مسائل میں گھرا جنوبی ایشیا
اپنے قدرتی وسائل،زمین کی زرخیزی اورمحنتی وجفاکش باسیوں کے سبب کبھی یہ خطہ سونے کی چڑیا کہلاتا تھا۔
FAISALABAD:
یہ تعصب نہیں حقیقت ہے۔علاقہ پروری نہیں نظر آنے والی کھلی سچائی ہے کہ جنوبی ایشیا ایک خطہ ہے عالمِ انتخاب میں جو ہمالیہ، قراقرم اورہندوکش کی برف پوش چوٹیوں سے بحرہند اور بحیرہ عرب کے نیلگوں پانیوں تک پھیلا ہوا ایک دلفریب ودلنشیں قطعہ ارض ہے۔جس کے سینے پہ ناگن کی طرح لہراتے،بل کھاتے دریا اور ندیاں،خوبصورت جھیلیں اور جھرنے کھیتوں،کھلیانوں کو مسلسل سیراب کرتے ہیں،جن میں سال کے بارہ مہینے فصلیں لہلہاتی ہیں۔ پھلوں اور پھولوں سے لدے باغات اس کے حسن میں چار چاند لگاتے ہیں۔پہاڑوں کے سینے میںمدفون دنیا جہاں کی معدنیات کے ذخائر اس کی اصل دولت ہیں۔موئن جو دڑو سے ٹیکسلا اور پھر لالندہ تک پھیلی ہزاروں برسوں پر محیط تہذیب کے اثرات،اس دھرتی کو مزید منفرد بناتے ہیں۔
اپنے قدرتی وسائل،زمین کی زرخیزی اورمحنتی وجفاکش باسیوں کے سبب کبھی یہ خطہ سونے کی چڑیا کہلاتا تھا۔ایک ایسا خطہ جہاں غذائی اجناس اتنی وافر مقدار میں پیدا ہوتی ہیں کہ اگر منصفانہ تقسیم کو یقینی بنادیا جائے توخطے کاکوئی بھی فرد بھوکا نہ سو سکے ۔ مگرخطے کے کسی بھی ملک میں ان وسائل کی منصفانہ تقسیم کا کوئی واضح طریقہ کار موجود نہیں ہے۔جس کی وجہ سے غربت اور افلاس کی شرح میںمسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ صورتحال کی ابتری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ خطے کے کئی ممالک میں غربت و افلاس کی شرح دنیا کے کئی غیر زرعی ممالک سے بھی کہیں زیادہ ہے۔اس کی بنیادی وجہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اورحکومتوں کا غیر جمہوری طرز عمل ہے۔یہی سبب ہے کہ کرہ ارض کا یہ خوبصورت وحسین خطہ ان گنت مسائل سے دوچارہوکر گہناچکا ہے۔
اس صورتحال کی کئی وجوہات ہیں۔اول،خطے کے دواہم اور بڑے ممالک بھارت اور پاکستان کے درمیان مختلف نوعیت کے تنازعات کی وجہ سے خطے میں تجارتی سرگرمیاں محدود ہو چکی ہیں۔دوئم،یہ دونوں ممالک اپنے وسائل کا ایک بڑا حصہ دفاع کے نام پر اسلحے کی خریداری میں صرف کر رہے ہیں،جس کی وجہ سے خطے میں جنگ بازی جیسے رجحانات کوتقویت حاصل ہو رہی ہے اور عوامی فلاحی اسکیموں کے لیے مناسب رقم مختص نہیں ہوپارہی۔سوئم، خطے کے تقریباً سبھی ممالک کی حکومتیں اور سیاسی جماعتیں جمہوریت کے فروغ کی دعویدار ضرور ہیں، لیکن کسی بھی ملک میں حقیقی معنی میں شراکتی جمہوریت قائم نہیں ہوسکی ہے۔اس کی بنیادی وجہ سیاست پر مختلف خاندانوںکی اجارہ داری ہے۔ اس کے علاوہ شفافیت اور احتساب کی باتیں کی جاتی ہیں، مگر نہ کہیں شفافیت ہے،نہ کہیں احتساب ہوتا نظر آرہا ہے۔ چہارم، خطے کے ممالک کے درمیان تجارت کا حجم تشویشناک حد تک کم ہے، جس کے ان ممالک کی معاشی نمو پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔معاشی نمو کی شرح میں کمی کے باعث انسانی ترقی کا اشاریہ (HDI)بھی روبہ زوال ہے۔
