بیانیہ کی ناکامی
تحریک انصاف مذہبی کارڈ استعمال کرکے اور غیر منطقی نعرے لگا کر پاکستان کو عالمی منظرنامہ پر تنہا کررہی ہے
کراچی:
قاضی خضر حبیب اور ڈاکٹر عرفان عزیز جمہوری نظام کے استحکام کو اس ملک کے مستقبل کے لیے لازمی سمجھتے ہیں۔ سماجی اور جمہوری ارتقاء پر یقین رکھنے والے یہ صاحبانِ علم پاکستان کی مزاحمتی تحریک میں اہم کردار ادا کرنے والی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے انتخابات کے لیے لاہور گئے۔
ان صاحبان نے جن کے ساتھ راقم الحروف بھی تھا لاہور میں 6 دن قیام کے دوران مختلف دانش وروں، ادیبوں اور سیاسی کارکنوں سے ملاقاتیں کیں اور عام آدمی سے انٹرویو لیے۔ معروف تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی،انسانی حقوق کے جید کارکن اور آزادئ صحافت کے لیے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے حسین نقی اور علی احمد خان شامل تھے، یہ تمام صاحبان ملک کی موجودہ صورتحال پر تشویش کا شکار تھے۔ ان سب کی رائے تھی کہ عمران خان کا بیانیہ جمہوری نظام کے لیے خطرناک ہے اور تحریک انصاف Popularism کے نظریہ پر عمل پیرا ہے۔
تحریک انصاف مذہبی کارڈ استعمال کرکے اور غیر منطقی نعرے لگا کر پاکستان کو عالمی منظرنامہ پر تنہا کررہی ہے۔ حسین نقی کا خیال تھا کہ عمران دوبارہ دو تہائی اکثریت سے برسراقتدار آگئے تو آئین کو مسخ کر کے صدارتی نظام نافذ کرنے کی کوشش کریں گے۔ ہم لوگوں نے عام آدمی سے بھی اس بارے میں رائے جاننے کی کوشش کی۔ عام افراد میں اوبر اور کریم ٹیکسی سروسز کے ڈرائیور، ہوٹل میں کام کرنے والے ملازمین اور ایئرلائنز کے ملازمین شامل تھے۔ ان میں سے 90 فیصد افراد نے عمران خان کے بیانیہ کو درست قرار دیا۔ ان افراد کا کہنا تھا کہ عمران خان کے علاوہ کوئی اور سیاسی رہنما ایماندار نہیں ہے۔ باقی رہنما آزما لیے گئے ہیں۔ عمران خان کو مزید 5 سال حکومت کرنے کا حق ملنا چاہیے۔
میاں نواز شریف 80 کی دہائی میں سیاست میں آئے۔ وہ پہلے پنجاب کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل جیلانی کی کابینہ میں وزیرِ خزانہ کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ پھر 90 کی دہائی میں دو دفعہ وزیر اعظم بنے۔ انھوں نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالتے ہی خودمختار اور بااختیار وزیر اعظم کی حیثیت سے فرائض انجام دینے کی کوشش کی۔ انھوں نے بابائے بیوروکریسی صدر غلام اسحاق خان کے اختیارات کو چیلنج کیا۔ غلام اسحاق خان 70 کی دہائی سے اس ملک کی مؤثر ترین شخصیت کے طور پر ابھر کر سامنے آئے تھے۔ وہ سول بیوروکریسی اور عسکری اسٹیبلشمنٹ دونوں کی نمائندگی کرتے تھے۔
میاں نواز شریف نے غلام اسحاق خان سے اختیارات پر خوب جنگ کی۔ اگرچہ کہ اس جنگ کے اختتام پر وہ اقتدار سے محروم ہوئے مگر غلام اسحاق خان کو بھی تاریخ کے کوڑے دان میں دھکیل دیا گیا۔ میاں نواز شریف دوسری دفعہ پھر وزیر اعظم بنے۔ اس دفعہ انھوں نے زیادہ آزادی سے اختیارات استعمال کیا۔ بھارت کے وزیر اعظم واجپائی کو مینارِ پاکستان لے آئے اور دہلی سے لاہور دوستی بس کا معاہدہ کیا۔ فوج کے سابق سربراہ جنرل پرویز مشرف نے ان کی اجازت کے بغیر کارگل ایڈونچر کیا۔
نواز شریف نے امریکا کے صدر کلنٹن کو آمادہ کیا کہ وہ بھارت کے وزیر اعظم واجپائی کو سیز فائر کے لیے تیار کریں مگر اسٹیبلشمنٹ کو وزیراعظم کی یہ کامیابی منظور نہ تھی ۔ جنرل پرویز مشرف نے اکتوبر 1999 میں منتخب وزیراعظم کو برطرف کرکے اقتدار سنبھالا۔ نواز شریف کو ایک قلعہ میں ایک مختصر کھولی میں مہینوں گزارنے پڑے، انھیں 9 ماہ تک یہ معلوم نہ ہوسکا کہ ان کی برابر کی کھولی میں ان کا بڑا بیٹا بھی مقید ہے۔ میاں نواز شریف اور ان کے اہل خانہ نے سعودی عرب جلاوطنی کے دن گزارے مگر پھر لندن میں اپنی سب سے بڑی مخالف محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ مل کر میثاق جمہوریت پر اتفاق کیا۔
