی کو یہ پیغام دیا ہے کہ موجودہ طالبان کمیٹی پرطالبان کو مکمل اعتماد ہے۔جنگ بندی میں توسیع کا امکان بھی ظاہرکیا گیا ہے ۔ مذاکرات کا عمل جوں جوں آگے بڑھے گا اسی طرح بہت سے خدشات اور واہموں کا بتدریج خاتمہ ہوتا جائے گا ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ قیام امن کے لیے جاری کاوشوں کو آخری حد تک لے جانے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے،فوج آئین کی رو سے سیاسی قیادت کے فیصلوں کی پابند ہے وہیں وہ ملکی سلامتی اور بقا کے لیے بھی مصروف عمل ہے ، پاک فوج ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی خطرات سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت کی حامل ہے، اور اس نے وقت پڑنے پر اس کا ثبوت بھی دیا ہے۔
ڈرون ٹیکنالوجی سے بھی زیادہ موثر نظام پاک فوج کے پاس موجود ہے ،جس کا توڑ بھی نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود فوج کا سیاسی قیادت پراظہاراعتماد اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ ملک میں قیام امن کے لیے فوج اور سیاسی قیادت ایک صفحہ پر ہیں ۔مذاکراتی عمل پر تنقید کرنے والوں کو تبدیل ہوتے عالمی منظر نامے اور خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال کا ادراک بھی ہونا چاہیے کیونکہ امریکا اور اس کے اتحادی رواں سال افغانستان سے بتدریج کوچ کر رہے ہیں۔ افغانستان کی حکومت سے بھی پاکستان کو معاملات طے کرنا ہوں گے، یہی ہماری خارجہ پالیسی کا امتحان ہوگا کہ ہم کیونکر افغانستان کے ساتھ مل کر امن منافی واقعات کے مسئلے کا بہتر اور پائیدار حل نکال سکتے ہیں ۔کشت وخون کسی کے مفاد میں نہیں ہے،ہمیں ملک کی سلامتی، یکجہتی اور بقا کی فکر ہونی چاہیے نہ کہ عوام کے ذہنوں میں کسی بھی ذریعے سے کنفیوژن پیدا کر کے صورتحال کو مزید گھمبیر بنایا جائے ۔
حکومت اورطالبان جب اس امر پر اتفاق کرچکے ہیں کہ نئی کمیٹیوں کی تشکیل بروقت کی جائے تاکہ مذاکرات کے عمل میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو تو پھر میڈیا پر بیٹھ کر چائے کی پیالی میں طوفان برپا کرنے کی سعی لاحاصل سے اجتناب برتنا ہوگا ۔اس موقع پر ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ مذاکراتی کمیٹیوں کے ارکان کو اس بات کا پابند کرے کہ وہ اخبارات میں بیان بازی اور ٹاک شوز میں شرکت سے پرہیزکریں ۔اس سے کافی حد تک بات سے بات اور بلاوجہ نکتہ چینی کے منفی عمل کی حوصلہ شکنی ہوگی اور ابہام کی کیفیت میں کمی واقع ہوجائے گی ۔ فہم وفراست اور تدبر سے کام لے کر خانہ جنگی کے شعلوں کو ٹھنڈا کیا جاسکتا ہے ہم بحیثیت قوم امن وامان کی خراب صورتحال سے تنگ آچکے ہیں ۔ ہمیں اس دھرتی میں امن کا بیج بونا ہوگا تاکہ آنے والی نسلیں امن ، سکون اور آشتی کی فضا میں پروان چڑھ کر ملک کی اقتصادی ومعاشی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکیں ۔ہرسو امن کے پھول کھلیں یہی ہر محب وطن پاکستانی کے دل کی آواز ہے ۔
