میں زندہ رہنا چاہتا ہوں
خدارا ہمارے مذہبی رہنما اور علماء اس انسانیت سو ز اقدام پر دین اسلام کی روشنی میں اپنی رائے کا اظہار کریں۔
''رات کی تاریکی میں کلاک کی آواز کس قدر اداس کر دینے والی ہے'' یہ ایک تو کو تھائی (کا می کازی ) پائلٹ ناکا وتا کی تو کو کی 20 ستمبر1942ء کو تحریر کردہ نظم ''سناٹا'' کی پہلی سطر ہے وہ بائیس بر س کی عمر میں اس دنیا سے گزر گیا تھا۔ بیس سے کم یا زیادہ عمر کے یہ طلبا فوجی اکثر کلاک کو پکڑ کر اس کی سوئی کو روک دیتے تھے کیونکہ اس کی ہر ٹک ٹک انھیں موت کے قریب لے جا رہی ہوتی تھی۔ آج جیسا کہ یہ ناقابل تصور ہے لیکن یہ نوجوان فوج میں داخلے سے بہت عرصے قبل ہی اپنی قریب آتی موت کے سایوں میں زندگیاں گزار رہے ہوتے تھے کیونکہ جاپانی ریاست اپنے عوام کے ذہنوں میں اس نظرئیے کو ٹھو نس رہی تھی کہ تمام جاپانیوں کے لیے اپنی جانیں قربان کرنا لازم تھا۔
دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر جاپانیوں کے بے کار اور بے فا ئد ہ فوجی کاروائیوں میں اپنی جانیں گنوانے والے توکوتھائی پائلٹوں اور دوسرے طالب علم فوجیوں نے اپنے پیچھے جو تحریریں چھوڑیں۔ ان کے خیالات اور انھیں درپیش دوہری مشکل کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس جنگ کے حالات و واقعات کو سمجھنا ہو گا جس میں ان نوجوانوں کو جھونکا جا رہا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے قریب جب امریکیوں کا جاپان پر قبضہ نا گزیر نظر آنے لگا تو بحریہ کے وائس ایڈمرل اونیشی تاکی جیرو نے تو کوتھائی آپریشن کا آغاز کیا۔ جس میں ہوائی جہاز، گلائیڈز اور آبدوز تارپیڈوز شامل تھے ان تمام انسان بردار ہتھیاروں میں کوئی ایسا نظام نصب نہیں کیا گیا تھا جس کی مدد سے انھیں واپس اڈے پر لایا جا سکتا۔ جاپان اس وقت امریکا کے طیارہ بردار بحر ی بیڑوں کے نرغے میں تھا جن پر جدید ترین اور انتہائی پیچید ہ ریڈار نظام نصب تھے انھیں کسی بھی دوسرے روایتی طریقے سے تباہ کرنا تقریباً نا ممکن تھا۔ اکتوبر 1944ء میں جب اس مشن کا آغاز کیا گیا تو ملٹری اکیڈمیوں سے تربیت یافتہ کوئی ایک آفیسر بھی پائلٹ کے طور پر اس قسم کے فضائی حملے کے لیے تیار نہ تھا۔ سب جانتے تھے کہ یہ موت پر منتج ہونے والا ایک بے معنیٰ مشن ہے اندازہ چار ہزار تو کو تھائی پائلٹوں میں سے تقریباً تین ہزار کم سن پائلٹ تھے۔ جنہیں لازمی فوجی تربیت کے تحت زبردستی بھرتی کیا گیا اور ان کے نام اس مخصو ص تربیتی پروگرام میں درج کر لیے گئے یہ تمام کم سن نوجوان تھے۔ ان میں سے تقریباً ایک ہزار یونیورسٹی کے طلبا تھے جن کو حکومت نے فوجی بھرتی کے لیے وقت سے پہلے گریجویشن کروا دی تھی۔ ان سب پائلٹوں کے پاس واپسی کا ایندھن نہیں ہوتا تھا۔