اگرچہ دونوں جماعتوں نے میثاق جمہوریت کی خلاف ورزی کی مگر مجموعی طور پر اس میثاق کی بنیاد پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی اور اٹھارہویں ترمیم منظور ہوئی۔ اس ترمیم کے تحت صوبوں کو وہ اختیارات مل گئے جن کا وعدہ 20مارچ 1940 کی قراردادِ لاہور میں کیا گیا تھا جو بعد میں قراردادِ پاکستان کہلائی اور پاکستان کے قیام کی اساس بنی۔ پھر میاں نواز شریف 2013 میں تیسری دفعہ برسرِ اقتدار آئے۔
انھوں نے پھر بھارت سے دوستی کو اولیت دی۔ وزیر اعظم مودی ان کی نواسی کی منگنی میں شرکت کے لیے ان کی لاہور میں رہائش گاہ جاتی امرا آئے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی پارلیمانی نظام میں براہِ راست مداخلت تو کم ہوئی مگر اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار احمد چوہدری نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو توہینِ عدالت کی سزا دے کر انھیں عہدہ چھوڑنے پر مجبور کردیا ۔ پھر نواز شریف کو اپنے بیٹے سے تنخواہ لینے کی بنیاد بنا کر سپریم کورٹ نے انھیں نااہل قرار دے دیا۔ نواز شریف نے کبھی یہ تنخواہ وصول نہیں کی تھی۔
احتساب عدالت نے میاں نواز شریف اور ان کی صابزادی مریم نواز کو سزا دے دی۔ میاں نواز شریف جیل میں تھے کہ ان کی اہلیہ کا لندن میں انتقال ہوا۔ میاں نواز شریف کو جیل سے اپنی اہلیہ سے آخری بات کرنے کے لیے موبائل فون استعمال کرنے کی اجازت نہ مل سکی۔ میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز نے ''مجھے کیوں نکالا'' اور ''ووٹ کو عزت دو'' کے نعروں کے ذریعہ پنجاب میں رائے عامہ کو تبدیل کیا۔ مسلم لیگ (ن) ایک کے سوا تمام ضمنی انتخابات میں کامیاب ہوئی۔ میاں نواز شریف جیل میں شدید بیمار ہوئے اور کہا جانے لگا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے تو انھیں علاج کے لیے لندن جانے کی سہولت سابقہ حکومت نے فراہم کی۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کے بعض فیصلوں سے اسٹیبلشمنٹ ناراض ہوئی۔
پیپلز پارٹی کے مرد آہن آصف زرداری متحرک۔ انھوں نے میاں شہباز شریف کو تحریک عدم اعتماد پر تیار کیا۔ مسلم لیگ کے بعض افراد کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف پہلے اس تبدیلی کے لیے تیار نہیں تھے مگر مسلم لیگ (ن) کا بیانیہ تبدیل ہوا۔ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہوگئی۔ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی۔ شہباز شریف مخلوط حکومت کے سربراہ بنے۔ سابق حکومت کی پالیسیوں کی بناء پر ملک تنہائی کا شکار ہوا۔ عالمی مالیاتی ادارے قرضہ دینے کو تیار نہیں تھے۔ اگر سابقہ حکومت برقرار رہتی تو ملک کا دیوالیہ یقینی تھا۔ موجودہ حکومت ابھی تک انتہائی کمزور ثابت ہوئی ہے۔ تین ماہ گزرنے کے باوجود سندھ اور کے پی میں گورنر مقرر نہیں ہوئے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے درآمدی بل کم کرنے کے لیے بہت سی اشیاء کی درآمد پر پابندی عائد کی تھی مگر بااثر گروپوں کے دباؤ پر اس فیصلہ پر نظرثانی ہورہی ہے۔ پھر اعلیٰ عدالتوں کے بعض فیصلوں سے مزید بحران پیدا ہوا۔۔ سپریم کورٹ نے پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر پرویز الہیٰ کو وزیراعلیٰ پنجاب ڈکلیئر کردیا۔یوں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ کے فیصلے کے تحت اب پرویز الہیٰ وزیراعلیٰ پنجاب بن گئے ہیں۔پنجاب کے گورنر نے پرویزالہیٰ سے حلف لینے سے انکار کردیا اور انھوں اسلام آباد جاکر ایوان صدر میں صدر عارف علوی سے حلف لیا۔ وفاق میں برسر اقتدار اتحاد کا بیانیہ ہے کہ فوری طور پر انتخابات نہیں ہوسکتے۔ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس فیصلے کے پس منظر میں نومبر میں بعض افسروں کی ریٹائرمنٹ اور نئے افسران کی تقرریاں بتایا جاتا ہے۔