عسکری قیادت امن کے لیے حکومتی فیصلوں کی حمایت کرتی ہے۔دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کرنے کا خمیازہ نہ صرف ہمیں پچاس ہزارسے زائد سویلین وفوجی افرادکی شہادت کی صورت میں بھگتنا پڑا ہے بلکہ ملکی معیشت کو بھی اربوں کا نقصان ہوچکا ہے۔ وطن عزیزگوناگوں مسائل کا شکار ہے لیکن اہم ترین حل طلب مسئلہ بدامنی کا خاتمہ اور قیام امن کا ہے ،مذاکراتی عمل میں پہلے تعطل اور پھر نئی کمیٹیوں کی تشکیل پر میڈیا کے ٹاک شوز میں مباحث کا سلسلہ جاری ہے، میڈیا پر جاری بحث کا نتیجہ یہ ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صورتحال بہت گنجلک ہوچکی ہے اور اس گتھی کو سلجھانے والا کوئی نہیں،ایسا ہرگزنہیں ہے،حکومت پوری نیک نیتی سے بدامنی کے مسئلے کو ختم کرنا چاہتی ہے۔تب ہی حکومت مذاکرات کے عمل کو پرامن مفاہمت کی راہ پر لے جانا چاہتی ہے ۔ حکومت پر تنقید بھی رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے ۔گزشتہ روز ایسی صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب سینیٹ کے ارکان نے طالبان کا دفترکھولنے کی اجازت دینے کی مبینہ خبروں پرایوان سے واک آؤٹ کیا۔ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما میاں افتخار حسین کا کہنا تھا کہ طالبان دفتر کا مطلب یہی ہے کہ ریاست کے اندر ریاست کو تسلیم کیا جائے، پیپلزپارٹی کے رہنما قمرزمان کائرہ کا موقف تھا کہ طالبان کادفترکسی صورت میں بھی نہیں کھلناچاہیے ہمیں باہر سے اتنا خطرہ نہیںجتنا اندر سے ہے۔
جوابی ردعمل کے طور پر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویزخٹک کا بیان آیا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات پہاڑوں میں نہیں ہوسکتے اسی لیے پختونخوا حکومت نے انھیں پشاور میں دفترکھولنے کی پیشکش کی ہے ۔اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ضرور ہے لیکن غیرمصدقہ باتوں پر الجھانا قطعاً سمجھداری کے زمرے میں نہیں آتا ،کیونکہ تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ہم نے پاکستان میں کہیں بھی اپنا دفتر کھولنے کا مطالبہ نہیں کیا،حکومت سے براہ راست مذاکرات شمالی یا جنوبی وزیرستان میں ہی ہوں گے ،مولانا سمیع الحق کی قیادت میں کمیٹی پر مکمل اعتماد ہے'مذاکراتی عمل کی کامیابی کے لیے بہتر ہوگا کہ لاشوں کی سیاست نہ کی جائے۔ ہماری جانب سے مکمل سیز فائرہے،طالبان مذاکراتی کمیٹی اور حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے اراکین رابطے میں ہیں۔جنگ بندی کے بعد بلاشبہ ملک کی سیاسی قیادت کے تدبر اور فہم کا یہ کڑا امتحان ہے کہ وہ کس طرح مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے قیام امن کی راہ ہموار کرتے ہیں ،بہرحال اس موقعے پر طالبان کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق کے اس بیان اور نقطہ نظر کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے ان کے بقول طالبان سے مذاکراتی عمل کو اب بھی امریکا اور بھارت سمیت ملک دشمنوں سے خطرہ ہے'حکومت کے ساتھ ساتھ طالبان کو بھی سازشی عناصر سے ہوشیار رہنا ہو گا۔مذاکرات ومعاملات کی نزاکت پر اصرار کرتا ہوا ان کا موقف درست محسوس ہوتا ہے ۔
حکومت اور طالبان کو ایک ایک قدم پھونک کر رکھنا ہوگا کہ کیونکہ یہ وطن عزیز کی سالمیت اور بقا کا سوال ہے ۔دوسری جانب تجزیہ نگاروں اوراینکرزکا ٹاک شوز میں اس نقطے کو اٹھانا کہ فوج اور سیاسی قیادت ایک صفحہ پر نہیں ہیں،ابہام پیدا کرنے کی دانستہ کوشش محسوس ہوتی ہے ۔یہ بحث یوں بھی بے معنی ہوجاتی ہے کہ ماضی میں فوج کی معاہدوں میں شمولیت اور ضامن بننے کے کئی معاملات بھی ہوچکے ہیں۔ اسی تناظر میں آرمی چیف نے وزیراعظم سے ملاقات میں حالیہ کورکمانڈرز اجلاس کے فیصلوں اور ڈی جی آئی ایس آئی نے ملک کی اندرونی اورسرحدی سیکیورٹی صورتحال پر بریفنگ دی جب کہ وزیرداخلہ چوہدری نثار نے طالبان رابطہ کمیٹی اوردیگر سیاسی رہنماؤں سے رابطوں کے بارے میں آگاہ کیا۔وزیراعظم خلوص نیت سے چاہتے ہیں کہ ملک میں امن وامان قائم ہو اور پاکستان معاشی میدان میں ترقی کی منازل طے کرے اس لیے مذاکراتی عمل کو ان کی بھرپور تائید حاصل ہے ۔ طالبان شوریٰ نے طالبان کمیٹی کو یہ پیغام دیا ہے کہ موجودہ طالبان کمیٹی پرطالبان کو مکمل اعتماد ہے۔جنگ بندی میں توسیع کا امکان بھی ظاہرکیا گیا ہے ۔ مذاکرات کا عمل جوں جوں آگے بڑھے گا اسی طرح بہت سے خدشات اور واہموں کا بتدریج خاتمہ ہوتا جائے گا ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ قیام امن کے لیے جاری کاوشوں کو آخری حد تک لے جانے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے،فوج آئین کی رو سے سیاسی قیادت کے فیصلوں کی پابند ہے وہیں وہ ملکی سلامتی اور بقا کے لیے بھی مصروف عمل ہے ، پاک فوج ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی خطرات سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت کی حامل ہے، اور اس نے وقت پڑنے پر اس کا ثبوت بھی دیا ہے۔
ڈرون ٹیکنالوجی سے بھی زیادہ موثر نظام پاک فوج کے پاس موجود ہے ،جس کا توڑ بھی نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود فوج کا سیاسی قیادت پراظہاراعتماد اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ ملک میں قیام امن کے لیے فوج اور سیاسی قیادت ایک صفحہ پر ہیں ۔مذاکراتی عمل پر تنقید کرنے والوں کو تبدیل ہوتے عالمی منظر نامے اور خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال کا ادراک بھی ہونا چاہیے کیونکہ امریکا اور اس کے اتحادی رواں سال افغانستان سے بتدریج کوچ کر رہے ہیں۔ افغانستان کی حکومت سے بھی پاکستان کو معاملات طے کرنا ہوں گے، یہی ہماری خارجہ پالیسی کا امتحان ہوگا کہ ہم کیونکر افغانستان کے ساتھ مل کر امن منافی واقعات کے مسئلے کا بہتر اور پائیدار حل نکال سکتے ہیں ۔کشت وخون کسی کے مفاد میں نہیں ہے،ہمیں ملک کی سلامتی، یکجہتی اور بقا کی فکر ہونی چاہیے نہ کہ عوام کے ذہنوں میں کسی بھی ذریعے سے کنفیوژن پیدا کر کے صورتحال کو مزید گھمبیر بنایا جائے ۔
حکومت اورطالبان جب اس امر پر اتفاق کرچکے ہیں کہ نئی کمیٹیوں کی تشکیل بروقت کی جائے تاکہ مذاکرات کے عمل میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو تو پھر میڈیا پر بیٹھ کر چائے کی پیالی میں طوفان برپا کرنے کی سعی لاحاصل سے اجتناب برتنا ہوگا ۔اس موقع پر ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ مذاکراتی کمیٹیوں کے ارکان کو اس بات کا پابند کرے کہ وہ اخبارات میں بیان بازی اور ٹاک شوز میں شرکت سے پرہیزکریں ۔اس سے کافی حد تک بات سے بات اور بلاوجہ نکتہ چینی کے منفی عمل کی حوصلہ شکنی ہوگی اور ابہام کی کیفیت میں کمی واقع ہوجائے گی ۔ فہم وفراست اور تدبر سے کام لے کر خانہ جنگی کے شعلوں کو ٹھنڈا کیا جاسکتا ہے ہم بحیثیت قوم امن وامان کی خراب صورتحال سے تنگ آچکے ہیں ۔ ہمیں اس دھرتی میں امن کا بیج بونا ہوگا تاکہ آنے والی نسلیں امن ، سکون اور آشتی کی فضا میں پروان چڑھ کر ملک کی اقتصادی ومعاشی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکیں ۔ہرسو امن کے پھول کھلیں یہی ہر محب وطن پاکستانی کے دل کی آواز ہے ۔