ان طلبا فوجیوں نے اپنی موت کے روز تک اپنے مطالعے اور خود کلامی کو جا ری رکھا۔ ان کی ڈائریو ں میں تنہائی کے تاثرات غالب ہیں۔ ان نوجوانوں کو اپنی زندگی کے ابتداء میں ہی موت کی سزا سنائی گئی تھی اور انھوں نے اپنی زندگی کے ایام موت کے سائے میں ہی گزار ے موت کے اس انتظار نے انھیں تنہائی سے خو ف زدہ کیا، لیکن پھر بھی وہ اپنے احساسات کو کھل کر بیان کرنے سے قاصر تھے۔ کیونکہ ان سے موت کو خوشی خوشی گلے لگانے کی توقع کی جا رہی تھی۔ اپنے اقدامات کی تاویل ڈھونڈنے کی ان شدید کو ششوں کے باوجود ان نوجوانوں نے دردناک تفصیل کے ساتھ اپنی اذیت کو تحریر کیا۔ ہیاشی تا ڈاؤ نے نومبر1940ء میں بار بار لکھا میں مرنا نہیں چاہتا میں زندہ رہنا چاہتا ہوں، ان پائلٹوں کے احساسات کا سب سے نمایندہ اظہار میاز او اکینجی کے The Crow and the Great Dipper میں ملتا ہے ۔ ''اس روز کی جلد از جلد آمد کی دعا جس میں ہم ایسی دنیا کو خو ش آمدید کہیں گے جس میں ہمیں دشمنوں کو جان سے نہیں مارنا پڑیگا جن سے ہم نفرت نہیں کر پائیں گے۔'' ان پائلٹوں کی شایع ہونے والی بے شمار تصاویر اور فلموں میں اڑان سے پہلے مسکراتے ہوئے اور الوادعی انداز میں ہاتھ ہلاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ایسی ہی ایک پرواز سے پہلے آخری رات کا یہ بیان ایک مختلف کہانی سناتا ہے یہ ایک خط سے لیا گیا ہے جو کہ کا سو گا تاکیو نے 21 جون 1995ء کو لکھا جو کہ اس وقت کو5 8 برس کا تھا۔
یہ خط امیزا واشوزو کے نام لکھا گیا کاسو گا تاکیوکوجبری بھرتی کرنے کے بعد تو چورا ہوائی اڈے پر توکوتھائی پا ئلٹوں کے کھا نے پینے،کپڑے دھونے، کمرے صاف کر نے کی ذمے داری سونپی گئی تھی وہ ان کی آخری پروازوں سے پہلے کی رات کی داستان یوں بیان کرتا ہے۔ '' ہال میں جہاں الوداعی پارٹیاں دی جاتی تھیں نوجوان طالب علم آفیسرز پرواز سے ایک رات پہلے ٹھنڈی سیکے (چاولوںسے بنی جاپانی شراب ) پیتے، کچھ اپنی تلواروں سے لٹکتے ہوئے بلب توڑتے کچھ کرسیاں اٹھا کر کھڑکیوں کے شیشے توڑتے اور سفید میز پوش پھاڑ دیتے۔ کچھ نوجوان غصے میں چیخ چلا رہے ہوتے یہ ان کی زندگی کی آخری شب ہوتی تھی وہ اپنے والدین ان کے چہروں اپنی محبوباؤں کے چہروں اور مسکراہٹوں اور ان میں ڈوبی الوداعی نگاہوں کو یاد کرتے یہ سب مناظر ان کے ذہنوں میں ایک متحر ک فلم کی مانند چل رہے ہوتے۔ اگرچہ بظاہر وہ آنے والی صبح کو اپنی قیمتی جوانی امپیریل جاپان اور شہنشاہ کی خاطر قربان کر نے کو تیار ہوتے لیکن حقیقت میں وہ اس قدر غم زدہ اور دل برداشتہ ہوتے کہ الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے ۔'' ماضی کے واقعات اکثر اوقا ت تاریخ کے کوڑا دان میں دفن ہو جاتے ہیں جو دوبارہ تب ہی زندہ ہوتے ہیں۔ جسے بینجمن تاریخ کا زاویہ کہتے ہیں عموماً کیوں کہ ان معاملات میں کسی ہم عصر مفاد کے با عث وہ حال کے کسی قابل موازنہ مظہر میں شریک ہو جاتے ہیں جو انسانیت کے خلاف سنگین جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں، ہم انھیں بے قصور نہیں ٹہرا سکتے۔ چاہیے وہ ہٹلر ہو یا ایس ایس کے افسران اور جرمنی فوج یا اونیشی تاکی جیرو جنہوں نے بے رحمی سے تو کو تھائی پائلٹوں کی زندگیاں موت کے حوالے کر دیں ۔
انسانیت کے خلاف سنگین جرائم قتل کے زمرے میں آتے ہیں۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ قرون وسطی کے اعلیٰ جنگجو جنہیں شوگن کی جانب سے خودکشی کا حکم دیا گیا تھا انھوں نے واقعی خود کشی کر لی تھی یا انھیں شو گن کی طرف سے قتل کر وا دیا گیا تھا۔ جنگ عظیم اول میں وہ فرانسیسی اور جرمن فوجی جنہیں گولہ باری میں دشمن کی سر زمین پر قبضے کا حکم دیا تھا۔ کیا انھوں نے خود کشی کر لی تھی کیونکہ ہر صورت میں ان کی موت یقینی تھی یا کیا ان کے کمانڈنگ افیسروں نے انھیں قتل کر دیا تھا۔ کیا ہمارے ملک کے خود کش بمباروں میں شامل نوجوان بچے واقعی خود کو رضا کارانہ طور پر مو ت کے لیے پیش کرتے ہیں یا کیا انھیں وہ لوگ قتل کرتے ہیں جو ان کا برین واش کرتے ہیں۔ سماجی رویوں کے تانے بانے میں تعصب اور نفرت سب سے زیادہ خطر ناک ہے دنیا کا کوئی خطہ یا معاشر ہ اس سے پاک نہیں ۔
1954ء میں معروف نفسیات دان البرٹ نے نفرت اور تعصب کے عملی اظہار کے پانچ درجے دریافت کیے پہلاد رجہ زبانی تحقیر اور سخت کلامی دوسرا درجہ کسی قسم کا نقصان پہنچائے بغیر میل جول سے احتزاز اور چھوت چھات کا رویہ تیسرا درجہ شہر ی حقوق روزگار، رہائش اور اسی نوعیت کی سہو لیات و آزادیوں سے محروم کر دینا۔ چوتھا درجہ افراد پر تشدد و جائیداد کی توڑ پھوڑ پانچواں درجہ پورے سماجی گروہ کے خلاف بلا امتیاز تشدد، ماہرین نفسیات اور سماجی سائنس دان کہتے ہیں کہ تعصب اور نفرت نوجوان طبقے میں بہت تیزی اور آسانی سے سرایت کرتا ہے اور اس جذبے کے حامل افراد خو د کو سچائی، علم، سمجھ داری اور دیانت داری کاآخری معیارسمجھتے ہیں اور زبردستی دوسروں سے اپنا عقیدہ تسلیم کرانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہ لوگ تعمیر کی بجائے تخریب میں یقین رکھتے ہیں ماضی میں جاپانی حکومت تو کو تھائی پائلٹوں کی وطن کی محبت کی آڑ میں قتل کی مرتکب ہوئی تھی جب کہ آج ہمارے ملک کے کچھ افراد معصوم اور کمسن بچوں کو خود کش حملوں میں استعمال کر کے ان کے قتل مرتکب ہو رہے ہیں۔ خدارا ہمارے مذہبی رہنما اور علماء اس انسانیت سو ز اقدام پر دین اسلام کی روشنی میں اپنی رائے کا اظہار کریں۔