پاکستان اور افغانستان براہ راست مذہبی شدت پسندوں کے نرغے میں، جب کہ بھارت اور بنگلہ دیش میں متشدد قوم پرستی کے مظاہردیکھنے میں آرہے ہیں۔اس صورتحال نے حقوق انسانی کے حوالے سے کئی پیچیدہ مسائل پیدا کردیے ہیں۔خاص طورپر پورے خطے میں مذہبی ، فرقہ وارانہ اور نسلی ولسانی اقلیتیں عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ سماجی ڈھانچے میںفرسودگی کی جڑیں گہری ہونے کی وجہ سے مختلف نوعیت کے امتیازی رویوں کی جڑیں بھی خاصی مضبوط ہوئی ہیں۔خاص طور پر صنفی امتیازایک بہت بڑے مسئلے کی شکل اختیار کرگیا ہے۔اس کے علاوہ بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی کی وجہ سے صرف جمہوری نظمِ حکمرانی کو خطرات لاحق نہیں ہیں ، بلکہ کئی ممالک کی جغرافیائی سلامتی بھی مختلف نوعیت کے خطرات سے دوچار ہے۔
جنوبی ایشیا کے ممالک کودرپیش مشترکہ مسائل کے حوالے سے کئی سماجی تنظیمیں اور اتحاد مصروفِ عمل ہیں۔لیکن جنوبی ایشیائی ممالک میں سرگرم تنظیموں کا ایک اتحاد ''جنوبی ایشیا اتحاد برائے خاتمہِ غربت'' (SAAPE) خطے کودرپیش مسائل اور ان کے حل کے لیے تجاویز مرتب کرنے میں2001ء سے مصروف عمل ہے۔ پاکستان سے محنت کشوں کے مسائل پر کام کرنے والی معروف تنظیم پائلر(پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ) اس اتحاد کا حصہ ہے۔یہ اتحاد 2003ء سے خطے کو درپیش مختلف مسائل پر تحقیق کرکے جامع رپورٹ تیار کرکے شایع کرتا ہے۔اس سال شایع ہونے والی رپورٹ اس سلسلے کی چوتھی رپورٹ ہے،جس میں جنوبی ایشیائی ممالک میں غربت کے مختلف اسباب پر تفصیل کے ساتھ بحث کی گئی ہے۔اس رپورٹ میں جن موضوعات کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے، ان میں:معاشی نمو میں کمی کے مسائل اور انسانی ترقی کا اشاریہ(HDI)،تبدیلی کے لیے عوامی مزاحمت، غریب اور زدپذیر افراد پر نیو لبرل ازم کے اثرات،معاشی عالمگیریت اور صنفی انصاف کے مسائل، بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی اور جمہوریت کو لاحق خطرات خاص طورپر قابل ذکر ہیں۔
رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیاء کی کل آبادی 1,593 ملین نفوس پر مشتمل ہے۔ جس کا 75فیصد بھارت کی آبادی ہے،جب کہ پاکستان(11.1فیصد)، بنگلہ دیش (9فیصد)، سری لنکا (1.43فیصد)،نیپال (1.7فیصد)، افغانستان (1.7فیصد)، بھوٹان (0.05فیصد) اور مالدیپ (0.02فیصد)۔ان ممالک کا GDP کچھ اس طرح ہے۔ مالدیپ($6405)، سری لنکا ($2835)، بھوٹان ($2346)،بھارت ($1489)،پاکستان ($1189)، بنگلہ دیش ($743)، نیپال ($619) اور افغانستان ($543)۔ ان آٹھ میں سے چار ممالک اقوام متحدہ کے طے کردہ اِشاریہ(Index)کے مطابق انتہائی کم ترقی یافتہ کے زمرے میں آتے ہیں۔اسی طرح ان ممالک کی معاشی کارکردگی بھی خاصی حد تک متغیر ہے۔ایک طرف بھارت ہے، جو تیزی کے ساتھ بڑی عالمی معیشت بننے جارہاہے۔ اس کے برعکس افغانستان،نیپال اور بنگلہ دیش انتہائی پسماندہ ممالک ہیں۔ جب کہ پاکستان انسانی اورقدرتی وسائل رکھنے کے باوجود اپنی غلط پالیسیوں،توانائی کے بحران اور مذہبی شدت پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے باعث معاشی وسماجی پسماندگی کی طرف بڑھ رہا ہے۔اب جہاں تک انسانی ترقی کے اِشاریہ(HDI)کا تعلق ہے،تو اس میدان میں ایک بار پھر پورے جنوبی ایشیا کی کارکردگی خاصی مایوس کن ہے۔2013ء کی ہیومن ڈیولپمنٹ رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیائی ممالک میں انسانی ترقی کا اِشاریہ (HDI) دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلہ میں خاصی حد تک کم ہے۔
اس رپورٹ میں جمہوریت کو لاحق خطرات، بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور صنفی امتیازات جیسے موضوعات پر تحقیقی جائزے پیش کیے گئے ہیں، جن کی وجہ سے خطے کی ترقی متاثر ہو رہی ہے اور غربت و افلاس میں اضافہ ہو رہا ہے۔لیکن سب سے اہم مسئلہ حکمرانی یا گورننس کا ہے۔خطے کے تمام ممالک میں گورننس کا معیار کسی بھی طورعالمی سطح کا نہیں ہے۔بلکہ چند ممالک میں انتہائی ابتر ہے۔اگر ان آٹھ ممالک کا گورننس کے حوالے سے باہمی تقابل کیا جائے، تو سری لنکا پہلے اور افغانستان آخری درجہ پر فائز نظر آئے گا۔ پاکستان میں جہاںگورننس کے مسائل شروع ہی سے پیچیدہ رہے ہیں اور جمہوریت ہمیشہ ایک سراب محسوس ہوئی ہے،گزشتہ چندبرسوں سے اس میں بہتری کی توقع پیدا ہوئی تھی۔ خاص طورپر وقت مقررہ پر دوسرے عام انتخابات کا انعقاد اور پہلی منتخب حکومت سے دوسری منتخب حکومت کو اقتدار کی منتقلی سے جمہوریت کے مستحکم ہونے کے آثار نمودار ہوئے تھے۔لیکن شدت پسندی کے بارے میں وفاقی حکومت کا غیر واضح اور مہبم طرز عمل،جب کہ گورننس کے حوالے سے سندھ کی صوبائی حکومت کی انتہائی ناقص کارکردگی کے سبب جمہوریت کی جڑیں ایک بار پھر کمزور ہوتی محسوس ہورہی ہیں۔ خاص طور پر جنوبی سندھ کے ریگستانی ضلع تھرپارکر میںقحط سالی کے نتیجے میں ڈیڑھ سو کے قریب بچوں کی اموات اور کئی ہزار کی نازک حالت نے سندھ میںبدترین گورننس اور صوبائی حکومت کی نااہلی کو واضح کردیا ہے۔
آج جنوبی ایشیا کے خطے کو جن مسائل کا سامنا ہے۔ان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی،اسلحے کی دوڑ، ملکوں کے درمیان موجود تنازعات کے حل میں حکومتوں کا غیر معقول رویہ اور دنیا کے بدلتے رجحانات کاعدم ادراک شامل ہیں۔اگر خطے کے دو بڑے اور اہم ممالک صورتحال کا ادارک کرتے ہوئے اپنے تنازعات کو حل کرلیں، تونہ صرف انھیں تیزی کے ساتھ اپنی معیشتیں مستحکم کرنے کا موقع ملے گا، بلکہ اس کا فائدہ خطے کے دوسرے ممالک کو بھی پہنچے گا جن کی سماجی اور معاشی ترقی ان دونوں ممالک اختلافات کی وجہ سے مسلسل متاثر ہورہی ہے۔ دوسری طرف افغان مسئلہ پورے خطے کی سلامتی کے لیے ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے۔جس کے حل کے لیے خطے کے ممالک کو نیک نیتی کے ساتھ ایک دوسرے پر اعتماد کرنا ہوگا۔ ان اقدامات کے بغیر خطے کی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